ڈاکٹر اعجاز علی - مشکل حالات کے بعد بھی بنے ڈاکٹر، پیسے سے نہیں خدمت سے کمائی عزت،بنے ضرورت مندوں کا مسیحا

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 10-05-2024
 ڈاکٹر اعجاز علی - مشکل حالات کے بعد بھی بنے  ڈاکٹر، پیسے سے نہیں خدمت سے کمائی عزت،بنے ضرورت مندوں کا مسیحا
ڈاکٹر اعجاز علی - مشکل حالات کے بعد بھی بنے ڈاکٹر، پیسے سے نہیں خدمت سے کمائی عزت،بنے ضرورت مندوں کا مسیحا

 

محفوظ عالم : پٹنہ 

شخصیتیں ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی ہے لیکن بڑا خواب دیکھنے والے اور مسلسل محنت کرنے والے لوگ اپنی شخصیت کو حقیقی رنگ دیکر منفرد بنا دیتے ہیں۔ اسی میں سے ایک ہیں پٹنہ کے ڈاکٹر ایم اعجاز علی۔ آج ریاست اور بیرونی ریاست میں ڈاکٹر اعجاز علی کا نام کافی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، وہ ایک ممتاز ڈاکٹر ہیں، رکن پارلیامنٹ رہ چکے ہیں اور غریبوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے مختلف تحریکیں چلا چکے ہیں ، آج بھی وہ سلسلہ جاری ہے لیکن اس مقام تک پہنچنے کا ان کا یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ کون ہیں ڈاکٹر اعجاز علی اور کیسا رہا ہے ان کا ڈاکٹر بننے کا سفر اس تعلق سے آواز دی وائس نے ڈاکٹر اعجاز علی سے تفصیلی بات چیت کی۔

مدرسہ اور یتیم خانہ کے اسکول سے تعلیم کی ابتدا09 اپریل 1958 کا دن تھا شیخ ممتاز علی کے گھر ڈاکٹر اعجاز علی پیدا ہوئے۔ اہل خانہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا، والد محترم اپنے خاندان کے پہلے شخص تھے جنہوں نے تعلیم حاصل کی تھی اور انگریزی حکومت میں بی ڈی او کے عہدہ پر فائض ہوئے تھے۔ والد صاحب کا متواتر تبادلہ ہوتا رہتا تھا، اعجاز علی جب چھوٹے تھے تو ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ سے شروع ہوئی۔ پھر مونگیر کے یتیم خانہ کے ایک اسکول جس کا نام انجمن اسلامیہ اسکول تھا وہاں سے اعجاز علی نے ساتویں تک کی تعلیم حاصل کی۔ آٹھویں جماعت میں ان کا داخلہ مونگیر ضلع اسکول میں ہو گیا۔ اسی درمیان ان کے والد کا پھر سے تبادلہ ہوا اور وہ ہزاری باغ پہنچ گئے۔ ہزاری باغ کے ضلع اسکول سے اعجاز علی نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ شروع سے ہی اپنے کلاس کے ٹاپر رہے اور میٹرک کے امتحان میں بھی انہوں نے ٹاپ کیا۔ اعجاز علی کا کہنا ہے کہ دس بھائی بہنوں میں چھٹے نمبر پر وہ پیدا ہوئے، ان کے والد نہایت ہی ایماندار اوفیسر تھے۔ گھر میں زیادہ افراد ہونے کے سبب معاشی حالت اچھی نہیں تھی لیکن بچوں کی تعلیم و تربیت پر انہوں نے خاص توجہ دی۔نجی اسکول میں پڑھنے کے پیسے نہیں تھے

