گرو نانک ہم آہنگی اور یکجہتی کے لیے مشعلِ راہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 17-11-2024
 گرو نانک ہم آہنگی اور یکجہتی کے لیے مشعلِ راہ
گرو نانک ہم آہنگی اور یکجہتی کے لیے مشعلِ راہ

 

محمد موسی 

دنیا میں بہت سے ہادی آئے جنھوں نے مذہب و انسانیت کی تعلیم دی اور ان پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی، ان حضرات میں گرو نانک جی ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔گرو نانک دیو جی کو سکھ مذہب میں پہلا گرو اللہ کو مانا جاتا ہے۔آپ نے مذہب کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کو بہت ہی ناروا قرار دیا۔ آپ صرف سکھ مذہب کے بانی ہی نہیں بلکہ عظیم شاعر، فلسفی، انسانی و سماجی اصلاح کار اور ایک عظیم ہادی تھے۔

گرو نانک دیو جی مذہبی، سماجی و انسانی مساوات کے علمبردار، قومی یکجہتی، اتحاد، محبت و اخوت کے مشعل بردار، مذاہب و عقائد کے روادار، ذات پات کے خاتمے کے طرفدار اور نشہ وحدت میں سرشار قرونِ وسطیٰ کی مشہور و معروف عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا وجود انسان دوستی، امن و اتحاد اور یکجہتی کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انھوں نے اپنے فلسفہ وحدت، اشعار اور شاہکار کلام کے ذریعے اتحاد کے پیغام کو عام کرکے زمانے میں ایک انقلاب برپا کیا اورہمارے عظیم الشان موروثی، تہذیبی و ثقافتی اخوت کو ازسرنو جلا بخشی ہے۔ رواداری اور بھائی چارگی پر مبنی گرو نانک دیو جی کے افکار، نظریات، تصورات اور خیالات آج بھی ہم آہنگی اور یکجہتی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ انھوں نے سما ج میں ہونے والی ناانصافی،  نابرابری، ظلم و استبداد، مذہنی اور مسلکی تعصب اور استحصال، نسلی و لسانی امتیاز کی لعنتوں کے خلاف جہاد کیا۔ وہ ان برائیوں اور لعنتوں کو انسانی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹیں تصور کرتے تھے۔انھوں نے مطلق العنانیت، شہنشاہیت اور طبقاتی نظام کو بھی رد کیا۔

ان کی ساری زندگی مجاہدانہ رہی اور مساوات اور یکسانیت کا تمام عمر درس دیا۔ انھوں نے اپنے فلسفہ وحدت کے ذریعے تمام انسانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی اورمذہبی پیشواؤں کے استحصال، نفرت انگیزی، بغض، کینہ، حسداور عداوت کے خلاف ہمیشہ برسرپیکار رہے۔ ان کی زندگی کا واحد مقصد انسانی سماج میں امن و سکون، اخوت ومحبت، برابری، صلح و رواداری کو فروغ دینا تھا۔ گرو نانک دیو جی کسی ایک  مذہب یا قوم کے ہادی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنے ہیں۔ سوامی ویویکانند  نے آپ کے بارے میں کہا کہ ’’ گرو نانک صاحب کی محبتِ انسانی ایک شاندار اورحیرت انگیز مثال ہے۔گرو نانک معاشرے میں دبے اور مظلوم لوگوں خاص کر دلت طبقے کو با اختیار اور پر وقار زندگی گذارنے اور ان کے معیار کو بلند کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ آپ فرماتے ہیں

  سبھَے  ساَجِھیوَال  سدَائن  توںکِسئے  ناَ  دِسے  باَھرا  جِیؤ     

گرو نانک جی نے اس معاہدے پر تبادلہ خیال کیا جو معاصر سماج پر اثر انداز ہوا اور ان کی فلاح و بہبود ی ہو سکے۔ انھوں نے ذات کے نظام کوچیلنج کیا، مساوات کا درس دیا اور خواتین کی آزادی و تعلیم اور مساوی حقوق کی توثیق کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔ آپ کہتے ہیں

