کرسمس :عیسائی تہوار، دنیا کے لیے ایک جشن

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 26-12-2024
کرسمس :عیسائی تہوار، دنیا کے لیے   ایک جشن
کرسمس :عیسائی تہوار، دنیا کے لیے ایک جشن

 

 

کرسمس اب دنیا میں صرف عیسائیوں کا تہوار نہیں رہ گیا ہے بلکہ دنیا میں ہر قوم اس کا جشن مناتی ہے کیونکہ دنیا بھر میں امن کا تقاضاہے اور کرسمس امن کا تہوار ہے۔عیسائی سمجھتے ہیں کہ کرسمس اور امن لازم و ملزوم ہیں۔اس کو انٹر نیشنل فیسٹول اس لیے بھی کہتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر ممالک کی مثال لے لیں، وہاں ایک نہیں کئی عقائد، رنگ و نسل، زبان اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ریاست قائم ہوگی۔ مختلف مذاہب کے پیروکار نہ صرف مختلف عقائد رکھتے ہیں بلکہ ان کے تہوار بھی مختلف دنوں اور مواقع پر منائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کرسمس بھی عیسائی برادری کا ایک ایسا تہوار ہے، جسے اہل کلیسا سال کی ’دوسری عید‘کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن عام طور پر دنیا کے بیشتر ممالک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔آپ کو بتا دیں کہ کرسمس پوری دنیا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مناتی ہے ۔ کرسمس/عیدِ ولادتِ المسیح کو طویل عرصے سے یسوع مسیح کی پیدایش کی تقریب کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ اس تقریب کو پہلی بار چوتھی صدی کے اوائل میں منایا جانا شروع کیا گیا تھا

کرسمس کے جشن کی بات کریں تو دنیا کے تمام ملکوں میں یہ تہوار مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ تاہم عبادات کرنا، کیک کاٹنا، کرسمس ٹری سجانا، چرنی کی تیاری، کرسمس کینڈل روشن کرنا، نت نئے اور میٹھے پکوان بنانا، دعوتوں کا انعقاد کرنا، سانتا کلاز اورتحفے تحائف کی تقسیم کرسمس کے حوالے سے خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ دسمبر کے وسط میں ہی عیسائی برادری رشتے داروں اور دوست احباب میں کیک بھیجنے کا سلسلہ شروع کردیتی ہے۔ یہ روایت دراصل کرسمس کے جشن کا آغاز کہلاتی ہے، جو کہ نئے سال کی آمد تک جاری رہتی ہے۔24دسمبر کی رات عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد چرچ کا رُخ کرتے ہیں،جہاں رات10بجے عبادت شروع ہوجاتی ہے، جو کہ 12:30تک جاری رہتی ہے۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کرسمس پر گرجاگھروں میں خصوصی عبادت ہوتی ہے، گھروں سڑکوں اور تمام عمارات کو کئی روز پہلے خوبصورت رنگ برنگے قمقموں اور دیگر اشیاء سے سجایا جاتا ہے۔ جگہ جگہ کرسمس ٹری ، جو کہ سدا بہار درخت کے نام سے جانا جاتا ہے ،لگا کر سجایا جاتا ہے۔عیسائی برادری کرسمس کے دن کا آغاز گرجا گھروں میں عبادت سے کرتی ہے۔ عبادتوں کا سلسلہ گرجا گھروں میں صبح8بجے سے شروع ہوکر 11بجے تک جاری رہتا ہے۔ گرجا گھروں میں سانتا کلاز کی آمد ہوتی ہے جو بچوں میں ٹافیاں، کھلونے اور تحائف تقسیم کرتے ہیں۔ عبادت کے بعد گھروں میں نت نئے اور لذیذ پکوانوں کی تیاری (مثلاً پلمپ کیک، کوکیز، مٹھائیاں اور دیگر پکوان) اور دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مہمانوں کی تواضع سویٹ ڈشز ، ڈرائی فروٹس اور لذیذ کھانوں سے کی جاتی ہے۔

کرسمس کی ابتدا 

  صدیوں تک 25دسمبر تاریخِ ولادتِ مسیح علیہ السلام نہیں سمجھی جاتی تھی،530عیسوی میں سیتھیا کا ایک راہب ڈایونیس اکسیگز نامی جو منجم(ستاروں کا علم رکھنے والا)بھی تھا،تاریخِ ولادتِ مسیح علیہ السلام کی تحقیق اور تعین کے لیے مقرر ہوا، سو اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت 25دسمبر مقرر کی، کیوں کہ مسیح علیہ السلام سے پانچ صدی قبل 25دسمبر مقدس تاریخ تھی، بہت سے سورج دیوتا اسی تاریخ پر یا اس سے ایک دو دن بعد پیدا ہونا تسلیم کیے جا چکے تھے

