ہندوستا ن کے پہلے صدرڈاکٹر راجندر پرساد: سیاسی اور ادبی خدمات

Story by  ڈاکٹر شبانہ رضوی | Posted by  [email protected] | Date 05-12-2024
ہندوستا ن کے پہلے صدرڈاکٹر راجندر پرساد:  سیاسی اور ادبی خدمات
ہندوستا ن کے پہلے صدرڈاکٹر راجندر پرساد: سیاسی اور ادبی خدمات

 

ڈاکٹر شبانہ رضوی 

تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنی فہم و فراست، قربانی اور مخلصانہ خدمات سے ایک پورے عہد کی پہچان بن جاتی ہیں۔ ڈاکٹر راجندر پرساد بھی ایسی ہی شخصیت تھے، جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا بلکہ آزاد ہندوستان کے پہلے صدر کی حیثیت سے ملک کو نئی راہوں پر گامزن کیا۔ ان کی زندگی سادگی، دیانت داری اور قومی خدمت کا ایک روشن مینار ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گا۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ڈاکٹر راجندر پرساد 3 دسمبر 1884 کو بہار کے علاقے جھیروہر میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متوسط طبقے کے خاندان سے تھا، اور ان کے والدین نے انہیں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ راجندر پرساد نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کی، پھر پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کیا۔ اس کے بعد وہ کیمبرج یونیورسٹی سے اپنے علم میں مزید اضافہ کرنے کے لیے انگلینڈ گئے، جہاں انہوں نے ایڈورڈین ایج کی علمی فضاؤں میں قدم رکھا۔

راجندر پرساد کی شخصیت اور نظریات

ڈاکٹر راجندر پرساد ایک نرم دل، مخلص اور بے لوث شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے نظریات میں سادگی، محنت، اور عوامی خدمت کی اہمیت تھی۔ وہ ہمیشہ عوام کے درمیان رہنے والے رہنما تھے، اور ان کی سادگی اور عاجزی نے انہیں عوام میں بہت زیادہ مقبول بنایا۔

سیاسی سفر کا آغاز

راجندر پرساد کا سیاسی سفر برطانوی حکمرانی کے خلاف شروع ہوا۔ 1916 میں انہوں نے ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ لیا اور مہاتما گاندھی کے نظریات سے متاثر ہو کر ان کی قیادت میں آزادی کی جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ ان کی سیاسی زندگی کا ڈ پٹنہ میں کانگریس کے مقامی اجلاسوں میں ہوا اور بعد میں انہوں نے پورے ہندوستان میں آزادی کی تحریک کے لیے کام کیا۔

جدوجہد آزادی میں کردار

راجندر پرساد کی اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ نہ صرف آزادی کی تحریک کے ایک فعال رکن تھے بلکہ انہیں ایک مخلص رہنما اور مفکر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ گاندھی جی کی قیادت میں انہوں نے کئی تحریکوں میں حصہ لیا اور جیل جانے کا بھی سامنا کیا۔ ان کا یقین تھا کہ ہندوستان کی آزادی صرف سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی آزادی کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔

ہندوستان چھوڑو تحریک اور ڈاکٹر راجندر پرساد کا کردار

ہندوستان چھوڑو تحریک 8 اگست 1942 کو مہاتما گاندھی کی قیادت میں شروع ہوئی، جس کا مقصد برطانوی راج سے مکمل آزادی حاصل کرنا تھا۔ اس تحریک نے برطانوی حکومت کے خلاف ایک عوامی بغاوت کو جنم دیا۔

ڈاکٹر راجندر پرساد نے اس تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ مہاتما گاندھی کے نظریات کے حامی تھے اور آزادی کی جدوجہد میں سرگرم رہے۔ انہوں نے قوم کو متحرک کیا اور برطانوی ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ برطانوی حکومت نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ انہیں بھی گرفتار کر لیا، لیکن قید کے دوران بھی وہ آزادی کے عزم پر قائم رہے۔

