عمیر منظر
میں نے پہلے پہل جن شاعروں کو دیکھاان میں ایک نام حفیظ میرٹھی کا بھی ہے۔ان دنوں میں جامعۃ الفلاح میں زیر تعلیم تھا۔اور یہیں پہلے پہل حفیظ میرٹھی،عزیز بگھروی اور مائل خیر آبادی کو دیکھنے اور انھیں سننے کا اتفاق ہوا۔مائل صاحب کی بہت سی کہانیاں پڑھ چکا تھا۔عزیز بگھروی اور حفیظ میرٹھی کا کلام بھی مختلف ذرائع سے پڑھ چکا تھا۔جامعۃ الفلاح میں انھیں دیکھ کر اور انھی کی زبانی ان کا کلام سن کر بہت مسرت ہوئی۔فلاح میں انھوں نے کئی غزلیں سنائی۔ان کا انداز شعر خوانی اور ان کے بھرے پرے چہرے نے میرے اندر ایک عجیب کیفیت پیدا کردی اور اب تک میرے ذہن میں ان کا وہی چہرہ ہے۔ان کی شخصیت کا وزن و وقار بہت متاثر کن تھا۔ایسا لگتا تھا کہ اس دنیا سے بالکل نے نیاز ایک شخص بیٹھا ہے۔ممکن ہے کہ حالات و واقعات نے انھیں ایسا بنا دیا ہو مگر کبھی یہ نہیں محسوس ہوا کہ ان کے کوئی تاسف ہے بلکہ اک نوع کی قناعت اور صبر کا عنصر ہی نمایاں تھا اور غالباً اسی کیفیت نے ایک لافانی شعر ان سے کہلوا دیا۔
حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی
میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر
یہ صبر،یہ سکون یقینا قابل رشک ہے۔چونکہ حفیظ صاحب نے شاعری کے تعمیری پہلو کو اختیار کیا اور بادہ و ساغر کے پردے میں مشاہدہ حق کی گفتگو کی۔وہ تعمیری قدروں کے ایک اہم فن کار کے طور پر سامنے آئے۔ان کی کلام کی حرکیت نے انھیں نہ صرف مقبول بنایا بلکہ وہ اپنے زمانے میں مشاعروں کی ضرورت بھی رہے۔ہندستان اور ہندستان سے باہر کے اہم مشاعروں میں وہ مدعو کیے گئے اور کامیاب رہے۔
حفیظ میرٹھی کے کلام کا ایک پہلو اس کی غنائیت ہے۔رواں اور سبک انداز میں وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں۔انھوں نے روز مرہ کے عوامی معاملات اور مسائل کو اپنے کلام میں جگہ دی اور انھیں کو اپنے شعری تجربوں کا حصہ بنایا۔
بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تری دیوار سے اونچی مری دیوار بنے
عام انسانی رویوں کی ایسی عمدہ تصویر کشی اس شعر میں کی گئی ہےکہ اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا اور یہ حفیظ صاحب کے فن کی بہت نمایاں خوبی تھی۔اسی غزل کا ایک اورشعر ہے
ہوگئے لوگ اپاہج یہی کہتے کہتے
ابھی چلتے ہیں ذرا راہ تو ہموار بنے
عذر کی یہ صورت بہت عام ہے۔بے عملی کے جو بہت سے جواز تلاش کیے جاتے ہیں ان میں ماحول اور حالات کا سازگارہونا بھی ہے۔لیکن صاحب عمل ان چیزوں کی کہاں پروا کرتا ہے۔حفیظ صاحب تو تحریک اسلامی کے ایک فعال کارکن تھے۔تحریکیت ان کے رگ و ریشے میں تھی۔میرٹھ میں انھوں نے اپنی آنکھوں سے آگ اور خون کی ہولی دیکھی تھی اس وجہ سے حالات اور زمانے کی گردش کی جیسا ان کو تجربہ تھا کم ہی لوگوں کو رہا۔اور اسی لیے وہ عمل پر نہ صرف زور دیتے ہیں بلکہ اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔
تقریر سے ممکن نہ کہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
حفیظ صاحب کے کلام میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ملیں گیں جہاں وہ عام انسانی صورت حال اور سماج کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ان اشعار کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ ان میں روانی اور برجستگی بہت ہوتی ہے اور اسی لیے وہ پڑھنے اور سننے والے پر اثر انداز بھی ہوتی ہے۔حفیظ صاحب کی مقبولیت کا بڑا سبب بھی یہی ہے۔
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظ
آستینوں کا انتظام کرو
بھلی رہ نمائیاں ہیں بھلی ناخدائیاں ہیں
وہی رخ قرار پایا جو بتادیا ہوا نے
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پسندوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا
لیجیے مل گئی بے چارے غریبوں کو دوا
پڑھ کے اک شخص نے کچھ پھونک دیا پانی پر
ایسا نہ ہو کہ لوگ ہمیں پوجنے لگیں
اتنا بھی احترام ہمارا نہ کیجیو
