ڈاکٹر عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
ضیا فاروقی(1947۔2024) سندیلہ ضلع ہردوئی میں پیدا ہوئے،کان پور میں اعلی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔2005میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھوپال کو آباد کیا اور پھر وہیں پیوند خاک ہوگئے۔میری پہلی ملاقات ان سے دلی میں ہوئی تھی۔یہیں پر انھیں ایک شاعر اور شعری کمالات کے حامل غیر معمولی فنکار کے طورپر دیکھنے کاموقع ملا تھا۔دلی میں استاد محترم پروفیسر خالد محمود صاحب کے توسط سے بھوپال کے بہت سے ادیبوں اورشاعروں کو قریب سے دیکھنے اور سننے کے مواقع ملتے رہے۔ان میں پروفیسر آفاق احمد،جناب نسیم انصاری،ڈاکٹر مختار شمیم،جناب عارف عزیز،پروفیسر نعمان احمد خاں،جناب اقبال مسعودوغیرہ کے نام شامل ہیں۔ان میں سب سے سرگرم رابطہ ضیاء فاروقی سے رہا۔چونکہ لکھنو آنے جانے کا بھی ایک سلسلہ ان کا تھا اس لیے 2012کے بعد لکھنؤ میں کم از کم سال میں ایک ملاقات ضرور ہوتی۔وہ بہت محبت اور اپنائیت سے ملتے۔ان سے ملنا دراصل ایک شخص یاکسی ایک شاعر سے ملنا نہیں تھا بلکہ بہ یک وقت لکھنؤ، بھوپال اور کان پور کی جیتی جاگتی تاریخ سے ملنا تھا۔یہاں کی ادبی و تہذیبی سرگرمیوں کے روشن دنوں کی ایک سرگرم شخصیت سے یہ ملاقات ہوتی تھی۔ ان کی شخصیت کئی شہروں کی تاریخ اور تہذیب سے عبارت تھی،وہ ماضی کی نمائندہ شخصیات کا روشن حوالہ تھے۔ اپنی تاریخ اور تہذیب پر ان کی گہری نگاہ تھی۔قدیم کتابوں،اصناف سخن اور افراد کے واقعات،قصے اور باتیں نوک زبان پررہتی تھیں۔شعرتو وہ خود سناتے ہی تھے اور ان کی استادی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی لیکن جب کتابوں اور شخصیات کا ذکر چھڑ جاتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ پورا ماضی ان کے ذہن کے صفحہ پر روشن ہوگیا ہے اور پھر یہی کیفیت رہتی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو ضیا فاروقی محض ایک شاعراور تحقیق و تنقید نگار نہیں تھے بلکہ وہ بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کی حامل شخصیت کے طورپر نمایاں ہوتے چلے جاتے۔ادب و تہذیب کا نہ ختم ہونے والا ایک خزانہ ان کے پاس تھا۔ان گفتگو میں ادب و تہذیب کی نمائندہ شخصیات کے جا بجا حوالے ہوتے تھے۔
اپنے بارے میں انھوں نے خود(فیس بک کے ایک لائیو پروگرام آوارگی وتھ دانش) بتایا تھا کہ ان کے خانوادے میں علم وادب کا بہت چرچا تھا۔ملاقطب الدین اور ملا وہاج الدین اس خانوادے کے بزرگوں میں تھے۔ان کے چچا چودھری نبی احمد انگریزوں کے ز مانے میں پولس کی اعلی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے مگر تصنیف و تالیف کا انھیں بچپن سے شوق تھا۔ان کی بہت سی کتابیں ہیں۔ضیا فاروقی نے بتایا کہ ان پرتین قصبات سندیلہ،کاکوری اور کوپا مؤکا خاصا اثر ہے کیونکہ ان دیاروں سے میں نے بہت کچھ حاصل کیاہے۔جب آنکھ کھولی تو کتابیں ہی دکھائی دیں۔کتابوں سے ہی عشق تھا اور یہی عادت زندگی بھر رہی۔اسی نے پڑھنے کا شوق پیدا کیا۔شروع شروع میں منظوم خط بہت لکھے۔ اسی وجہ سے ابتدا میں منظومات کی طرف زیادہ توجہ تھی۔بنیادی طورپرنظموں سے تعلق زیادہ رہا بعد میں غزلیں بھی کہنی شروع کیں۔ساحر،مخدوم محی الدین اور جاں نثار اختر وغیرہ کے اثرات ان پر زیادہ تھے۔کان پور جانے کے بعد غزلوں کی طرف توجہ کی۔ کہانیوں اور مضامین لکھنے کا رجحان پہلے زیادہ تھاشاعری کی طرف بعد میں متوجہ ہوئے۔مطالعہ کا شوق اور قدیم کتابوں سے تعلق کے سبب ہی ان کے یہاں قدیم کتابوں کا ایک ذخیرہ بھی تھا۔انھوں نے خود بتایا تھا کہ چونکہ پہلے نواب صاحبان اور رؤسا خود شعرو ادب کا بڑا گہرا شوق رکھتے تھے۔کچھ توان میں نہایت باکمال شاعر ہوا کرتے تھے۔ان میں بیشتر کا تعلق قصبات سے ہوتا۔اسی وجہ سے قصبات میں بہت سی مثنویاں لکھی گئیں۔ایسے بہت سے نوابین ہیں جنھوں نے مثنوی لکھی اور اسے شائع بھی کرواکر دوستوں میں تقسیم کردیا۔ اس نوع کی مثنویاں بہت لکھی گئیں جو ضیا فاروق کے پاس موجود تھیں۔شمس الرحمن فاروقی کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے کہا کہ ان سب کو مرتب کرکے چھپواؤ۔مقدمہ میں لکھوں گا لیکن اس کی نوبت نہیں آسکی۔
شروع شروع میں میرا یہی خیال تھا کہ ضیا فاروقی شاعری پر غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں۔دلی میں بعض واقعات اور شعرا کی محفلوں میں ان کی غیر معمولی پذیرائی دیکھ کر اس پریقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔دلی میں ایک خاتون(خدا غریق رحمت کرے)تھیں جنھیں خدا نے تخلیقی وفور سے نوازا تھا۔بہت زود گو شاعرہ تھیں۔البتہ فنی التزامات پر وہ بہت زیادہ قدرت نہیں رکھتی تھیں۔ ان کا کلام جو کہ کئی کاپیوں میں تھا جب ضیا فاروقی کے سامنے بطور اصلاح پیش کیا گیا کہ تو ان کی اصلاحی کاوش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ قدیم اساتذہ کے بارے میں سن رکھا تھا مگر انھوں نے جس تیزی اور روانی کے ساتھ ان کے الفاظ و تراکیت کو فنی اعتبار سے مزید بہتر کردیا اور معمولی ترمیم و اضافہ کے ساتھ اشعار کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا وہ اپنی مثال آپ ہی کہا جاسکتا ہے۔
دراصل ضیافاروقی نہایت قادرالکلام اور زود گو شاعر تھے۔وہ چلتے پھرتے بہت صاف اور عمدہ شعر کہنے پر قادر تھے۔ان کی غزلوں میں یہ خوبی تو ہے ہی مگر ان کی شعری فن کاری کا اصل جوہر تو ان کی مثنوی ”کانپور نامہ“میں ہے۔کان پور کی تقریباً ڈ ھائی سو برس کی اسے منظوم تاریخ کہا جاسکتا ہے۔ افراد وشخصیات اور اہم واقعات کو اس طرح نظم کیا گیا ہے کہ کہیں بھی مثنوی کی روانی متاثر نہیں ہوتی۔چونکہ نظمیں کہنے میں بڑی خوبی تھی اسی لیے بعض شحصیاتی نظمیں دیکھ کر ڈاکٹر مغیث الدین فرید نے انھیں طویل نظموں کی راہ دکھائی تھی جو کان پور نامہ کی شکل میں بدل گئی۔اس مثنوی نے کان پور کے ادبی چہرہ کو روشن و تابندہ کردیاہے۔کان پور میں جو جو رشتے اور تعلق شعرو ادب سے ہوسکتے تھے ان سب کو نہایت سلیقے سے پیش کردیا گیا ہے۔یہ محض ایک مثنوی نہیں ہے بلکہ معلومات کا ایک بڑا خزانہ بھی ہے۔ادب،صحافت،شاعری اور مطابع وغیرہ کی ایک طویل فہرست اس مثنوی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
ہے گنگا کے تٹ پر بسا کان پور
اودھ سے ہے نزدیک دلی سے دور
صدی دو صدی سے زیادہ نہیں
کہ منظر بہت یہ پرانا نہیں
وہ بستی جو صدیوں سے گمنا م تھی
وہ چمکی جو گوروں کی پٹن رکی
ہوا اس کا چرچا بہت دور دور
تجارت کا مرکز بنا کان پور
سیاست صحافت ادب شاعری
ہر اک فن میں پہچان اس کی ہوئی
یہاں اہل باطن بھی تھے کچھ ضرور
کہ ہیں خانقاہیں بھی داراالسرور
