Wed Apr 02 2025 8:10:49 AM
  • Follow us on
  • Subcribe

افطار سے افطار پارٹی تک

Story by  عمیر منظر | Posted by  faridi@awazthevoice.in | Date 12-03-2025
 افطار سے افطار پارٹی تک
افطار سے افطار پارٹی تک

 

11

ڈاکٹر عمیر منظر 
شعبۂ اردو
  مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹ
لکھنؤ کیمپس ۔لکھنؤ
 
رمضان اسلام کا تیسرارکن ہے۔طہارتِ نفس اس کا اولین ہدف ہے۔ حصولِ نیکی کے اعتبارسے یہ بہار کا مہینہ ہے، جس میںرب ذوالجلال کی رحمت جوش میں رہتی ہے اورنیکیوں کااجر بڑھا دیا جاتا ہے ۔ یہ خیرطلبی کا محرک ہے۔ عبادات کا خاص اہتمام ہوتا ہے اورمسلمانوں میں نیکی کا جذبہ بڑھ جاتا ہے ۔روزہ کی تان افطار پر جاکر ٹوٹتی ہے ۔اسی لیے افطارماہِ صیام کی سرگرمیوں کا محور ہے، جس سے تمام رونقیں وابستہ ہوتی  ہیں۔ افطادراصل روزہ کھولنا ہے اوروہ اشیائے خورونوش، جس سے روزہ کھولتے ہیں، افطاری کے ذیل میں آتی ہیں۔ روزہ دار کو افطاری کرانے کی بڑی فضیلت ہے ۔بعض حوالوں سے یہ بھی ملتا ہے کہ افطار کا ثواب روزہ رکھنے کے برابر ہے ۔رمضان کی رونقوں میں سے ایک اہم رونق افطار کے وقت دیکھنے کو ملتی ہے۔ انواع و اقسام کی نعمتوں کو صبر و شکر کے ساتھ نوش کرنابھی کار ثواب ہے ۔اردو شعروادب میں اس کا ذکر مختلف انداز سے ملتا ہے ۔دن بھر کے بھوکے پیاسے شخص کے لیے افطار ایک سہارے کا کام کرتی ہے اور اگر کسی وجہ سے یہ معاملہ برعکس ہوجائے تو وہ اسے اپنی محرومی سمجھتا ہے ۔اس بارے میں جیل کی افطاری کا بیان دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
شاعروں نے لفظِ افطاری کااستعمال اس طرح کیا ہے کہ اس میں معنی کے بعض دیگر پہلوبھی سامنے آگئے ہیں ۔ان کا یہ تخلیقی استعمال گراں نہیں گذرتا بلکہ ان کی ہنرمندی کی داد دینی ہوگی ۔کسی کا یہ شعر زندگی کی محرومیوں کی داستان بیان کیا کررہا ہے ۔واضح رہے کہ یہاں افطاری اپنے لغوی اور اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
افطار کیا کریں کہ سحر بھی نہیں نصیب 
ا ب زندگی ہے روزہ نادار کی طرح 
زندگی کے نشیب و فراز میں اس طرح کے بہت سے مواقع انسانی زندگی میں پیش آتے ہیں ۔اسی کا نقشہ اس شعر میں کھینچا گیا ہے ۔چونکہ سحری کھاکر ہی روزہ رکھا جاتا ہے اس کے بعد افطار کی جاتی ہے لیکن یہاں صورت حال اس قدر خراب ہے کہ سحر ی بھی میسر نہیں تھی تو اب افطار کیا کریں ۔غربت اور تنگ دستی کا یہ عالم ہے ۔مشہور مجاہد آزادی حسرت موہانی برسوں فرنگیوں کی قید میں رہے ۔چکی کی مشقت اور دیگر صعوبتیں ان کے ساتھ تھیں ۔ان کی خود نوشت سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ بھی انھوں نے جیل کے اندر گذارا ۔دومصرعوں میں سب کچھ بیان کردیا ۔واضح رہے کہ یہاں افطاری اپنے لغوی معنی میں ہے ۔ حسرت موہانی کا شعر ہے   ؎
کٹ گیا قید میں ماہ رمضان حسرت 
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
نفیس انبالوی نے افطار کو محبت سے تعبیر کیا ہے ۔
ماہ رمضان میں رنجش بھی محبت بن کر
مسکراتی ہوئی افطار میں آ جاتی ہے
