شاہ تاج خان(پونے)
عید الفطر،ماہ رمضان کی تکمیل پر اﷲتعالیٰ سے انعامات پانے کا دن۔عید کے معنی ‘لوٹنایا پلٹ کر آنا’ اور فطر’کے معنی ‘روزہ توڑنے یا ختم کرنے’ کے ہیں۔اسلامی ہجری کیلینڈر کے یکم شوال کو اہل اسلام عید مناتے ہیں۔عید الفطر صرف علامتی خوشی اور محض مسرت کا دن نہیں ہے بلکہ یہ مذہبی تہوار ملی شعار ،آپسی اتحادو اتفاق اور ایثار و ہمدردی کا دن ہے۔رمضان المبارک رحمت ،مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے ۔پورے ماہ کے روزے اور عبادات میں مسلمان مشغول رہتے ہیں۔اور پھررحمتوں ،برکتوں بھرے ماہ صیام کے بعد امت مسلمہ عید مناتے ہیں۔عید کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ماہ رمضان کے آخری عشرے میں عبادات کے ساتھ ساتھ عید کی تیاریاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔پونے مہاراشٹر میں شیر خورمہ عید سعید کی خاص سوغات ہے جس کی تیاری کافی پہلے سے شروع کی جاتی ہے۔میٹھی عید پر شیر خورمہ بنانے کے لیے گھر کی بزرگ خواتین حرکت میں آجاتی ہیں۔آنکھوں پر موٹا سا چشمہ لگائے ،کانپتے ہاتھوں سے وہ گھر کے ہر فرد کو احکامات صادر کرتی رہتی ہیں۔ساتھ ہی اپنے وقتوں کی عید کی کہانیاں بھی اپنے پوتے پوتیوں کو سناتی رہتی ہیں۔کچھ بچے اُن کی باتیں سنتے ہیں اور کچھ چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔
ہر سمت ہو خوشیوں کا سماں
اشرف بی شیخ پچھلے کچھ دنوں سے علیل ہیں۔بستر پر لیٹے ہوئے بھی انہیں عید کی تیاریوں کی فکر لاحق ہے۔انہیں گھر میں سبھی دادی کہتے ہیں حالانکہ ان کی بیٹی بھی پر نانی بن چکی ہیں۔آواز دی وائس سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ اب پہلے جیسی عید کہاں ہوتی ہے۔ ہمارے زمانے میں پیسے کم تھے مگر ہر عید یادگار ہوتی تھی۔کپڑے،چوڑی،مہندی ہر چیزاپنی پسند کی بازار سے خرید کر لاتے تھے۔ایک دوسرے کو اپنی چیزیں دکھاتے اور خوش ہوتے تھے۔گھر پر ہی کپڑے سلتے تھے۔چاند رات کو تو ہمیں نیند ہی نہیں آتی تھی۔جب تک چھوٹے تھے تو کچھ کام نہیں کرنا پڑتا تھا لیکن جیسے ہی کچھ سمجھدار ہوئے تو ہمیں بھی اپنی اماں کے ساتھ شیر خورمہ بنانے کی تیاریوں میں لگنا پڑتا تھا۔ عید کی نماز پڑھ کر جب مرد حضرات گھر واپس آتے تھے گلے مل کر عید کی مبارکباد دیتے تھے اور شیر خورمہ پیتے تھے۔پھر ہم سب ایک دوسرے کے گھر شیر خورمہ پینے جاتے تھے۔پورے محلے کا ماحول ہی الگ ہوتا تھا۔اب وہ پہلے جیسی بات نہیں ہے۔وہ اپنی بہوؤں اور بیٹیوں کی عید کی تیاری کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ میں خود اُن سب کو بنگڑیاں(چوڑیاں) پہنانے کے لیے بازار لے کر جاتی تھی۔ان کی مرضی کے کپڑے ،چپل سب کچھ دلاتی تھی۔کلائی بھر بھر کر بنگڑیاں پہنواتی تھی۔ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیوں کی آواز بہت اچھی لگتی تھی اب تو سب اپنی مرضی کے مالک ہو گئے ہیں ۔اب میری کوئی نہیں سنتا۔وہ شکایت تو کرتی ہیں لیکن عید کی چوڑیوں کے لیے اپنی بہو بیٹیوں کو پیسے دینا آج بھی نہیں بھولتیں۔ اشرف بی خود تو اب اپنی بہوؤں اور بیٹیوں کے ساتھ بازار نہیں جا پاتیں مگر انہیں اپنی پسند کے سامان کی خریداری کرنے کے لیے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ پیسے دیتی ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ عید کے دن نمکین،مٹھائیاں اوربریانی بھی بنائی جاتی تھی مگر عید اسپیشل تو شیر خورمہ ہی ہوتا تھا۔جو آج بھی بنتا ہے ۔