ان اشعار میں کوئی بڑا مضمون ادا نہیں کیا گیا ہے۔مگر ادائیگی کو جس خوبی اور حسن کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس نے شعر میں ایک خاص کیفیت پیدا کردی ہے۔اور یہی کیفیت حفیظ صاحب کے کلام کی جان ہے۔
حفیظ صاحب نے زمانے کے ظلم و جور اور حالات کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ان کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے حالات کے آگے کبھی سپر نہیں ڈالی۔انھیں یقین تھا کہ اس طرح کے حالات میں ہمارا کیا کردار ہونا چاہیے۔کبھی کبھی یہ بھی ہوتاہے کہ ماحول اور وہ حلقہ جس میں انسان گزر بسر کرتا ہے وہ بھی مجبور کردیتا ہے حالات کے آگے سپر ڈالنے کی مگر حفیظ صاحب کے یہاں اس نوع کوئی گنجائش نہیں تھی۔انھوں نے بہت بلیغ انداز میں اس طرح کے حالات اور ماحول میں اپنے موقف کو واضح کردیا تھا۔
یہی اک سبق دیا ہے مجھے مسلک وفا نے
کہ میں جاں کو جاں نہ سمجھوں جو ترا کہانہ مانے
اپنے زمانے اور حالات کی ترجمانی انھوں نے اس طرح کی ہے کہ ان کا موقف بھی واضح ہوجاتا ہے۔زمانے کی بے انتہا خرابی کے باوجود انھوں نے کسی نوع کی مصلحت سے کام نہیں لیا
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کوکہتے ہیں خود کشی کی ہے
بدتر سے موت سے بھی غلامی کی زندگی
مرجائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو جاؤ اپنا کام کرو
حفیظ کو بھی ہے تائید ظلم کی تاکید
یہ لوگ شمع سے کہتے ہیں تو اندھیرا کر
ان اشعار کے مطالعہ سے جو پہلا تاثر ابھرتا ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔یہ صرف حفیظ صاحب کے زمانے کا مسئلہ نہیں ہے۔بلکہ ہم بھی کھلی آنکھوں سے انھی صورت حال سے نبردآزماہیں۔البتہ متکلم کا طنطنہ اور قطعیت قابل رشک ہے۔وہ کسی بھی طرح حالات کے سامنے سرنگوں نہیں ہے بلکہ صاف صاف اعلان ہے کہ ’دب کے رہنا ہمیں منظور نہیں‘۔
حفیظ صاحب افادی ادب کے قائلین میں تھے۔اور وہ بھی جو اخلاق کے تابع ہو اس لیے انھوں نے شاعری کو سماجی اصلاح کے ایک بہتر وسیلے کے طور پر استعمال کیا اور کوشش کی کہ اس سے معاشرے کو ایک اچھا پیغام جائے۔تعمیری اور مثبت قدروں کو فروغ ملے۔
غزل کی صنفی خوبیاں بھی قابل رشک ہیں۔ہماری شاعری میں بہت سے ایسے شعرا ہیں جن کی شہرت کا مدار صرف ایک دو شعروں پر ہی ہے۔لیکن ان اشعا کی حیثیت زبان زد خاص و عام کی ہے۔حفیظ صاحب کے چند اشعار بھی اسی ضمن میں آتے ہیں۔
شیشہ ٹوٹے غل مچل جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
اردو غزل کی دنیا دل کے بغیر سونی ہے۔ارد کی شاعری کائنات میں اسی لفظ کی حرکت اور سرگرمی سب سے زیادہ ہے۔دل کے ٹوٹنے پر نہیں معلوم کتنے شعر کہے گئے ہوں گے مگر حفیظ صاحب کا یہ شعر آج بھی اپنے مضمون کے اعتبار سے منتخب اور بے مثال ہے۔
عشق و محبت کے مضامین بھی حفیظ صاحب نے اس طرح ادا کیے ہیں کہ وہ انھیں کا حصہ ہیں۔ان کا ایک شعر ہے۔
موج مے سے یہ تراشا ہوا انداز خرام
آپ چلتے ہیں کہ چلتی ہے صبا پانی پر
یا ان کا ایک شعر ہے۔
سارا کلیجہ کٹ کٹ کر جب اشکو ں میں بہہ جائے ہے
تب کئی فرہاد بنے ہے تب مجنوں کہلائے ہے
اس طرح کے اور بھی اشعار حفیظ صاحب کے موجودہ ہیں، جس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزل کی روایت سے انھوں نے نہ صرف فائدہ اٹھایا ہے بلکہ اس کے تسلسل کا حصہ بھی بنے۔اور اپنی تخلیقی سرگرمی سے ایک نئی شعری دنیا کو آباد کیا۔چونکہ حفیظ صاحب بنیادی طور پر ادب اسلامی کے قائل تھے اور اپنی شاعری میں اس مشن کو عام کرنے کی کوشش بھی کی لیکن تخلیقی سطح پر کسی بڑے تجربے کا احساس ان کی شاعری کے مطالعے سے سامنے نہیں آتا۔یہ سوال ان تمام لوگوں کے لیے غور وفکر کا ہے جو ادب کو کسی خاص مقصداور ضابطے کے اندر دیکھنا چاہتے ہیں۔اب تک کے تخلیقی تجربے تو یہی بتاتے ہیں کہ شاعری چاہے جس طرح کی ہو وہ صرف اور صرف تخلیقی پابندیوں اور غزل کی رسومیاتی دنیا کی حد بندیوں کو ہی قبول کرسکتی ہے