گرمی ہے یا روز جزا

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 11-06-2024
گرمی ہے یا روز جزا
گرمی ہے یا روز جزا

 

  عمیر منظر:  لکھنؤ 
بچپن میں ایک نظم پڑھی تھی کہ چارموسم خدا نے دکھائے۔اپنی قدرت کے جلوے دکھائے۔واقعہ یہ ہے کہ مختلف موسم کی شکل میں ہم قدرت کا جلوہ ہی دیکھتے ہیں۔اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس میں سوچنے اور سمجھنے کی بہت سی باتیں ہوتی ہیں۔موسم کی تبدیلی زندگی کا ایک نیا منظر نامہ اور ایک نئی تیاری کا پیش خیمہ بھی ہوتی ہے۔اور ہر نیا موسم اپنے ساتھ بہت کچھ چیزیں بھی لاتا ہے جس سے ہم لطف بھی اٹھاتے ہیں۔ہر موسم کا اپنا ایک مز اج اور ایک پہچان ہوتی ہے اس کے ساتھ نئی نئی چیزیں اور پھل بھی سامنے آتے ہیں۔یہ قدرت کا جلوہ بھی ہے۔
موسم کوئی بھی ہو اس کی انتہائی شکل بہت خطر ناک ہوتی ہے۔اس وقت دنیا کے ایک بڑے حصے میں شدید گرمی کا موسم ہے۔اس شدت کی دھوپ کہ دوپہر کو نکلنا مشکل ہے۔خبروں سے یہی پتا چلتا ہے کہ گزشتہ برسو ں کے مقابلے اس سال درجہئ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔اس کے مختلف اسباب ہیں۔ماحولیات کی تبدیلی اور ختم ہوتے جنگلوں نے موسم کی شدت کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ان گرم ملکوں میں ایک ملک ہندستان بھی ہے۔
ہندستان کے ایک بڑے حصے میں گرمی کا موسم اپنے شباب پر ہے۔دھوپ کی شدت اور دن میں لو کے تھپیڑے کیاانسان اور کیا دیگر مخلوق سب کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔دوپہر ہوتے ہوتے سڑکیں ویران ہوجاتی ہیں۔اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ آبادی انسانوں سے خالی ہے۔گرمی کی ابتدا تو اپریل اواخر سے ہوتی ہے لیکن مئی کا مہینہ گرمی کے سخت ہونے کا ہے۔طنزو مزاح کے مشہور شاعر اکبر الہ آبادی کا ایک بہت مشہور شعر ہے جو یہاں کے موسم کے لحاظ سے صادق بھی آتی ہے۔
پڑ جائیں میرے جسم پہ لاکھ آبلے اکبر
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون 
اردو شاعری کاایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انسانی جذبات و احساسات کے علاوہ اس کی دنیا کے جو مناظر اور مسائل ہیں ان کوبھی شاعری کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ہندستان کے رنگا رنگ موسم کے نہ جانے کتنے پہلو ہیں جو شاعری میں بیان کیے جاچکے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست قرارپائے گا کہ ہندستان کی تاریخ و تہذیب اور یہاں کے موسم اور رسم ورواج کے ہندستان کی شاعری کے تناظر میں زیادہ بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔موسم کی ایک ایک تبدیلی کو شاعری میں بیان کیا گیا ہے۔آج سے ایک صدی پہلے جب اس ٹکنالوجی کی ترقی نہیں تھی توشاعری ہی تعلیم کا ذریعہ تھی۔بچوں پر لکی ہوئی بے شمار نظمیں ہیں جن میں انھیں موسم اور دوسری چیزوں کی تعلیم دی گئی ہے۔محمد حسین آزاد،حالی،اسماعیل میرٹھی اور بہت سے شعرا نے بچوں کے لیے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھ کر انھیں نہ صرف معلومات فراہم کی بلکہ یہاں کے موسم کا نقشہ بھی اس طرح کھینچ رکھا ہے کہ سوسال پہلے کی شاعری آج کی شاعری معلوم ہوتی ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی نے بہت سی نظمیں لکھیں مگر ان کی ایک مشہور نظم ’برکھا رت‘ہے۔انھوں نے برسات کو گرمی کی تپش بجھانے اور سردی کا پیام لانے والی کہا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ برسات کا یہ موسم بہت دعاؤں اور التجاؤں کے بعد آیا ہے۔آگے چل کر انھوں نے اسی نظم میں گرمی کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کا کیا حال ہوگیا تھا۔گرمی کی وجہ سے تمام جاندا تڑپ رہے تھے۔جنگلی اور عام جانوروں کا نام لے لے کر انھوں نے ان کاحال بیان کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
