ڈاکٹر العیسیٰ : میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-07-2023
ڈاکٹر العیسیٰ  : میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
ڈاکٹر العیسیٰ : میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

 



منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ ۔۔۔ مسلم ورلڈ لیگ کے سربراہ، سعودی عرب کے معروف دانشور،سابق وزیر انصاف  اور سیاسی وہ۔جب ہندوستان کے دورے پر آئے تو لوگ سمجھ رہ تھے کہ سعودی عرب کے عالم ہیں،دانشور ہیں اور اصلاح کار ہیں ،جب بولیں گے تو شاید ان کی باتیں دل و دماغ میں اترنے کے بجائےسر سے گزر جائیں گی۔ملک کے دانشور اور علما ہی ان کے پیغام کو پڑھ اور سمجھ سکیں گے اور پھر عام لوگوں تک پہنچائیں گے ۔ لیکن ہوا اس کے برعکس ۔ ان کی باتیں سر سے نہیں گزریں بلکہ دل میں اتر گئیں اور دماغ کو جھنجھوڑ گئیں ۔ انہوں نے بتا دیا کہ عالم اور دانشور وہ ہوتا ہے جس کا پیغام ہر عام اور خاص کو یکساں طور پر سمجھ میں آجائے۔ بات سیدھی ہو،بنیادی ہو،واضح ہو اور نیک نیت کے ساتھ ہو تو دل میں اترنے میں وقت نہیں لیتی ہے

حقیقت یہی ہے کہ کچھ دنوں قبل تکہندوستان کے مسلمان بھی اس نام سے اچھی طرح واقف نہیں تھےمگر ڈاکٹر العیسیٰ کے پانچ روزہ دورہ ہند کے بعد اب وہ انجان نہیں رہے کیونکہ اپنی ایک پہچان اور چھاپ چھوڑ گئے ۔ خواہ وہ مسلمان ہوں ،ہندو یا سکھ یا عیسائی۔ سب کے لیے ان کا پیغام بالکل صاف اور واضح تھا۔ بین المذاہب ہم آہنگی ،بھائی چارہ اور خلوص و محبت،احترام اور رواداری  برقرار رکھیں ۔۔۔

آپ کو بتا دیں کہ ڈاکٹر العیسیٰ کا دورہ ہند خسرو فاونڈیشن کی امن کانفرنس کے سلسلے میں تھا ، اس دورہ کو یقینی بنانے میں قومی سلامتی مشیر  اجیت ڈوبھال نے اہم کردار ادا کیا تھا ،جو ملک میں مختلف مذاہب میں ہم آہنگی  اور مذہبی رواداری کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ڈاکٹر العیسیٰ  اس دوران مزید پروگرامز میں شرکت کی ،صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم سے وزیر اقلیتی امور تک سب سے ملاقاتیں کی۔

دراصل ڈاکٹر العیسیٰ کے دورے سے قبل ایک ہوا کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی،ان کے مقاصد پر بحث کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن جوں جوں ان کے پروگرامز اور پیغامات نے موتیوں کی مالا کی شکل لی تو سب خام خیالی دھری کی دھری رہ گئی۔ڈاکٹر العیسیٰ کے پیغامات نے سب غلط فہمیوں کو تو دور کیا ،جن سے ظاہر اور ثابت ہوا کہ وہ سیاست سے دور ہیں،ان کا مقصد بین الامذاہب ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینا ہے۔

کہتے ہیں بڑے لوگ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے بڑے سبق دے جاتے ہیں،ڈاکٹر العیسیٰ نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ انہوں نے جو پیغام دئیے وہ سیاسی نہیں بلکہ دینی تھے۔دین کی باتیں اور وہ باتیں جو اسلام کی بنیاد ہوتی ہیں،ان کی یاد دہائی کرانے کا کام کیا ۔بات واضح ہے کہ ہم ہوں یا دنیا کے مسلمان ،بیشتر دین کو بھول چکے ہیں یا اگر یاد بھی ہے تو واٹس ایپ کے پیغامات فاروڈ یا آگے بڑھانے کی ذمہ داری تک  محدود رہتا ہے ۔

awazurdu

 ڈاکٹر العیسیٰ نے خسرو فاونڈیشن سے جامع مسجد میں نماز جمعہ کے خطبہ تک اور ویویکانند فاونڈیشن سے اکشر دھام مندر تک جو باتیں کیں ان سے بنیادی پیغام یہی تھا کہ ہم اسلام کے پیغام کو بھول گئے ہیں ،ان باتوں کو جو ہمیں نہ صرف مذہب کا سفیر بناتی ہیں بلکہ دیگر قوموں کے قریب لے جاتی ہیں ۔

