اتحاد بین المذاہب وقت کی ضرورت ہے : علماء و دانشوران

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 13-07-2024
اتحاد بین المذاہب وقت کی ضرورت ہے : علماء و دانشوران
اتحاد بین المذاہب وقت کی ضرورت ہے : علماء و دانشوران

 

محفوظ عالم : پٹنہ 

مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے مذہب والوں سے ملاقات نہیں کریں گے، میل جول نہیں ہوگا تو سماج کی ترقی کا کام ادھورا رہ جائے گا۔

مسجد، مندر، چرچ، گوردوارہ ہیں، وہاں عقیدت مندوں کو بھیڑ ہوتی ہے اور سب لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوا ہے جب تمام مذاہب، پنت اور روایات کے لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔

اتحاد بین المذاہب وقت کی ضرورت ہے جس پر ملک کی تعمیر و ترقی کا دارو مدار ہے۔

مسلمانوں میں خود آپسی اتحاد کی کمی ہے۔ مسلمانوں کا ایک ادارہ دوسرے ادارہ سے بلکل الگ ہے۔ ایک کی سونچ دوسرے سے نہیں ملتی ہے۔ اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پوری دنیا میں اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ سماج میں امن و محبت کا چراغ روشن ہو اور اس کے لئے مختلف مذاہب و روایات کو ماننے والوں کے بیچ ڈائیلاگ کیا جائے اور محبت کی فضا کو عام کیا جائے۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے عالم دین، دانشور اور نوجوانوں نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ دراصل، حضرت محمد صلی علیہ و سلم کا واضح پیغام ہے کہ اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔

محبت انسانی معاشرہ کی بنیاد

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے علماء اور دانشوران نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی معاشرہ کا تصور محبت اور امن و امان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں ڈائیلاگ کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کا انہیں موقع فراہم ہوتا ہے۔ عالم دین کے مطابق اس سلسلے میں مختلف تنظیموں کی جانب سے وقتاً فوقتا پروگرام، سیمینار اور کانفرنس منعقد کر اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایک دوسرے کے اختلافات دور ہوں اور آپسی بھائی چارہ اور خیر سگالی کے جذبہ کو فروغ حاصل ہو۔ خاص بات یہ ہے کہ ان پروگراموں کا اثر بھی ہوتا ہے اور سماج میں کدورت اور نفرت کا خاتمہ کر محبت اور قومی یکجہتی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ مزید اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اتحاد کے بغیر سماج کی ترقی ممکن نہیں

نوجوان عالم دین مولانا محمد عادل فریدی کے مطابق آج پورے عالم میں اتحاد بین المذاہب کی بات ہو رہی ہے۔ اس تعلق سے میرا کہنا یہ ہے کہ اتحاد کی دو صورتیں ہیں، ایک نظریاتی اور فکری اتحاد اور دوسرا سماجی اور عملی اتحاد۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم تمام مذاہب کی مقدس کتابوں کا مطالعہ کریں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سبھی مذاہب کی بنیاد توحید پر قائم ہے لیکن مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے مذہب کے بنیادی باتوں کا خیال نہیں رکھا ہے، اس لیے اتحاد بین المذاہب کا ایک پہلو یہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی بنیادوں کی طرف لوٹیں تاکہ خدا کا جو حقیقی تصور ہے وہ ان کے سامنے واضح ہو سکے۔

مولانا محمد عادل فریدی کا کہنا ہے کہ سماجی اور عملی اتحاد نوع انسانی کے مشترکہ مفاد کے لیے ہے اس اتحاد کے لیے مسلمان ہمیشہ تیار ہیں۔ پیغمبر اسلام محمد صلی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور اللہ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت ان بندوں سے ہے جو اس کی عیال کے ساتھ احسان کریں۔

