جنگ آزادی: کون تھے ٹائیگر آف بنگال تیتو میر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 19-08-2024
 جنگ آزادی: کون تھے  ٹائیگر آف بنگال تیتو میر
جنگ آزادی: کون تھے ٹائیگر آف بنگال تیتو میر

 

محمد شمیم حسین ۔ کولکاتا
 
جنگ آزادی میں کچھ نام ایسے ہیں جو آج کے نئی نسل نہیں جانتی ۔ انہی میں ایک نام تیتو میر کا ہے۔ تیتو میر کا تعلق بنگال کے تحریک آزادی  کے مرد مجاہد سے ہے ۔ان کا اصل نام سید میر نثار علی تھا۔ وہ 27 جنوری 1786 میں بنگال کے ضلع 24 پرگنہ کے چاند پور میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام سید میر حسن علی اور والدہ کا نام عابدہ رقیہ بتایا جاتا ہے۔ تیتو میر' سید احمد شہید کی تحریک' تحریک مجاہدین سے کافی متاثر تھے ۔انہوں نے 33 سال کی عمر میں 1819 میں حج کیا ۔ حج سے واپسی کے بعد اپ نے اسلامی روح کے ز یر اثر غریبوں کی فلاح کا بیڑا اٹھایا ۔ انگریزوں اور بنگال کے ظالم زمینداروں کے خلاف آپ نے کلکتہ سے قریب نارکل باریہ نامی گاؤں کو اپنا مرکز بنایا اور اس کے بعد آزادی کا اعلان کر دیا ۔غلام معصوم خان کو امارت بنگلہ کی فوج کا سربراہ بنایا ۔ان کی فوج نے انگریزوں اور  زمینداروں کے مشترکہ گروپوں کو کئی موقع پر کئی جگہوں پر شکست دی ۔انگریزوں نے تیتو میر کے انقلابی فوج کو ختم کرنے کے لیے جدید اسلحہ کے ساتھ فوج بھیجی۔ کئی دنوں تک جنگ جاری رہی آخر کار تیتو میر کے فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ 
اس جنگ میں جو 19 نومبر 1831 کو تیتو میر نے لڑی تھی۔ کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں انگریزوں نے انہیں شہید کر دیا۔ 150 سے زائد ان کے ساتھی کو یا تو پھانسی دے دی گئی یا عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔محض 49 سال کی عمر میں تیتو میر نے حب الوطنی کے خاطر اپنی جان قربان کر دی لیکن بنگال کے زمیندداروں اور انگریزوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔بنگالی مسلمانوں میں انہوں نے جذبہ ایمانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس دلایا کہ انگریزوں سے وطن کو آزاد کرانا مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔
تتو میر بیک وقت عربی فارسی اور بنگالی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ مطالعہ اور جذبہ حریت نے انہیں ایک قائد بنا دیا۔ لہذا تیتو میر نے بنگال کے مسلمانوں میں اصلاحات رائج کی ،بنگالی مسلمانوں میں انہوں نے جذبہ ایمانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس دلایا کہ انگریزوں سے وطن کو ازاد کرانا مسلمانوں کی دینی فریضہ اور ذمہ داری ہے۔
مورخ تیتو میر کو' لٹھ باز' مسلمان کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں ۔تیتو میر پہلے بنگالی مسلمان ہیں جس نے نو آبادیاتی نظام اور زمیندرانہ نظام کے خلاف آواز بلند کی اور عوام کو متحد کیا،انہیں نا انصافی اور ظلم کے خلاف بیدار کیا۔
