خواجہ یونس،آم اور لکھنؤ

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 07-08-2024
 خواجہ یونس،آم اور لکھنؤ
خواجہ یونس،آم اور لکھنؤ

 

عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی۔لکھنؤ کیمپس
 
بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کارناموں کے سبب کسی شہر کا چہرہ بن جاتے ہیں۔لیکن اس منزل تک پہنچنے میں ایک عمر بیت جاتی ہے۔خواجہ محمد یونس (1935۔2019)کا شمار لکھنؤکے ایسے ہی لوگوں میں کیا جاتاہے۔انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز دینی تعلیمی کونسل کی لکھنؤ شاخ کی معمولی ملازمت سے کیا تھامگر اپنے جنون اور کام کی دھن انھیں آگے بڑھاتی رہی، یہاں تک کہ دینی تعلیمی اداروں کے قیام کا ایک سلسلہ انھوں نے شروع کردیا۔پہلا تعلیمی ادارہ  1969 میں ’ارم ماڈل نسواں اسکول‘ کے نام سے قائم کیا۔ایک محتاط اندازہ کے مطابق اس وقت ’ارم ایجوکیشنل سوسائٹی‘ کے تحت پچاس سے زائد مختلف النوع تعلیمی ادارے چل رہے ہیں۔ان تعلیمی اداروں میں ارم کمپیوٹرایجوکیشنل سینٹر،ارم گرلس ڈگری کالج،ارم یونانی میڈیکل کالج،ارم ایلو پیتھک ہاسپٹل بھی شامل ہے۔خواجہ سید محمد یونس کی انھیں تعلیمی خدمات کے سبب کوئی انھیں ’اودھ کا سرسید‘ کہتا ہے تو کسی نے انھیں ’سرسید ثانی‘ کا لقب دے رکھا ہے۔کوئی ’خواجہ علم نواز‘ تو کہیں ’بابائے تعلیم‘ کے نام سے بھی پکارے جاتے ہیں۔
 
 
خواجہ محمد یونس ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔اپنی گوناں گوں دلچسپیوں اور سرگرمیوں کے سبب ان کی شخصیت اور۔ ایک طرف انھوں نے تعلیم کو عام کرنے کے لیے بے شمارتعلیمی ادارے قائم کیے تو وہیں انھوں نے شعرو ادب کی مشق بہم پہنچائی۔انھیں اشعار خوب یاد تھے اور موقع ومحل کے لحاظ سے اس طرح پیش کرتے کہ محفل کا لطف دوبالا ہوجاتا۔شاعروں اور ادیبوں سے ان کا خوب رابطہ تھا۔تعلیم کے ساتھ ساتھ تہذینی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی پروان چڑھنے لگیں۔اخبار نکالنے کا بھی تجربہ کیا۔لکھنو کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے ایک سرگرم نمائندہ کے طور پرلوگ ان کی طرف متوجہ ہونے لگے۔یوم جمہوریہ کے موقع پر جھانکیاں،لکھنؤ کے تمثیلی مشاعرے،لائبریریوں کا قیام ان کے ایسے مشغلہ تھے جس نے کبھی آرام کا موقع نہیں دیا۔ایک کام مکمل ہوتاتودوسرے منصوبے پر کام شروع کردیتے اور اس طرح وہ اپنی دھن اور کام میں رواں دواں رہتے۔خواجہ سید محمد یونس نے اپنی محنت،لگن اور شوق سے بہت کچھ حاصل کیا۔ان کے کارناموں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ان کی شخصیت کا ایک اہم حصہ ان کی عاجزی وانکساری تھی۔محبت اور دوستی کا ایک ایسا سلسلہ انھو ں نے قائم کررکھا تھا کہ ان کے حلقہ احباب کی وسعت اور تنوع کو دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہوتا تھا ممکن ہے اسی سبب ان کے یہاں ناممکن کا لفظ ہی نہیں تھا۔انھو ں نے اپنے اکیلے دم پر جتنے ادارے قائم کردیے قابل اور ذہین لوگوں کی جماعت بھی شایدایسا نہ کرسکے۔
 
