مُلّاکی غزل گوئی

Story by  ملک اصغر ہاشمی | Posted by  [email protected] | Date 26-02-2025
مُلّاکی غزل گوئی
مُلّاکی غزل گوئی

 

                                                        

 ڈاکٹر عمیر منظر                                                               

پنڈت آنند نرائن ملا(1901۔1997) اصلاً کشمیری النسل تھے۔ان کے اجداد کشمیر سے پہلے کلکتہ آئے،اس کے بعد ان کے داداپنڈت کالی سہائے لکھنؤآئے۔ملا نے ابتدائی تعلیم مولانا محمد برکت اللہ رضا فرنگی محلی سے حاصل کی۔پانچویں جماعت سے گورنمنٹ جبلی ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ملا نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔اس کے بعد قانون کی ڈگری لکھنؤ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ان کی پریکٹس بہت اچھی تھی اسی لیے بہت جلد ان کا شمار قانون کے ماہرین میں ہونے لگااور اس طرح ایک ممتاز وکیل کے طورپر لکھنؤ میں ان کی شہرت پھیلنے لگی۔

           شاعری سے ان کا تعلق کالج کے زمانے سے ہی تھا۔اسی زمانے میں انھوں نے میر انیس کی چند رباعیوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔احتشام حسین کو ایک انٹرویو میں آنند نرائن ملا نے بتایا تھا انگریزی ادب کا ان پر بہت گہرا اثر تھا۔انگریزی شاعری سے بے پناہ رغبت تھی یہاں تک کہ انھوں نے انگریزی میں شاعری شروع کردی۔ہائی اسکول کے بعد ان کا یہ شغل بہت بڑھ گیا تھا۔میر انیس،غالب اور اقبال کے ترجمے کاوہ خود ذکر کرتے ہیں۔

           پنڈت آنند نرائن ملا کو لکھنؤ کا جو ماحول ملا وہ بھی شعرو ادب کے لیے خاصا سازگار تھا۔ لکھنؤ کے ادبی ماحول کے فروغ میں یہاں کی ادبی اور شعری انجمنوں کا بڑا نمایاں کردار رہا ہے۔طالب علمی کے زمانے سے ہی آنند نرائن ملّا انجمنوں کے ان مشاعروں میں شریک ہوتے تھے۔خود ان کی حویلی پر مشاعرے ہوتے تھے۔ان شعری محفلوں میں رضا فرنگی محلی،ثاقب لکھنوی،صفی،آرزو،عزیز اور یاس یگانہ چنگیزی جیسے ممتاز شعراشریک ہوتے۔ جدید غزل گو شعرا میں یگانہ،حسرت،اصغر،فانی،جگر اوراسیر وغیرہ کا کلام لکھنؤ کی شعری سرگرمیوں کا حصہ بنتا جارہا تھا۔ لکھنؤ کے شعری منظر نامے میں ان کے کلام کی گونج تھی۔

آنند نرائن ملّاکو اپنا ہدف معلوم تھا۔شاعری سے کیا کام لیا جاسکتا ہے اور کس نوع کی شاعری کی جائے۔ ’میری حدیث عمر گریزاں‘میں انھوں نے ان تمام باتوں کو بالکل واضح کردیاہے۔ وہ شاعری کو ایک شعور کے سفر سے تعبیر کرتے ہیں۔ ”دانائے راز“ میں انھوں نے اس پرزور دیا ہے۔ان کے نزدیک شاعری محض مشق کا نام نہیں ہے بلکہ ایک سنجیدہ ادبی کارگزاری ہے۔

میں شاعر میں ’داناے راز‘ پہلے ڈھونڈتا ہوں اور فن کار اور گیت کار بعد میں کیونکہ میری نظر میں شعر محض احساس کے دھندلکے میں لاشعور کی آواز نہیں۔میں شاعری کو شعور کا فن سمجھتا ہوں اور جو ادب بجاے شعور کی طرف بڑھنے کے لاشعور کی طرف مراجعت کرے وہ انسان کو گمراہ کرسکتا ہے اسے راستہ نہیں دکھا سکتا۔ص: ج)

مُّلا کے یہاں شاعری میں انسانی درد مندی کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ادبی رجحانوں اور تحریکات کی سمجھ نے ہی انھیں یہاں تک پہنچایا تھا۔اور اسی لیے انھو ں نے اس بات کا برملا اظہار کیا تھا:

