ڈاکٹر عمیر منظر
ڈاکٹر تابش مہدی کا شمار اردو کے منتخب اور استاد شاعروں میں ہوتا ہے۔ اردو کے مشاہیر ادیبوں اور شعرا سے ان کی رسم وراہ رہی ہے۔ اردوادب میں شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سےڈاکٹریٹ کی اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی صحبتیں بھی انھوں نے خوب اٹھائی ہیں۔ ان کی شہرت کا ایک ذریعہ مذہبی تنقید بھی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شعروادب کے نگار خانے میں شاعر- نثر نگار اور مبصر کے طور پر ان کی بے حد وقیع خدمات ہیں۔ کم وبیش اردو شعر وادب کی چار دہائیاں ان کے سرگرم ادبی سروکار کی گواہ ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام کم وبیش 40 برس پہلے "تعبیر" کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک نثروشعر کی ایک سے ایک کتابیں ان کے قلم سے نکل چکی ہیں۔ گذشتہ برس ان کی خودنوشت "تیز دھوپ کا مسافر" کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب بھی ڈاکٹر تابش مہدی کی سرگرم ادبی زندگی کی گواہ ہے۔ یہاں یہ بات دھیان رکھنے کی ہے کہ تابش مہدی شاعری اور نثر دونوں حوالوں سے مسلم الثبوت حیثیت کے حامل ہیں لیکن ان کی عام شہرت اور مقبولیت میں شاعری کا نمایاں کردار ہے۔
اپنے پہلے مجموعہ کلام تعبیر کے آغاز میں ڈاکٹر تابش مہدی نے لکھا ہے کہ مسائل زندگی سے بے نیاز ہو کر جو بھی ادب تخلیق کیا جائے گا، اپنی تمام خوبیوں کے باوجود اسے بقا حاصل نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ " میرے اس مجموعہ کلام (تعبیر) کو اس وقت کے حالات، حادثات اور واقعات کی خاموش تاریخ کہا جاسکتا ہے ۔ ان کے مجموعہ کلام کنکر بولتے ہیں، کا مطالعہ درج بالا سطور کی روشنی میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس مطالعے کی یوں بھی ضرورت ہے کہ شعر و ادب کا بنیادی رشتہ تہذیب واقدار سے ہے۔ فی زمانہ ترقی اور تہذیب کے نام پر ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، وہ جینے کی آسائش اور آرام سے غیر معمولی طور پر آباد ہے۔ وسیع وعریض کا ئنات کو مٹھی میں کرنے کا دعوی ہر لمحہ سچ سے قریب تر ہوتا جاتا ہے۔ علم وفن کی روشنی کا ایسا سیلاب ہے کہ ایمان ویقین کا سورج بھی گہنا جائے۔ مگر یہ دنیا تہذیب و اقدار سے خالی ہے۔ یہاں انسانی جبلت کے اشرف و اعلا ہونے کے سارے امتیازات متزلزل ہو چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب علم وفن کی روشنی کے نام پر ہورہا ہے۔ فن اور فنی کائنات پر نظر رکھنے والے تخلیق کار بھی اپنی تخلیقی دنیا سمیت اس سیلاب میں بہہ گئے۔ یہاں تک کہ مشرق و مغرب کی قید بھی بہت حد تک ختم ہو گئی۔ اپنی وراثت اور تہذیب کی گمشدگی پر ماتم تو ہوا مگر کوئی سامنے نہ آیا۔ کنکر بولتے ہیں، کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ تہذیب واقدار اور تعمیری قدروں میں ہی ہماری شناخت اور پہچان ہے، اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ بلکہ اس کے تحفظ اور بقا کے لیے وہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے، جس کی بساط ہمیں حاصل ہے۔ غالباً اسی لیے تابش مہدی کے یہاں روشنی اور آدمی کےتلازمات زیادہ ہیں۔ان کی شاعری میں یہ لفظ بار بار اتا ہے اور معنوی امکانات کی متعدد دنیاؤں سے روشناس کراتا ہے۔
آدمی کے کارناموں کو بھلا سکتا ہے کون کر گیا روشن جہاں کو ایک تنہا آدمی
روشنی آدمی آئینہ اور پتھر تابش مہندی کے محبوب الفاظ ہیں۔ جنہیں مختلف تعبیروں اور حوالوں سے انہوں نے شیریں اظہار کا پیکر عطا کیا ہے۔روشنی کی ایک جہت تطہیر قلب کی ہے۔جس کے بعددنیا اور سامان دنیا کی کوئی حیثیت نہیں۔ مال و متاع خار و خس سے بھی کمتر ہو جاتے ہیں۔یہیں سے عرفان و آگہی کا سفر شروع ہوتا ہے۔جو انسانیت کی معراج پر منتج ہوتا ہے۔
زندگی کے دشت میں پھرتے رہے دامن تہی
ہم فقیروں نے کسی نعمت کو گھر رکھا نہیں
تابش مہدی کی شعری کائنات ہماری ہمہ جہت زندگی کی ائینہ دار ہے،زندگی کا قافلہ جن جن راہوں سے گزرتا ہے اور ہماری فطرت ہمیں جہاں جہاں لے جاتی ہے۔ یہ سارےتماشے فنی آداب کے ساتھ ان کی شاعری میں جلوہ گر ہیں۔
عصری تعلیم کے تناظر میں ان کا یہ شعرحقیقت کا عکاس ہے۔شعر سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ ہمیں ماحول اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہے اپنے گھر سے کوشش شروع کرنی چاہیے ۔