  پرکھ  مَہہ ناَر،  ناَرمَمہہ  پرکھا،  بجھوٗ  بَرہَم  گِیاَنی     

 گرونانک دیو جی نے غریب گھرانے میں ایک پٹواری کے یہاں جنم لیا۔ شاید قدرت کایہ تصور تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ اصلاح اور ہدایت کے رہنما و پیشوا کسی بڑے گھرانے یا عالم فاضل خاندان ہی میں پیدا ہوں، لیکن انھوں نے اپنے خلوص و محبت اور میٹھی زبان و کلام کے ذریعے ہر قسم کے لوگوں کے دل میں گھر کر لیا۔آپ نے ایسی مثالوں کے ذریعے اپنی تعلیم کو پیش کیا کہ وہ دل میں اتر جاتی تھیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب ان سے جنیوپہننے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا، اس لیے کہ انھیں شروع ہی سے ظاہری علامتوں کی نہیں بلکہ چھپی ہوئی حقیقتوں کی تلاش تھی۔ انھوں نے سوال کیاکہ روئی کے دھاگے میں روحانیت کہاں سے آ گئی؟ روحانیت تو رحم،محبت، قناعت، سچائی اور بے نفسی سے پیدا ہوتی ہے۔ جب سیرت ان صفات کے تانے بانے سے ترتیب پائے گی اس وقت انسان انسانیت کے اصلی مقام پر پہنچ سکتا ہے اور من کے امتیاز مٹ سکتے ہیں، جس کے بغیر نہ انسان دوسرے انسانوں کے دلوں میں گھر کر سکتا ہے نہ خدا تک پہنچ سکتا ہے۔

گرو نانک دیو جی نے پنجاب کے لوگوں کو ’ست شری اکال ‘ یعنی خدائے واحد ہی سچ ہے،کا نعرہ دے کر ہندوستان کے ان حصوں تک بھی توحید کا پیغام پہنچایا، جہاں دوسرے صوفیا اور سنتوں کی آواز ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے آپ کی شان میں ایک نظم  ’ نانک‘ کے نام سے لکھی اوران کے پیغامِ توحید کو دیکھتے ہوئے اس کے آخری شعر میں انھیں یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ

  پھر  اٹھی آخر صد ا  توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے

گرو نانک کہتے تھے کہ انسان کا رشتہ براہ راست خدا سے ہوتا ہے تو پھر انسان اس بحث میں کیوں اپنا وقت برباد کرتا ہے کہ گنگا کا پانی اس کے پاپ دھوئے گا یا نہیں اور کس طرح کا لباس خدا کو زیادہ پسند ہے۔مذہب کا اصل نام زندگی کا سدھارنا اور اس کو شرافت اور محبت کے اصول اور طریقوں سے آشنا کرنا ہے۔  وہ کہتے تھے کہ سب سے پہلے اپنا باطن خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالو۔لباس، رسوم اورظاہری وضع ثانوی بحث ہے۔

انسان اس فرض کو اسی صورت میں ادا کر سکتا ہے جب وہ دلوں کو ملائے اور ان اثرات کو زائل کرے جو انسان کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں اور نفرت، تعصب اور تنگ دلی کے زہریلے بیج بوتے ہیں۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے دھرم اور ادھرم کی  تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ

  ہر وہ چیز جو دلوں کو ملاتی ہے دھرم ہے، جو دلوں کو ایک دوسرے سے جداکرتی ہے وہ ادھرم ہے۔  

 اسی حقیقت کو مولانا رومیؒ نے یوں بیان کیا ہے کہ

  تو برائے وصل کردن آمدی

    نہ برائے فصل کردن آمدی 

یعنی اے انسان تو دنیا میں میل محبت بڑھانے کے لیے آیا ہے، پھوٹ ڈالنے کے نہیں آیا۔ گرونانک کی اخلاقی عظمت اور روحانی کشش کا اصلی راز یہی ہے کہ ان کی تعلیم محبت اور رفاقت کی تعلیم ہے۔ انھوں نے سب انسانوں کو ان کی مشترک انسانیت کی یاددلائی اور ذات پات، رنگ و روپ، امیری و غریبی کے بھید بھاؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جس وقت اس دیس کے بہت سے باسی مذہب کی سچی تعلیم کو بھلاچکے تھے اور اس کی ظاہری رسموں اور شکلوں میں الجھ کر رہ گئے تھے انھوں نے سب کو یہ قدیم لیکن انقلاب آفریں پیغام سنایا کہ زندگی کا قانون ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے۔ یہی محبت کا جذبہ ہے جو عقیدت اور بھکتی کی روح بیدا رکرتا ہے اور اسی کے ذریعے انسان کی رسائی خدا تک ہوتی ہے۔

