ڈاکٹر عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
ایسا کوئی اہم واقعہ یا حادثہ مشکل سے ملے گاجسے اردو شاعری کے کسی پیراے میں ڈھالا نہ گیا ہو۔تاریخ کے بعض ایسے واقعات اور حادثات ہیں جو کسی ایک شعر،نظم یا قطعہ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔اسے اردو شاعری کی ایک اہم قوت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔نظم،غزل،قطعہ یا دیگر اصناف شعر میں اس نوع کی بے شمار چیزیں محفوظ ہیں جسے ہم وقتاًفوقتاً یاد کرتے رہتے ہیں۔یہ اردو شاعری کی ایک اہم خوبی ہے۔حالانکہ بالعموم یہ بات ہی کہی جاتی ہے کہ اردو شاعری میں عشق و محبت کی داستان کے سوا کیا رکھا ہے۔اب یہ بات کون کہے کہ عشق ایک اہم اور بڑا جذبہ ہے اور انسان کے لیے یہ ضروری ہے۔عشق کی مختلف منزلیں ہیں۔جس سے اہل علم واقف ہیں۔عشق ایک دائمی اور انسان کے لیے ضروری جذبہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں نفرت ایک عارضی اور ختم ہونے والا جذبہ ہے۔
ہندومذہب کا ایک اہم تیوہار دسہرا ہے جو دس دنوں تک جاری رہتا ہے اور آخری دن اسے بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔اسے بدی پر نیکی کی فتح قرار دیا جاتا ہے۔ہندومذہب کی کتابوں میں روایت آتی ہے کہ راون جو کہ لنکا کا راجہ تھا اس نے رام کی بیوی کو اغواکرلیا تھا۔دراصل راون ان کو اپنا دل دے بیٹھا تھا۔رام کو سیتا کی رہائی کے لیے مجبوراً جنگ کرنا پڑی جو دس روز تک جاری رہی۔دسویں دن راون کو قتل ہوتا ہے اور فتح نصیب ہوئی۔وجے دشمی اسی لیے کہتے ہیں کہ اس میں دسویں دن فتح حاصل ہوئی تھی۔
اس تیوہار کے سلسلے میں بعض دیگر روایتیں اور واقعات بھی ملتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہ موسمی تہوار تھا کیونکہ اس روز دن اور رات برابر ہو جاتے ہیں۔ اور موسم اعتدال پر آجاتا ہے۔ پھر اس تیوہار پر مذہبی رنگ چڑھ گیا اور یہ راون کے خلاف رام چندر کی فتح کی یادگار کے طور پر منایاجانے لگا۔اس واقعہ کا ایک پہلو وہ ہے جو ہندومذہب کی کتابوں میں ہیں اور ان کے بعض دیگر معتقدات کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں۔
صفت دسہرہ کے عنوان سے نظیر اکبرآبادی لکھتے ہیں۔
عیاں ہرجا بہار جامہ زیباں
نمایاں ناز وحسن و دل فریباں
صف اہل تماشازینت افزا
ہمہ اسباب خوش وقتی مہیا
بروئے نیلکنٹھ از یمن بہرہ
زہے فرحت فزا رروز دسہرہ
اس واقعہ کے بہت سے پہلو ہیں البتہ اردو شاعری میں ابتدا سے ہی اس واقعہ کا ذکر ملتا ہے۔شعرا نے نظموں کے علاوہ غزلوں اور قطعات کی شکل میں کہیں بیانیہ تو کہیں تلمیحی طورپراسے پیش کیا ہے۔ بہت سے پہلو نکالے ہیں۔ یہ واقعہ نہایت غم گین کرنے والا اور دکھ بھرا ہے۔رام کا بن باس اطاعت والدین کی ایک نہایت پرقوت مثال ہے۔چکبست کی نظم رامائن کا ایک سین سے یہ بند ملاحظہ فرمائیں۔
دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورت خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتہ سا ہوگیا ہے یہ ہے شدت ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویر سنگ ہے
چکبست کی نظم رام چندر جی کی پرشخصیت کا ایک توانا اظہار ہے۔
اردو شاعری کی تلمیحات پر مشتمل بیشتر کتابوں میں رام کہانی کا اندراج ملتا ہے۔چونکہ یہ ایک طویل سرگزشت ہے۔اس لیے اس واقعہ کو بہت سے اشعار میں طولانی قصہ،سرگزشت وغیرہ کے معنی میں بھی شعرا نے باندھا ہے۔فیض احمد فیص کہتے ہیں
کیوں میرا دل شاد نہیں ہے
کیوں خاموش رہا کرتا ہوں
چھوڑو میری رام کہانی
میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں
میر کا شعر ہے
فرصت خواب نہیں ذکر بتاں میں ہم کو
رات دن رام کہانی سی کہاکرتے ہیں
بانگ درا میں علامہ اقبال کی ایک مشہور نظم رام کے نام سے ہے۔اس کے بعض اشعار بہت مشہور ہیں۔علامہ اقبال نے رام کی بعض صفات کو نہایت عمدگی کے ساتھ شعری پیکر عطا کیا ہے اور۔نظم کے دوشعر ملاحظہ فرمائیں
