سو مجھے توفیق ذکر کر بلا دے دی گئی

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 22-07-2024
سو مجھے توفیق ذکر کر بلا دے دی گئی
سو مجھے توفیق ذکر کر بلا دے دی گئی

 

        ڈاکٹر عمیر منظر
          شعبہ اردو
         مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
 
اردو شاعری کے بارے میں بالعموم یہ رائے قائم کرلی گئی ہے کہ اسے کوچہ محبوب سے فرصت نہیں۔ زلف ورخسار کے قصیدے اور عشق ومحبت کی داستان کا بیان اس میں زیادہ ہے۔عاشق کی نامرادیوں اور محبوب کی نزاکتوں کے مضامین شعرا نے زیادہ باندھے ہیں لیکن اگر اردوشاعری کا مطالعہ کیا جائے تو کلی طورپر اس رائے کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ اردو شاعری میں انسانی زندگی کے تجربوں کا ایک سمندر ہے۔شاید ہی انسانی زندگی کا کوئی تجربہ اور واقعہ ہو جسے شاعری میں قسم نہ کیاگیا ہو۔بہت سے واقعات اور حادثات ایسے ہیں کہ وہ تاریخ سے زیادہ اردو شاعری میں روشن  ہیں۔واقعہ کربلا کے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اردو شعروادب نے جس طرح اپنے دامن میں اس واقعہ کو جگہ دی ہے اور اسے جس طرح بیان کیا ہے اس کی دوسری مثال کم ملے گی۔یہ محض ایک واقعہ یا سانحہ نہیں بلکہ اسے تاریخ کے تسلسل کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔انسانی فطرت اور نفسیات کو اس تناظر میں بیان کیا گیا ہے۔
اردو شعروادب میں واقعہ کربلا کا ذکر اس کے ابتدائی ز مانے سے ملتا ہے۔شمالی ہند کی اب تک کہ دستیاب سب سے پہلی باقاعدہ نثری کتاب ’کربل کتھا‘ ہے۔اسے ’دہ مجلس‘ بھی کہا جاتا ہے۔1732بمطابق 1145ہجری میں لکھی گئی۔دراصل ملا حسین ابن علی واعظ کاشفی کی فارسی کتاب روضۃ الشہدا کا آزاد ترجمہ فضل علی فضلی نے کربل کتھا کے نام سے کیا تھا۔اس میں کربلا کے مختلف واقعات کو نہ صرف بیان کیا گیا ہے بلکہ اس میں جذبات کی شدت بھی اس طرح ہے کہ پڑھنے والے پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔فضلی نے اسے اردو کے قالب میں ڈھالا ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا ہے اور کہیں کہیں اس سے انحراف بھی کیا ہے۔شہادت کا بیان بھی بہت ہی موثراورپردرد انداز میں گیا ہے۔جہاں اس میں مدح و مناقب ہیں وہیں واقعات کے بیان میں شاعری اور خاص طو پر مراثی سے مدد لی گی ہے۔روضۃ الشہدا مجالس عزا میں پابندی سے پڑھی جاتی تھی کتاب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کے ترجمے کئے گئے۔اس کتاب کو مالک رام اور مختارالدین آرزو نے مرتب کرکے 1965میں شائع کیا۔
اردو شاعری کی ایک صنف مرثیہ ہے۔یہ لفظ رثا سے نکلا ہے۔اس صنف میں مرنے والے کے حوالے سے اظہار افسوس ہوتا ہے اس کی مختلف خوبیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔شحصی مرثیے بھی کہے گئے ہیں لیکن اس صنف کا ایک سلسلہ واقعہ کربلا سے متعلق ہے۔جس میں امام حسین کی شہادت اور ان سے متعلق دیگر واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔واقعہ کربلا کو غزل اور دیگر اصناف میں پیش کیا گیا ہے لیکن مرثیہ کی صنف اس کے لیے خاص ہے۔