شعرا نے لفظ افطار کو مرکز میں رکھ کرمختلف رعایتوں سے خوب مضامین نکالے ہیں ۔ریاض خیر آبادی اردو کے مشہور شاعر ہیں انھیں خمریات کا امام کہا جاتاہے ۔یہ ذہن میں رہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے ۔اب ریاض خیر آبادی کا شعر ملاحظہ فرمائیں ۔
جب پی لگاکے منہ دم افطار رند نے 
بوتل کے منہ کی آئی فرشتوں کو بو پسند 
ریاض خیر آبادی 
شعرا نے افطاری کو کہیں وصل سے ملا دیا ہے تو کہیں ہجر روزہ رکھنے جیسا ہے ۔محبوب کا نہ ہونا یا سامنے نہ ہونے کو صومِ مسلسل کہا ہے اور اس کے دیدار کو آنکھوں کی افطاری سے تعبیر کیا گیا ہے ۔اس نوع کے اشعار پڑھتے ہوئے یہ بھی خیال آتا ہے کہ ان چیزوں کا بیان مذہبی فریضے کے ساتھ ساتھ شعرا کے یہاں ایک تہذینی رویے کے ذیل میں آجاتا ہے ۔اشعار ملاحظہ فرمائیں     ؎
تمہارے وصل کی افطاری آئے یا نہ آئے 
مگر میں نے تمہارے ہجر کا روزہ رکھا ہے 
سعدیہ صفدر سعدی 
عمر بھر آنکھوں نے تیرے ہجر میں روزہ رکھا
زندگی کی شام ہے افطار ہونا چاہیے
ونیت آشنا
دیدار سے محرومی اک صوم مسلسل ہے 
تو سامنے آئے تو آنکھوں کی ہوافطاری 
اسلم غازی 
مجھ کو تسکین مل گئی یعنی
اس نے افطار کر لیا ہوگا
ارشاد عزیز
تحمل عین واجب ہے محبت کی شریعت میں
اگر افطار جلدی ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے
واجد حسین ساحل
حسرت موہانی اور حفیظ نعمانی دونوں کا تعلق صحافت سے تھا ۔انگریزوں کے زمانے میں تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لینے کی وجہ سے حسرت موہانی کو جیل جانا پڑا ۔انھوں نے اپنی خود نوشت ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ میں جیل میں گزارے ماہِ رمضان کا ذکر کیا ہے ۔انھوں نے لکھا ہے کہ رمضان نے مسلمان قیدیوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی ۔وہ لکھتے ہیں: 
’’اتفاق دیکھیے کہ تھوڑے ہی دنوں میں رمضان المبارک کی آمد آمد سے مسلمان قیدیوں میں ایک نئی روح پیدا ہوگئی ۔اسلامی اخوت کا جیسا زبر دست اثر میں نے اس موقع پر زندان فرنگ میں محسوس کیا اس کا نقش میرے دل پر ہمیشہ موجود رہے گا۔ہمارے بیرک میں جتنے مسلمان قیدی تھے تقریباً ان سب نے روزہ رکھنے اور سحر وافطار کے وقت یکجا ہوکر کھانا کھانے کا انتظام کرلیا تھا،جس سے بے سروسامانی کی حالت میں بھی اسلام کی شان مساوات و اخوت سادگی کی ایک ایک عجیب وغریب عالم میں نمودار ہوتی تھی‘‘۔(مشاہدات زنداں ،حسرت موہانی ،ص 27)
حفیظ نعمانی ندائے ملت (لکھنؤ)کے معاون ایڈیٹر تھے۔ 1965میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اقلیتی کردار کے لیے انھوں نے’’ ندائے ملت‘‘ کا خصوصی نمبر نکالا جس کی پاداش میں انھیںجیل جانا پڑا ۔یہ پوری روداد انھوں نے ’’روداد قفس ‘‘نامی کتاب میں لکھ چھوڑی ہے ۔اسی میںانھوں نے رمضان اور خصوصاًافطار کا ذکر کیا ہے ۔یہ پورا بیان پڑھنے سے تعلق رکھتاہے ۔یہاں صرف افطار سے متعلق ایک اقتباس ہدیہ ناظرین ہے ۔وہ لکھتے ہیں: 
’’اپنی بیرک میں واپس آیا تو یہ دیکھ کر روح وجد کرنے لگی کہ احاطہ کے کنارے نیم کے درخت کے نیچے سات کمبل بچھے ہوئے ہیں ۔اور ان پر سفید دھلی ہوئی چادر لگی ہوئی ہیں،جس پر تمام روزے دار بیٹھے ہیں اور افطار کا سامان درمیان میں سجا ہوا ہے ۔افطار کے اس سامان میں اعلی سے اعلی سامان سے لے کر بھنے ہوئے جیل کے چنے تک موجود تھے۔گھڑی کی سوئی پانچ بج کر تیس منٹ پر پہنچی کہ موذن نے اذان شروع کردی‘‘ ۔(روداد قفس (102