تھیں لومڑیاں زبان نکالے 
اور لو سے ہرن ہوئے تھے کالے 
چیتوں کو نہ تھی شکار کی سدھ 
ہرنوں کو نہ تھی قطار کی سدھ 
 گرمی کی وجہ سے جنگل اور عام انسانی آبادی میں جو اثرات پڑتے ہیں حالی نے ان کا بھی ذکر کیا ہے۔انھوں نے مختلف درندوں اور جانوروں کی خوب منظر کشی کی ہے۔آگے جب وہ گرمی کا حال بیان کرتے ہیں تو کچھ اس طرح سے لکھتے ہیں۔
طوفان تھے آندھیوں کے برپا
اٹھتا تھا بگولے پر بگولا 
آرے تھے بدن پہ لو کے چلتے 
شعلے تھے زمین سے نکلتے 
تھی سب کی نگاہ سوئے افلاک 
پانی کی جگہ برستی تھی خاک 
اس برس جس گرمی سے ہمارا سامنا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔اس وقت تو گرمی سے بچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن وہ ز مانہ جب ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ایک اور شاعر جنھوں نے بچوں کے لیے بے شمار نظمیں لکھیں۔وہ بجا طورپر بچوں کے شاعر مشہور ہی ہیں۔یعنی اسماعیل میرٹھی۔ان کی ایک مشہور نظم ”گرمی کا موسم“ہے۔بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر اس طرح لکھنا کہ وہ ان کے لیے دلچسپی اور معلومات دونوں کا سبب بن جائے اسماعیل میرٹھی کا کارنامہ کہا جاتا ہے۔نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
مئی کا آن پہنچا ہے مہینا
بہاچوٹی سے ایڑی تک پسینا
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا 
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
زمیں ہے یا کوئی جلتا توا ہے 
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے 
ان نظموں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہندستان میں پہلے سے گرمی زیادہ تھی۔اور شعرا نے جہاں دیگر موضوعات کو شاعری کا حصہ بنایا وہیں یہاں کے موسم اور دیگر چیزوں کا بیان بھی اس طرح کیا کہ ان کی شاعری کے حوالے سے ہندستان کوسمجھا اور دیکھا جاسکتاہے۔
اردو شاعری کی ایک مشہور صنف مرثیہ ہے۔یہ نظم گرچہ واقعات کربلا پر ہوتی ہے مگر اس کے تناظر میں جب موسم کی سختی کا بیان ہوتا ہے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہندستان کا بیان ہے۔اردو مرثیہ میں میر انیس کو بلند مرتبہ حاصل ہے۔میر انیس نے ایک مرثیے میں میدان کربلاکی گرمی کوبیان کیا ہے۔گرمی کی شدت کو اس فنکاری اور ہنر مندی سے بیان کیا ہے مبالغہ بھی حقیقت کی طرح محسوس کیا جاسکتا ہے۔میر انیس نے لکھاہے کہ جنگ کے روز کس قدر گرمی تھی اس کو بیان نہیں کرسکتا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں گرمی کی شدت بیان کرنے کی کوشش کی تو الفاظ کی تپش سے شمع کی طرح میری زبان نہ جلنے لگے۔ایک بند میں وہ کہتے ہیں ۔
وہ لو وہ آفتاب کی جدت وہ تاب و تب 
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب
خود نہر علقمہ کے بھی سوکھے ہوئے تھے لب 
خیمے جو تھے حبابو کے تپتے تھے سب کے سب 
اڑتی تھی خاک،خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
اسی مرثیہ کے ایک بند میں انیس نے ایک مصریہ یہ کہا ہے کہ ”پانی کنویں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے“۔اس مرثیے کا وہ بند جو غزل کے شعر کی طرح مشہور ہے اور بجا مشہور ہے ملاحظہ فرمائیں۔
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے 
ٓآہو نہ منہ نکالتے تھے سبززار سے 