خواجہ یونس کئی مضامین میں ایم اے تھے۔اردو،فارسی اور عربی کے علاوہ عرب کلچر میں بھی وہ پوسٹ گریجویٹ تھے۔اس کے علاوہ تعلیم و تدریس سے متعلق بہت سے کورسز انھوں نے کررکھے تھے۔بی ٹی سی،بی ایڈ اور معلم اردو بھی وہ تھے۔ہندی،قانون اور طب کی تعلیم بھی انھوں نے اپنی محنت سے حاصل کی تھی۔خواجہ یونس نے علم وادب کا بھی ایک سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑا۔مختلف موضوعات پر ستر سے زائد کتابیں ان کے قلم سے نکلیں۔میری مختصر روداد زندگانی کے نام سے اپنی خودنوشت بھی لکھی جس میں انھوں نے اپنی زندگی کی تمام سرگرمیوں کو جمع کردیا ہے۔
خواجہ سید محمد یونس محبت اور انسانیت کے آدمی تھے۔شعرو ادب سے انھیں فطری لگاؤ تھا جس کے سبب شاعروں اور ادیبوں اور تعلیم کے ماہرین سے تعلق اور دوستی حیرت انگیز نہیں لیکن سیاست  و صحافت،نوکرشاہ،اور دیگر علوم وفنون سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگوں سے ان کے ذاتی ربط تھے۔ مختلف النوع لوگوں کو جوڑنے اور انھیں اپنے تعلیمی کارواں سے آگاہ کرنے کا اہم ذریعہ یہی ثقافتی پروگرام تھے جن میں مشاعرہ اور’جشن آم غالب اور بیسنی روٹی‘کی تقریب خاص اہمیت رکھتی تھی۔اگر یہ کہاجائے کہ بعد کے دنوں میں لکھنؤ والوں کو، جشن آم غالب اور بیسنی روٹی‘کا انتظار رہتا تھے۔اندرا نگر میں واقع ارم گرلس ڈ گری کالج کا وسیع سرسبز لان مہمانوں کی آمد کا منتظر رہتا تھا اور وہاں پہنچ کر طبیعت کو عجب سرشاری ملتی تھی۔
خواجہ سید محمد یونس کے یوں تو بہت سے کارنامے ہیں لیکن ’جشن آم غالب اور بیسنی روٹی‘کا وہ جس طرح اہتمام کرتے تھے۔ ادیبوں،شاعروں اور سیاست دانوں کا اس موقع پر جو اجتماع ہوتا تھا اب اس نوع کی محفلوں سے لکھنؤ خالی ہوچکا ہے۔انھیں تقریبات کی بدولت لکھنؤ والے آم کی جملہ معلومات رکھتے تھے۔ ابتدا میں تقریریں ہوتیں جن میں آم کی کاشت،اس کی نسل، باغبانی اور آموں کی لذت اور شیرینی سے متعلق بہت سی تفصیلات سن سن کر سامنے دسترخوان پر سجے ہوئے آموں کا اول اول محض دیدار کرلیتے۔اس طرح کے مواقع پر لکھنو والوں کی تہذیبی شائستگی اور ظرافت کے نمونے بھی سامنے آتے رہتے تھے۔آموں ہی کی کسی تقریب میں ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی آم کی ایک نسل کے بارے میں گفتگو کررہے تھے۔گفتگو کے اختتام پر انھوں نے بتایاکہ اس آم کا نام دلہن ہے۔قریب میں مشہور صحافی مرحوم حفیظ نعمانی بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے بہو کو میرے حوالے کردیجیے اور انھوں نے بھی کمال شائستگی کے ساتھ ’دلہن‘انھیں پیش کردی۔محفل کچھ دیر کے لیے قہقہ زار بن گئی۔خواجہ صاحب کی تقریب میں ایک بار مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔شعرا کی نظمیں،قطعات اور سیاست دانوں کا خطاب ایک دلآویز صورت بن جاتی۔بعض شعرا اس صورت حال کو رقم کرتے تو کوئی اس تقریب کو ہی قطعہ کی صورت میں اس طرح پیش کردیتا کہ وہ دعوت اور دعوت نامہ دونوں کا کام کرتا۔رفعت شیدا صدیقی لکھنو کے ممتاز اور قادر الکلام شاعروں میں ہیں ان تقریبات کا کا وہ اہم حصہ رہتے ہیں۔ایک بہت یادگار قطعہ انھوں نے منظوم دعوت نامے کی شکل میں کہا تھا۔ اس موقع کے لیے کہاتھا۔
