خاندانی قدریں: تہذیب کی پہلی سیڑھی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 02-08-2024
خاندانی قدریں: تہذیب کی پہلی سیڑھی
خاندانی قدریں: تہذیب کی پہلی سیڑھی

 

زیبا نسیم : ممبئی

تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں۔ یہ پیغام ہے پیغمبر اسلام کا ۔ ایک اخلاقی درس ۔ زندگی کی کامیابی کی کنجی ہے۔ جو بتاتا ہے کہ خاندانی قدروں کا تعلق کامیاب زندگی ہے ۔ گویا انسان کا بہتر یا بدتر ہونا دراصل اس کے گھروالوں کے ساتھ رویے پر منحصر ہے۔ دوستوں کے ساتھ، افسر کے ساتھ اور دکان والوں کے ساتھ تو سبھی بہتر ہوتے ہیں، لیکن اپنے خاندان، اپنے بچے، اپنی بیوی، اپنے والدین اور اپنے سسرال کے ساتھ کون اچھا ہے؟ یہ اصل سوال ہے۔دراصل اسلام میں جہاں عبادات ،معاملات،حُسنِ معاشرت ،باہمی رویوں ،حسنِ سلوک اور مکارم ِ اخلاق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔وہیں دینی ، اخلاقی اوراسلام کی عطا کردہ خاندانی اقدار کو کلیدی اور بنیادی اہمیت حاصل ہے

خاندانی نظام کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مانی جاتی رہی ہے۔ مختلف خاندانوں میں زندگی گزارنے کے طریقے اور ادب و آداب بھی مختلف رہے ہیں۔ لیکن بنیادی اکائی جو خاندانوں کو برقرار رکھنے میں مددگار رہی وہ ایثار اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کا جذبہ ہے۔خاندان معاشرے کی ایسی اساسی اکائی ہے، جس سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

اسلام کے نزدیک معاشرے کا بنیادی ادارہ خاندان ہے جس کی بہتری ، بھلائی اورابتری اور بربادی پر معاشرے کی حالت کا انحصار ہوتا ہے ۔اسلام نے خاندان کی طرف خصوصی توجہ دی ہے تاکہ اس ادارے کو مضبوط سے مضبوط بنایا جائے اور ایک مضبوط، صالح اور فلاحی معاشرے کا قیام وجود میں آئے جو انفرادی و اجتماعی حقوق و فرائض کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری اقدار بدلتی جا رہی ہیں ہمارے سماجی رویئے بدل چکے ہیں, جو بات ہمیں کل معیوب لگتی تھی اب وہ معیوب نہیں لگتی وہ باتیں ہمارے اندر اتنی سرایت کر گئی ہیں کہ برائی کی حس ہی ختم ہوگئی، اس کے ہونے کا احساس مردہ ہوچکا ہے۔ ہمارا رہن سہن، عادات واطوار، معاملات سب بدل چکا ہے

ایک دور تھا جب بیشترگھروں میں دن کا آغاز کسی بڑے کی آواز سے بیداری کے بعد شروع ہوتاہے اوردن کا انجام گھر کی بڑی بزرگ خاتون کی کہانی یالوری سے اختتام پذیر ہوتا تھا لیکن اب ایسا نا پید ہوچکا ہے۔ لوگ موبائل کی دنیا میں غرق ہیں ،گھر میں ایک فرد ہو یا کئی اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ صبح بھی موبائل کے الارم سے پہوتی ہے اور رات کو شب بخیر بھی ۔ آپ کو بتا دیں کہ حالانکہ اسلام  نے خاندان میں سکون کی خاطر مشترکہ خاندان پر زور نہیں دیا ہے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا بہت فائدہ ہے ۔

مشترکہ خاندان کے فائدے

دراصل مشترکہ خاندانی نظام ایک بہترین تربیت گاہ ہے، جس میں گھر کے بڑے چھوٹوں کو نہ صرف مختلف مسائل اور حالات سے نبرد آزما ہونے کے گر بتاتے ہیں بلکہ ان کی اخلاقی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں

خاندانی نظام ہر دور میں مستحکم اور مضبوط رہا ہے۔

خاندانوں کا اصل جذبہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے میں ہے۔

خاندانی روایات اور ادب و آداب کو برقرار رکھنے میں خاندان مخصوص توجہ دیتے ہیں۔

خاندانی نظام بچوں کو نیک اخلاقیات اور زندگی کے اصول سکھاتا ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام میں بچوں کو غم و پریشانیوں میں مشترکہ کرنے کے لئے تیار کرتا ہے۔

خاندانی نظام میں مشترکہ دسترخوان اور عزت و احترام کے مقدس اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔

بزرگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے جو نوجوان نسل کو راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں دادا ،داد ی ، امی ابو، چاچا چاچی اور ان سب کی اولاد ایک ہی گھر میں قیام پذیر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ روایت دم توڑتی جارہی ہے مگر اس کی افادیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مشترکہ خاندانی نظام میں پلنے والے بچّوں میں عمومی طور پر تین خصلتیں نمایاں ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی یہ کہ ان بچّوں میں خاندان کےبزرگوں کو اہمیت دینے اور ان کی عزّت کرنے کا رجحان انفرادی خاندان کے بچّوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔دوسری، ان بچّوں کو باپ کے علاوہ دوسری نسل یعنی دادا کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، اس لئے یہ خود کو زیادہ محفوظ اور پُرعزم محسوس کرتے ہیں اور تیسری یہ کہ چونکہ سب بچّے اپنے کزنز وغیرہ کے ساتھ مل کر رہتے ہیں، تو انہیں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ہونے کی عادت ہوتی ہے، جو آگے چل کر عملی زندگی میں مدگار ثابت ہوتی ہے۔ مشترکہ خاندان کے بچّے اپنے والدین اور دیگر بزرگوں کی زیر ِنگرانی تربیت پاتے ہیں، تو اخلاقی قدریں بھی زیادہ بہتر طور پر سیکھتے ہیں۔ ایسے بچّوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے کنبے کے کئی افرادموجود ہوتے ہیں۔ چونکہ ان پر پابندیاں بھی نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں، تو عملی زندگی میں اصولوں کے پابند ہوتے ہیں۔ مشترکہ خاندان بنیادی طور پر نیوکلیئر فیملی میں تبدیل ہو کر چھوٹے ہوتے جارہے ہیں۔ لہٰذا آنے والے وقت میں صورتحال مزید خراب نہ ہوں اس لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو مشترکہ خاندان کی اہمیت سے واقف کرائیں۔

بڑوں کی عزت کرنا

خاندان میں اتحاد کی سب سے پہلی سیڑھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بڑوں کی عزت کرنا سکھائیں۔ یہ بات صرف بچوں پر ہی عائد نہیں ہوتی۔ خود بھی اس بات پر عمل کرنا کریں۔ اپنے بچوں کو گھر میں آئے کسی رشتہ دار کو سلام کرنا اور ادب و احترام سے بات کرنا سکھائیں۔ اگر آپ اپنے ماں باپ سے دور رہتے ہیں تو بچوں کو اپنے فیملی فوٹو البم کے ذریعے گھر کے دیگر افراد سے روبرو کرانا چاہئے۔

محبت سے بات کرنا

جتنا ممکن ہوسکے اپنے بچوں کو محبت سے باتیں کرنا سکھائیں۔ سب سے ضروری یہ ہے کہ ان باتوں کو زیادہ سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، بچے ویسا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسا ان کے گھر کا ماحول ہوتا ہے۔ اس لئے بچوں کے سامنے کبھی بھی کسی سے بھی بدتمیزی یا چلّا چلّا کر بات نہ کریں۔ ساتھ ہی اپنے بچوں کو اپنے سے بڑے یا چھوٹے سے نرمی سے بات کرنے کی سیکھ دیں۔

بزرگوں کا احترام

بزرگوں اور بچوں کا احترام کرنا ہماری اچھی تربیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے اپنے بچوں کو ہمیشہ بزرگوں کے تئیں نرمی اور چھوٹے بچوں کے تئیں حساس ہونا سکھائیں۔ انہیں یہ بھی بتائیں کہ زندگی میں کبھی بھی کسی بھی بزرگ کی مدد کے لئے ہمیشہ آگے آئیں۔

تھوڑی سختی بھی ضروری ہے

اکائی کنبے میں بچوں کو بے حد لاڈ و پیار سے بڑا کیا جاتا ہے۔ جس سے وہ کئی بار ضدی ہوجاتے ہیں اور ہر بات کے لئے ضد کرتے ہیں۔ ایسے میں انہیں ان بچوں کی ضرورتوں اور بنیادی تقاضے کے بارے میں بتائیں جو ان چیزوں سے محروم ہیں۔ جتنا ممکن ہو سکے اپنے بچوں میں تکبر کے جذبے کو پنپنے نہ دیں۔

مشترکہ خاندان کی اہمیت سمجھائیں

بچوں کو مشترکہ خاندان کے بارے میں بتائیں۔ انہیں اپنے بچپن کے قصے سنائیں۔ انہیں بتائیں کہ گھر میں کیسے کھانے سے لے کر کپڑوں تک کو شیئر کیا جاتا تھا۔ ان باتوں کو اتنے مزیدار طریقے سے بتائیں کہ بچے کو مشترکہ خاندان کی باتیں فضول نہ لگیں بلکہ جب کبھی وہ آپ کے ساتھ آپ کے خاندان کے ساتھ ہوں تو اسے سبھی اپنے ہی محسوس ہو۔

بچوں کو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بتائیں

مشترکہ خاندان میں بڑوں اور چھوٹے کو بے لوث محبت اور بھرپور تعاون ملتا ہے۔

خاندان کے سبھی افراد گھر کے اخراجات اٹھاتے ہیں جس سے ذمہ داری کا بوجھ کسی ایک کے کندھوں پر نہیں پڑتا ہے۔

کسی تنہا شخص کو مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ سبھی لوگ ایک دوسرے کی مشکل کا حل تلاش کرتے ہیں۔

مشترکہ خاندان میں تہواروں کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔

مشترکہ خاندان میں ایک نسل سے دوسری نسل ایک دوسرے کو سمجھتی ہے اور دونوں نسلیں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیتی ہیں۔

مشترکہ خاندان میں کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل مشورہ کیا جاتا ہے اور مشورہ کرنا اچھی عادت ہوتی ہے۔