ڈاکٹر پرساد نے عوام میں اتحاد اور قربانی کا جذبہ پیدا کیا اور کئی نوجوانوں کو تحریک کا حصہ بنایا۔ ان کی قیادت نے آزادی کی راہ ہموار کی اور ان کے قومی جذبے کو اجاگر کیا، جو آزاد ہندوستان کی تعمیر میں ان کے کردار کی بنیاد بنی۔

پہلے صدر جمہوریہ کا انتخاب

ہندوستان کی آزادی کے بعد 1950 میں جب ہندوستان کو اپنا آئین ملا، تو ڈاکٹر راجندر پرساد کو ہندوستان کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ انہیں اس منصب کے لیے منتخب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ایک مخلص، دیانت دار اور محنتی شخصیت کے طور پر قوم کی نمائندگی کریں۔" جو ہندوستان کو نئے دور میں لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ان کی صدارت میں ہندوستان نے عالمی سطح پر خود کو ایک مستحکم جمہوریت کے طور پر منوایا۔

پہلے صدر کی حیثیت سے: خدمات اور کارنامے

آئین سازی میں اہم کردار

ڈاکٹر راجندر پرساد کا سب سے بڑا کارنامہ ہندوستان کے آئین کی تشکیل میں ان کا غیر معمولی کردار ہے۔ وہ آئین ساز اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے اور اس ذمہ داری کو انتہائی دیانت داری اور غیر جانبداری سے نبھایا۔ ان کی قیادت میں آئین ساز اسمبلی نے ایک ایسا آئین مرتب کیا، جو دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کی بنیاد بنا۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ آئین عوام کے حقوق کا محافظ ہو اور ہر شہری کو انصاف اور مساوات فراہم کرے۔

آزادی کے بعد 26 جنوری 1950 کو جب ہندوستان جمہوریہ بنا، تو ڈاکٹر راجندر پرساد کو ملک کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ صدر کی حیثیت سے انہوں نے ملک کو نئی راہوں پر گامزن کیا اور کئی اہم اصلاحات کیں، جن میں زراعت، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے عہدے کو محض رسمی حیثیت تک محدود نہیں رکھا بلکہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے ہندوستان کو ایک مستحکم جمہوریت کے طور پر عالمی سطح پر متعارف کرایا۔

علیمی ترقی میں کردار

ڈاکٹر راجندر پرساد تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر ہندوستانی کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوں۔ انہوں نے ہمیشہ تعلیم کو قوم کی ترقی کی بنیاد قرار دیا اور تعلیمی اداروں کے قیام کی حمایت کی۔ ان کی کاوشوں سے کئی تعلیمی اصلاحات متعارف کرائی گئیں، جنہوں نے ہندوستان کے تعلیمی نظام کو مضبوط کیا۔

زرعی اصلاحات

ڈاکٹر راجندر پرساد کا تعلق ایک کسان گھرانے سے تھا، اس لیے وہ کسانوں کے مسائل کو سمجھتے تھے۔ انہوں نے زراعت کے شعبے میں اصلاحات کی حمایت کی اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اقدامات کیے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان خود کفیل بنے اور کسان خوشحال ہوں۔

بین المذاہب ہم آہنگی

راجندر پرساد نے ہمیشہ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی ترقی مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کی تقاریر اور تحریروں میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ ملک کے تمام شہری برابر ہیں اور انہیں یکساں حقوق حاصل ہیں۔

سادگی اور دیانت داری کی علامت

بطور صدر، ڈاکٹر راجندر پرساد نے سادگی اور دیانت داری کی ایسی مثال قائم کی، جو آج بھی یاد کی جاتی ہے۔ وہ سرکاری خرچ بچانے کے حق میں تھے اور ذاتی زندگی میں بھی سادگی کو ترجیح دیتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے عہدے کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا۔

ڈاکٹر راجندر پرساد کی ادبی خدمات اور تصانیف

ڈاکٹر راجندر پرساد نہ صرف ایک ممتاز سیاستدان اور آزادی کے رہنما تھے بلکہ ایک قابل مصنف اور دانشور بھی تھے۔ ان کی تحریروں میں قومی یکجہتی، تعلیم، سماجی اصلاحات، اور آزادی کی جدوجہد کے موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ ان کی تحریریں سادہ مگر موثر زبان میں تھیں، جو عوام تک آسانی سے پہنچتی تھیں۔