میرے نزدیک عظیم شاعری دراصل خارجیت اور داخلیت کے ایک ساتھ سمونے کا ریاض ہے اور جو یہ گرجانتا ہے وہی اعلی درجہ کا ادب تخلیق کرسکتا ہے۔ایک بڑا فن کار دنیا کے واقعات اور حادثات سے تاثر قبول کرتا ہے لیکن وہ اس تا ثر کو فوراً ہی پیش نہیں کرتا۔وہ اسے اپنے ذہن ودل میں پرورش دیتا ہے۔اس سے کبھی لڑتا ہے کبھی اس کو اپناتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے دل کی آواز بن جاتا ہے اور پھر وہ اسے اپنے جذبات اور احساسات کی تھرتھراہٹ اور اپنے شعور کی رفعت اور عظمت دے کر زبان پر لاتا ہے۔(ص ح)

آنند نرائن ملا نے 1963 میں جوبات کہی تھی اسے ایک متوازن رائے قراردیا جاسکتا ہے اور اس آئینے میں ملاّکی شاعری کو بھی دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔انھیں ان باتوں کا خاطر خواہ اندازہ تھا اور اسی لیے انھوں نے اپنے بارے میں بھی یہ لکھا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ مجھے صاحب طرز اور اچھاشاعر نہ تسلیم کیا جائے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ میرا انداز اوراسلوب میرا اپنا ہے ہر جگہ میں نے اپنی انفرادیت کی مہر لگانے کی کوشش کی ہے۔چھ سات دہائیوں کے دوران بہت کچھ تبدیل ہوا۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملا کی شاعری اپنے پیمانوں کے ساتھ بھی پڑھنے کا جواز رکھتی ہے۔ان کا شعر ہے ؎

کھینچتی ہے زندگی احساس شاعر پر نقوش

پھوٹتی ہیں جن سے کرنیں ذہن و دل پر پے بے پے

خون شہید سے بھی ہے عظمت میں کچھ سوا

فن کار کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند

انگریزی ادبیات کے زیر اثر ملّا نے نظم نگاری کی طر ف پہلے توجہ دی۔حالانکہ یہ زمانہ اردو میں غزل گوئی کی دھوم کا تھا۔بعد میں انھوں نے وہ زمانہ بھی دیکھاجب غزل کو گردن زدنی قرار دیا جارہا تھا۔آنند نرائن ملّانے اپنے ذوق سلیم کو رہنما بناکر اردو شاعری کے کوچے میں قدم رکھا اور بتدریج آگے بڑھتے چلے گئے۔ان کا خیال تھا کہ غزلوں کی مقبولیت کے زمانے میں میری نظمیں کون دیکھتا اور وہ بھی انگریزی شاعری سے متاثر ہوکر کہی گئی نظمیں۔وہ شاعری میں نہ کسی کے شاگرد ہوئے اور نہ کبھی استاد کے مرتبے پر خود کو فائز کرنے کی کوشش کی۔جس طرح ذوق سلیم کو رہنمابنایا تھا اسی طرح دوسروں کو بھی تلقین کرتے رہے۔(۱ٓنند نرائن ملا سے انٹرویو،سید احتشام حسین فروغ اردو لکھنؤ احتشام حسین نمبر)

آنند نرائن مُلّا کا پہلا شعری مجموعہ جوئے شیر (1949)کے نام سے منظر عام پر آیا۔دس برس بعد ’کچھ ذرے کچھ تارے‘(1959)شائع ہوئی۔میری حدیث عمر گریزاں (1963)سیاہی کی ایک بوند (1973)کرب آگہی(1977)جادہ ملا(1988)نے ان کے رنگ سخن کو اعتبار بخشا۔انجمن ترقی اردو نے ملّا کے کلام کا انتخاب ’انتخاب کلام آنند نرائن ملا‘کے نام سے 1960میں شائع کیاتھا۔ڈاکٹر خلیق انجم کی مرتبہ ’کلیات آنند نرائن ملا‘کوقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے2010 میں شائع ہوئی۔