مولانا عادل فریدی کا کہنا ہے کہ اسلامی تاریخ پر غور کریں تو اعلان نبوت سے پہلے ہی حضرت محمد صلی علیہ و سلم نے حلف الفضول کے معاہدہ کے ذریعہ عرب کے مختلف قبائل کے درمیان اتحاد پیدا کیا، پھر جب اسلام کو فروغ حاصل ہوا اور مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہوئی اس وقت بھی میثاق مدینہ کے ذریعہ مختلف قبائل اور مذاہب کو انسانیت کے مشترکہ مفاد کے سامنے رکھتے ہوئے متحد و منظم کیا۔

اخوت اور بھائی چارہ سے ہوتی ہے ترقی

مولانا محمد عادل فریدی کے مطابق آج جب پوری دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے ایسے میں انسانیت کے مشترکہ مفادات کو سامنے رکھ کر ہمیں سماج میں اتحاد بنانے اور قائم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج سب سے زیادہ ضرورت انسانی اخوت اور بھائی چارہ کی ہے، اس تعلق سے ہمیں معاشرہ میں ایک ایسا اتحاد قائم کرنا چاہئے جسے ایک اچھے سماج کی تشکیل، انسانیت کا احترام، سماج میں امن و امان کا قیام ممکن ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو، ایک بہتر اور صالح معاشرہ کی تشکیل اس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، مولانا عادل فریدی کا کہنا ہے کہ جتنے بھی مذاہب و مسالک، فکری و اعتقادی گروہ ہے وہ انسانوں کے لیے ہے، اس لیے انسانیت کا احترام سب سے اہم اور خاص چیز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام مذاہب کے لوگوں کو آپسی اتحاد کے ذریعہ قتل و غارت گری، سود، جوا، نشہ، زنا، چوری، ظلم، بد کاری، نفرت، تعصب، کو برا سمجھنا چاہئے اور اس کے خاتمہ کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ عادل فریدی کے مطابق انسانیت کی خدمت، پریشان حال اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد، عدل و انصاف،  مساوات، رواداری، حقوق انسانی کا تحفظ، ہر شخص کی عزت، جان و مال کا تحفظ سب کے نزدیک محبوب اور قابل تقلید اعمال ہیں۔ اس لیے ہم ان بنیادوں پر مذاہب عالم کے درمیان اشتراک کی کوشش کریں تو ہمارا اشتراک پائدار ہو سکتا ہے۔ عادل فریدی کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مختلف تنظیموں کی جانب سے کوششیں کی جاتی ہے جس کا سماج پر کافی مثبت اثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں لوگ اس بات کی فکر کر رہے ہیں کہ خیر سگالی اور امن کا ماحول ہمیشہ قائم رہے، اس تعلق سے سنجیدگی کے ساتھ مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عادل فریدی کا کہنا ہے کہ امن و امان کے ماحول میں ترقیاتی و تعمیراتی کام زمین پر نافذ ہوتا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس معاملہ میں ہر سطح پر کوشش کی جائے۔