 گرو نانک جی کے عقائد میں اسلام اورہندوازم کا گہرا امتزاج تھا۔ وہ اللہ اور ایشور کو ایک ہی مانتے تھے اور خدا کو محبت اور محبت کو خدا جانتے تھے اس لیے وہ’’ اداسی ‘‘کے ذریعے ایک انقلابی تحریک کی شکل میں منحرف ہوئے۔ ان کا تصور انسانیت تھا، جس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی سب شامل ہیں۔ اسی لیے انھوں نے کہا تھا کہ ’’ نہ کو ہندو نہ مسلمان‘‘  اس بات پر دولت خان نے انھیں اپنے دربار میں طلب کیا اور ان کے الفاظ کا مطلب دریافت کیا جس پر گرو نانک جی نے کہا، ’’نہ کو ہندو نہ مسلمان‘‘۔ اس پر دولت خان نے کہا کہ شاید ہندو نہ رہے ہوں،مگر مسلمان اپنے ایمان پر قائم ہیں۔ گرو نانک نے اس کے جواب میں کہا کہ خدا کی رحمت کی مسجد ہو اور نماز ہو،اچھا اخلاق تمھارا قرآن ہو اور سادگی اور رحمدلی تمہارا روزہ ہو۔تمھیں اگر مسلمان ہونا ہے تو ایسے مسلمان بنو۔ نیک اعمال کو اپنا کعبہ بناؤ اور سچ کو اپنا رہبر، اگر ایسا کرو گے تو وہ خدا جو واحد ہے اور اس کا نام حق ہے،تمہیں اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے گا۔ مذہب کا سچا پیرو وہی ہے جو خدا کے کلام پر ایمان لاتا ہے جو سارے مذہبوں کے بانی اور پیغمبر دنیامیںنمود ہوئے پر یقین رکھتا ہے۔میرے لیے سب یکساں ہیں کیونکہ سب خدا کا پیغام لے کر آئے ہیں۔

آپ کہتے تھے کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ گرونانک جی ذات پات کے خلاف تھے، ان کا نظریہ تھا کہ سب انسان اللہ کے نزدیک برابر ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ

  سب  کو  اوچا  آکھیئے  نیچ  نہ  دیسے  کوئے

اک نے بھانڈے ساجیئے  اِک چانن  تِہہ لوئے

    کرمِ  ملے سچ  پائیے  دھرِ بخش نہ  میٹے کوئے

آپ کو تصوف اور ویدانت دونوں ہی فلسفوں کی اچھی اور گہری معلومات حاصل تھیں۔ ان کے نزدیک روحانی سفر کے پانچ مراحل تھے ’’ دھرم کھنڈ، گیان کھنڈ،شرم کھنڈ،کرم کھنڈ اور سچ کھنڈ ‘‘  بھائی سنتوکھ سنگھ لکھتے ہیں کہ ’’ یہ مراحل صوفیا کے چار مقامات شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت پر مبنی ہیں۔‘‘ انھوں نے تمام مذاہب و عقائد میں یکسانیت اور اتحاد کا درس دیا۔ انھوں نے بہت سے مذہبی پیشواؤں کو بھی کافی متاثر کیا۔آپ نے خاندانی زندگی کو ترک نہیں کیا، گوشہ نشینی یا رہبانیت اختیار نہیں کی،بلکہ وہ شادی شدہ تھے اور اوسط خاندان کے فرد کی طرح سماجی اور اخلاقی فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ان کی زندگی کا مقصد اور نصب العین خدمت خلق تھاوہ کہتے ہیں کہ

