منصور الدین فریدی:نئی دہلی
سال 1965 میں جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑی تو ہمارے سینئر نے ہم سب کو اکٹھا کیا, ہمیں علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر لے گئے،جہاں سے ہندوستانی فوجیوں کی ٹرینیں گزر رہی تھیں، یہ فوجی کولکاتہ کے فورڈ ولیم سے میدان جنگ کی جانب جا رہے تھے، ہم سب نے اسٹیشن پر رکنے والی ٹرینوں میں فوجیوں کو پانی اورچائے پیش کی۔ قومی خدمت کا جوش تھا ،وطن کی محبت تھی ،یہ سب ہماری تربیت کا حصہ تھا،جو ہمارے سینئرز نے دی تھی،ملک کی خدمت اور فوجیوں کے لیے احترام کا سبق ہمیں اس سے ملا تھا،ریلوے اسٹیشن پرچائے پلانے کا کام ہمیں خدمت کا جذبہ دے گیا تھا۔ یہ ہے اے ایم یو کی تہذیب ،جس میں اگرجونیر اپنے سینئرز کا احترام کرتے ہیں تو سینئرز بھی ان کی زندگی کو سنوارنے کے لیے قدم قدم پر رہنمائی کے لیے پیش پیش رہتے ہیں
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تجربات کو بیان کرتے ہوئے خواجہ محمد شاہد نے اس واقعہ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ سینئرزکا اس طرح کلاس کے باہر طلبا کو ٹرینڈ کرنا یعنی تربیت دینا ہی مسلم یونیورسٹی کی خصوصیت رہی ہے۔اس کو اے ایم یو کی روایت ہی کہا جاتا ہے جس کا خواب بانی سر سید احمد خان نے دیکھا تھا
خواجہ محمد شاہدایک سابق سول افسر اورماہر تعلیم ہیں ،وہ سینٹرل سیکرٹریٹ سروس کے افسر رہے،وہ حکومت ہند کے جوائنٹ سکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، یونین پبلک سروس کمیشن سیکرٹریٹ میں جوائنٹ سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں،ساتھ ہی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلراورجامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے رجسٹرار رہ چکے ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیمی رشتہ ہے
خواجہ محمد شاہد نے مسلم یونیورسٹی میں اساتذہ اور طلبا کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب ہم ہائی اسکول کے بعد یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے، ہمیں اساتذہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور ہماری تربیت شروع کر دی تھی ،ہمیں اسی وقت بتایا گیا کہ ملک کی خدمت کیا ہوتی ہے_ آج اس واقعے کو 60 سال گزر چکے ہیں مگر میرے ذہن میں اس کی یادیں بالکل تازہ ہیں
خواجہ شاہد کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سرسید ڈگری کے ساتھ تربیت پر زور دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کا کہنا تھا کہ اپنے بچے ہمیں سونپ دیں تاکہ ہم ایک چاردیواری میں اس کو تعلیم کے ساتھ تربیت دے سکیں ،کیونکہ گھروں میں ایسا ماحول نہیں تھا،لوگ پتنگ بازی اور کبوتر بازی اور دیگر فضول کاموں میں لگے رہتے تھے ۔انہوں نے بچوں کو ہاسٹل میں رکھنے کا نظام بنایا جو کہ وہ آکسورڈ یونیورسٹی اور کیمریج یونیورسٹی میں دیکھ کر آئے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت سے بچوں کو ایک اچھا اور ذمہ دار شہری بنایا جائے ۔ بچے ساتھ رہنے ، کھانا کھانے،سونے،جاگنے ،مطالعہ ،لباس سے لے کر بات چیت اوراخلاق کے معاملہ میں ایک مثال ہوں ۔میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سرسید نے بچوں کو ایک سانچے میں ڈھال کر دنیا کے سامنے ایک مثالی شخصیت بنانا چاہتے تھے ۔
انٹرویومیں خواجہ شاہد نے اے ایم یو کی روایات کی بات کرتے ہوئے کہا کہ روایات ڈائنامک ہوتی ہیں جو 1960 میں تھیں وہ 2024 میں نہیں ہوں گی ۔ نہ ہی میں ان سے یہ توقع کروں گا کہ وہ بالکل انہی روایات پر قائم رہیں جو 1950 کی دہائی میں تھیں۔ یہ ایک متحرک عمل ہے لیکن کچھ بنیادی چیزیں اس روایت کا حصہ تھیں۔ان میں کالی شیروانی ایک مثال ہے جو اب عام لباس میں نہیں ہے اس لیے اے ایم یو کے خاص پروگرامز میں نظر آتی ہے ،سینئر اور جونیر کے رشتے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ایک تہذیب ہے جو اب بھی برقرار ہے،ہمارے دور میں جوں ہی نئے بچے آتے تھے،سینئرز انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے،کسی کی فیس جمع کرنے میں مدد تو کسی کو ہاسٹل میں ایڈجسٹ کرانے میں مدد ۔ کسی نئے بچے کو اجنبیت کا احسا س نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب سر سید کے خواب تھے کہ تربیت اے ایم یو کے بچوں کو ایک منفرد مقام دلائے ۔
ساتھ ہی انہوں نے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی اور اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اب ادارے سے قومی سطح پر سیاسی قائد کا اجاگر ہونا تقریبا بند ہوگیا ہے لیکن اس کا سبب اسٹوڈینٹس یونین کا زندہ نہ ہونا ہے ،انہوں نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ ادارے میں طلبا کو اس سطح پر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو ابھارنے کا موقع ملے گا اور یونین کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا
خواجہ محمد شاہد کا اے ایم یو کی یادوں پر دیکھیں تفصیلی انٹرویو