اہم تصانیف

۔1۔ آتم کتھا

یہ ان کی سب سے مشہور تصنیف ہے، جو ان کی سوانح حیات ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں، آزادی کی جدوجہد، اور ذاتی تجربات کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔

۔2۔ انڈیا ڈیوائیڈڈ

اس کتاب میں ڈاکٹر راجندر پرساد نے تقسیمِ ہند کے موضوع پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے تقسیم کے نقصانات اور اس کے ممکنہ اثرات پر روشنی ڈالی اور اسے ہندوستان کے لیے ایک المیہ قرار دیا۔

۔3۔ ستیہ گرہ ان چمپارن

یہ کتاب چمپارن تحریک پر مبنی ہے، جس میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک کی تفصیلات درج ہیں۔

۔4۔ مہاتما گاندھی اور بہار، کچھ یادیں

اس کتاب میں انہوں نے مہاتما گاندھی کے ساتھ اپنے تجربات اور بہار میں ان کے اثر و رسوخ کا ذکر کیا ہے۔

 ۔5۔ باپو کے قدموں میں

یہ ایک اور قابلِ ذکر تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مہاتما گاندھی کی شخصیت اور فلسفے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

ڈاکٹر راجندر پرساد کی تحریریں نہایت سنجیدہ، مدلل، اور حقیقت پسندانہ تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ قومی یکجہتی اور عوامی فلاح و بہبود کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ ان کی تصانیف نہ صرف تاریخی حوالے سے اہم ہیں بلکہ آج بھی مطالعہ کے لیے مفید سمجھی جاتی ہیں۔

ان کی ادبی خدمات نے تحریکِ آزادی کے دوران قوم کو فکری اور نظریاتی رہنمائی فراہم کی اور بعد میں آزاد ہندوستان کی تعمیر میں بھی ان کے افکار مشعلِ راہ بنے۔

قومی وراثت

ڈاکٹر راجندر پرساد کی خدمات اور کارنامے صرف ان کے دور تک محدود نہیں رہے، بلکہ آج بھی ان کے اصول اور نظریات رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھتے تھے جو خود کفیل، خوشحال اور انصاف پر مبنی ہو۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں 1962 میں ’ہندوستان رتن‘ سے نوازا گیا۔

آخری ایام

ڈاکٹر راجندر پرساد 28 فروری 1963 کو دارفانی کو الوداع کہہ گئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ ایک عظیم رہنما تھے جنہوں نے ہندوستان کو آزادی کے بعد ایک مضبوط جمہوری اور خودمختار ملک بنانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔

ڈاکٹر راجندر پرساد کا تاریخی مقام

ڈاکٹر راجندر پرساد کی خدمات ہندوستان کے لیے ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی رہنمائی میں ہندوستان نے ایک مضبوط جمہوری نظام کی بنیاد رکھی اور عالمی سطح پر اپنا مقام قائم کیا۔ ان کی زندگی اور خدمات ہمیشہ ہندوستانی سیاست اور تاریخ کا ایک روشن باب رہیں گی۔

ڈاکٹر راجندر پرساد کی زندگی اور خدمات ہندوستان کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں، جو ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔ وہ ایک عظیم رہنما، سچے محبِ وطن اور دیانت دار شخصیت تھے، جنہوں نے اپنی بصیرت اور مخلصانہ کوششوں سے قوم کو نئی سمت دی۔ ان کی قربانیاں اور کارنامے نہ صرف ہندوستان کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہیں۔ آنے والی نسلیں ان کے اصولوں اور خدمات سے ہمیشہ رہنمائی حاصل کرتی رہیں گی، اور ان کی زندگی ہر اُس شخص کے لیے مشعلِ راہ ہے جو قوم کی خدمت کا عزم رکھتا ہے۔