پنڈت آنند نرائن ملّا کی اہم شناخت ان کی غزل گوئی سے عبارت ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ان کی غزلوں میں مضامین کی ایک دنیا آباد ہے۔غزل کے عام مضامین کے علاوہ جبر و قدر،فلسفہ شعر،اخوت کا آفاقی تصور،ارتقائے انسانی،تقسیم ہند،تہذیبی شکست و ریخت اور انسانی اقدارجیسے مضامین کو انھوں نے شعری پیکر عطا کیا ہے۔آنند نرائن ملا کے یہاں معاصرین سے اخذو استفادہ کی بھی صورتیں پوری تخلیقی قوت کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔مضمون سے مضمون بنانے کا ہنر بھی ان کے یہاں خوب سے خوب تر ہے۔مُلّا کو پڑھتے وقت ہمیں یہ بھی خیال رہتا ہے کہ انھوں نے اردو شاعری کا ایک کشمکش بھرا زمانہ دیکھا۔ ایک طرف لکھنؤ تھا جس کے غزل گویو ں کی دھوم تھی تودوسری طرف انھوں نے ترقی پسندتحریک کا زمانہ بھی بہت قریب سے دیکھا۔یہی زمانہ جدوجہد آزادی کا بھی تھا۔ان کی متعدد نظمیں وطن سے محبت و قریب کا واضح اعلامیہ بن کر ابھریں۔ان کی نظموں اور غزلوں میں وطن دوستی کا مضمون مشترک ہے۔جہاں انھوں نے اس موضوع پر نظمیں کہی ہیں وہیں غزلوں میں بھی نہایت خوبی کے ساتھ وطن دوستی اور محبت کے مضامین باندھے ہیں۔

یہی اک حب قومی کا اصول مختصر جانا

وطن کے واسطے جینا نہ جی سکنا تو مرجانا

سادہ سے شعر میں جدوجہد آزادی کی پوری تاریح سمیٹ دی گئی ہے۔انگریزی ادبیات سے خاص شغف کے سبب نظم گوئی کا خوب ہنر رکھتے تھے -ان کی نظمیں اردو نظم کی تاریخ میں اہمیت کی حامل بھی قرار پائیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے غزلوں میں بھی اپنا رنگ وآہنگ برقرار رکھا۔

آنند نرائن ملّا کی غزلیں روایتی مضامین اور عام انداز و اسلوب کی ایک مختلف جہت ملتی ہے۔ان کے یہاں لکھنؤ کی شاعری کا عام انداز تو نہیں ملتا لیکن شعری شائستگی ان کا خاص جوہر ہے وہ اس سے کبھی دامن نہیں چھڑاتے۔تہذیب وتمدن سے مالا مال ملک ہندستان میں نہ صرف انھوں نے آنکھیں کھولیں بلکہ انھوں نے اس ملک کو قریب سے دیکھاتھا۔ ایک ملے جلے معاشرہ کی رنگا رنگی قابل رشک تھی۔اس کی کثرت میں وحدت کے جلوے روشن تھے جس سے ملّا نے تاعمر روشنی کشید کی۔ ان کے یہاں تہذیبی وسعت اور تنوع کا ایک الگ ہی رنگ تھا شاید اسی وجہ سے انھیں ہندستانی تہذیب و تمدن کے روشن مینار سے تعبیر کیا جاتا رہا۔ان کی عملی زندگی میں اس قسم کے مظاہرہ عام بات تھی مگر اس کے بہت سے جلوے ان کی شاعری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔شاید اسی سبب ان کا شعری رویہ بہت توازن کا حامل قرار دیا گیا کیونکہ ان کے یہاں نہ جذباتی ہیجان ہے اور نہ وقتی جوش و ولولہ بلکہ ایک ایسی شعری لو ہے جو تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

یہ فصل گل تو سب کی ہے کوئی افسردہ دل کیوں ہے

نہیں ممکن چمن کے ایک گوشے میں بہارآئے

دل کو اب شاید محبت کا سلیقہ آگیا

مات کھاتا جائے ہے بازی لگاتا جائے ہے

بشر کو مشعل ایمان سے آگہی سے نہ ملی

دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی

وہ بہت سوچ سمجھ کر لفظوں کو استعمال کرتے اورشائستگی کے ساتھ شعری مضامین کو ادا کرتے۔ان کے یہاں جذبوں کی بے باکی کم ہی ملے گی بلکہ اس کے مقابلے میں ان کے یہاں تہذیبی رکھ رکھاؤ اور سنجیدگی کااظہار زیادہ ہے۔آپ اسے جو بھی نام دیں لیکن لکھنؤ کی وہ تہذیبی زندگی جس میں اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال اور لحاظ ملتا ہے کچھ ایسا ہی تنوع ملّاکے شعروں میں ہمیں نظر آتا ہے۔غالباًاسی وجہ سے آل احمد سرور کا خیال ہے کہ ’مُلّا کو جدید عاشق کی بے باکی نہیں آتی‘۔آنند نرائن کی غزلوں کا عام اسلوب تہذیبی شائستگی کا ہے۔انھوں نے لکھنؤ کے اس سبق کو یاد رکھا مگر لکھنؤ کی غزلوں کا وہ انداز جس کے لیے لکھنؤ کو دبستان لکھنؤ کہا جاتا ہے ملّا کے یہاں مفقود ہے۔خالص عشقیہ اشعار میں بھی ان کا انداز خاصا سنبھلا ہوا کہہ سکتے ہیں۔غالباً اسی لیے آل احمد سرور نے جوئے شیر کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’ملا کا عشق ذرا سنبھلاہوا ہے‘۔چند اشعاربطور مثال ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔

نظر جس کی طرف کرکے نگاہیں پھیر لیتے ہیں

قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی

آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے ماضی کی یادگار

گذرا تھا اس مقام سے اک کارواں کبھی

یاد ہمدم نہ دلا عشق کے افسانوں کی

بات دیوانہ سے کرتے نہیں دیوانوں کی

حسن ہے بے وفا اگر عشق سے انتقام لے

لاکھ بھلائے وہ تجھے تو اسے یاد آئے جا

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملّا کو اردو زبان سے ایک جذباتی لگاؤ تھا۔وہ اس زبان کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار تھے، ان کو یہ بات معلوم تھی کہ اردو کے خمیر میں کیا چیز رچی بسی ہے اور اس زبان کی مقبولیت اور افادیت کا اصل سبب کیا ہے اور اس ملک کی مٹی سے اس کا کس قدر گہرا رشتہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ تاعمر اس زبان اور تہذیب کے ایک سرگرم مبلغ اور مفسر رہے۔ان کی غزلوں میں انسانیت اور ہمدردی و غم گساری کے بے شمارمضامین ہیں جو بہر حال ایک تعمیر پسند سماج کا رخ طے کرتے ہیں شاید اسی وجہ سے ملّا کے بعض ناقدین نے ان کی شاعری میں خلوص وصداقت،انسان دوستی،ہمدردی،اخوت ومحبت اور سیاسی وسماجی مسائل کو زیادہ دیکھنے کی کوشش کی ہے۔اور اس نوع کے شعری مضامین کو نمایاں کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غزل انسانی جذبات و احساسات سے مملو ہے اور فن کارجو کچھ سوچتا اور غور کرتا ہے وہی جذبات واحساسات شاعری کی شکل میں صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے۔اس حوالے سے آنند نرائن ملا کے بعض اشعار تو بہت ہی مشہور ہیں ؎

جن پاک نفس انسانوں میں کردار کی عظمت ہوتی ہے

ایسوں سے نہ مل پائیں بھی اگر نادیدہ عقیدت ہوتی ہے

آواز میں رس ہونٹوں پہ عنب باتوں میں شکر یہ سب دھوکے

انسان کی اک پہچان ہے یہ آنکھوں میں مروت ہوتی ہے 

ان اشعار سے ان کے تعمیری ذہن اور رویے کا اندازہ ہوتا ہے۔مُلّانے لفظیات کی سطح پر بھی اپنے معاصرین سے جہاں استفادہ کیا ہے وہیں اس عہد کی عام لفظیات کو پوری تخلیقی قوت کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے۔آزادی کے نتیجے میں جو خوں آشام مناظر دیکھنے کو ملے اور قتل و خوں نے گھروں کے گھروں اجاڑ دیے۔بقول ملا

بہار آنے کو آسانی سے کیسے اعتبار آئے

ہزاروں فتنہئ شب صورت ابر بہار آئے

یعنی آزادی کے نتیجے میں ہزاروں فتنہ شب ملے ہیں اسے کیسے فراموش کیا جاسکتاہے۔لیکن اس کے باوجود مایوس نہیں ہیں انھیں یقین ہے ؎

وادی نور بنے گی یہی شعلوں کی ز میں

ابھی مٹی کے فرشتے سے میں مایوس نہیں

ملا کی شاعری میں حسن و عشق کی ایک دنیا آباد ہے،جو خوب صو رت اور دل آویز بھی ہے۔

نازو انداز نے شوخی نے نہ رعنائی نے

حسن کو حسن کیا چشم تماشائی نے

تم جس کو سمجھتے ہو کہ ہے حسن تمہارا

مجھ کو تووہ اپنی ہی محبت نظر آئی

ملّاکی غزل یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے بھی پرے ایک دنیا ہے۔

غم انساں سے جو دل شعلہ بجاں ہوتا ہے

وہی ہر دور میں معمار جہاں ہوتا ہے

نیکی کی جھونپڑی میں دیا تک نہ جل سکا

اقلیم اہرمن میں چراغاں ہوئے تو ہیں

پنڈت آنند نرائن ملا کی شاعری خصوصاً غزلیں آج بھی معنویت کی حامل ہیں اور اپنا جواز رکھتی ہیں۔جس کی کچھ مثالیں درج بالا سطور میں پیش کی جاچکی ہیں۔