علی احمد
عیدی ۔۔۔۔ ایک چھوٹا سا لفظ اپنے اندر ایک بڑی خوشی سمائے ہوئے ہے ۔ بچہ بچہ اس لفظ کا مطلب جانتا ہے۔ بلکہ اس خوشی کا انتظار کرتا ہے جو عبادت کے ماہ یعنی رمضان المبارک کے اختتام پر عید کے موقع پر میسر ہوتی ہے۔ یہ عیدی ہی ایک ایسی کشش ہے جو بزرگوں کا فرض ہے تو بچوں کا حق ہے ۔ ایک ایسی رسم جس کی آغوش میں ایک تہذیب بسی ہے ۔ جسے کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا ہے ۔کیونکہ عید کی خوشیوں کی ایک اہم کڑی ہے عیدی۔۔۔ کسی کی جیب میں اور کسی کی مٹھی میں بند عیدی۔ ہر چہرے کی خوشی کی کہانی بیان کرتی ہے ۔
اگر بات کریں عیدی کے مذہبی پہلو کی تو عیدی ایک مثبت رسم ہے۔اس کی حیثیت تحفہ اورہدیہ کی ہے۔ اسلام میں ہدایا اورتحائف دینے کاحکم ہے۔ مذہب میں اسے محبت کا طریقہ اور اظہار محبت کا راستہ قرار دیا ہے ۔یہی نہیں امام بخاریؒ نے الادب المفرد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ باہم ہدیہ کیا کرو، اس سے محبت بڑھے گی۔ اسی طرح امام ترمذی ؒنے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ذکر کی ہےکہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ہدیہ کرو۔اس سے حسد دورہوجاتا ہے۔ امام ترمذی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ ہدیہ کرو۔اس سے سینے کا کھوٹ دورہوجاتا ہے۔پڑوس والی عورت پڑوسن کے لیے کوئی چیز حقیر نہ سمجھے۔اگرچہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ پس اس سوچ سےبچوں،ماتحتوں اور ملازموں کوعیدی دینا کہ وہ خوش ہوں گے، نہ صرف جائز بلکہ کارِثواب ہے
ممتاز کالم نگار عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں کہ --- اسلام کے آغاز میں بچوں کو عیدی دینے کی کوئی روایت نہیں ملتی، اب یہ روایت کب اور کہاں سے شروع ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ وکی پیڈیا بتاتا ہے کہ عیدالفطر کے موقع پر عیدی یا تحفے تحائف دینے کی روایت کا آغاز مصر سے ہوا جہاں عید کے موقع پر خلیفہ وقت اپنی فوج کے جرنیلوں اور سپاہیوں کو تحفے تحائف دیا کرتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی حکومت کے دیگر امرا نے بھی اپنے ملازمین کو تحفے تحائف دینا شروع کردیے۔ جب حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا تو ان تحفے تحائف کی نوعیت بھی تبدیل ہوگئی اور نہ صرف فوج کے ملازمین بلکہ عوام الناس میں بھی روپے پیسے اورعید کے جوڑے بطور عیدی دیے جانے شروع ہوگئے۔
بہرحال ہمیں اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ البتہ عیدی نہ تو عید کی عبادت ہے اورنہ ہی حق سمجھ کرکوئی اس کامطالبہ کرسکتا ہے۔نہ ہی نہ دینے والے کو برا بھلا کہنا یا نکیر کرنا یا اس سے ناراض ہونا، درست ہے۔غرباء اورمساکین کوبھی خوشیوں کے موقع پر صدقات وخیرات میں یاد رکھنا چاہیے۔اسی وجہ سے صدقۂ فطر وغیرہ کاحکم ہے۔مگر اقارب اورماتحتوں کو نوازنا بھی ثواب سے خالی نہیں ہے اوراگرماتحت یاکوئی رشتے دارمحتاج بھی ہوتواسے عیدی دینا درحقیقت صدقہ کرنا ہی ہے۔ (سير اعلام النبلاء، ط الحديث (5/ 529)
ایک اہم موضوع یہ ہے کہ بچوں پر عیدی کے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں ۔عیدی بچوں کے لیے خوشی کا سبب ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عیدی سے بچے میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کی خاندان میں قدر ہے۔بچوں میں اس سے خود اعتمادی آتی ہے۔ شخصیت مضبوط ہوتی ہے۔ دراصل عیدی سے چھوٹوں اور بڑوں کے درمیان خلا ختم ہوتا ہے۔عیدی چھوٹوں بچوں میں اچھے اقدار پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ جیسے کسی کے مانگے بغیر اسے عطا کرنا، ایک دوسری کی خوشی میں شریک ہونا اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا۔عیدی سے بچوں میں عید کے دن کی اہمیت پیدا ہوتی ہے اور ان کی عید سے یادیں وابستہ ہو جاتی ہیں۔عیدی بچوں میں کچھ مثبت مہارتیں بھی پیدا کرتی ہے جیسے مناسب انداز میں مال جمع کرنا۔