ہندوستان، رواداری کی سرزمین، ہم آہنگی ہمارااثاثہ: چندربھان خیال

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 16-07-2024
ہندوستان، رواداری کی سرزمین، ہم آہنگی ہمارااثاثہ: چندربھان خیال
ہندوستان، رواداری کی سرزمین، ہم آہنگی ہمارااثاثہ: چندربھان خیال

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

چندر بھان خیالؔ اردو زبان کے شاعر کے طور پر پہچان رکھتے ہیں اور ایک صحافی کی نظروں سے حالات کو دیکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایت کمزور پڑی ہے اور ہندوستان کے طول وعرض سے منفی خبریں آرہی ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق وائس چیئرمین، مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے سابق وائس چیئرمین اور متعدد اردو اداروں میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے خیال کہتے ہیں کہ ہندوستان فرقہ وارانہ ہم آہنگی، قومی یکجہتی اور رواداری کی سرزمین ہے۔ صدیوں سے یہ ہمارا اثاثہ ہے۔ ہماری قدیم تہذیب کی بنیاد ہی محبت ویگانگت پر ہے، اسے کمزور نہیں ہونا چاہئے۔

اس سلسلے میں آنے والی منفی خبریں انہیں تکلیف پہنچاتی ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ یہ سب وقتی باتیں ہیں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ایک ساتھ رہنے والوں میں اختلافات ہوتے ہیں مگرنفرت وقتی بات ہے اور محبت دائمی جذبہ ہے۔

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا

چندر بھان خیالؔ بتاتے ہیں کہ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر ایک مختصر کتاب پڑھی تھی اور تب سے وہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہیں۔ وہ عقیدت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ آج بھی ہمارے ملک میں اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے کا فرق ہے جب کہ رسول اللہ نے پندرہ سو سال پہلے عرب کے معاشرے سے اس خرابی کو دور کردیا تھا۔ یہ بہت کمال کی بات ہے کہ محض چند سال میں پورا عرب بت پرستی، ضعیف الاعتقادی، تفاخر جیسی لعنتوں سے آزاد ہوچکا تھا۔

خیال کہتے ہیں کہ میرا آبائی وطن مدھیہ پردیش کا ضلع ہوشنگ آباد ہے، وہیں میں نے دور طالبعلمی میں سیرت نبوی پر ایک کتاب پڑھی تھی مگر بعد میں جب دہلی آنا ہوا تو زیادہ مطالعہ کا موقع ملا اور یہ عقیدت "لولاک" کی شکل میں ایک طویل نعتیہ نظم کی تخلیق کا سبب بنی۔ خیال کے مطابق سو صفحات پر مشتمل یہ نظم کسی بھی غیرمسلم شاعر کی تحریر کردہ سب سے طویل نعتیہ نظم ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس نظم کوپوری اردو دنیا میں پذیرائی حاصل ہوئی اور آج بھی لوگ اسے پڑھتے ہیں اور مشاعروں میں سننا پسند کرتے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کی "لولاک" اردو کے ساتھ ساتھ دیوناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوئی ہے اور اس کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد انہیں ایران گورنمنٹ کی جانب سے تہران مدعو کیا گیا تھا جہاں انہوں نے ایک نعتیہ ادب کے پروگرام میں شرکت کی تھی جس میں دنیا بھر کے نعت گو شعرا مدعو تھے۔

چندر بھان خیال کو متعدد ادبی اداروں کی جانب سے کئی ایوارڈ پیش کئے گئے ہیں جن میں سے ایک قابل ذکر ایوارڈ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ہے جو اردو زبان میں ان کی ادبی خدمات کے لئے سال 2021 میں پیش کیاگیا۔ اکادمی کے سکریٹری سرینواس راؤ کے مطابق خیالؔ کو ان کے شعری مجموعہ "تازہ ہوا کی تابشیں" کے لیے یہ باوقار ایوارڈ دیا گیا۔ واضح ہوکہ اکادمی ہر سال 24 ہندوستانی زبانوں کے مصنفین کو باوقار ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازتی ہے۔ اس کے تحت ایک خصوصی تقریب (لٹریری فیسٹیول) میں ایک کندہ شدہ تانبے کی پلیٹ، شال اور ایک لاکھ روپے کی رقم بطور انعام دی جاتی ہے۔

خیال کو اس سے پہلے مدھیہ پردیش حکومت کی جانب سے "اقبال سمان" ایوارڈ بھی پیش کیا جاچکا ہے جس میں دولاکھ روپے دیئے جاتے ہیں۔ انہیں دوسرے اعزازات بھی حاصل ہوئے ہیں۔

چندر بھان خیال اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گائوں بابئی (ضلع ہوشنگ آباد۔ایم پی) میں ہی ہندی میڈیم سے تعلیم حاصل کی۔ بارہویں کے بعد انہوں نے  ہوشنگ آباد کے نرمدا کالج میں داخلہ لیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ تب تک وہ اردو زبان سے واقف نہیں تھے اور نہ ہی ان کے علاقے میں کسی کو اردو زبان آتی تھی۔