کالج کی کتابوں میں تہذیب نہیں ملتی
بیٹے کے لیے گھر کے مکتب کو کھلا رکھئے
تابش مہدی کی شاعری کے مطالعے سے یہ راز بھی کھلتا ہے کہ ان کے شعری اظہار کا حسن ان کی سادگی میں پوشیدہ ہے۔ عام فہم اور سادہ انداز میں وہ بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ لیکن غور کرنے پر معنی کی اور بھی جہتیں روشن ہوتی ہیں۔ بسا اوقات ان کے کلام کی تفہیم تہذیبی اور تاریخی پس منظر میں اور زیادہ روشن ہوتی ہے:
تم مجھے اپنی زباں سے کہہ دو اپنا ایک بار
ہر شکست زندگی کا حق ادا ہو جائے گا
سربلندی کی خواہش ہے دل میں اگر
سر اٹھا کر نہ اتنا چلا کیجیے
زمانے کے ہر اک فرعون سے ہم
بآواز پیمبربولتے ہیں
سیکڑوں غم مرے ساتھ چلتے رہے
جس کو چھوڑا اُسی نے کہا اور میں
مرا اس سے کوئی پردہ نہیں ہے
مگر میں نے اسے دیکھا نہیں ہے
وہ آدمی تو مرا دوست ہو نہیں سکتا
ترے سوا جو کسی اور کی دہائی دے
ڈاکٹر تابش مہدی کے اشعار کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زندگی کے حسن اور خیر کے پہلووں کی طرف نگاہ رکتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جا بجا زندگی کی تعمیری قدروں کا جذبہ موجزن ہے۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں:
اگر پھولوں کی خواہش ہے تو سن لے
کسی کی راہ میں کانٹے نہ بونا
آدمی آدمی ہیں برابر مگر
سوچتا ہی نہیں یہ کوئی آدمی
ایک جگہ وہ اجتماعیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں:
کیا خبر کون کب راہ میں لوٹ لے
قافلے سے الگ مت رہا کیجئے
تابش مہدی کے یہاں جو چند منتخب الفاظ بار بار آئے ہیں ان میں آئینہ، پتھر، روشنی اور آدمی شامل ہیں۔ ان الفاظ پر مشتمل اشعار میں کہیں خود احتسابی تو کہیں معرفت اور کہیں زندگی کی خوشنما امیدیں نظر آتی ہیں، مثلا ایک جگہ وہ کہتے ہیں:
پہلے آپ اپنا دل آئینہ کیجئے
پھر کسی سے امید وفا کیجئے
اندازہ کر سکتے ہیں کہ فنکار نے امید وفا کے لئے دل کو آئینہ کرنے کی شرط رکھی ہے، یعنی جو کچھ بھی ہے وہ خارج سے نہیں ہے بلکہ اپنی ذات کی اصلاح اور تبدیلی سے ہے۔ فرد کی یہی تبدیلی ایک اچھے معاشرے کی بنیاد کا جوازہے۔ اسی طرح سے ان کا
ایک محبوب لفظ "پتھر" ہے۔ دو شعر ملاحظہ کریں:
آپ تو تھے پتھر کے پجاری
آپ پہ کیسے برسے پتھر
یہ سعادت تو میں بھی کما لے گیا
راہ کے سارے پتھر اٹھا لے گیا
یہاں پتھر اٹھانا دراصل فنکار نے ایک بڑی سعادت سے تعبیر کیا ہے۔ انسان بنیادی طور سے محبت اور ہمدردی کا پتلا ہوتا ہے۔ اس کے یہاں خوشگواری کے جذبات زیادہ ہوتے ہیں۔ لفظ پتھر سے وقت یا کسی ناگہانی صدمے کی جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ بڑی سنگین ہوتی ہے۔ عام طور سے اس لفظ کے استعمال سے اسی سنگینی کو مزید آگے بڑھایا جاتا ہے۔ مگر یہاں ڈاکٹر تابش مہدی نے پتھر کے مضمون کو ایک نیا پہلو دے دیا ہے۔ راہ کے پتھر کو ہٹانا کسی ناگواری کے بجائے سعادت تصور کر لیا۔ شعری مضمون کی ندرت بہت اہم ہے۔
ان کے بعض اشعار میں بظاہر تلمیح نظر نہیں آتی لیکن شعر کی مجموعی ساخت اور اس کے مضمون پر غور کریں تو یہ باور کرنا پڑتا ہے کہ نہایت فنکاری کے ساتھ شعر کے درون میں تلمیح موجود ہے، مثلا:
محاذ جنگ میں جو کام آئے
فقط میں ایسا بھائی چاہتا ہوں
بعض ایسی سماجی صورت حال جس سے سامنا اکثر ہوتا رہتا ہے اس کو نہایت سلیقے سے شعری پیکر عطا کیا ہے:
کم ظرف کو عروج پہ لانے سے پیشتر
دامن کی فکر کیجئے پگڑی سنبھالئے
ان اشعار سے تابش مہدی کے غالب شعری اسلوب اور فکری رویے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان اشعار میں کوئی شعری ترکیب ہے اور نہ علائم، شعری صنعتوں کا بھی بہت زیادہ سہارا نہیں لیا گیا ہے۔ البتہ غزل کی رسومیات شعری، ادبی اور تاریخی اساطیر سے ضرور فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ یہ بات جو کہی جاتی ہے کہ غزل میں موضوعات کی قید نہیں ہر طرح کے مضامین اس میں بیان ہو سکتے ہیں ۔ درج بالا اشعار سے اس کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ ان اشعار کی روشنی میں تابش مہدی کی شعری کا ئنات اور اس کی بو قلمونی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