کرسمس ٹری کی روایت

  ان تیاریوں میں کرسمس ٹری کی سجاوٹ خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ سجے ہوئے درخت کرسمس کے دن کیلئے گھر کے اندر یا باہر کسی بھی جگہ لگا دیے جاتے ہیں۔ بچے اور بوڑھے سب ملکر جوش وجذبے کے ساتھ کرسمس ٹری کی سجاوٹ میں حصہ لیتے ہیں۔ کرسمس کے دوران کرسمس ٹری بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے ، جب کہ یہ تصور جرمنوں کا پیدا کردہ ہے ۔ یہ لوگ کرسمس کے دن حضرت مریم عليها السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت جبریل علیہ السلام کا کردار مختلف اداکاروں کے ذریعے ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے اور تمام واقعہ دہراتے ہیں ،جو مریم علیہا السلام کے ساتھ مسیح علیہ السلام کی ولادت کے ضمن میں پیش آیا، اس واقعے کے دوران درخت کو مریم علیہا السلام کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ کہ وہ اپنی ساری اداسی اور ساری تنہائی اس ایک درخت کے پاس بیٹھ کر گزار دیتی ہیں۔ چوں کہ یہ درخت بھی اسٹیج پر سجایا جاتا تھا اور ڈرامے کے اختتام پر لوگ اس درخت کی ٹہنیاں تبرک کے طور پر اکھیڑ کر ساتھ لے جاتے اور اپنے گھروں میں ایسی جگہ لگا دیتے تھے ، جہاں ان کی نظریں اس پر پڑتی رہیں۔ یہ رسم آہستہ آہستہ کرسمس ٹری کی شکل اختیار کر گئی اور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں کرسمس ٹری بنانے اور سجانے شروع کر دیے ۔ کرسمس ٹری کی رسم  انیسویں صدی تک حرمتی تک محدود رہی، 1847 عیسوی کو برطانوی ملکہ وکٹوریہ کا خاوند جرمنی گیا۔ اسے کرسمس کا تہوار جرمنی میں منانا پڑا تو اس نے پہلی مرتبہ لوگوں کو کرسمس ٹری بناتے اور سجاتے دیکھا، اسے یہ حرکت بہت  دلچسپ معلوم ہوئی لہٰذا وہ واپسی پر ایک ٹری ساتھ لے آیا۔ 1848 عیسوی میں پہلی مرتبہ لندن میں کرسمس ٹری بنوایا گیا، جو ایک دیو ہیکل کرسمس ٹری تھا جو شاہی محل کے باہر سجایا گیا تھا۔ 25 دسمبر 1848ء کو لاکھوں لوگ یہ درخت دیکھنے لندن آئے اور اسے دیکھ کر گھنٹوں تالیاں بجاتے رہے ، اس دن سے لے کر آج تک تقریباً تمام ممالک میں کرسمس ٹری گرجاگھر میں سجایا جاتا ہے ۔ 

 سانتاکلاز کی آمد

کرسمس کے موقع پر ایک خاص چیز اور قابل ذکر ہے ، وہ بے شرح کپڑے پہنے ، چہرے پر سفید داڑھی سجائے اور کندھے پر لال تھیلا اُٹھائے کرسمس قادر یا سینٹا پر اس کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا کلاز کس جو بچوں کے لیے تجھے لے کر آتا ہے۔کرسمس کا ایک دلچسپ کردار سانتاکلاز کا ہے۔ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ کردار جدید دور میں کرسمس کا حصہ بنایا گیا۔ اس کی اصل کے بارے میں یونیورسٹی آف مینیٹوبا کینیڈا کے ایک پروفیسر Gerry Bowlerکی کتاب Santa Claus: A Biographyایک دلچسپ معلوماتی کتاب ہے۔ اس کتاب اور دیگر ذرائع کے مطابق سانتا کلاز کا اصل نام سینٹ نکولس تھا جو روم کے بادشاہ قسطنطین کے مسیحی ہونے سے کچھ عرصہ قبل موجود تھا اور رومی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مسیحی عقائد کی کھلم کھلا تبلیغ کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سینٹ نکولس غریب مسیحی لوگوں اور بچوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ ابتداء میں چرچ نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی لیکن عیسائیت کے امریکہ میں اثر و نفوذ کے بعد جہاں کرسمس کو ایک مذہبی تہوار کی بجائے قومی و معاشرتی میلے کے طور پر اپنایا گیا تو اس میں رنگ بھرنے کے لئے جہاں دیگر ہلاگُلا شامل کیا گیا وہاں سانتاکلاز کو بھی اس کا ایک لازمی جزو بنادیا گیا۔ ابتداء میں سینٹ نکولس کا دن چھ دسمبر کو منایا جاتا تھا لیکن پھر اسے کرسمس کے قریب کردیا گیا تاکہ اِسے مزید پیسے اینٹھنے کا ذریعہ بنادیا جائے۔بچوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے کے لئے مغربی دنیا کی سب سے بڑی اور مؤثر پراپیگنڈہ مشینری ہالی وڈ اور ٹیلیویژن پر سانتاکلاز اور کرسمس کے بارے میں فلمیں اور ٹی وی شوز بنائے جاتے ہیں جو کرسمس کے قریب نشر کئے جاتے ہیں۔