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے 
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے 
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر 
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ ز مین پر 
موسم اور خصوصاً گرمی کے حوالے سے یہ اشعار دراصل بیانیہ کے ذیل میں آئیں گے یعنی اس میں تخیلاتی کمالات نہیں ہیں بلکہ اسے واقعاتی کہا جائے گا۔البتہ غزلوں میں جہاں گرمی اور کا بیان آیا ہے وہ تخیلاتی زیادہ ہے اور اس کا اپنا ایک ادلچسپ اور انوکھا انداز ہے۔ناصر کاظمی نے ایک شعر میں تخیئل اور حقیقت دونوں کو ایک نئے تناظر میں برتا ہے۔
سورج سرپہ آپہنچا ہے 
گرمی ہے یا روز جزا 
یہ بات تو واضح ہے کہ روز قیامت سخت گرمی ہوگی۔سورج سوا نیزے پر ہوگا۔آج کی گرمی اسی روز جزا کی یاد دلارہی ہے۔اسی کو ناصر کاظمی نے غزل کے پیرائے میں ایک ابیان کیا ہے۔
غالب تو تخئیل کے بادشاہ ہیں۔ان کا ایک مشہور شعر ہے 
عرض کیجیے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں 
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا    
کیا غیر معمولی شعر کہا ہے۔دیکھیے طبیعت کی ایسی گرمی کہ جس چیز کا بھی خیال آئے وہ جل جائے۔اوپر میر انیس کا مصرعہ گزر چکا ہے کہ ”بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر“تخئیل اور واقعہ کی عمدہ مثال 
گرمی کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس سے نیند میں خلل واقعہ ہوتا ہے۔غزل کے شعرا نے اسے دوسرے انداز میں پیش کیا ہے۔خواجہ حیدر علی آتش کا ایک شعر جس کا دوسرا مصرعہ زیادہ مشہور ہے 
باغ دنیا میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں 
گرمی آتش رخسار نے سونے نہ دیا 
محبوب کی یاد شدت اور گرمی سے عبارت ہے۔رخسار تو اس کی انتہائی شکل ہے۔اس مضمون کے بے شمار اشعار ہیں۔ایک شعر شکیل جہاں گیری مرحوم کا یاد آرہا ہے۔ 
کوئی دم کو ہی پھنکا جاتا ہے عالم سارا 
ہم نے سورج میں لگا دی ہے ترے نام کی آگ
بسمل سعیدی کا شمار اردو کے نامور شعرا میں کیا جاتا ہے ان کا ایک شعر ملاحظہ کریں کہ کس طرح انھوں نے عشق کی گرمی کو جون کی دوپہر سے ملا دیا ہے۔
عشق سے ہوتی ہے اس شدت کی گرمی خون میں 
کھولتا ہے جیسے دریا دوپہر کو جون میں 
اردو غزل کے پردے میں محبوب کی مختلف کیفیات کو کہیں گرمی،کہیں سورج،کہیں دھوپ سے تعبیر کیا گیا ہے۔اس نوع کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ 
قیامت میں بڑی گرمی پڑے گی حضرت زاہد 
یہیں سے بادہ گل رنگ میں دامن کو تر کرلو 
مضطر خیر آبادی 
جانے کس سورج کی سرگرمی ہے قصر جسم میں 
ہوتے جاتے ہیں درو دیوار شعلہ آشنا
احمد محفوظ 
گرمی لگی تو خود سے الگ ہوکے سوگئے 
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا 
بیدل حیدری 
بند آنکھیں کروں اور خو اب تمہارے دیکھوں 
تپتی گرمی میں بھی وادی کے نظارے دیکھوں 
صاحبہ شہریار
گرمیوں بھر مرے کمرے میں پڑا رہتا ہے 
دیکھ کر رخ مجھے سورج کا یہ گھر لینا تھا 
غلام مرتضی راہی 
ختم کردی خارجی گرمی نے جذبوں کی تپش 
عشق ٹھنڈے پڑگئے ماحول اتنا گرم ہے 
عبدالرحمن ایڈوکیٹ 
شدید گرمی میں کیسے نکلے وہ پھول چہرہ 
سو اپنے رستے میں دھوپ دیوار ہورہی ہے 
شکیل جمالی 
پگھلتے دیکھ کر سورج کی گرمی 
ابھی معصوم کرنیں رو گئی ہیں 
جالب نعمانی 
اردو شاعری کا منظرنامہ نہایت روشن اور تابناک ہے۔ایک طرف جہاں غزل کے توسط سے نہایت اعلی اور عمدہ شاعری ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے وہیں نظموں اور دیگر اصناف کے حوالے سے ہندستان کے تناظر میں شاعری کا ایک بیش بہا ذخیرہ سامنے آتا ہے۔