سر ولیم وڈ کے مطابق بنگال کے مسلم نوجوانوں  نے انگریزوں کو ہندوستان سے بھگانے کا منصوبہ تیار کیا۔ ابھی باضابطہ طور پر آزادی کی تحریک شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بنگال کے جیالوں میں جذبہ آزادی پنپتا رہا ، یہی وہ چنگاری تھی جس نے غلامی کی زنجیر کو توڑنے کی کوشش شروع کی۔ اگرچہ انگریز مورخ لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے دیگر ریاستوں میں رہنے والے بنگالی مسلمان بغاوت کی آواز اٹھانے سے ڈرتے تھے۔ ان کے اندر ڈر اور خوف موجود تھا لیکن یہ بھی سچ  ہےکہ بنگال کے مسلمان کھل کرانگریز حکومت کی مخالفت کرتے تھے ۔
 بن گئے لٹھ باز
جیسے جیسے وقت گزرتا رہا بغاوت اور انقلاب ان کے سینے میں جوش مارنے لگے ۔ آخر وہ دن بھی آیا جب بنگالیوں نے انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے اگرچہ بندوق کی جگہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف لاٹھیوں کا استعمال کیا۔جو ایک الگ تاریخ  بیان کرتی ہے ۔سر ویلیم وڈ کے مطابق لاٹھی اس زمانے میں ایک کارگر ہتھیار تھی۔ لاٹھی چلانا ایک فن مانا جاتا تھا ۔ صرف لاٹھی سے انگریزوں کو ٹھکانہ لگانے کا کام  تیتو میر کے جیالوں نے کچھ حد تک کیا۔ تیتو میر شروع سے ہی امیر جاگیرداروں کے خلاف غریب عوام کی تحریک کے لیے پیش پیش رہے۔ انگریز مورخ لکھتا ہے کہ بنگال میں کئی مقامات پر جب انگریز فوجیوں کا مقابلہ لٹھ بازوں سے ہوئی تو انگریز فوج ان کے سامنے ٹک نہ پائے اور انہیں میدان چھوڑ کر جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔
 ہزاروں ہزار جنگ آزادی کے مجاہدوں کے ناموں کی طرح تیتو میر کے نام کو بھی بھلا دیا گیا لیکن تاریخ کے اوراق سے انہیں نکالنا ناممکن ہے۔ اس دور میں بنگال برٹش انڈیا کمپنی کا حصہ ہوا کرتا تھا۔یہ اٹھارویں صدی کی بات ہے۔ انگریز اور بنگال کے زمیندار دونوں مل کر بنگال کے غریب عوام پر ظلم و ستم ڈھا رہے تھے۔ بنگال کے زمیندار' انگریزوں کے غلامی کر رہے تھے۔جس کا زیادہ تر شکار بنگالی مسلمان ہو رہے تھے۔ 
بنگال کے زمیندار، داڑھی کے نام پر مسلمانوں سے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ ایسے ماحول میں سید میر  نثار علی عرف تیتو میر نے انکھیں کھولی جب انہوں نے خود ہوش سنبھالا تو یہ دیکھا کہ کس طرح انگریز اور بنگال کے ز میندار سیدھے سادے بنگالیوں پر خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ظلم کا شکار بنا رہے تھے ۔ظلم و ستم کی گرفت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ بنگالی عوام غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو رہے تھے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور نہ ہی کوئی قائد۔ تتیتو  میر نے کم عمری میں ہی انگریزوں اور ظالم زمینداروں کے خلاف بغاوت چھیڑ دی۔ انہوں نے امیر جاگیرداروں کے خلاف غریب عوام کی تحریک کی قیادت سنبھالی اور بنگالی عوام بالخصوص مسلمانوں کو ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے بیدار کیا تاکہ وہ اپنا حق ظالم حکمراں اور زمینداروں سے حاصل کر سکیں۔