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
تلوار کا دھنی کا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا
اس واقعے کے بعض نمایاں پہلو یعنی دسہرے کے ساتھ دیوالی کا ذکر وغیرہ۔رام کا توانا کردار راون کے لیے ایک نوع کی شکست بھی ہے۔کیونکہ اچھے لوگ جب سامنے آتے ہیں اسی وقت بروں کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔اس حوالے سے بعض شعرا نے اچھے شعر نکالے ہیں۔
جو سنتے ہیں کہ ترے شہر میں دسہرا ہے
ہم اپنے گھرمیں دیوالی سجانے لگتے ہیں
جمنا پرشاد راہی
ہے دسہرے میں بھی یوں گرفرحت وزینت نظیر
پر دیوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے
نظیر اکبرآبادی
اب نام نہیں کام کا قائل ہے زمانہ
ا ب نام کسی شخص کا راون نہ ملے گا
انور جلال پوری
اچھوں سے پتا چلتا ہے انساں کو بروں کا
راون کا پتا چل نہ سکارام سے پہلے
رضوان بنارسی
سید سروش آصف نے اس طویل سرگزشت کو مد نظر رکھ کر اور رام کہانی کی تلمیح سے فائدہ اٹھا کر ایک نیا پہلو نکالا ہے۔
درد گھنیرا ہجر کا صحرا اندھیرا اور یادیں ہیں
رام نکال یہ سارے راون میری رام کہانی سے
سید سروش آصف
اردو شاعری میں رام اور راون کے ساتھ لنکا کا بھی ذکر آتا ہے۔قائم چاند پوری کا شعر ہے۔
دل مرا تم کو تو لنکا ہے دسہرے کی بتاں
فتح ہے سال بھر اس کی جو اسے لوٹے گا
پنڈت ودیا رتن عاصی (2019-1938) کا تعلق جموں سے ہے۔عمدہ شاعر تھے۔شیام لال کالڑا سے ان کے گہرے مراسم تھے وہ عاصی کی شاعری کے مداحوں میں تھے۔ان کا ایک مجموعہ دشت طلب کے نام سے ہے۔ان کا ایک شعر ملاحظہ کریں
یہ منزل حق کے دیوانو کچھ سوچ کرو کچھ کرگذرو
کیا جانے کب کیا کرگذرے یہ وقت کا راون کیا کہیے
میر کا جس شعر کا پہلا مصرعہ آج کے کالم کا سرنامہ ہے پہلے وہ ملاحظہ فرمائیں
آتش عشق نے راون کو جلا کر مارا
گرچہ لنکا سا تھا اس دیو کا گھر پانی میں
شمس الرحمن فاروقی اپنی مشہور ز مانہ کتاب شعر شورانگیز (جلد سوم)میں اسے کمال فن کا نمونہ قرار دیا ہے۔اور لکھا ہے کہ عشق کیا شیطان،کیا دیو اور کیا بشر کسی کو نہیں چھوڑتا۔وہ لکھتے ہیں
‘‘اس شعر میں دیومالائی حقیقت کو عشق کی حقیقت سے اس طرح ضم کیا ہے کہ مضمون آفرینی کی معراج حاصل ہوگئی ہے۔ ”دیو“بمعنی ”قوی ہیکل آتشی مخلوق“تو ہے ہی بمعنی شیطان بھی ہے۔آتش عشق نے راون کو جلا کر خاک کردیا۔اس مضمون کا بیان مناسبت اور استعارہ دونوں کا حق پوری طرح ادا کررہا ہے۔نہ راون کو سیتا جی سے عشق ہوتااور نہ اسے شکست نصیب ہوتی۔پھر ہنومان جی کا لنکا میں آگ لگانا اور دسہرے کے دن راون کے پتلے کو جلانے کی رسم،یہ دوباتیں بھی نظر میں رکھیے۔راون کا گھر تو پانی میں تھا ہی کیونکہ لنکا ایک جزیرہ ہے۔”جلا کر مارا“کی معنویت بھی پر لطف ہے۔غرض جس طرح بھی دیکھیے یہ شعر کمال فن کا نمونہ ہے۔‘‘
اس زمانے کے ایک مشہور شاعر مصداق اعظمی ہیں۔غزلوں کے علاوہ قطعات بھی کہتے ہیں اور ملک بھر کے اردو رسالوں میں خوب شائع ہوتے ہیں۔ قطعہ گوئی میں مہارت ہی نہیں بلکہ انھیں درّاکی حاصل ہے۔ان کے قطعات کا ایک مجموعہ ”چھاؤں سے دھوپ“کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔راون کے عنوان سے ان کا قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
جب سے راون سیاست کا مرکھپ گیا
وہ جو ترشول،تلوار کے تھے دھنی
اب وہ کاغذ قلم کے خریدار ہیں
بھاٸ بھاٸ پہ قربان ہونے لگا
ہندو مسلم کے جھگڑے ہوۓ ہی نہیں
مندروں میں بھجن گاۓ جانے لگے
مسجدوں کے مناروں نے دے دی اذاں
بے نشاں کوٸ گلشن ہوا ہی نہیں
کوٸ صحرا کی جانب گیا ہی نہیں
روشنی کی حکومت اندھیروں پہ ہے
اب دۓ اندھیوں سے بھی ڈرتے نہیں
اب کوٸ زہر جیسا نہیں سوچتا
اب کوٸ زہر جیسا نہیں بولتا
اب کوٸ زہر جیسا نہیں دیکھتا