بستی میں ہندو ،مسلم، جین اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے تھے مگر کسی کو اردو نہیں آتی تھی۔ یہاں تک کہ جب مجھے اردو سیکھنے کا شوق ہوا اور ایک مسجد کے امام صاحب کے پاس جاکر کہا کہ اردو پڑھادیں تو امام صاحب نے بے بسی کے ساتھ بتایا کہ وہ خود بھی اردوسے نابلد ہیں۔ خیال سے پوچھا گیا کہ اردو کیسے سیکھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ ریلوے اسٹیشن پر ایک کتاب نظر آئی جس کا نام "ہندی -اردو ٹیچر" تھا، اسے خریدا اور لگ بھگ ڈیڑھ مہینے مسلسل جدوجہد کے بعد معمولی طور پر اردو پڑھنے کے لائق ہوگیا۔ تب اردو کا معروف میگزین شمع خرید کر پڑھنے لگا اور دھیرے دھیرے زبان سے واقفیت ہونے لگی۔ تب میری عمر محض16 برس تھی۔

خیال بتاتے ہیں کہ دہلی آنے کے بعد انہیں اردو کا ماحول مل گیا اور یہاں انہوں نے بہتر طریقے سے اردو لکھنا پڑھنا سیکھا۔ کم عمری سے شاعری کرتے تھے مگر اساتذہ شعرا کے کلام پڑھنے کے سبب پختگی آنے لگی۔ واضح ہوکہ خیال اب لگ بھگ 78سال کی عمر کے ہیں ، ایک مدت تک روزنامہ قومی آواز سے ایک صحافی کے طور پر وابستہ رہے ہیں۔

چندر بھان خیال اپنے صحافتی سفر کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دلی میں ان کی عملی زندگی کا آغاز ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتے ہوئے ہوا تھا۔ اس ملازمت کے دوران ان کی ملاقات اردو زبان کے کچھ صحافیوں سے ہوتی تھی جن کی ترغیب پروہ ایک اخبار سے وابستہ ہوگئے۔ پہلےروزنامہ "سویرا" پھر روزنامہ "تیج" سے وابستہ ہوئے اور اخیر میں روزنامہ "قومی آواز" میں آگئے جہاں تقریباً پچیس سال ملازمت کی۔ خیال بتاتے ہیں کہ جن شاعروں اور صحافیوں سے ان کے اچھے مراسم تھے، ان میں شامل تھے فکر تونسوی، کمار پاشی، حیات لکھنوی، پروانہ رودولوی، عشرت علی صدیقی، جمناداس اختر اور پنڈت رام کشن مضطرؔ۔ مضطرؔ کو وہ شاعری میں بھی اپنا استاد قرار دیتے ہیں۔

awaz

اپنی شاعری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے چندر بھان خیال کہتے ہیں مجھے اردو زبان نے بہت عزت دی۔ دنیا بھر میں مشاعرے پڑھے اور کئی ملکوں کی سیر کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا پہلا شعری مجموعہ تھا"شعلوں کا شجر" جو 1979 میں شائع ہوا تھا اور یو پی اردو اکادمی نے انعام کا مستحق قرار دیا تھا،بعد میں "تازہ ہوا کی تابشیں" شائع ہوا اسے بھی خوب پذیرائی ملی۔ جب کہ سیرت نبوی پر سونحی نظم "لولاک" کو خصوصی طور پر سراہا گیا۔لولاک کا کچھ حصہ قارئین کی دلچسپی کے پیش نظردرج ہے۔

حضرتِ آدم سے پیدا ہوگیا جب آدمی

سمتِ امکانات میں بڑھنے لگا جب آدمی

سینۂ صحرا میں ہر دم جگمگاتا تھا کوئی

تیرہ و تاریک لمحوں سے گزرنے کے لیے

آدمی کے راستوں میں رنگ بھرنے کے لیے

تہہ بہ تہہ تنہائی کی تہہ میں اترنے کے لیے

بحر و بر کی وسعتوں سے دامنِ افلاک تک

گونجتی تھی اک تڑپ تخلیق کی دیوانہ وار

خلوتوں کی خاک میں لپٹے ہوئے دن بیقرار

اور سنّاٹوں کے آگے بے قبا شب شرمسار

اک طرف مبہم عقائد دوسری جانب فریب

بیچ میں بیٹھے ہوئے بے دست و پا شام و سحر

پربتوں کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے سوکھے شجر

ہنہناتی، ہانپتی، ہنستی، ہوا کے دوش پر

ایک قطرہ آگ کا رکھ دیں تو کتنی وادیاں

خاک ہوکر خوف کے طوفاں اٹھا دیتیں کئی

وادیاں جو آگ کے دریا بہا دیتیں کئی

اور ٹھنڈی ریت پر لیٹا ہوا تنہا بشر

چونک کر پھر سر جھکا دیتا کسی کے سامنے

ہر طرف بے روح منظر آدمی کے سامنے

ایک بھی چلتی نہیں تھی تیرگی کے سامنے

روشنی کے نام پر اڑتی ہوئی چنگاریاں

ہائے پھیلا تھا جہاں میں بے بسی کا سامراج