چچا غالب کی روح پر سخن بھی
ارم میں آپ کو محسوس ہوگی
گذارش ہے نہ یہ موقع گنوائیں
ہے جشن آم اور غالب ارم میں
فضا میں بیسنی روٹی کی خوشبو
 کبابوں کی مہک کا تیز جادو
مسرت ہوگی کھانا ساتھ کھائیں
ہے جشن آم اور غالب ارم میں
جناب عارف نگرامی جو اس ادارے سے وابستہ ہیں انھوں نے بتایا کہ بیسنی روٹی پکانے کے لیے بارہ بنکی سے خواتین خاص طورپر بلائی جاتی تھیں۔انھیں بڑی مہارت حاصل تھی۔متعدد طرح کی کھچڑی اور ان کے اہتمام میں کئی طرح کی چٹنیاں اور اچار دسترخوان کی زینت ہوتے تھے۔جن لوگوں نے ارم گرلس ڈگری کالج کا لان دیکھا ہوگا اور اس کی کسی تقریب میں شامل رہے ہوں گے انھیں اندازہ ہوگا کہ خواجہ صاحب ضیافت کا کس قدر اہتمام کرتے تھے۔یہاں تک کہ تقریب یادگار بن جاتی تھی۔ایک تقریب کا نقشہ جناب حفیظ نعمانی مرحوم نے اپنے جادو بیان قلم سے اس طرح کھینچا ہے کہ اس کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ ان کے بقول:
ہر سال کی طرح گذشتہ سال خواجہ صاحب نے پھر دعوت نامے بھیجوائے اور خبر چھپوائی کہ حسب سابق آم،غالب،بیسنی روٹی اور لوازمات آپ کا انتظار کریں گے۔یہ تقدیر کا کھیل ہے کہ خواجہ صاحب کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور انھیں ان کے فرزند دہلی لے گئے۔خواجہ صاحب کے ہر دوست کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے اور جب وہ شفا یاب ہوکر آئے تو آم رخصت ہورہے تھے۔خواجہ صاحب نے کہا کہ میں دعوت دے چکا ہوں اس لیے تقریب تو ہوگی اورہر کسی کے مشورہ کے باوجود وہ نہیں مانے اور ڈگری کالج کی فیلڈ میں جیسا انتظام کیا اس کے بارے میں سب حیران تھے۔اور میں نے جو 70برس سے لکھنو میں دیکھا تھا ان میں کوئی تقریب ایسی نہیں دیکھی جیسی شاہانہ تقریب یہ تھی۔میں اپنی وہیل چیئر پر جب داخل ہوا تو حیران تھا کہ یہ کوئی ادبی تقریب ہے یا شاہانہ تاج پوشی کا دربار؟ڈگری کالج کی پوری فیلڈ میں ہر طرف سے آنے والے ہواکے راستے چھوڑ کر اس طرح شاندار کرسیاں اور صوفے بچھائے گئے تھے کہ بیٹھنے والا ہر مہمان اپنے کو مہمان خصوصی سمجھ رہا تھا۔یہ یقینی ہے کہ خواجہ کے فرزندوں نے اپنے والد کی تقریب میں ان کا جشن صحت بھی جوڑ دیا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ صرف میں ہی نہیں زیادہ تر حضرات عیادت اور صحت کی مبارک باد دینے کے لیے ہی آئے تھے،سب انگشت بدنداں تھے۔
خواجہ یونس کی زندگی پر نظر ڈالنے کے بعد یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ سارے کام ایک شخص نے انجام دیے ہیں۔ان کے بارے میں بعض معلومات ڈاکٹر عبدالحلیم کے توسط سے ملی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں ایک سبق ہے۔اور کام کرنے والوں کے لیے ایک جذبہ۔خواجہ سید محمد یونس اصلاً قصبہ میلارائے گنج ضلع بارہ بنکی کے رہنے والے تھے مگر انھوں نے میدان عمل لکھنؤ کو بنایا۔