ہندو مسلم اتحاد سے ملک ہوگا مضبوط

عالم دین و آل مدرسہ یوا شکچھک سنگھ بہار کے ریاستی صدر مولانا عمران عالم کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے لوگ خوب جانتے ہیں کہ جب ہندو اور مسلمان ملک کی آزادی کے لیے ایک ہوئے اور متحد ہوئے تو برطانیہ جیسی عظیم الشان سلطنت کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایکتا میں طاقت ہے اور اتحاد ہی کسی ملک کی مضبوطی کو دنیا کے نقشہ پر واضح کرتا ہے۔ مولانا عمران عالم کا کہنا ہے کہ قومی یکجہتی اور بھائی چارہ کے فروغ کے لیے بھی مختلف شہروں میں اور مختلف وقتوں میں بین المذاہب کا پروگرام منعقد ہونا چاہئے۔ مولانا عمران عالم کے مطابق الگ الگ مذاہب اور روایات کو ماننے والے لوگ جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور مثبت فکر کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو کدورت، نفرت اور اختلافات ختم ہوتا ہے۔ دراصل لوگ بھائی چارہ اور خیر سگالی کی باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں لیکن یہی بات سب سے بڑی ہے جس کے سبب ایک بہتر معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور وہاں پرورش پانے والے بچہ ملک کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں اور ملک کو مضبوط بنانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگاتے ہیں۔ مولانا عمران عالم کا کہنا ہے کہ دراصل ہندوستان کی مٹی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی موجود ہے اور اس کے بغیر ہندوستانی معاشرہ ترقی یافتہ نہیں ہو سکتا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ آج کے وقت میں ان باتوں پر خاص توجہ دی جائے۔ ان کے مطابق آزاد ہندوستان میں پہلے بھی سب کی حصہ داری رہی ہے اور آج بھی سب کی حصہ داری ہے۔ اس لیے میرا کہنا یہ ہے کہ سماجی اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقہ اپنی آپسی اختلافات کو فراموش کر ملک و ملت کے مفاد میں کام کرے اور آپسی بھائی چارہ کے فروغ کے لیے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ رابطہ بنائے اور ان کے ساتھ بات چیت کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس سمت میں جو لوگ کوشش کر رہے ہیں، ایسے لوگ تعریف کے مستحق ہیں لیکن اس سلسلے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

بین المذاہب پروگرام سے ہوتا ہے مثبت اثر

جمیعت علما بہار کے سکریٹری ڈاکٹر فیض احمد قادری کا کہنا ہے کہ آج ملک کے جو حالات ہیں، اس میں سب سے زیادہ ضرورت آپسی محبت اور بھائی چارہ کا فروغ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تعلق سے سبھی مذاہب کے لوگوں کو آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا چاہئے اور پروگرام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جمیعت علما بہار کی جانب سے ہم لوگ عید ملن تقریب کا انعقاد کرتے ہیں اسی طرح مختلف مذاہب کے پیشوا کے ساتھ کانفرنس اور سمینار کرتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کو سمجھیں اور ایک دوسرے کے بیچ کا خواہ مخواہ کا الجھن دور ہو۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو اس سمت میں مزید آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر فیض احمد قادری کے مطابق اب جو حالات ہیں اس میں عوام کو ہی خود پہل کرنا ہوگا اور انہیں سوچنا ہوگا کہ ملک کو ترقی کے راستہ پر کس طرح سے لے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی ایک مذہب کے لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ملک کے فلاح و بہبود کے لیے تمام مذاہب کے لوگوں کی پہلی ذمہ داری ہے کہ ملک کی ترقی، فلاح و بہبود کے لیے اس طرح کا کام کریں۔ ڈاکٹر فیض کا ماننا ہے کہ مسلمان اقلیت میں ہے ایسے میں ان کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ تمام لوگوں کو جوڑنے کی اور ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کی لگاتار کوشش کریں۔ اسی طرح جو اکثریتی فرقہ کے لوگ ہیں انہیں اقلیتوں کو چھوٹا بھائی سمجھ کر ان کے ساتھ جڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر فیض احمد کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کے سبب ملک میں امن و امان اور بھائی چارہ کے ماحول کو تقویت ملتی ہے اور برسوں پورانی جو روایت ہے گنگا جمنی تہذیب کی وہ مضبوط ہوتا ہے۔

اتحاد کے لیے ایک دوسرے کو سمجھنا ضروری

ڈاکٹر فیض احمد قادری کا کہنا ہے کہ جب تک ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذہب والوں سے ملاقات نہیں کریں گے، میل جول نہیں ہوگا تو سماج کی ترقی کا کام ادھورا رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا مدرسہ کو لیکر لوگوں میں کافی الجھن ہے۔ اسی لیے میرا کہنا ہے کہ ہم لوگ مدارس چلاتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ برادران وطن کو بھی مدارس میں آنے کی دعوت دیں، ان کو بلائیں، مدرسوں کو دکھائیں، مدرسہ میں کیا پڑھائی ہوتی ہے، کس طرح سے طلباء رہتے ہیں اور مدارس کا کیا نظام ہے۔ برادران وطن کو بھی اپنا دل بڑا کر کے مدارس میں آنا چاہئے۔ ڈاکٹر فیض احمد قادری کا کہنا ہے کہ لا علمی کے سبب بہت سارا ایسا مسئلہ سامنے آتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کسی بات کا الجھن ہو تو سماج کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی الجھن اور لاعلمی کو دور کرے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کو بلائیں، بٹھائیں، اپنے پروگراموں میں ان کو مدعو کریں، کھانے کی دعوت پر ان کو بلائیں۔