کہتے ہیں کہ تیتو میرنے کہا تھا کہ  جنگ کی تیاری کرنا بھی عبادت کے درجے میں آتا ہے۔ لہذا ان کی اس بات نے بنگالی مسلمانوں پر اتنا اثر کیا کہ وہ اپنی دفاع کے لیے لاٹھی چلانے کی تربیت لینے لگے ۔ جو جنگ کے دوران بہت کام آیا۔  لاٹھی کے وار سے ہی انگریز سپاہی دم توڑ دیتی ان کی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی اور وہ کسی کام کے نہ رہتے۔دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں ہی تیتو میر کی قیادت میں لاٹھی بردار سپاہیوں کی ایک فوج تیار ہو گئی تھی۔
جب زمین داروں کے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے تیتو میر کے فوج جب غالب ہونے لگے تو بنگال کے زمین داروں کو یہ لگنے لگا کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے۔ وہ تیتو میر کے لٹ بازوں  سے شکست کھا جائیں گے اور ان کی زمینداری خطرے میں پڑ جائے گی۔ تب بنگال کے زمینداروں نے برطانیہ حکومت سے مدد مانگی۔ ایک طرف انگریزی حکومت کے پاس  اسلحہ  تھا اور تیتو میر کے پاس صرف لاٹھی بردار فوج ' بم بارود بندوق  توپ کے اگے لاٹھی آخر کب تک کام آتی ۔ اس کے باوجود تیتو میر اور ان کے سپاہی آخری دم تک ان انگریز سپاہیوں کے دانت کھٹے کیے اور ہار نہیں مانی جب تک ان کی جان باقی رہی شہید ہوتے  رہے لیکن اپنے مکار دشمنوں  کے اگے ایک قدم  بھی نہیں جھکے اور  نہ ہی  سر خم تسلیم کیا۔انگریز فوجیوں  سے لڑنے کے لیے تیتو میر نے پہاڑیوں کے دامن میں ایک بانس کا قلعہ تعمیر کیا جہاں سپاہیوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ اس قلعے میں تیتو میر کے سپاہی لاٹھی تلوار نیزہ اور برچھا چلانے کی مشق کرتے تاکہ وہ انگریزی سپاہیوں پر وار کر سکیں اور انہیں ڈھیر کر سکیں۔ جب جب موقع ملتا جوان نہایت ہی چالاکی سے انگریز سپاہیوں پر ٹوٹ پڑتے اور ان کا کام تمام کر دیتے تھے۔ انگریز حکومت تیتو میر کے ان جیالوں سے اتنا خائف رہنے لگے کہ ان پر ایک طرح کی  دہشت طاری ہو گئی۔ مسلمان توحید کے اتنے پکے ہیں کہ انہیں موت سے بالکل ڈر نہیں لگتا اور بے جگری سے انگریز سپاہیوں  کا سامنا کرتے اور شہید ہو جاتے۔  ان کی ہمت جرات اور شجاعت دیکھ کر انگریز سپاہی گھبرا گئی اور انہیں میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ 
  حالت بگڑتا دیکھ کر انگریزوں کے اعلی کمانڈر تیتو میر کو خریدنے کی کوشش کی اس کے  علاوہ بنگال کے سرکش زمینداروں نے بھی انہیں ہر طرح کی لالچ دی لیکن ایمان کی طاقت نے انگریزوں اور زمیندار  کے سامنے تیتو میر کو فروخت ہونے سے روک دیا کیونکہ  تیتو میرے  اور انکے سپاہی وطن ہند سے غداری نہیں کرنا چاہتے تھے۔
 انہوں نے صاف کہہ دیا کہ بھلائی اسی میں ہے کہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر اپنے وطن واپس چلے جائیں اور اہل وطن بالخصوص بنگالی مسلمانوں پر ظلم و ستم بند کریں ۔ تیتو میر نے جب اعلان جنگ کر دیا اور اپنے سپاہیوں سے کہا کہ ہمیں شہادت منظور ہے لیکن غلامی نہیں۔ لہذا تتو میر اور ان کے سپاہیوں نے انگریزوں کی غلامی کا طوق پہننے سے صاف انکار کر دیا اور اخری دم تک وہ انگریزوں اور بنگال کے زمینداروں کے خلاف حق اور انصاف کے لیے لڑتے رہے۔