اگر ہم ان کے پیغامات پر نظر ڈالیں تو  ۔۔۔

اخلاق کو بہتر کریں

پڑوسیوں کا خیال رکھیں

انتہائی محبت کے ساتھ گفتگو کریں

قوانین اور ثقافت کا احترام کریں

رواداری اور اقدار کا خیال رکھیں

انسانیت کی احترام کریں

اسلام دوغلی بات کو پسند نہیں کرتا

ہمارا مذہب انسانیت ہے۔

ہم سب ایک ہی نسب سے ہیں۔

اسلام میں کردار اہم  ہے

انسانیت کے تحفظ پر یقین رکھیں

مومن سیدھے راستے پر چلتا ہے

مومن کو نرم دل ہونا چاہیے

تشدد شکست کا راستہ ہے

یہ ایسے پیغامات تھے جو ہمیں دراصل کسی سیاسی سوچ یا نظریئے کے بجائے دین کی جا نب متوجہ کراتے ہیں ۔جن پر چل کر دین اور دنیا میں توازن بنایا جاسکتا ہے،گھر اور گھر کے باہر کی زندگی کو سنوارا جاسکتا ہے ۔کسی کے لیے مثال بن سکتے ہیں ہم ۔ یہ پیغامات وہ ہیں  جو عام طور پر ہم بچوں کو قاعدہ کے بعد پڑھاتے ہیں۔تاکہ ان کے ذہین میں عبادت کے ساتھ دیگر ذمہ داریوں کے تئیں بیداری یا احساس پیدا ہو۔

ٹاکٹر العیسیٰ نے یہی پیغام پچھلے سال خطبہ حج میں دیا تھا کہ ۔۔۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اخلاق کو اختیار کریں، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رواداری اور اقدار کا خیال رکھیں۔ ایک دوسرے سے اچھے اخلاق سے بات کریں۔ مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہر کسی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے کلام میں نرمی پیدا کریں اور انتہائی محبت کے ساتھ گفتگو کریں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ اچھے رویے اور اچھے انداز سے گفتگو کریں۔

ہندوستان کو سلام

ڈاکٹر العیسی نے خسرو فاونڈیشن سے ویویکانند انٹر نیشنل فاونڈیشن تک جس بات پر سب سے زور دیا وہ مختلف مذاہب میں ہم آہنگی اور رواداری تھی لیکن اس کے ساتھ ملک کی جس خوبی کو سلام کیا وہ ’’تنوع‘‘ تھا۔ ڈاکٹر العیسیٰ نے کہا کہ انہوں نے ابتک ہندوستان تنوع کے بارے میں سنا تھا لیکن ہندوستان کے دورہ میں اس کو محسوس کیا اور دیکھا۔ہندوستان میں فکر کے تنوع نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ ہمیں انسانی اقدار کو برقرار رکھنے اور ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا ہندوستان کی حکمت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ بلکہ ہندوستانی فلسفہ بنی نوع انسان کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔

ڈاکٹر العیسیٰ کا یہ بیان ہم سب کےلیے اہم ہے، ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری بنیاد گنگا جمنی تہذیب پر ہے۔ ملک میں خواہ کچھ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے ماحول خراب ہو جاتا ہے لیکن آخر میں کوئی ایسی مثال سامنے آجاتی ہے جو منفی اثرات کو زائل کردیتی ہے  اور ہمیں اس بات کا احسا س دلاتی ہیں کہ ہماری طاقت یہی فرقہ وارانہ بھائی چارہ ہے۔ اسی خوبصورتی کو ڈاکٹر العیسیٰ نے بھی محسوس کیا، بیان کیا اور گواہی دی۔ پیغام واضح ہے کہ ہمیں اس خوبی کو برقرار رکھنا ہے،اس کی حفاظت کرنا ہے اور نئی نسل کو اس کی تعلیم  دینا ہے ۔