اسی طرح گھروں میں بھی ایک دوسرے سے ملنے جلنے کی پورانی روایت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں علم کی کمی کے سبب یا لاعلمی میں بہت سارے واقعات ایسے رونما ہو رہے ہیں جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی غیر مسلم بھائیوں کو اپنے گھروں میں دعوت پر بلائیں، ان کو بتائیں کہ ہم کیا کھاتے ہیں، کیا پہنتے ہیں اور کس طرح سے اپنی زندگی گزارتے ہیں اور کیا ہماری زندگی کا طریقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسے عوامل ہیں جس کے سبب معاشرہ میں نفرت ختم ہوگا اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے گا، ساتھ ساتھ کنفیوژن بھی دور ہوگا۔

مختلف مذاہب کے پیشوا کے ساتھ منعقد ہو پروگرام

ڈاکٹر فیض احمد قادری کا کہنا ہے کہ بین المذاہب سیمینار اور کانفرنسوں کا ایک سلسلہ چلنا چاہئے تاکہ لوگوں میں محبت کی فضا عام ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تعلق سے حکومت بھی پہل کر سکتی ہے کہ کوئی ایسی کمیٹی کی تشکیل کرے جس کا کام یہی ہو کہ وہ مختلف مذاہب کے پیشوا کے ساتھ کانفرنس اور سیمینار کرے تاکہ سماج میں نفرت اور کسی طرح کے الجھن کے بجائے محبت فروغ پائے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی مذہبی پیشوا ہیں چاہے وہ مسلم ہو، ہندو، جین، بدھ یا عیسائی مذہب کے ہو ان کو ایک دوسرے سے روابط ہونا چاہئے۔ یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ الگ الگ وقتوں پر سیمینار، کانفرنس اور دیگر پروگرام منعقد کر آپسی خیر سگالی کے ماحول کو مضبوط کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ معاشرہ کس طرح کا ہے اور کتنا پرامن اور بھائی چارہ کے ساتھ لوگ رہتے ہیں۔ ان کے مطابق ہم لوگ اپنی سطح سے کوشش کر رہے ہیں اور لوگوں سے اپیل بھی کرتے ہیں کہ تمام مذاہب کے لوگ اس سلسلہ کو شروع کریں اور ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا مکمل تعاون کریں۔

مختلف مذاہب کے لوگوں سے ہوتا ہے تعامل

مسلم مجلس مشاورت کے مجلس عاملہ کے رکن ڈاکٹر انوارالہدیٰ کا کہنا ہے آج کا وقت مل جل کر رہنے کا ہے۔ پوری دنیا ایک دوسرے کے ساتھ رہنے، تجارت کرنے اور اپنی اپنی تہذیب و روایات کو ایک دوسرے کے سامنے رکھنے کی کوشش میں جٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے عظیم  اور کثیرالمذاہب ملک میں جہاں ایک سو کیلو میٹر کی دوری پر لوگوں کا رنگ، زبان اور تہذیب بدل جاتا ہو اس ملک کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اور ایک دوسرے کا تعاون کر ملک کی ترقی کی راہ میں میل کا پتھر ثابت ہوں۔ ڈاکٹر انوارالہدیٰ نے کہا کہ ہندوستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال تو پوری دنیا میں دی جاتی ہے ایسے میں یہاں رہنے والے لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس عظیم روایت کو صرف زندہ ہی نہیں رکھے بلکہ اس کو مزید ترقی دینے کی ہر ممکن اور ہر وقت مسلسل کوششیں کی جائے۔ ڈاکٹر انوارالہدیٰ کے مطابق عید اور تہواروں کے موقع پر مختلف مذاہب کے لوگوں کو ہم لوگ بلاتے ہیں اور الگ الگ مواقع پر ان کے ساتھ گفتگو بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام کے متعلق جو غلطفہمی لوگوں کی ہوتی ہے وہ دور ہوتی ہے اور برادران وطن کو اسلام کو اور مسلمانوں کو سمجھنے کا بھر پور موقع ملتا ہے۔