مریضوں میں گھرے ہوئے ڈاکٹر اعجاز  علی


ڈاکٹر اعجاز علی کا کہنا ہے کہ انہیں یاد ہے کہ وہ یتیم خانہ کے ایک اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ گھر کے لوگوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ ان کا داخلہ کسی نجی اسکول میں کرایا جاتا۔ انہوں نے کہا کی میری پوری تعلیم سرکاری اسکول میں ہوئی۔ میں پڑھنے کے زمانہ میں کافی بہتر طالب علم تھا اور ہر کلاس میں میرا مقام اول رہا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں ہزاری باغ ضلع اسکول سے میٹرک مکمل کر لیا تو میرا داخلہ پٹنہ کے سائنس کالج میں کرایا گیا۔ اس وقت سائنس کالج میں پڑھنا کافی بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ شروع سے ہی مجھے میتھمیٹکس، فزکس اور کیمسٹری پسند تھا۔ اور صرف پسند ہی نہیں تھا بلکہ ان مضامین میں مجھے مہارت حاصل ہو چکی تھی لیکن والدین چاہتے تھے میں علم حیاتیات یعنی بائولوجی سے مستقبل کی تعلیم مکمل کریں اور ڈاکٹر کے طور پر اپنے کیریر کی شروعات کریں۔ پہلے تو مجھے اچھا نہیں لگا لیکن گھر کے لوگوں نے زبردستی میرا داخلہ سائنس کالج میں آئی اے سی بائولوجی سے کرا دیا گیا۔ ڈاکٹر اعجاز علی کے مطابق بائولوجی سے تعلیم حاصل کرنا میری زندگی کا وہ ٹرنگ پوائنٹ تھا جس پر مستقبل کی عمارت کھڑی ہونے والی تھی اور آج کی کامیابی کا دارو مدار اسی فیصلہ پر منحصر کرتا ہے۔
جب میرا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوا
ڈاکٹر ایم اعجاز علی کے مطابق آئی اے سی کا شروعاتی سال کافی مشکل بھرا تھا، اس لیے کی مجھے بائولوجی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اس مضامین سے مجھے رغبت کم تھی لیکن میں ایک اچھا طالب علم تھا۔ میں نے اس میں اپنا مستقبل دیکھا اور پھر شروع ہوا ڈاکٹر بننے کی مہم کا وہ مسلسل محنت۔ انہوں نے کہا کہ میں وقت ضائع نہیں کرتا تھا، آج بھی میرا وہی معمول ہے۔ میں نے کافی محنت کیا اور مسلسل اپنی پڑھائی میں لگا رہا۔ نتیجہ کے طور پر جس مضمون کو میں مشکل سمجھ رہا تھا وہ میرے لیے آسان ہو گیا اور میں پٹنہ سائنس کالج کے آئی اے سی میں بھی ٹاپ کر گیا۔ آئی اے سی کرنے کے بعد پٹنہ میڈیکل کالج کے لیے میرا انٹرنس ٹیسٹ ہوا اور میں پہلے مرحلہ میں ہی میڈیکل کے امتحان میں نہ صرف کامیاب رہا بلکہ بہار میں ٹاپ تین میں جگہ بنانے میں بھی کامیاب ہوا۔
ہر دن سینکڑوں مریضوں کو دیکھتے ہیں ڈاکٹر اجاز علی

