علی احمد
باپ ایک سائبان شفقت ہے جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے بیٹے بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جیسے ہی باپ کا سایہ عافیت سر سے اٹھتا ہے تو فوراً ہی اولاد کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سر پر کتنا بوجھ آن پڑا ہے۔ باپ دنیا میں اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔
والد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولاد کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ لفظ ’والد‘ کہنے کو تو چار حروف کا مرکب ہے لیکن اولاد کے لیے اپنے اندر ولایت، ایثار و وفا، الفت و شفقت، لطف و کرم، دانائی اور دستگیری سموئے ہوئے ہے۔ اگر اس کی عظمت و رفعت کا پاس کرتے ہوئے اولاد اس کی اطاعت، فرمانبرداری، خدمت اور تعظیم بجا لائے جو اُس کی رضا و خوش نودی کا باعث ہو تو یہ اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی کے حصول کا باعث ہوگا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایاکہ ۔۔۔
اللہ تعالیٰ کی رضا باپ کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔
ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 4: 274، رقم: 1899
اِس گلشنِ انسانیت کی ابتداء باپ (حضرت آدم علیہ السلام) سے ہوئی اور انہی سے عورت (حضرت حوا علیہا السلام) کا وجود تیار کیا گیا ہے۔ والد کی عظمت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ اولاد کے لیے یہ جنت کا وسطی دروازہ ہے۔ اولاد اس کی قدر و منزلت کا ادراک کرتے ہوئے اسے حاصل کر سکتی ہے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے:
باپ جنت کا وسطی دروازہ ہے، اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ چاہے (والد کی نافرمانی کرکے) اس (دروازے ) کو ضائع کر دو یا (والد کے ساتھ بھلائی کر کے) اسے (اپنے لیے) محفوظ کر لو۔
أحمد بن حنبل، المسند، 6: 445، رقم: 27551
ترمذی، السنن، کتاب البر و الصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 4: 275، رقم: 1900
حاکم، المستدرک ، 2: 215، رقم: 2799
ابن حبان، الصحیح، 2: 215 ، رقم: 425
والد ایک ثمر بار شجرِ سایہ دار کی مانند ہوتا ہے جو زمانے کی گرم ہواؤں کو خود سہتا ہے اور اولاد کو صرف پھل اور سایہ مہیا کرتا ہے۔ جس طرح سورج حدت کا منبع ہوتا ہے مگر اس کے نہ ہونے سے ساری دنیا اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح والد کا پیار بھی اس کی ڈانٹ ڈپٹ اور سختی میں چھپا ہوتا ہے۔ ایثار و قربانی کا یہ پیکرِ مجسم اولاد کی بہترین تربیت اور روشن مستقبل کے لیے ہمیشہ سراپا دعا رہتا ہے، جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ کبھی رد نہیں فرماتا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا
تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں، ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی اپنی اولاد کے لیے دعا۔
ابن ماجہ، السنن، کتاب الدعاء، باب دعوۃ الوالد ودعوۃ المظلوم، 2: 1270، رقم: 3862
طیالسيِ، المسند، 1: 329، رقم: 2517
ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺمیرا باپمیرا سارا مال خرچ کر دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو بلایا۔ جب والد کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کی ہے تو انہیں بہت رنج ہوا۔ راستے میں چلتے ہوئے انہوں ن ے دل میں کچھ اشعار کہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ پہلے مجھے وہ اشعار سنایئے جو آپ نے راستے میں کہے ہیں۔ وہ مخلص صحابی تھے، سمجھ گئے کہ وہ اشعار جو ابھی تک میرے کانوں نے بھی نہیں سنے، وہ بھی اللہ تعالی نے سن لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر بھی کردی ہے۔ انہوں نے وہ اشعار سنانے شروع کیے۔
خلاصہ کچھ یوں ہے: ”میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تم بیمار ہوجاتے تو میں بیداری میں رات گزارا دیتا۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی سے دیا۔ جیسا کہ تم مجھ پر احسان و انعام کررہے ہو۔ کم از کم اتنا ہی حق مجھے دے دیتے جتنا ایک شریف پڑوسی دیتا ہے۔ کم از کم مجھے پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا……“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سنے تو بیٹے سے فرمایا کہ ”تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے……“
اس سے معلوم ہوا کہ باپ کے دل سے نکلنے والی آہ کتنی جلدی عرش تک پہنچتی ہے، اس لیے والدین کے لیے راحت کا ذریعہ بننا چاہیے نہ کہ اذیت رسانی کا۔ ماں باپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ ان کے دل سے دعائیں نکلیں۔ م
اں باپ کی خدمت سے زندگی میں خوشحالی آتی ہے، رزق میں برکت ہوتی ہے، اولاد فرمانبردار ہوتی ہے، دعائیں اور عبادت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ تعالی کی ناراضی باپ کی ناراضی میں پوشیدہ ہے۔ اپنے بیوی بچوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر اپنے ماں باپ کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اولاد کے ذمہ فرض ہے۔
والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کی جائے، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے، انہیں آرام و سکون پہنچانے کی کوشش کی جائے، ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جائے۔ کثرت سے والدین کے لیے یہ قرآنی دعا مانگی جائے: ”رب ارحمھما کما ربیانی صغیراً“ یعنی اے میرے پروردگار تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔
ایک مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بددعا فرمائی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کرکے جنت نہ حاصل کرسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: آمین۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت نہ کرنا بالخصوص جب وہ بڑھاپے میں پہنچ جائیں کتنی بڑی بدنصیبی ہے۔
ایک موقع پر باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”باپ جنت کے بیچ کا دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا، وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا، وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہﷺکون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے ماں باپ میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخلے کا حق دار نہ بن سکا۔“