اپنے بیگانے گلے ملتے ہیں سب عید کے دن
میمونہ بیگ 82سال کی ہو گئی ہیں۔انہیں خالی بیٹھنا بالکل پسند نہیں ہے۔وہ کچھ نا کچھ کام کرتی رہتی ہیں۔پچھلے کچھ وقت سے انہیں اُن کے پر پوتے مصروف رکھتے ہیں۔اُن کا زیادہ وقت اب اپنے دو پر پوتوں کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔عید کے تعلق سے جب اُن سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ جب ہم چھوٹے تھے تب ہمارے ابّا ہمارے لیے کپڑے ،چوڑی ،چپل وغیرہ سب سامان لاکر دیا کرتے تھے۔عید کے دن گھر میں شیر خورمہ بنتا تھا تو ہم اپنے پڑوسیوں کے گھروں میں جاکر دیا کرتے تھے۔ہم اپنی سب سہیلیوں کو بلاتے تھے ۔ سب مل جل کر شیر خورمہ پیتے تھے۔ماں کے گھر کی عید کی بات ہی الگ تھی ۔ہمیں کچھ کام نہیں کرنا ہوتا تھا صرف مہندی ،چوڑی اور نئے نئے کپڑے پہن کر خوب مزا کرتے تھے۔شادی کے بعد سسرال کی عید میں تھوڑا تھوڑا کام کرنا پڑتا تھا۔بیس بائس لیٹر دودھ کا تو شیر خورمہ بنتا تھا۔کنولے(گجیا)،گلگلے،دہی بڑے،بھجئے(پکوڑے)وغیرہ تو کئی دن پہلے سے ہی بنانا شروع کر دیتے تھے۔وہ ہنستے ہوئے بتاتی ہیں کہ پہلے تو ہم لوگ خود ہی گھر کی پتائی(سفیدی،رنگ روغن)بھی کرتے تھے۔کپڑے کے تھان لے کر دکاندار خود گھر پر آتا تھا۔ہم سب کپڑا پسند کرتے تھے۔گھر کے سب لڑکیوں کے لیے ایک کپڑا اور لڑکوں کے لیے بھی ایک ہی طرح کا کپڑا ہوتا تھا۔سب ایک جیسے ہی کپڑے پہنتے تھے۔بچوں کے کپڑے ہم خود سیتے تھے۔گھر کے پردے بھی ہر سال نئے بنتے تھے جو گھر کی بہوئیں خود ہی اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی تھیں۔سب مل جل کر عید مناتے تھے۔ ہمارے یہاں کام کرنے والے کام گار اپنے پورے گھر والوں کے ساتھ عید پر شیر خورمہ پینے آتے تھے۔ہولی دیوالی پر ہم اُن کے گھر جاتے تھے وہ ہمیں مٹھائیاں اور پٹاخے لا کر دیتے تھے ۔ہولی میں جو میٹھے میٹھے ہار ملتے ہیں نا ! وہ تو ہمارے گھر میں ڈھیر سارے اکٹھا ہو جاتے تھے۔بہت اچھا زمانہ تھا۔
عید کا دن ہے گلے مل لیجئے
صابرہ شیر احمد سید 84سال کی ہیں ۔پر پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے درمیان بیٹھ کر وہ بچوں میں بچہ بن جاتی ہیں۔جو بھی اُن کے سامنے آتا ہے اُسے ڈھیروں دعاؤں سے نوازتی ہیں۔اپنے بچوں ہی نہیں بلکہ آس پڑوس اور ملنے جلنے والوں کی بھی خیر خیریت دریافت کرتی رہتی ہیں۔جب آواز دی وائس نے اُن کے بچپن کی عید کے متعلق سوال کیا تو اُن کی آواز بھرا گئی ۔انہوں نے بتایا بچپن میں میری ماں(والدہ) کا انتقال ہو گیا تھا۔ماں کے بنا کہاں کی عید۔لیکن پھر سنبھلتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شادی کے بعد ہم نے بہت اچھی طرح ہر تہوار منایا۔انہوں نے بتایا کہ میرے پانچ بچے تھے ۔سب کو لے جاکر عید کے کپڑے،چوڑی،چپل ،مہندی سب کچھ دلاتے تھے۔ شیر خورمہ بنانے کے لیے میوے، دودھ اور دیگر سامان کا وقت پر انتظام کیا جاتا تھا۔ہم لوگوں کے یہاں شیر خورمہ بھیجتے تھے اور متعدد ملنے جلنے والے ہمارے گھر پر شیر خورمہ پینے آتے تھے۔پہلے کے حال چال بہت الگ تھے ۔سب مل جل کر خوشیاں مناتے تھے۔اب تو لوگوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی کم ہو گیا ہے۔وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم سب لوگ اکٹھا ہو کر اپنے بال بچوں کو لے کر باسی عید پر باغ با غیچے میں گھومنے بھی جاتے تھے۔ابھی تو لوگوں میں پیار محبت ہی باقی نہیں رہا ہے۔