انیس ودبیر نے اس صنف میں واقعہ کربلا کو اس طرح پیش کردیا ہے کہ تاریخ وسیرت کے علاوہ مراثی بھی واقعہ کربلاکے بارے میں جاننے اور سمجھنے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ان کا حسن بیان دیدنی ہے۔انھوں نے واقعہ کربلا کو اس طرح بیان کیاہے کہ لکھنو بھی اس واقعے کا ایک حصہ بن گیاہے۔یعنی جب بھی واقعات کربلا کا ذکر ہے امام کی شہادت کابیان ہوگا تو انیس ودبیر کا ِذکرناگزیر ہے۔ اسے اردو شاعری کے ایک امتیاز ی پہلو سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔صبرو عزیمت کی جو داستان امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے پیش کی ہے وہ تاریخ کاایک عظیم واقعہ ہے۔قربانی اور عزیمت کی یہ وہ داستان جس کا بیان کبھی ختم نہیں ہوا۔اس واقعہ کے مختلف پہلو ہیں اور ہر پہلو کو اگر سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ شعرا نے اس پر کیسے کیسے شعر کہے ہیں۔اس واقعہ کا مرکزی کا کردار امام حسین ہیں۔ان کی شہادت کو سامنے رکھ کر شعرانے کیسے کیسے مضامین باندھے ہیں۔اردو مرثیہ میں انیس ودبیر کو جو حیثیت حاصل ہے وہ کسی کو نہیں مل سکتی ہے۔میر انیس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیس
کربلا کے واسطے میں کربلا میرے لیے
مراثی میں جنگ کا بیان اس طرح کیا جاتا ہے کہ میدان جنگ کا پورا نقشہ نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔میدان جنگ میں شجاعت دینے والوں کا بیان یا ان اسلحوں کا نقشہ اس طرح کھینچا جائے کہ ذہن و دماغ میدان جنگ میں پہنچ جائیں نیز فتح یا شکست کو اس طرح بیان کیا جائے کہ غم کی ایک لہر دوڑ جائے۔دل کی وہ کیفیت نہ رہے بلکہ وہ گہری اداسی میں چلا جائے۔مرثیہ نگاروں کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے اس کو واقعتااس طرح بیان کیا کیا ہے یہی محسوس ہوتاہے کہ سب کچھ ہمارے سامنے ہورہا ہے۔اس میں تلواروں کی چمک بھی دکھائی دیتی ہے۔ہتھیاروں کی جھنکار بھی داد شجاعت دینے والے بہادر بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔میر انیس کے مرثیوں میں رزمیہ کا بیان دراصل ان کے تخلیقی جلال کی ایک جہت کہی جاسکتی ہے۔
امڈی ہوئی تھی فوج پہ فوج اور دل پہ دل
تھے برچھوں کی صورت مقراض پھل پہ پھل
خنجر وہ جن کی آب میں تھی تلخی اجل
وہ گرز جن کے در سے گرے دیومنہ کے بھل
دو دوتبر تھے پاس ہر ایک خود پسند کے
حلقو ں میں پہ تھے بچھے ہوئے حلقے کمند کے
واقعہ کربلا کی گونج اردو غزل میں بہت ہے۔ظلم وجبر کے استعارے کے طور پر تو اس واقعے کا ذکر ہوتا ہی ہے لیکن مذہبی اور تہذیبی تناظر میں بھی اسے دیکھا گیا ہے۔مولانا محمد علی جوہر نے اس واقعہ پر ایک ایسا شعر کہہ دیا جو اردو کے مشہور زمانہ اشعار میں ہے