 ایک موقع پر تیتو میر نے اپنے  جیالوں سپاہیوں سے کہا کہ وہ انگریز حکومت کی قانون کو ہرگز تسلیم نہ کرے اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ریاست تشکیل دیں۔ تتیو  میر کو یہ خبر تھی کہ انگریزوں سے جنگ کا مطلب شکست ہے کیونکہ انگریز فوجیوں کے پاس اسلحہ تھے اور تیتو میر کے سپاہیوں کے پاس صرف اور صرف لاٹھی۔ تیتو میر اس بات سے باخبر تھا کہ اس لڑائی کا انجام سوائے شکست کے اورکچھ نہیں لیکن اس نے جیتے جی شکست تسلیم نہیں کی کیونکہ ان کے سپاہیوں کا کہنا تھا کہ ہم اپنی جان ملک کے لیے قربان کر دیں گے لیکن انگریزوں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے اور نہ ہی وطن کی ابرو نیلام ہونے دیں گے۔
 14 نومبر 1831 تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جب برطانیہ کے فوجیوں نے قلع پر حملہ کر دیا جو نارکل باڑیا، 24 پرگنہ ضلع کے قریب بنایا گیا تھا۔ بقول مورخ  گولیوں کی برسات سے بھی کہا ڈرنے والے تھے یہ لٹھ باز بردار سپاہی تقریبا 15 ہزار بنگالی مسلم سپاہیوں لاٹھی لے کر انگریز فوجوں پر اس قدر ٹوٹ پڑے کہ دنیا نے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ گولیوں کا سامنا کس طرح لٹھ بازوں نے لاٹھیوں سے کیا۔ لاٹھی بردار سپاہیوں نے بندوق بردار سپاہیوں پر لاٹھیوں کی بارش کر رہے تھے ۔وہ ڈھیر بھی ہو رہے تھے لیکن ان کی زبان پر کلمہ شہادت اور کلمہ طیبہ جاری تھی اور وہ خوشی خوشی شہادت نوش فرما رہے تھے۔ صرف اور صرف ملک کی حفاظت اور آزادی کے لیے نہ کہ حکومت سازی کے لیے یہ سب کر رہے تھے۔ 
 12 گھنٹوں تک یہ جنگ جاری رہی جس کی قیادت تیتو میر بڑی جواں مردی سے کر رہے تھے انگریز تاریخ داں لکھتا ہے ک تیتو میر کے سپاہیوں کے پاس لاٹھی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔ اکیلے  تیتو میر نے لاٹھی سے اٹھ انگریزیوں کو ڈھیر کر دیا ۔ اسی وقت انگریز سپاہیوں نے گولی سے تیتو میر کو بھون دیا اور وہ شہید ہو گئے ۔ انہوں نے ملک کے آزادی کے  لئے  شہادت کا جام نوش کر لیا۔ 
 انگریز مورخ ان کی ہمت ،حو صلہ سجاعت کو دیکھتے ہوئے انہیں بنگال کا شیر کہا (ٹائیگر اف بنگال) دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی لڑائی تھی جو گولیوں کا مقابلہ لاٹھیوں سے لڑی گئی اس شکست نے آخر کار ہندوستانی عوام میں جذبہ حب الوطنی کا ایک مثال  پیش کیا۔ اگرچہ تیتو میر یہ جنگ ہار گیا لیکن فتح اور نصرت کا ایک تاریخ لکھ گیا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے نام سے جگہ جگہ پروگرام کا انعقاد کریں، سیمینار کریں اور لوگوں کو بتائے کہ بنگال میں جو مجاہد وطن تھے۔ انہوں نے کس تگ و دور کے ساتھ آزادی کے لڑائی میں حصہ لیا اور اپنا ایک پہچان بنایا۔ تیتو میر بنگال کے ہیرو تھے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ اج ہم بھگت سنگھ کھودی  رام بوس ،بیپن چندرپال، نیتاجی سبھا س چندر بوس کو تو یاد کرتے ہیں لیکن تیتو میر جیسے مرد مجاہد وطن کی راہ میں جان قربان کرنے والے رہنما کو یاد نہیں کرتے۔