  سَیو  کِیتِی سنتوکھِئیِں جِنہیںسچو  سچ  دھیئائیا

اوہنی مندَے پیرَ نہ رکھئیو کر سکرِت دھرم کمائیا  

گرونانک نے جہاںآنکھ کھولی تھی وہ پنجاب کا علاقہ تھا، جو روحانی مراکز کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ جہاں بڑی قدآور مذہبی شخصیات موجود تھیں۔ جہاں ایک طرف سید علی ہجویری ؒ تو دوسری طرف بابا فرید گنج شکر ؒ ہیں۔ یہاں مخدوم جہانیاں اور شیخ اسمٰعیل بخاری ؒ، حضرت میاں میر ؒ،حضرت شاہ جمال ؒ،شیخ سرہندی ؒ، جیسی شخصیات اور انتہائی محترم بزرگ موجود ہیں۔ ان کی پارسائی، پرہیزگاری اور شفقت کی وجہ سے ہندوومسلمان یکساں ان سے مستفید ہوتے تھے۔ بابا گرونانک جی بھی ان سے ہمکنار نہ رہ سکے اور اس روحانیت کی طرف مائل ہوتے ہوئے انھوں نے کتابِ زندگی کا مشاہدہ کیا، برسہا برس تک سادھوؤں، سنتوں، صوفیوں اور مختلف مذاہب و عقائد کے رہنماؤں کی صحبت اختیار کی۔ آپ نے صوفی ازم، بدھ ازم، جین ازم اور دیگر مذاہب کے مبلغین، معتقدین، سالکین سے ملاقاتیں کیں، جس سے آپ کی باطنی، روحانی اور عرفانی قوت میں اضافہ ہوتارہا۔ مسلمان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انھیں اسلامی عقائد کا پورا علم تھا۔ بچپن میں ہی مشہورو معروف، روشن خیال اور وسیع النظر روحانی گرو و رہبرمیر حسن سے عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی، اگرچہ وہ خود آپ کے مرید ہوگئے تھے مگر انھوں نے ان کا  مذہب قبول نہیں کیا۔ انھوں نے شریعت کو پھلانگ کر طریقت، حقیقت اور معرفت کے مقامات کو عبور کرکے باطنی، روحانی، بورانی اور عرفانی طور پر اللہ کی احدیت، واحدیت اور صمدیت کو تسلیم کرکے سِرِ وحدت کانشہ چکھ لیا تھا اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰؐ کی عظمت کے حددرجہ معترف تھے، آپ کہتے ہیں         

لے  پیغمبری آیا  اس دنیا ماہے

ناؤں محمد مصطفیٰ ہوا بے پرواہے

گرونانک جی کا پیغام ہمارے لیے صرف ذاتی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ جماعتی لحاظ سے بھی بہت ضروری اور قابل قدر ہے۔

انھوں نے ایک سچے سکھ کی جو تعریف بتائی ہے اس سے اندازہ ہو گا کہ ان کو مذاہب کی تعلیم ِ وحدت اور خیرو شر کے بنیادی مفہوم کا کس قدر گہرا احساس تھا۔کسی نے ان سے پوچھا کہ ایک سچے سکھ کی کیا خصوصیت ہونی چاہیے۔ انھوں نے فرمایا

جو سچا ہو، قناعت کی صفت رکھتا ہو، سب پردیاکرے،جو لالچ و نفرت سے پاک ہو، جو کسی کو نقصان یا دکھ نہ پہنچائے، جو خواہش کے پھندے سے رِہا ہو چکا ہو، جس کو اپنے اوپر قابو ہو اور خیرو شر میں تمیز کر سکے، جو خدائے بزرگ و برتر کی رضا کے سامنے اپنا سر جھکادے اور اس کی خوشنودی کو ا پنا معیار بنائے۔ ایسا ہی ہم آہنگ شخص اس حلقہ میں شریک ہونے کے قابل ہے۔  

آپ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو لازمی مانا ہے۔ گرو نانک جی تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور پاکیزگی کے قائل تھے، سماجی بیداری کے علمبردار تھے۔ اسی سماجی بیداری نے انھیں زندہ جاوید بنادیا ہے۔ ان کے نغمے اور کلام ابدی ہیں۔ انھوں نے مذہب، سماج اور زندگی کی ظاہرداریوں کو تیاگ دیا تھا۔ اندھے عقائد،  مذہبی رسومات اور تعلقات کی مذمت کی ہے، ذات پات کے نظام سے کنارا کشی، خداپرستی اور انسانیت دوستی کے ذریعے انھوں نے سماج میں انقلاب برپا کیا۔ بھگتوں اور صوفیوں نے انھیں ترکِ دنیا و ترکِ عقبیٰ کی شکل دے کر انقلابی ہادی بنادیا۔

گرو نانک جی نے انسانی برابری، سماجی برابری، حق و انصاف اور محبت و اتحاد کو زندگی کا نصب العین تصور کیا۔ وہ عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی دونوں کے دلدادہ تھے یعنی  ’یادِ صنم، دیدِ صنم، نادِ صنم اور رضائے صنم ‘  ان کا مقصدِ عبادت اور پیغامِ حیات تھا۔ ان کے یہاں اسلامی تصوف اورہندو بھگتی کا حسین سنگم اور وصل تھا،جس کی وجہ سے آپ سماج کے ایک انقلابی، روحانی اور عرفانی رہبر مانے جاتے تھے۔ انھوں نے فرسودہ رسومات کی دیواریں ڈھا دیں۔ وہ طبقاتی نظامِ حیات کے مخالف اور بدترین دشمن اورہندستان کے مظلوم، محنت کش اور استحصال زدہ طبقوں کے پیش رَو تھے۔

