منصور الدین فریدی۔نئی دہلی
وہ روشن بازار،جگمگاتی دکانیں اور روشن اسٹال۔ جن پر ہوتی تھی رنگ برنگے اور پر کشش عید کارڈز کی بہار۔مگریہ منظرنامہ اب صرف رہ گیا ہے ماضی کی یاد۔ کیونکہ دنیا کروٹ لے چکی ہے، روایات کے بندھن توڑ چکی ہے۔ نئے دور میں داخل ہوچکی ہے جسے ہم ’ڈیجیٹل ورلڈ ‘کہتے ہیں۔ ہاتھوں میں موبائل ہے اورمیز پرکمپیوٹر تو گود میں لیب ٹاپ‘۔ دیوار پر اسمارٹ ٹی وی ہے۔ ہاتھ میں ریموٹ ہے،سب کچھ اپنے ہاتھ میں ہے،بس اشارے کی دیر ہے،اس بدلی دنیا نے عید کارڈ کی تہذیب کو بھی بدل دیا ہے۔۔
رمضان المبارک میں عبادت عروج پررہتی ہے مگر جوں جوں عید قریب آتی ہے،بازاروں میں خریداری بھی کسی عبادت کے جذبہ سے ہی کی جاتی ہے۔ ہرکوئی اپنی پسند کی خریداری میں جٹ جاتا ہے۔لیکن اس روایت میں جو کڑی اب گمشدہ ہوگئی ہے وہ عید کارڈز کی ہے۔ دراصل موبائل فون اور سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط نے اپنی افادیت کھو دی تو اسی میں عید کارڈز گم تو ہوگئے مگر انہیں یادوں سے نکالا نہیں جاسکتا ہے۔
عید کارڈز کا رواج گذشتہ صدی کے اختتام تک اپنے زوروں پر رہا، اور موبائل اور انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ دم توڑتا گیا۔ عید کارڈز کے ایک دیوانے کا کہنا ہے کہ ۔’’ ظاہر ہے ٹیکنالوجی نے لوگوں کا اپنے پیاروں سے جذبات کا اظہار کرنا کم خرچ، آسان، اور پرکشش بھی بنا دیا ہے۔لیکن پھر بھی ہم میں سے وہ لوگ جنہوں نے عید کارڈ منتخب کرنے، لکھنے، بھیجنے، اور وصول کرنے کا لطف لیا ہے، وہ چند بٹن دبانے اور چند کلکس میں وہ لطف کبھی نہیں پا سکتے۔‘‘۔
کہتے ہیں کہ دوا ہو یا فیصلہ سب کے سائڈ ایفکٹ ہوتے ہیں، ڈیجیٹل ورلڈ کا بی ایک سائڈ ایفکٹ یہ ہے کہ اس نئی تہذیب نے ہماری روایات کومٹا دیا ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس روایت کو دفن کیا،کیونکہ جب ہم اپنے موبائل سے کسی کو عید کی مبارک باد کا اینیمیٹیڈ میسیج بھیجتے ہیں تو سمجھ لیں اس تہذیب یا روایت کا دم نکال رہے ہیں۔مگر اب دنیا بہت تیزی کے ساتھ دوڑ رہی ہے ، کوئی یہ سوچ نہیں رہا ہے کہ وہ روایات کو کتنے پیچھے چھوڑ آیا ہے۔عید کارڈز کے ایک اور دیوانے سے جب ہم نے ان کی گمشدگی کے بارے میں سوال کیا تو وہ کسی دل جلے کی طرح صرف ایک جملہ ادا کرسکا کہ ’’ٹکنالوجی ڈائن کھا گئی‘‘۔
بازار لگ جاتے تھے
ایک دور تھا،یاد ماضی کہہ لیں ۔جب رمضان کی آمد کے موقع پربازاروں میں عید کارڈز کی خرید و فروخت شروع ہوجاتی تھی، عید کارڈز رشتہ کے مطابق ہوتے تھے۔ بھائی، بہن ،بھابھی،بیوی،دوست اور سہیلی ۔ان پر رشتوں کی اہمیت بیان کرتے مختصر پیغامات ہوتے تھے توکسی پر شاعری ۔ یہ آپ کی پسند پر ہوتا تھا کہ پیغام والا کارڈ لیں یا پھر اشعار والا۔ کسی پر پھول ہوتے تھے تو کسی پرخوبصورت چہرے۔ان دکانوں پر شام کو میلے لگ جاتے تھے،تیز روشنی میں نہائی دکانوں میں رنگ برنگے عید کارڈز پر جھکے ہوئے خریداروں میں ہرعمر کے لوگ ہوتے تھے۔اس وقت عید کارڈز ایک بڑی صنعت تھی جسے ٹکنالوجی نے نگل لیا۔۔
آٹھویں اورنویں دہائی میں پرنٹنگ کے انقلاب کے سبب عید کارڈز کی رنگینی نے متاثر کیا تھا
لفافے کو کھولنے کی بے چینی