تشدد شکست کا راستہ

ڈاکٹر العیسیٰ نے ایک بڑا پیغام دیا کہ  تشدد  شکست کا راستہ ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ تشدد ہو یا جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ مکالمہ کو اہم قرار دیا جاتا ہے ۔ اگر ہمیں کسی بھی اختلاف کا دور کرنا ہے تو اس کے لیے مکالمہ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ یہ درمیانی راستہ ہوتا ہے جس میں ٹکراو نہیں ہوتا بلکہ راہ نکلتی ہے ۔

 جب بات قانون کے احترام کی آئی تو وہ کہتے ہیں کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمان ان ممالک کے آئین، قوانین اور ثقافت کا احترام کریں جہاں مقیم ہیں ان کی مذہبی سرگرمیاں ملک کے قوانین کے مطابق اور پرامن طریقے سے ہوں۔ ساتھ ہی مسلمان حکومت کے حتمی فیصلے کا احترام کریں۔ خواہ وہ قانون سازی ہو یا عدالتی۔

مسلمان حب الوطن ہیں

ڈاکٹر العیسیٰ نے ایک اہم بات یہ کہی کہ مجھ سے جو بھی مسلم رہنما ملے انہوں نے ہندوستان کے تنوع کی بات کی،وہ سب ملک کے وفادار ہیں،جنہیں مختلف مذاہب میں ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی فکر ہے۔ ان کا یہ بیان مسلم قیادت کے لیے حوصلہ افزا ہے ،جنہوں نے ملک کے بارے میں جو بھی بات کی، اس کا تعلق قومی سلامتی اور اتحاد سے تھا نہ کہ کسی ایک فرقہ سے ۔

 ڈاکٹر العیسیٰ نے یہ بھی کہا کہ  ۔۔ ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ نفرت پھیلانے والی کتابیں مثبت، تکثیری اور تعمیری پیغامات کو فروغ دینے والی کتابوں سے زیادہ پھیلی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبی تصادم کو روکنے کے لیے ہمیں بچپن سے ہی اگلی نسل کی حفاظت اور رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ غلط فہمیوں، نفرت انگیز نظریات اور غلط تصورات نے بنیاد پرستی سے دہشت گردی کی راہ کو تیز کر دیا ہے۔ٰ

ڈاکٹر العیسٰی کا یہ پیغام ہمیں ہوشیار کررہا ہے کہ جو بھی گمراہ کن پروپگنڈہ ہورہا ہے اس کے جھانسہ میں نہ آئیں اور نئی نسل کو اس سے محفوظ رکھیں۔ ان کے مطابق ہمیں فرق کو مٹانے اور پھر بھی متحد رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم ایک ہی درخت کے مختلف حصے ہیں۔ ہمارا مذہب انسانیت ہے۔ ہم سب ایک ہی نسب سے ہیں۔

ڈاکٹر العیسیٰ نے جو باتیں کی ہیں ،وہ ہمیں دین کے اس راستے کو دکھا رہی ہیں جنہیں ہم اپنی زندگی میں کہیں نہ کہیں نظر انداز کررہے ہیں یا انہیں اہمیت ہی نہیں دے رہے ہیں ۔جبکہ ان باتوں پر ہی ہماری ساکھ کا دارومدار ہے،یہی خوبیاں ہیں جو ہمیں اخلاق مند بناتی ہیں ،دوسروں کے قریب لاتی ہیں ،غلط فہمیاوں کو دور کراتی ہیں ،آپسی ہم آہنگی کا ضامن بنتی ہیں ۔ ڈاکٹر العیسیٰ کے خطابات اور خطبہ جمعہ ہمیں یہی پیغام دے گئے کہ محبت ،خلوص ،اخلاق اور رویہ ہماری زندگی کو بہتر بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ ہر مسئلہ کا حل مکالمہ میں تلاش کرنا ہی دانشمندی ہے ۔