شاعروں اور ادیبوں کا ذکر اس طرح سے کرتے ہیں کہ ان کا پورا تعارف سامنے آجائے اور مزید کچھ ضرورت ہوتو بآسانی انھیں تلاش کرلیا جائے۔نیز کان پور سے کسی سبب تعلق رکھنے والے دیگر ادیبوں کا ذکر بھی انھوں نے اسی پس منظر میں کیا ہے۔مثلاً
یہاں ایک شاعر تھے چنتا منی
جنھوں نے کہ ہندی میں کی شاعری
مغل دور میں آئے تھے وہ یہاں
کفیل ان کا تھا ابن شاہ جہاں
حکومت نے پھیری جب اپنی نظر
تو رجب علی بیگ آئے ادھر
یہاں ان کو غم سے جو فرصت ملی
انھوں نے فسانہ عجائب لکھی
وزارت کا جب گل ہوا آفتاب
تو آئے یہاں میر آغا نواب
میاں داد خاں بھی یہاں پر رہے
یہ”سیاح غالب کے شاگرد تھے
وہ ندوے کے تھے جو محمد علی
اسی شہر سے ان کو شہرت ملی
رموزی نے پائی یہاں تربیت
یہیں سے ہوئے وہ گلابی صفت
یہاں ایک کوہ گراں تھے نشور
نہ تھا جن کا ثانی کہیں دور دور
اسی شہر میں تھا فنا کا بھی راج
یہ پہنے ہوئے تھے روایت کاتاج
میں لکھتا ہوں اب زیب غوری کا حال
فن شاعری میں جنھیں تھا کمال
جدا سب سے تھا ان کا طرز سخن
انھیں شعر گوئی کا آتا تھا فن
بہت سے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں ایک سے زیادہ اشعار کہے ہیں اور ان میں ان کاتعارف اور ان کے کارنامے آگئے ہیں۔اس ذیل میں شمس الرحمن فاروقی کے بارے میں انھوں نے جو لکھا ہے اس کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
وہ عالم میں جو شمس رحمان ہیں
ادب میں جو وہ خود اپنی پہچان ہیں
گذر ان کا جب اس چمن سے ہوا
تو تھی ان کی مٹھی میں تازہ ہوا
کھلی ان کی مٹھی تو پھر یہ ہوا
شجر شاعری کا ہرا ہوگیا
پرانے مناظر نئے ہوگئے
کھنڈر نیلے پیلے ہرے ہوگئے
ادب کو نیا رنگ وروغن ملا
خرد بھی جنوں سا شناسا ہوا
ہوا ان کے آنے سے یہ بھی کمال
نئے مشک لائے پرانے غزال
روش اپنے فن کی بدلنے لگے
نئے شاہراہوں پہ چلنے لگے
کان پور کو ادبی نگاہ سے سب سے پہلے تفصیلی ذکر مشتاق احمد یوسفی نے اپنی مشہور کتاب آب گم میں کیا تھا۔اس کے بعد ضیاء فاروقی کی یہ مثنوی کان پور نامہ ہے۔
ضیا فاروقی کی کتابوں کا مطالعہ جن لوگوں نے کیا ہے انھیں اندازہ ہے کہ وہ شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید وتحقیق اور مترجم کے طورپر بھی اپنی پہچان رکھتے تھے۔سہا مجددی پر ان کا جو مونوگراف ہے اس سے ان کی تنقیدی اور تحقیقی بصیرت کا خاطر خواہ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے سہا مجددی کی ادبی خدمات کا صرف تعارف نہیں کرایا ہے بلکہ اس میں تنقید واحتساب بھی شامل ہے۔ضیا فاروقی نے شارحین غالب سے مولانا سہا کی مطالب الغالب کا موازنہ کیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ یہ موازنہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ سہا کا تنقیدی رویہ اپنے معاصرین سے کسی طرح کم نہیں تھا۔
فکشن پر ان کی گہری نگاہ تھی۔انھیں اس کی روایت کا گہرا شعور تھا وہ ان سب پر تجزیاتی گفتگو کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔میری مرتبہ کتاب خان محبوب طرزی: لکھنؤ کاایک مقبول نگارجب شائع ہوئی تھی تو بے انتہا خوش ہوئے۔جب ان تک یہ کتاب پہنچی تو اپنے تاثرات لکھے اور اپنی وال پر اسے لگایا بھی۔اب اس نوع کی محبت کرنے والے کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔
افسوس کہ ایسا بے مثل ادیب اور فن کار 13نومبر 2024ہم سے جدا ہوگیا۔
مری زندگی کی کتاب میں یہی نقش ہیں مہ و سال کے
وہ شگفتہ رنگ عروج کے یہ شکستہ رنگ زوال کے