اسلام دیتا ہے خیر سگالی کی تعلیم

ڈاکٹر انوارالہدیٰ کا کہنا ہے کہ اسلام، لوگوں کے درمیان خیر سگالی سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل مانتا ہے۔ ایسے میں اسلام کے سلسلے میں جو غلطفہمی لاعلمی کے سبب بنا لی جاتی ہے وہ الجھن ان سے ملنے پر دور ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر انوارالہدیٰ کا کہنا ہے کہ اس تعلق سے ہم لوگ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ ملک کثیرالمذاہب اور مختلف تہذیبوں کا مرکز ہے۔ سو کیلو میٹر کی دوری پر لوگوں کی زبانیں، تہذیب اور مزاج تک بدل جاتا ہے، ایسے میں یہ بیحد ضروری ہے کہ ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کے تئیں ہر سطح پر اور ہر مذہب کے لوگوں کو پوری کوشش کرنی چاہئے، تاکہ بھائی چارہ مضبوط ہو اور قومی یکجہتی کا ماحول برقرار رہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹنہ میں دیکھ لیجئے مسجد، مندر، چرچ، گوردوارہ ہیں اور وہاں عقیدت مندوں کو بھیڑ ہوتی ہے اور سب لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوا ہے جب تمام مذاہب، پنت اور روایات کے لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر انوارالہدیٰ کا کہنا ہے کہ اس عظیم روایت کو اور بھی مضبوط کرنے کے سلسلے میں تمام لوگوں کو پہل کرنا چاہیے خاص طور پر نوجوانوں کو اس تعلق سے آگے آنے کی ضرورت ہے۔

عالم دین کو اپنا ذہن وسیع کرنا چاہئے

بہار ریاستی حج کمیٹی کے سابق چیرمین الیاس حسین عرف سونو بابو کا کہنا ہے کہ اتحاد بین المذاہب وقت کی ضرورت ہے جس پر ملک کی تعمیر و ترقی کا دارو مدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ مسلمانوں میں خود آپسی اتحاد کی کمی ہے۔ الیاس حسین عرف سونو بابو کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ایک ادارہ دوسرے ادارہ سے بلکل الگ ہے۔ ایک کی سونچ دوسرے سے نہیں ملتی ہے۔ اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ الیاس حسین عرف سونو بابو کا کہنا ہے کہ ہمارے مسلم ادارہ میں موجودہ عالم دین کی سونچ چھوٹی ہو گئی ہے انہیں اپنی سونچ و فکر کو وسیع کرنا چاہئے تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ سکیں اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کر سکیں۔ انکا کہنا ہے کہ پہلی ضرورت تو یہی ہے کہ مسلم اداروں میں خود اتحاد قائم ہو اور دوسری ضرورت یہ ہے کہ برادران وطن کے درمیان ایک ایسا رابطہ قائم کرنے کی حکمت عملی بنانی چاہئے جس کے سبب فرقہ وارانہ ہم آہنگی مضبوط ہو۔ الیاس حسین کا کہنا ہے کہ یہ ملک گنگا جمنی تہذیب کی مثال پیش کرتی آئی ہے لیکن آج اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس لیے میرا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو بھی اپنی سطح سے کوشش کرنی چاہئے اس میں سب سے زیادہ اہم کردار مسلم اداروں کا ہے جو خود ہی ایک دوسرے کے خلاف دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بلکل ہی غلط روش ہے جس کو ہر قیمت پر بدلنے کی ضرورت ہے۔