پہلے کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔اب تو کوئی ایک دوسرے کو پوچھتا بھی نہیں ہے۔گھر چھوٹے تھے لیکن سب بھائی بہن ایک ہی گھر میں ایک ساتھ عید کی خوشیاں منانے کے لیے جمع ہوتے تھے۔وہ ماضی میں منائی گئی عید کو یاد کرنے کے ساتھ یہ بھی کہتی ہیں میں جانتی ہوں کہ آج کے حالات مختلف ہیں۔ہم اگر نہیں سمجھیں گے تو کون سمجھے گا۔میں تب بھی خوش تھی اور آج بھی بہت خوش ہوں۔عید کا انداز ضرور بدلا ہے مگر ہے تو یہ وہی رمضان کی میٹھی عید۔وہی شیر خورمہ ہے وہی عید کی خوشیاں ہیں۔اب بہت سے کھانے پینے کے سامان بازار سے تیار منگوا لیے جاتے ہیں۔جیسے بریانی وغیرہ مگر آج بھی سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے اور کھلاتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ عید پر خوش رہو اور خوشیاں پھیلاؤ۔
چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے
اشرف بی شیخ کی صاحبزادی نوشاد سیدپر نانی بن چکی ہیں۔چاق و چوبند ینگیسٹ پردادی نوشاد کو سبھی لوگ اماّں کہتے ہیں۔بے حد خوش مزج،لوگوں سے گھل مل کر رہنے والی نوشاد ابھی پچھلے دنوں اپنی پوتی کی شادی میں بے حد مصروف تھیں۔پوتی کی شادی میں اُن کی بیٹی کے نواسے کے ڈانس نے سب کی توجہ کھینچ لی تھی۔نوشاد سیداتنی جلدی اپنے پر نانی بننے پر خوب ہنستی ہیں۔آواز دی وائس نے جب پر نانی سے اُن کی بچپن کی عید کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا بچپن بے حد اچھا گزرا ہے۔ہم تو رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی عید کی ساری خریداری کر لیا کرتے تھے۔رمضان میں روزے رکھ کر ہم باہر نہیں جایا کرتے تھے۔یہ رواج میں نے آج بھی برقرار رکھا ہے۔یہ کیا کہ روزہ رکھ کر عبادت کی جگہ بازاروں میں خریداری کرتے ہوئے وقت گزارو۔یہ سب کام تو پہلے بھی کیے جا سکتے ہیں نا۔ہاں شیر خورمہ کا سامان ہم عید سے چار دن پہلے منگاتے ہیں اور پھر عید کا چاند نظر آنے کے بعد پوری رات تیاری کریں گے ۔فجر کی نماز کے بعد شیر خورمہ بنانے میں لگ جائیں گے۔عید کی نماز کے بعد ملنے آنے والے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر پورا دن مہمان نوازی میں ہی گزر جاتا ہے۔بیٹیاں،جوائی(داماد)،ناتی نواسے ،پوتے پوتیاں اور دوسرے سبھی رشتے دار ملنے آتے رہتے ہیں۔نوشاد سید خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آج کی عید پہلے کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔میرے سارے بچے آس پاس ہی ہیں۔اور عید کے دن جب سب ایک جگہ پر آتے ہیں تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔میری نظر میں عید صرف کھانے پینے اور نئے نئے کپڑے پہننے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ عید کے بہانے میرے گھر میں جو رونق لگتی ہے اسے دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔کل بھی میرے گھر میں عید ایسے ہی جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی تھی اور آج بھی ایسے ہی منائی جاتی ہے۔میں تو دعا کرتی ہوں کہ میرے گھر میں عید کی رونقیں اور محفلیں یو نہی سجتی رہیں۔
جہاں ایک طرف گھر کی بزرگ پر دادی اور پر نانی کی آنکھوں میں ماضی کی متعددخوبصورت اور یادگار عیدوں کی کچھ ہنستی مسکراتی یادیں ہیں تو وہیں اپنے خاندانوں کی مرکز، اِن بزرگ خواتین کے لیے مستقبل کی ڈھیروں عیدوں کے تعلق سے ہم صرف یہی دعا کر سکتے ہیں کہ
دعا ہے آپ دیکھیں زندگی میں بے شمار عیدیں
خوشی سے رقص کرتی مسکراتی پُر بہار عیدیں