اپنے خاندان کا پہلا ڈاکٹر بنا
اعجاز علی کا کہنا ہے کہ 1975 میں میرا داخلہ پٹنہ کے ممتاز ادارہ پٹنہ میڈیکل کالج میں ہوا۔ یہ ایک ایسی کامیابی تھی جس پر میرے خاندان کے لوگوں کو ناز تھا۔ اس لیے کی میں اپنے خاندان کا پہلا شخص تھا جو میڈیکل کالج میں اپنی تعلیم شروع کرنے جا رہا تھا۔ والدین کا خواب پورا ہوا اور میں ڈاکٹر بننے کے قریب پہنچ گیا۔ ڈاکٹر اعجاز علی کا کہنا ہے کہ جب میرا داخلہ پی ایم سی ایچ میں ہو گیا، وہ وقت کافی مشکل والا تھا، یہاں تعلیم کافی مہنگی تھی، پی ایم سی ایچ کے کینٹین میں کھانا مہنگا تھا۔ میں پی ایم سی ایچ کے بگل میں ایک دوسرے ہاسٹل، اقبال ہاسٹل میں کھانے کا انتظام کیا اور قریب دو سال گنجان محلہ میں رہ کر میں نے پڑھائی کی اور وقت گزارا۔ کتابوں کو خریدنا بھی میرے لیے کافی مشکل ہوتا تھا۔ سیکنڈ ائر میں پہنچا تو کسی طرح انتظام کر کے پی ایم سی ایچ کے ہاسٹل میں رہنے لگا لیکن پیسہ کی کمی کے سبب کھانے کا انتظام باہر ہی رکھا۔ انہوں نے کہا کی کتابیں کافی مہنگی ہوتی تھی اس کو خریدنے کا بھی میرے پاس پیسہ نہیں ہوتا تھا اس کا کسی طرح سے میں انتظام کرتا تھا۔ میڈیکل کی تعلیم کے دوران بھی میرا پڑھائی کا جنون کسی بھی مشکل کو راستہ کا رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ میں میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس میں ٹاپ تھری میں رہا اور پھر میرا داخلہ ایم ایس کے لیے ہو گیا۔ 
شادی اور ایم ایس کی تعلیم
ڈاکٹر اعجاز علی کے مطابق ایم ایس کی تعلیم کے درمیان مجھے تھوڑی راحت ملی۔ 1980 میں میری شادی اس وقت کے ممتاز سیاسی قائد غلام سرور صاحب کی صاحب زادی سے ہوئی۔ ذمہ داریاں بڑھ گئی لیکن غلام سرور صاحب کے وجہ سے میں شہر کے معروف ڈاکٹر، ڈاکٹر کمال اشرف کے یہاں اسسٹنٹ بن گیا۔ وہاں سے چار سو روپیہ ملتے تھے اور پی ایم سی ایچ سے بھی قریب چار سو روپیہ ملتا تھا اور سب سے بڑی بات کہ مجھے غلام سرور صاحب کے ساتھ رہنے اور ڈاکٹر کمال اشرف صاحب کے یہاں سیکھنے کا موقع فراہم ہو گیا۔ اب گھر کا کھانا ملتا تھا اور میں ایک مشہور ڈاکٹر کی نگرانی میں مختلف امراض کے سرجری کا تربیت لے رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ موقع بھی کافی جدوجہد کا تھا لیکن ایک بھی لمحہ گنوائے بغیر میں مسلسل کام کرتا رہا۔ پٹنہ میڈیکل کالج سے میرا ایم ایس بھی مکمل ہو گیا اور وہاں بھی میرا مقام اول رہا۔
پریکٹس کی شروعات
ڈاکٹر اعجاز علی نے کہا کہ اب میں ایک ڈاکٹر تھا اور پریکٹس شروع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ غلام سرور صاحب کے مشورہ پر ان کے ہی گھر میں جو کی پٹنہ کے بھیکنا پہاڑی پر واقع ہے 1984 میں خود کا پریکٹس شروع کیا۔ اسی سال وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا اور پورے ملک میں ایک عجب سا سناٹا تھا۔ آہستہ آہستہ میرا پریکٹس شروع ہو رہا تھا۔ 1990 میں غلام سرور صاحب بہار حکومت کے وزیر بن گئے اور وہ گھر جس میں وہ رہتے تھے، وہ پوری عمارت مجھے پریکٹس کے لیے مل گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ڈاکٹر کا پیشہ ایک خدمت کے طور پر شروع کیا اور فیس طالب علم کے لیے دو روپیہ، کسی کے لیے تین روپیہ اور کسی کے لیے دس روپیہ رکھا۔