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اسلام ایک آفاقی دین ہے۔اس کی تعلیمات بنی نوع انسانی کے لیے ہیں۔پر آشوب حالات اور زمانہ کی خرابی اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتی بلکہ یہ اس کے لیے ایک نئی زندگی کا سبب بنتی رہی ہے، جیساکہ کربلا کا واواقعہ ہے۔امام حسین کی شہادت تاریخ اسلام کا کوئی واقعہ نہیں ہے۔اس حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ہمارے زمانے کے ایک شاعر جناب مصداق اعظمی نے اس واقعہ کو عصر حاضر سے مربوط کردیا ہے۔دراصل حق کے سامنے ڈٹ جانا، عزیمت کی راہ اختیار کرنا تو دلیروں کا کام ہے لیکن اس کے برخلاف جو رویہ ہوتا ہے وہ دراصل بزدلی ہے۔مصداق اعظمی نے بہت سلیقے سے قتل حسین میں ان تمام لوگوں کو شامل کردیا ہے جنھوں نے اس اہم واقعہ پر خاموش رہنا گوارا کیا ہے۔یعنی آج بھی جو لوگ عزیمت کی راہ سے دوری اختیار کرتے ہیں،حق کے لیے سینہ سپر نہیں ہوتے وہ دراصل اسی قتل میں شامل ہوتے ہیں۔ مصداق اعظمی کابہت مشہور شعر ہے۔
تمام شہر تھا قتل حسین میں شامل
میں کتنے نام بتاؤں تمہیں یزید کے بعد
واقعہ کربلا کا ایک سبق صبر و عزیمت ہے۔اسلامی تاریخ کے لیے یہ لفظ بہت اہمیت رکھتا ہے۔صبر خاموش رہ جانا نہیں ہے بلکہ یہ دراصل عزیمت ہے اور اسی کے راستے کام یابی ملتی ہے۔اس حوالے سے بے شمارواقعات بیان کیے جاتے ہیں۔واقعہ کربلا کے تناظر میں بہت سے شعرا نے  شعر کہا ہے۔عرفان صدیقی کا بہت مشہور شعر ہے
ہوائے کوفہ نامہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمہ صبر و رضا میں زندہ ہیں
لو ہاتھ اہل صبر و رضا نے کٹا دیے
اب ظلم سوچتا ہے کہ بیعت کہاں سے لائے
ٰٓواقعہ کربلا کے ذیل میں پیاس اور پانی کا ذکر خاص اہمیت کا حامل ہے۔یہ ذکر اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔پہلے محسن نقوی کا شعر دیکھیں۔
پلٹ کے آگئی خیمے کی سمت پیاس مری
پھٹے ہوئے تھے سبھی بادلوں کے مشکیزے
محسن نقوی
استاد قمر جلالوی نے پانی سے کیا مضمون نکالا ہے۔ان کی یہ رباعی بھی کمال کی ہے
نشہ چودہ سو برس کا نہیں جاتا ساقی
ایسا میخانہ نظر ہی نہیں آتا ساقی
کربلا والوں کی تقدیر میں خالص تھی شراب
پانی ملتا بھی کہاں تھا کہ ملا تا ساقی
اردو غز ل کے دامن میں واقعہ کربلا کے تناظر میں بے شمار اشعار ہیں۔یہ پورا واقعہ مرکزی حوالہ ہے جس کے مختلف کرداروں اور واقعات سے اسے شعری پیکر میں ڈھالا گیا ہے۔ارتضی نشاط کا شعر ہے۔
ہماری کشمکش ہے کربلا کی کشمکش جیسی
گلا سوکھا پڑا ہے ہاتھ پھیلانا نہیں آتا
غم حسین کے احترام کا مضمون بھی کس خوبی سے باندھا گیاہے۔نئی غزل کے تازہ کار شاعرعبداللہ ندیم کا شعر ہے
احترام غم حسین میں ہم
خشک آنکھوں سے گریہ کرتے ہیں
مصحفی نے اسی واقعہ کے تناظر میں کیا مضمون نکالا ہے۔
مصحفی کرب و بلا کا سفر آسان نہیں
سینکروں کوفہ و بغداد میں مرجاتے ہیں
میرتقی میر نے عمل کی جہت کو روشن کیا۔
مکے گیا مدینے گیا کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا
آخر میں پروفیسر سراج اجملی کے چند اشعار جو انھوں نے بطور سلام عرض کیے ہیں ملاحظہ فرمائیں ؤ
مصطفی کے گھر کی مدت کی رضا دے دی گئی
شکر ہے مجھ کو بہائے بے بہا دے دی گئی
حق کے شیداؤں کی مدحت روز مرہ تھا مرا
سو مجھے توفیق ذکر کر بلا دے دی گئی
سراج اجملی