افطار کا ذکر افطار پارٹی کے بغیر کیسے مکمل ہوسکتا ہے ۔ہمارے یہاں سیاسی افطار پارٹی سے لے کر اجتماعی افطار کی نہ جانے کتنی شکلیں پائی جاتی ہیں البتہ شہرت سیاسی پارٹیوں کی زیادہ ہوتی ہے ۔70کی دہائی میں سیاسی افطار پارٹیوں کا چلن عمل میں آیا ۔چند ہی ایسی پارٹیاں ہوں گی جنھوں نے اس میں حصہ نہ لیاہو ۔مخلوط حکومت کے دور میں کس کو بلایا جائے اورکون کس کی دعوت میں جارہا ہے اس کی بڑی معنویت ہوا کرتی تھی، مگر اب سب کچھ بدل چکا ہے ۔
منور رانا نے اپنے بعض انشائیوں میں ان افطارپارٹیوں کاحال لکھا ہے ۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’لکھنؤ کے گورنر ہاؤس کی ایک افطار پارٹی کا قصہ بہت مشہور ہے حالانکہ یہ قصہ ہر گورنر ہاؤس کی افطار پارٹی سے جوڑا جاسکتا ہے کہ گورنر ہاؤس میں افطار پارٹی میں آئے تمام لوگوں نے تین منٹ پہلے ہی روزہ کھول لیا تھا ۔دراصل افطارپارٹی میں شریک کوئی بھی شخص روزہ دار تھا ہی نہیں لہٰذا کسی کو افطار کے صحیح وقت کا اندازہ بھی نہیں تھا۔ممکن ہے دوچار لوگ روزے سے رہے بھی ہوں تو وہ عاقبت سے زیادہ گورنر صاحب سے ڈر گئے ہوں گے ۔یوں بھی سیاسی افطار پارٹی سے عموماً اچھے لوگ گریز کرتے ہیں ۔کچھ تو اگر بھولے بھٹکے پھنس بھی جاتے ہیں تو وہ اپنے جائز پیسوں کی دوچار کھجوریں جیب میں ڈال کر جاتے ہیں۔...بھائی رئیس انصاری کے ساتھ مجھے کئی بار سرکاری افطار پارٹیوں میں جانے کاموقع ملا ہے ۔ہر افطار پارٹی کا آنکھوں دیکھا حال تقریباً ایک جیسا تھا ۔( پھنک تال،منور راناص  90)
منور رانا کی نثر بڑی کاٹ دار ہوتی تھیں ۔تیر ونشتر بھرے جملے کہا ں سے کہاں بات پہنچا دیتے تھے ۔انھوں نے عین رشید کی روزہ افطار کا واقعہ کافی دلچسپ انداز میں لکھا ہے ۔اس کا ایک اقتباس کچھ یوں ہے:
ایک د ن مجھے بھی ان کے ساتھ روزہ کھولنے کا شرف حاصل ہوا۔ان کا دسترخوان مختلف قسم کی چیزوں سے سجا ہوا تھا ۔روزہ افطار کے بعد جب میں چلنے لگا تو انھو ںنے چورن کے طورپر ایک بہت ہی دلچسپ بات میرے کان میں کہی ۔فرمانے لگے اللہ جب قوم کو عروج بخشتا ہے تو الغزالی پیدا کرتا ہے اور جب زوال بخشتا ہے تو نصر غزالی پیدا کرتا ہے ‘‘۔(بغیر نقشے کا مکان ۔159)
سیاسی افطار پارٹی کے ذکر میں شعرا کہاں پیچھے رہتے ہیں ۔مرحوم برقی اعظمی کہتے ہیں:
دعوت کا اگر شوق ہے جاوے وہ کہیں اور
کرنے کو سیاست نہ وہ افطار میں آوے
اسی مضمون کو تشنہ اعظمی نے مزید نکھارا ہے ۔اس شعر میں طنز کا پہلو بھی خوب ہے ۔
نہیں روزے سے ہیں تو کیا اداکاری تو کرنی ہے 
امیر شہر کی دعوت ہے افطاری تو کرنی ہے 
رمضان اللہ تعالی سے بندہ مومن کے عشق کا مہینہ ہے ۔بندہ کی عبادتیں اور ریاضتیں ہی قرب الہی کا ذریعہ بنتی ہیں اور یہی قرب بندہ مومن کی پہچان بنتا ہے ۔ایسے میں اسے کسی چیز کا ہوش کہاں رہتا ہے ۔سہیل آزاد نے کیا خوب شعر کہا ہے 
یہ ہمہ وقت کا سودا یہ عبادت محکم 
عشق میں لمحہ افطار کہاں آتا ہے 
سیاست نے بھی مذہب سے حسبِ توفیق استفادہ کیا ہے۔ افطار مذہب سے اورپارٹی اپنی طرف سے۔ بہرصورت افطار کی جلوہ سامانیاں ہیں اور ہماری معاشرتی بوقلمونی بھی۔ دونوں جلوے سلامت!