آپ کے کلام کی یہ عجیب وغریب خصوصیت ہے کہ وہ اکثروبیشتر اپنے خالق سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اوران کے کلام کے متعلق صوفی غلام قاسم قادری اپنی تصنیف،’’تذکرہ جناب نانک ‘‘  میںکہتے ہیں کہ

گرونانک کے شبد پڑھتا ہوں تو ان میں ایسی سچی مذہبیت کا جلوہ نظر آتا ہے کہ اس میں محبت رحم، ہمدردی، خدمت اور زندگی کی سچی قدروں کا وہ پیغام ملتا ہے، جس کے لیے آج دنیا بھوکی اور پیاسی ہے۔ یہ دنیا جس کے دل اور دماغ دونوں امن کی دولت سے محروم ہیں۔ جس کے ہاتھوں میں قوت ہے لیکن اس کا استعمال نہیں آتا۔ جس کی رفتار میں بجلی کی سی تیزی پیدا ہو گئی ہے لیکن منزل مقصود آنکھوں سے اوجھل ہے۔ ان کی تعلیم پکار پکار کر ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ زندگی کی اصلیت وحدت اور ایکتا ہے، محبت اور پریم ہے، آپس کی خونریزی اور چھین جھپٹ نہیں، ان کے یہاں آپس کے اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں، جو ہمیںانسانیت کی دشمنی پر اکساتے ہیں-   10

گرونانک صاحب کی تعلیمات سے ایک چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ آپ کوئی مذہبی مفکر یا فلسفی نہیں تھے، بلکہ گرو نانک کا مذہب،خدا سے، انسانوں سے اور انسانیت سے پیار کا مذہب تھا۔ ان کا مذہب ذات پات، نسل اور ملک کی قید سے آزاد تھا۔ ان کا مذہب ایک عوامی تحریک تھی جس کی بنیاد سیکولر ازم اور سوشل ازم کے جدید تصورات پر مبنی تھی، تمام انسانوں کی برابری کی تحریک۔ آپ کی زندگی کے چار سفر بہت مشہور ہیں۔ ’پہلاسفر‘ انھوں نے بنگال اور آسام کی طرف کیا۔ ’دوسرے‘ سفر میں وہ تامل ناڈو کی طرف گئے۔ ’تیسری‘ دفعہ انھوں نے کوہ ہمالیہ میں واقع پہاڑی ریاستوں اورکشمیر سے ہوتے ہوئے تبت کا سفر کیا اور ’چوتھا‘ سفر بغداد، مکہ، مدینہ اور دیگر عرب ممالک کی جانب کیا تھا۔ان اسفارسے آپ نے دنیا میں ایک انقلابی پیغام دیتے ہوئے عشق الہٰی اور عرفان الہٰی کی تلقین کی اور آپ ہمیشہ نیکی کی دعوت دیتے رہے، برائی سے روکتے رہے، ریاکاری سے روکتے رہے، خود غرضی سے روکتے رہے، دنیاداری سے روکتے رہے، جھوٹ کے خلاف تبلیغ کرتے رہے اور کہتے تھے کے سب کو اللہ کے ہاں حساب دینا ہے اور وہاں نجات نیک عمل سے ہوگی۔

مختصراً یہ کہ گرو نانک صاحب ایک انقلابی ہادی، عظیم سماجی اصلاح کارہیں جنھوں نے ایک معاشرے میں موجود خرافات کو دور کرکے مساوات کا درس دیا۔ آپ نے اتحاد اور تعلیم کے لیے جو تحریکیں چلائی تھیں وہ تا قیامت جاری و ساری رہیں گی۔

حواشی

       شری گرو گرنتھ صاحب،انگ  97، محلہ 5

       شری گرو گرنتھ صاحب،انگ  878، محلہ 1

       کلیاتِ اقبال(بانگِ درا)، محمد اقبال، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 2011، ص 240

       مذہب کی حقیقت، خلیل شرف الدین، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ دہلی، 2001،  ص 15

      کلیدی مثنوی جلد۳،مولانا جلال الدین رومی،مترجم مولانا اشرف علی تھانوی، ادارئہ تالیفات ملتان، 2004، ص 98

       شری گرو گرنتھ صاحب،انگ  62، محلہ 1

       شری گرو گرنتھ صاحب،انگ  466، محلہ 2

       جنم ساکھی، بھائی بالا، ص 148

       گرو نانک کا سفر حق، اطہر راز، معیار پبلی کیشنز دہلی، 2009، ص 87

     تذکرہ جناب نانک، صوفی غلام قاسم قادری،ناشر عبدالکریم امرتسر، 1920، ص 18