ضرورت مند اور غریب مریضوں کا سہارا ہے ڈاکٹر اعجاز علی


محض 10 روپیہ فیس پر دیکھتے ہیں مریض
ڈاکٹر اعجاز علی کے مطابق پہلے دو اور تین روپیہ فیس تھا بعد میں دس روپیہ فیس طے کر دیا۔ آج 44 سال بعد بھی میرا فیس دس ہی روپیہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دوران پریکٹس جب مریض آنے لگے اور جم کر میری پریکٹس شروع ہوئی تو میرے پاس زیادہ تر غریب لوگ اپنے علاج کے لیے آتے تھے۔ کم فیس پر ایک اچھا ڈاکٹر مل رہا تھا تو لوگوں کا کارواں اسپتال میں پہنچنے لگا۔ رکشا والا، ٹھیلا والا، سبزی والا اور دیہی علاقوں کے لوگ کسرت سے آنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک سرجن تھا لیکن سبھی طرح کا علاج شروع کر دیا، غریب لوگ گاؤں گاؤں سے آنے لگے، ان کے پاس کھانا کھانے کو پیسہ نہیں تھا وہ دوا کہاں سے خریدتے، میں سرجن تھا لیکن لوگوں کی مدد کے لیے ڈائریاں، کالا زار، ٹی بی اور باقی تمام چیزوں کا علاج کرنے لگا، ایک ایک دن میں، میں نے 20۔20 بڑے اور الجھے ہوئے کیس کو حل کیا، یہ ایک رکارڈ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے محسوس کیا کہ جو لوگ علاج کرانے کے غرض سے آ رہے ہیں وہ زیادہ تر مسلم ہیں اور غریب ہیں۔ سرجری کی فیس بھی کافی کم رکھا اور وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہر دن سیکڑوں مریض کو دیکھتے ہوئے یہ بھی احساس ہوا کہ مسلمانوں میں اتنی غریبی کیوں ہے، حالانکہ دلت طبقہ بھی ترقی کر رہا ہے اس وجوہات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے میں نے گاؤں میں جانا شروع کیا۔
لوگوں کی خدمت کرنا مقصد ہو گیا
ڈاکٹر اعجاز علی کے مطابق میں نے آپ کو پہلے بتایا کہ پڑھنے کے زمانہ میں، میں ایک ٹاپر طالب علم تھا، تعلیم حاصل کرتے ہوئے میں نے زبردست محنت کیا۔ جس کمرہ میں رہ کر پڑھتا تھا اس کے درو دیوار پر مضامین کے بہت ساری چیزیں لکھ کر اپنے سامنے رکھتا تھا، میں نے کبھی بھی اپنا وقت ضائع نہیں کیا، نتیجہ کے طور پر میں ایک کامیاب ڈاکٹر بن کر نکل گیا، میرا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں تھا، میرے خاندان میں کوئی ڈاکٹر نہیں بنا تھا میں پہلا ڈاکٹر ہوں۔ جس جگہ میری پیدائش ہوئی تھی وہ ایک دم سے جاہلوں کا محلہ تھا آج بھی اس محلہ کی حالت ایسی ہی ہے۔ گولی، جوا، محرم میں لاٹھی ڈنڈا کھیلنا وہاں کے بچوں کا مشغلہ ہے۔ ایسی جگہ اور اس طرح کے محلہ سے نکل کر میں ڈاکٹر بنا۔ میرے والد صاحب کو کافی مشکل سے بی ڈی ای او کی نوکری ملی تھی، انگریزوں کے زمانہ میں۔ میرے گھر میں والد صاحب سے پہلے کوئی پڑھا لکھا بھی نہیں تھا یہاں تک کہ دین اسلام کو بھی کم ہی لوگ جانتے تھے۔ لالٹین کا زمانہ تھا۔ بہر حال میری تعلیم مکمل ہو گئی اور میں ڈاکٹر بن گیا اور پریکٹس شروع ہو گیا تو دیکھا کہ مسلمانوں کا غریب طبقہ میرے پاس زیادہ آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تجزیہ کیا اور ان کے حالات کو جاننے کے لیے گاؤں جانا شروع کیا۔ سیکڑوں گاؤں کا دورہ کیا، ان کے حالات کو دیکھ کر مجھے لگا کی ان کی ترقی و فلاح و بہبود کے لیے لڑائی لڑنی چاہئے۔
ڈاکٹری کو کبھی ڈاکٹر یا علی نے پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا

ہر جمعہ کو گاؤں کا سفر
ڈاکٹر اعجاز علی کے مطابق گزشتہ 44 سال سے ہفتہ میں جمعہ کے دن، میں کسی نہ کسی گاؤں کا سفر کرتا ہوں تاکہ وہاں کے لوگوں کے مسئلہ کو حل کرنے کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ گاؤں کے دورہ کرنے اور لوگوں کی تعلیمی، سماجی اور معاشی حالات کے ساتھ ساتھ ان کے روزگار کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ اب باقاعدہ ان کے لیے تحریک شروع کیا جائے۔ 1990۔92 میں ملک کا ماحول کچھ عجب ہو گیا تھا۔ غلام سرور صاحب بہار کے مسلمانوں کے بہت بڑے لیڈر تھے تو ان سے کافی لوگ ملنے آتے تھے۔ وہ میرے سسر تھے میں ان کے ساتھ رہتا تھا تو کافی لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ غلام سرور صاحب ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے جو مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کر اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرے۔ اس میں کئی ایسے لوگوں کے نام ہیں جس سے پورا ہندوستان واقف ہے۔ نام لینا یہاں مناسب نہیں ہے لیکن ان حالات میں یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں کو جذباتی نعروں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس ملک میں ایک بہترین شہری بننے کا انہیں راستہ ہموار کرنا چاہئے۔ 
کمزور طبقات کے لیے ریزرویشن کی تحریک
ڈاکٹر اعجاز علی کے مطابق مسلمانوں کے کمزور طبقات کو انصاف دلانے کے مقصد سے میں نے مسلمانوں کی پچھڑی ذاتیوں کو قومی دھارے کا حصہ بنانے کے لئے بیک وارڈ مسلم مورچہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کیا۔ بعد میں اسی تنظیم کا نام آل انڈیا یونائیٹیڈ مسلم مورچہ ہو گیا۔ تب سے لیکر آج تک وہ تحریک جاری ہے جس میں ہمارا بنیادی طور پر حکومت سے یہی مانگ ہے کہ جو مسلمانوں میں دلت طبقہ ہے اسے بھی آئین کی دفع 341 کی سہولت فراہم کرائی جائے تاکہ وہ بھی اپنی زندگی کے معیار کو بلند کر سکے اور اس سماج کی بھی تصویر بدل سکے۔ ڈاکٹر اعجاز علی کا کہنا ہے کہ زمین پر جو حقائق ہے اور ہم نے سماج کو گہرائی سے دیکھا اور مطالعہ کیا ہے اس کی روشنی میں یہ کہ سکتے ہیں کہ اگر انہیں بھی ریزرویشن کے دائرہ میں رکھا گیا تو اس سماج کی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی کا راستہ بھی ہموار ہوگا۔ اس لیے کی ایک بڑی آبادی کہیں نہ کہیں نظر انداز ہے اگر اس آبادی کو سہولت فراہم کرائی جائے تو اس کا کافی فائدہ ہوگا۔
کامیابی کے لیے مقصد کا ہونا ضروری
ڈاکٹر اعجاز علی کا کہنا ہے کہ زندگی میں بغیر کسی گول کے اور مقصد کے کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ کامیابی جتنی بڑی ہوگی اتنی ہی زیادہ محنت کا وہ مطالبہ کرے گی۔ اس لیے مشکل حالات میں بھی لوگوں کو انصاف کا، صبر کا اور امن کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان خود پہل کرے اور حالات کو سازگار بنانے کی کوشش کرے۔ حکومت کی تعاون تھوڑی سی بھی مہیا ہوگی تو سماج کے ایک بڑے حصہ کو اس کا فائدہ مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کی فرد واحد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر قیمت پر محنت، جدوجہد اور مسلسل کام کو ترجیح دے اور اپنا وقت کسی بھی قیمت پر ضائع نہیں کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ لوگ سماج کے فلاح و بہبود کے لیے غور و فکر کرے اور جو لوگ کامیاب ہو چکیں ہیں وہ دوسروں کو بھی کامیاب بنانے کے تعلق سے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا عملی طور پر ہو گیا تو سماج کا ہر حصہ خوشی و مسرت کا گواہ بن جائے گا۔