عمیر منظر
خطۂ اعظم گڑھ اپنی علمی و ادبی بصیرتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی بیداری کا بھی مرکز رہا ہے۔ 1857کی ناکام جنگ آزادی سے پہلے بھی یہاں کے لوگوں نے شجاعت و جواں مردی کا نہ صرف مظاہرہ کیا ،بلکہ ملک مخالف طاقتوں سے اپنی سیاسی بصیرت کا اعتراف بھی کرایا ۔ سیاسی بیداری کی وجہ سے یہ علاقہ تحریک آزادی کے مجاہدین کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ 1857کے بعد انگریزوں کی اس علاقے پر خاص نگاہ تھی ۔ ۱۹۱۷ میں جب سیوم راولٹ ایکٹ کا نفاذ برطانوی حکومت نے کیا تو پورے ملک میں اس کے خلاف زبردست رد عمل ہوا۔اعظم گڑھ اور مضافات کے بہت سے علاقے اس تحریک میں شامل ہوئے ۔
ستمبر1921میں جب ولایتی کپڑوں کا بائیکاٹ کیا گیا تو ہندو مسلم سب ایک پلیٹ فارم پر آگئے اور مہاتما گاندھی کی قیادت میں باغیانہ تقریروں نے ان کے جذبات کو اور بھی برانگیختہ کر دیا۔گاندھی جی نے اس وقت عوامی قیادت کے خلا کو نہ صرف پر کیا بلکہ وہ ایک زبردست عوامی قائد کے طور پر سامنے آئے اور جدوجہد آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ ہی ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ وہ مہاتماگاندھی بن گئے ۔انگریز ان کو دیکھ کر خوف کھاتے تھے ۔
ولایتی کپڑوں کے بائیکاٹ کی تحریک کوئی معموسیاسی فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس کے دور رس اثرات ہوئے ۔اس اہم فیصلہ کی تائید میں اعظم گڑھ اور اطراف کے لوگوں نے غیر ملکی کیٹروں کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ مبارک پور اور مؤ یہ دو ایسے قصبے تھے جو سوتی کپڑوں کی صنعت کے بڑے مراکز تھے۔ بائیکاٹ کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا مگراس کے باوجود تحریک آزادی کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ یہی زمانہ ہے جب کانگریس کمیٹی اور خلافت کمیٹی کے اہم سربراہان کا سفر اعظم گڑھ اور مؤ کی طرف ہونے لگا۔ ان سربراہان میں مولانہ محمد علی جوہر، شوکت علی، پنڈت موتی لال نہرواور پنڈت جواہر لال نہرو وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح مہاتما گاندھی کی کھدر تحریک بھی مقبول ہوئی۔ مؤ کے رضا کاروں کے بارے میں حاجی شاہ افضال اللہ قادری نے لکھا ہے کہ:
‘‘قصبہ مؤ کے رضاکار سفید کھدر کی وردی ، گاندھی ٹوپی پہنے ہوئے پریڈ اور مارچ کرتے تھے ، ڈرل ماسٹر بجائے انگریزی اصطلاحات کیــ ‘‘ چپ برو راست برو’’ کہتے تھے۔(تاریخ اعظم گڑھ ،ص 62)
انھوں اعظم گڑھ کی ایک پولیٹکل کانفرنس کا حال بھی لکھا ہے ۔یہ اپنی نوعیت کی منفرد کانفرنس ہوتی تھی ۔وہ لکھتے ہیں :
شہر اعظم گڑھ میں کے کربلا میدان میں ہر سال ضلع پولیٹکل کانفرنس منعقد ہوتی تھی ۔اس کانفرنس کا نہایت شاندار پنڈال بنتا تھا ، جو تمام تر کھدر کا ہوتا تھا،فرش وشامیانہ سب اسی کا ہوتا تھا ،پنڈال میں گیلریاں بھی بنائی جاتی تھیں،ہر گیلری پر تختی آویزاں رہتی تھی۔مجلس استقبالیہ کے صدر مولانا سید سلیمان ندوی اور نگراں مولانا مسعود ندوی ہوتے تھے ،ان کی ہر آواز پر سارا ضلع بہ بانگ دہل لبیک کہتا تھا ۔(ص، 62)
کھدر تحریک کی یہ کانفرنس نہ صرف بہت اہم ہوتی تھی بلکہ قومی رہنماؤں کی سیاسی بیداری کی غماز تھی۔واضح رہے کہ کھادی کو ہمارے رہنماؤں نے ہندستانی انسانیت ،اقتصادی آزادی اور برابری کی علامت قرار دیا ہے ۔جواہر لال نہروں نے تو اسے آزادی کا بانا کہا ہے ۔(نیا دور لکھنؤ جنوری 1996) اس زمانے کے بیشتر چوٹی کے لیڈران اس کانفرنس میں آتے تھے اور اپنی ولولہ انگیز تقریروں سے لوگوں کے دلوں کو جوش و جذبے سے سرشار کرتے تھے۔ پنڈت موتی لال، پنڈت نہرو، سروجنی نائیڈو، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر ، تصدق حسین شیروانی ،ڈاکٹر سید محمود جیسے رہنمایاں آزادی شریک ہوتے تھے۔
