حقانی القاسمی
اردوصحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر ہندوستان کے مختلف شہروںمیں جشن صحافت کا انعقاد کیا گیا اور اس کی مناسبت سے درجنوں کتابیں شائع ہوئیں اور سیکڑوں مقالے لکھے گئے۔ پھر بھی اردو صحافت کا موضوعاتی کینوس اتنا وسیع ہے کہ بہت سے زاویے اور جہات تشنہ ہی رہ گئے، اس لیے ہنوز صحافت کے حوالے سے کتابوں اور مقالوںکی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ نئے پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔ خاص طور پر بہت سے اُن اخبارات ورسائل کے تعلق سے مضامین کی اشاعت ہورہی ہے جن پر ماقبل میں کوئی خاص گفتگو نہیں ہوئی یا جنہیں دانستہ طور پر نظرانداز کیا گیا۔ حاشیائی بستیوں کے بہت سے اخبارات اور رسائل کا ذکر عموماً صحافت پر مرکوز کتابوں میں نہیں کیا جاتا۔ اُن حاشیائی رسائل وجرائد کے حوالے سے بھی بہت سی اہم معلومات سامنے آئیں اور اندازہ ہوا کہ اردو زبان وادب کے فروغ میں اُن رسائل کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔ ان رسائل سے بہت سی تخلیقی ذہانتوں سے آشنائی کی صورت نکلی اور بہت سے گمنام اور گمشدہ قلمکار بھی سامنے آئے ورنہ حاشیائی بستیوں کے جوہر قابل انہی رسائل میں مدفون ہو کر رہ جاتے۔
اردو صحافت پر مزید تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہے اور بہت سے مسائل ومتعلقات پر مخاطبہ بھی ناگزیر ہے۔ اسی لیے صحافت کے تعلق سے کتابیں ہنوز شائع ہورہی ہیں اور ہم لوگ نئے نئے پہلوئوں سے آشنا بھی ہورہے ہیں۔ صحافت پر اب تک کوئی مربوط اور مبسوط تاریخ ہنوز مرتب نہیں کی گئی ہے، اس لیے صحافت پر شائع شدہ یہ کتابیں نا مکمل صحافتی تاریخ کے لیے ایک تکملہ ثابت ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر منور حسن کمال کی کتاب ’اردو صحافت کے روشن نقوش‘ بھی اسی تکملاتی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ منور حسن کمال عملی طور پر صحافت سے وابستہ رہے ہیں، اس لیے انہیں صحافت کے مسائل ومتعلقات اور دیگر احوال وکوائف سے آگہی ہے۔ انہوں نے کمالِ صحافت کا دور بھی دیکھا ہے اور اب زوالِ صحافت کے دن بھی دیکھ رہے ہیں۔ انہیں کمال وزوال صحافت کا پورا اندازہ ہے، اس لیے انہوں نے اس کتاب میں جہاں صحافت کے عہدِ زریں کے نقوش رقم کیے ہیں وہیں صحافت کے دورِ زوال کی تصویریں بھی پیش کی ہیں۔
یہ کتاب تین نقوش پر محیط ہے۔ ’نقش اول‘ میں انہوں نے اُن صحافیوں کے کمالات کے حوالے سے مضامین تحریر کیے ہیں یثیت رکھتے ہیں، جن کی صحافتی خدمات کادائرہ بہت وسیع ہے اور جنہوں نے صحافتی منظرنامے کو نئے رنگ ونقش سے سجایا ہے۔ اُن میں اردو کے اولین شہید صحافی مولوی محمد باقر، حسرت موہانی، ابوالکلام آزاد، سرسید، ظفر علی خان، علامہ اقبال، محمد علی جوہر، مہاتما گاندھی اور مولانا عبدالماجد دریابادی جیسی عظیم اور روشن خیال شخصیتیں شامل ہیں ۔ صحافت کے باب میں یہ وہ معتبر دستخط ہیںجن کے ذکر کے بغیر صحافت کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہوسکتی ۔ یہ وہ عظیم نام ہیں جن کے لیے صحافت ایک مشن تھی، مادیت کی مشین نہیں، اس لیے انہوںنے صحافت کو کاسۂ دریوزہ گری نہیں بنایا، بلکہ صحافتی اخلاقیات اور اقدار کا پاس رکھا اور انہی کی وجہ سے صحافت کو وقار اوراعتبار بھی حاصل ہوا۔ منور حسن کمال نے ان تمام بلند پایہ صحافیوں کے صحافتی نقوش اور اِن کے صحافتی امتیازات کو واضح کیا ہے۔ان تمام شخصیات پر بیشتر کتابوں میں مقالات ، مضامین شامل رہتے ہیں مگر منور حسن کمال نے اِن کی صحافت کو بہ انداز دگر پیش کیا ہے، اس لیے اِن مضامین کی شمولیت کاجواز بھی ہے اور اسی نقش اول میں ایک اور بیش قیمت مضمون شامل ہے جس میں انہوں نے قدیم دلی کالج کی خدمات کاجائزہ پیش کیا ہے۔ اس کالج کا امتیاز واختصاص یہ ہےکہ ’محب ہند‘ ،’قران السعدین‘ اور ’فوائد الناظرین‘ جیسے وقیع علمی وادبی مجلات کا رشتہ اسی کالج سے جڑا ہوا ہے اور یہاں کے مجلات نے صرف زبان وادب نہیں بلکہ علمی وسائنسی مضامین سے بھی قارئین کے ذہنی منطقہ کومنور اور معطر کیا ہے۔
ان مضامین سے ماضی کی روشن صحافتی تاریخ ہمارے سامنے آتی ہے اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اعیان اور اکابر نے اردو صحافت کی ثروت میں کس طرح گراں قدر اضافہ کیا اور بعد کے صحافیوں کے لیے صحافت کا ایک مثالی نمونہ بھی پیش کیا۔
کتاب کے نقش دوم میں اردو صحافت سے جڑی ہوئی کچھ اور شخصیات کا بھی ذکر ہے، جن میں مولانا محمد عثمان فارقلیط، عابد سہیل، تابش مہدی، سہیل انجم، حقانی القاسمی کے نام شامل ہیں۔ مولانا فارقلیط ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جنہوں نے اردو صحافت کو ایک نیا تناظر عطا کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کو بیدار اورمتحرک کرنے کا کام کیا۔وہ الجمعیۃ جیسے مقبول عام اخبار سے وابستہ تھے اور اس اخبار کے قارئین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں یہ اخبار بہت شوق سے پڑھا جاتا تھا اور اس سے ملک کے عوام کی ذہن سازی بھی ہوتی تھی اور معاشرتی، سیاسی اور ملی مسائل سے عوام کو آگہی بھی ہوتی تھی۔
عابد سہیل بنیادی طور پر فکشن نگار تھےاوراُن کی شناخت کا ایک حوالہ ادبی صحافت بھی ہے۔ انہوںنے لکھنؤ سے ’ماہنامہ کتاب‘ کا اجرا کیا اوراس مجلہ کے ذریعے انہوں نے ادبی صحافت کو ایک نیا رنگ وروپ دیا۔ ادب سے متعلق بہت سے عام مسائل پر کتاب میں شائع تحریریں آج بھی قارئین کے لیے مشعل راہ ہیں۔ خاص طور پر فکر انگیز ادبی مقالات اور خیال افروز مضامین کی وجہ سے ’ماہنامہ کتاب‘ کو مختصر عرصے میں بے پناہ شہرت ومقبولیت ملی۔ مجلاتی صحافت میں ’ماہنامہ کتاب‘ کا ایک روشن کردار ہے۔ عابد سہیل کی ادبی صحافتی خدمات کے حوالے سے یہ ایک بیش قیمت مضمون ہے ۔
تعمیر ی صحافت اور تابش مہدی کے عنوان سے بھی ایک مضمون شامل ہے۔ اس میں انہوں نے اردو کے معروف صحافی ونقاد اور شاعر تابش مہدی کی تعمیر ی صحافت کابہت عمدہ جائزہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر تابش مہدی بنیادی طور پر تحریک ادب اسلامی سے وابستہ رہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ہمیشہ تعمیری افکارواقدارسے رشتہ رکھا ۔ان کی شناخت کا ایک روشن حوالہ ’ماہنامہ الایمان دیوبند‘ اور ’پندرہ روزہ اجتماع‘ہیں جو ایک زمانے میں بہت مقبول تھے۔ اس کے بعد انہوں نے مرکز جماعت اسلامی سے وابستگی اختیار کی تو یہاں سے شائع ہونے والے اخبارات ورسائل سے اپنا رشتہ رکھا۔ تابش مہدی کی شاعری کے حوالے سے کتابیں اور مضامین تو چھپتے رہتے ہیں مگر اُن کا یہ صحافتی پہلو بہتوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اس لیے اس مضمون کی واقعی ضرورت تھی تاکہ تابش مہدی کی متنوع شخصیت سے عام قارئین بھی واقف ہوسکیں۔
سہیل انجم کے حوالے سے جو مضمون شامل ہے وہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ دور حاضر میں اردو صحافت کے جو چند معتبر اورموقر نام ہیں، اُن میں ایک نمایاں نام سہیل انجم کا بھی ہے ۔ ان کے سیاسی مضامین اور کالم ملک کے اہم اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی صحافتی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ حال ہی میں ان کی شخصیت کے حوالے سے ایک وقیع کتاب شائع ہوئی ہے جس میں ان کی صحافتی خدمات کے متنوع زاویوں پر ارباب علم ودانش نے مضامین لکھے ہیں اور ان کے امتیازات کا اعتراف کیا ہے۔
منور حسن کمال نے ڈاکٹر عبدالحی کی کتاب ادبی صحافت کا بھی مخصوص جائزہ لیا ہے اور اس کتاب کے امتیازات واضح کیے ہیں۔ ادبی صحافت پر باضابطہ کتابیں بہت کم ہیں، اس لحاظ سے ادبی صحافت کے حوالے سے یہ کتاب وقیع ہے۔ اس میں ادبی صحافت کے جملہ جہات اور زاویوں کے احاطے کی کوشش کی گئی ہے اور منور حسن کمال نے عبدالحی کی محنت ومشقت اورریاضت کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
نقش دوم میں شامل ایک مضمون خاکسار یعنی حقانی القاسمی کے حوالے سے ہے۔ اس مضمون کی چنداں ضرورت نہیں تھی، مگر منور حسن کمال کی محبت نے اس کی صورت بھی نکال لی اور ایک ایسے حقیر وجود پر اپنی توانائی صرف کی جس کی صحافت صرف اس کے ابلہانہ اور سفیہانہ فیصلے کا نتیجہ تھی ۔منور حسن کمال نے اس مضمون میں صحافت اور ادب کے امتزاج کے حوالے سے گفتگو کی ہے ۔ اس طرح انہوں نے مجھے بھی صحافیوں کے اس زمرے میں شامل کیا ہےجس سے میرا شاید کوئی زیادہ علاقہ نہیں کہ بنیادی طور پر میرا تعلق صحافت سے زیادہ تحقیق وتنقید سے ہے۔
نقش ثالث کے تحت صحافت کی مبادیات ، اخلاقیات اور دیگر متعلقات پر منور حسن کمال نے بہت اچھی روشنی ڈالی ہے اور اس ضمن میںانہوںنے صحافت کے نشیب وفراز ، مدوجزر اور اثرات کے حوالے سے بہت عمدہ گفتگو کی ہے۔ انہوں نے یہ بتایاہے کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیاکی وجہ سے معاشرے پر نہایت منفی اثرات پڑے ہیں اور اردو صحافت کا معیار بھی مجروح ہوا ہے۔یہ نہایت بصیرت افروز اور چشم کشا باب ہے۔ صحافت کے اساتذہ اور طلبا کو اس باب کے مشمولات اور محتویات سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔یہ تیسرا نقش نیم کی طرح تلخ ضرور ہے مگر اردو صحافت کے شائقین کے لیے نہایت مفید ہے۔
ان تینوں نقوش سے ڈاکٹر منور حسن کمال نے اردو صحافت کو ایک نیا نقش عطا کرنے کی بہت عمدہ کوشش کی ہے۔اس سے عصری صحافت کا وہ منظر نامہ بھی سامنے آئے گا جس میں تھوڑی سی روشنی ہے اور تھوڑا سا اندھیرا بھی