تحریک آزادی کے دنوں میں شبلی اکیڈمی کو مرکزیت حاصل تھی ۔ بلا تفریق مذہب وملت سیاسی رہنماؤں کی آمدو رفت یہاں رہتی ۔ گاندھی جی اعظم گڑھ آتے تو شبلی منزل ضرور آتے ۔ سید صباح الدین عبدا لرحمٰن نے لکھا ہے کہ:
‘‘گاندھی جی جب اپنے دورہ میں اعظم گڑھ آئے تو ان کے قیام کا انتظام تو اور جگہ تھا مگر وہ خود شبلی منزل آئے اور ایسے وقت آئے کہ اہل دارالمصنفین ایک کھلی جگہ پر مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ دیکھ کر گاندھی جی نہایت ادب اور خاموشی سے کنارے بیٹھ گئے اور ساتھ آنے والوں کو باادب اورخاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔ انھوں نے دارالمصنفین کے کتب خانے کو لالٹین کی روشنی میں دیکھا اور جب دارالمصنفین کے ایک رفیق نے ان کے سامنے دستخط کے لیے اپنی یادداشت کی کتاب پیش کی تو انھوں نے اپنا دستخط اردو میں کیا۔ ’’(یادرفتگاں، سید صباح الدین عبدالرحمن جلد دوم،ص،33)
پورے ملک میں آزادی کی تحریک شباب پر تھی ، گاندھی جی کے لیے محبت وعقیدت کی ایک ایسی فضا قائم ہوگئی تھی کہ جس کا کوئی توڑ نہیں تھا ۔ خود گاندھی جی نے دیسی سامانوں کے استعمال کی جو تحریک چلائی وہ سیاسی سطح پر بے حد کامیاب رہی۔ اس کے اثرات ملک کے دیگر خطوں کے ساتھ ساتھ اعظم گڑھ میں بھی تھے۔ چرخے کی جو تحریک انھوں نے شروع کی تھی یہ اسی کا نتیجہ تھاکہ لوگوں نے کتائی بنائی کو لازمی کر لیا تھا ۔ اسی تناظر میں گاندھی جی سے متاثر ہوکراعظم گڑھ میں بعض ایسے کام کیے گئے جو سیاسی و تعلیمی بصیرت کے غماز ہیں۔شعیب اعظمی کے بقول:
‘‘اسی سلسلے کی ایک کڑی تعلیمی اسکول کی تھی، جو گاندھی جی کے نام پر محلہ پہاڑ پور میں مولانا شبلی کے والد حبیب اللہ مرحوم کے مکان میں کھولا گیا، جو طلبہ اسکول چھوڑ چکے تھے یا جن کا نام اسکول سے خارج ہوچکا تھا ان کی بڑی تعداد اس اسکول میں داخل ہوئی ۔شاہ علاء الحق وکیل اس مدرسے کے اہم سرگرم کارکن اور مدرس تھے۔’’(پروانۂ چراغ مزارخودیم ما،حکیم محمد اسحاق ،ص،55)
واضح رہے کہ سول نافرمانی تحریک نمک ستیہ گرہ کے زمانے میں اعظم گڑھ کے لوگوں کا تحریک کے تئیں جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ 13،اگست 1929ء کو گاندھی جی اعظم گڑھ تشریف لائے تھے۔ حاجی شاہ افضال اللہ قادری کے بقول:
‘‘شری کرشن پاٹھ شالہ،چھتریا کالج کے وسیع میدان میں اور بہت بڑے مجمع میں ان کی تقریر ہوئی تھی۔ ٹھاکر سورج ناتھ سنگھ ایڈوکیٹ، سیتا رام استھانہ وکیل،مولانا مسعود علی ندوی ان کو دوہری گھاٹ تک پہنچانے لے گئے تھے۔’’(تاریخ اعظم گڑھ،ص،63)
شاہ معین الدین احمد ندوی نے حیات سلیمان میں لکھا ہے کہ:
‘‘ناگپور کانگریس کے بعد پورا ہندوستان ترک مولات کی تحریک سے گونج رہا تھااور یوپی میں اعظم گڑھ اس کا ایک بڑا مرکز بن گیا تھا۔’’(حیات سلیمان،2011،ص185)
آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا ایک اجلاس 1921 میں احمدآباد گجرات میں ہو اتھا، جس میں سید سلیمان ندوی بھی شریک تھے ، اس اجلاس میں انھیں ورکنگ کمیٹی کا ممبر بنایا گیا تھا اس کے بارے میں خود سید سلیمان نے لکھا ہے کہ:
‘‘کانگریس ورکنگ کمیٹی کے دس ممبروں میں ایک میرا انتخاب ہوا۔ بڑے بڑے مدعیان سیاست اور ارباب عمائم اس عزت کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ کررہے تھے...آپ سن کر خوش ہوں گے کہ گاندھی جی نے میرے متعلق بڑی اچھی رائے لوگوں سے ظاہر کی ہے۔’’(حیات سلیمان،شاہ معین الدین احمد ندوی ،ص،185)
ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قومی بیداری میں خطۂ اعظم گڑھ گاندھی جی سے کس قدر قریب تھا۔ گاندھی جی کا شبلی اکیڈمی اور خطۂ اعظم گڑھ سے والہانہ تعلق کا اظہار اس خط سے ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر سید سلیمان ندوی کو بھیجا تھا۔ انھوں نے اردو میں یہ خط 13فروری1945ء کو لکھا تھا۔ یہ خط در اصل مولانا سید سلیمان ندوی کے نام ہندوستانی پرچار سبھا کی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ہے۔ گاندھی جی کے خط کی عبارت ہے۔
‘‘ بھائی صاحب:
26۔27 فروری کو ہندوستانی پرچار سبھا کی کانفرنس ہوگی ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس میں شریک ہوں اور اس سوال کے سلجھانے میں حصہ لیں۔ مجھے آشا ہے کہ آپ ضرور آویں گے۔ آنے کی تاریخ اور وقت سے خبر دیں گے۔
آپ کا
موہن گاندھی
بنام:
مولانا سید سلیمان ندوی
شبلی منزل اعظم گڑھ
گاندھی جی نے ہندوستانی زبان و ادب کے متعلق جس طرح سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔خود سید سلیمان ندوی گاندھی جی کے نظریۂ‘ہندوستانی’ کے حامی تھے۔ اس کے پیچھے جو مقصد کارما تھا، وہ ہندوستانیوں کو بغیر کسی بھید بھاؤ کے ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا۔ چونکہ انگریزوں نے کو یہ بات قطعی طور پر قابل قبول نہیں تھی۔ اسی لیے انگریزوں نے تشدد سے ڈر پیدا کرکے اپنی حکومت قائم رکھنا چاہتے تھے اور گاندھی جی عدم تشدد کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرکے انگریزوں سے ملک آزاد کرانا چاہتے تھے۔ یہی وہ بنیادی فرق تھا، جس میں انگریزوں کی شکست اور آسان ہوگئی۔ اور گاندھی جی دیکھتے دیکھتے امن و انسانیت کے ایک علم بردار بن کر سامنے آئے ۔
گاندھی جی نے جو کچھ کیا، جو کچھ کہا، اس پر ہندوستانی عوام نے اپنا پورا تعاون پیش کیا، اس میں کسی علاقے کو بطور خاص نہیں، بلکہ سب خواص کے زمرے میں آتے ہیں۔ قومیت کا تصور گاندھی جی کے نزدیک بالکل واضح تھا۔ لیکن بعض علاقے وہ ہیں جن کو بیدار کرنے میں گاندھی جی غیر معمولی کردادر ادا کیا۔ جنگ آزادی دراصل انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی فتح کی صورت میں دیکھی جانی چاہیے۔ ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں نے اس میں اپنا بڑھ چڑھ کر کردارادا کیا۔
اعظم گڑھ میں گاندھی جی کا جانا یقینا ایک تاریخی واقعہ ہے۔لیکن ان کی اس آمد کو ہم قومی بیداری سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ کیونکہ انگریزوں کی بعض پالیسی سے سب سے زیادہ نقصان اعظم گڑھ اور نواح اعظم گڑھ کو اٹھانا تھا، ایسے میں لوگوں نے غلامی پر بھوک کو ترجیح دی۔لوگوں کے اس جذبے کو گاندھی جی اور ان کے رقفا نے اور بھی پروان چڑھایا۔ تاریخ کا جب بھی مطالعہ پیش کیا جائے گا تو گاندھی جی کا دورۂ اعظم گڑھ کا ذکر بہت تزک واحتشام کے ساتھ کیا جائے گا۔ اور اس سیاسی بیداری کا بھی جو اس خطہ میں تھی ۔
کتابیات
۱۔پروانۂ چراغ مزارخودیم ما،حکیم محمد اسحاق ،شعیب اعظمی (مرتب )دہلی ،1975
۲۔تاریخ اعظم گڑھ ،حاجی شاہ افضال اللہ قادری ،اعظم گڑھ 2011
۳۔حیات سلیمان ،شاہ معین الدین احمد ندوی ،دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ، 2011
۴۔یادرفتگاں، سید صباح الدین عبدالرحمن ،دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ جلد دوم2009