وہ عید کارڈز کاسنہرا دور تھا، ہر کوئی عید کارڈ کا بے تابی سے انتظارکرتا تھا جبکہ بعض اوقات اگرکسی کو عید کارڈ موصول نہ ہوتو اس بات گلہ بھی کرتا تھا ۔دور جدید میں عید کارڈ کی جگہ دیگر تحائف نے لے لی ہے ۔لیکن عید کارڈ بھیجنے اور موصول ہونے کی خوشی کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے ۔ کارڈ موصول ہوتے ہی اس کو کھولنے کی بے چینی ہوتی تھی ،اس میں لکھا پیغام کسی کی دل کی دھڑکن بڑھا دیتا تھا تو کسی کو سکون دیتا تھا۔وہ احساسات اب لفظوں میں بیان نہیں کئے جاسکتے ہیں۔لوگ کئی کئی سال پرانے عید کارڈز کو سنبھال کر رکھتے تھے۔اسکول اور کالج میں ایک دوسرے کو دکھانے کےلئے لیجایا جاتا تھا۔اس کی خوشی کا تجربہ بھی کسی اثاثہ سے کم نہیں ۔
پوسٹ مین کے کندھوں کا بوجھ
عید کارڈز کسی کے دل کی دھڑکن تھے تو کسی کے کندھے کا بوجھ ۔ہم نے بات کی ایک بزرگ پوسٹ مین سے۔جو پچھلے چالیس سال سے اس ملازمت میں ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ،وہ دو ر مجھے یاد ہے۔ ہمارے کندھوں پرڈاک کا بوجھ کئی گنا بڑھ جاتا تھا۔لوگ پمارا انتظار کرتے تھے۔ خاص طور پر لڑکیاں تو کھڑکی اور دروازے پر ہی آجاتی تھیں ۔ایک ایسا دور تھا کہ لفافہ ہاتھ میں لیتے ہی لوگوں کے چہرے پر کئی رنگ آجاتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عید کارڈ کی روایت کا بوجھ اس پوسٹ مین کے کندھے کو جھکا دیتا تھا لیکن وہ خوشی خوشی ان کارڈز کو ان کی منزل تک پہنچا نے سے نہیں چوکتے تھے۔
پوسٹ آفس میں عید کے کارڈز کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔ پوسٹ آفس پرزبردست دباورہتا تھا۔ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ ہرعید کارڈ کا سائز الگ الگ ہوا تھا۔جو پوسٹ مین کو پریشان کرتا تھا۔مگر یہ ان دنوں کی بات ہے جب خوشیوں کو باٹنے میں میں بھی خوشی ملتی تھی۔اب تو پوسٹ مین عام خط گھر تک پہنچا دے تو بہت بڑی بات ہے۔
خوبصورت عید کارڈز جو اب یادوں میں رہ گئے ہیں
کیسے کیسے رنگ بدلے
در اصل جب عید کارڈز کا دور شروع ہوا تھا تواس وقت چڑیوں اور پھولوں کے ساتھ دیگر خوبصورت پینٹنگز کا استعال ہوتا تھا۔بچوں کی تصاویر ہوتی تھیں۔شاعری ہوتی تھی۔لیکن ۱۹۸۰ کے بعد مبارک باد کے ان کارڈز پر مذہب کا اثر نظر آنے لگا تھا۔ عید کے کارڈز پرجہاں چاند اور تارا ہوتا تھا اور خطاطی سےعید مبارک لکھا ہوتا تھا،اس کی جگہ مکہ و مدینہ کی خوبصورت رنگین تصاویر نے لے لی تھی۔ ان میں گلیٹرز کا استعمال شروع ہوا تھا۔پرنٹنگ کے انقلاب نے ان کارڈز کی شکل صورت بھی بدل دی تھی ۔۔ایک بڑی صنعت کی شکل لے لی تھی ۔ملک کی بڑی اور نامی گرامی پرنٹنگ پریس نے خوب چاندی بنائی ۔عید کارڈز پوسٹ کارڈ سے کتابی شکل میں پہنچ گئے تھے۔زبردست عروج تھا لیکن ایک دور ایسا آیا کہ 1990کے بعد بازار سے غائب ہوتے گئے ۔آخر کار جب انٹر نیٹ آیا تو اس پر منوں مٹی پڑ گئی۔
کب سے آغاز ہوا تھا
برِصغیر پاک و ہند میں عید کارڈ بھیجنے کی روایت کا آغاز انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ہوا۔ ویسے تو کئی دولت مند مسلمان گھرانے صدیوں سے سجاوٹ والے خطاطی شدہ پیغامات بھیجا کرتے تھے، لیکن عید کارڈز کی وسیع پیمانے پر دستیابی اور ان کا ڈاک کے ذریعے بھیجا جانا انیسویں صدی کے اواخر میں ہی شروع ہوا۔بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں۔ پہلی ریلوے کا پھیلاؤ، اور دوسری پرنٹنگ کی نئی سہولیات کا متعارف ہونا۔
یاد رہے کہ 1853 میں جب ہندوستان میں ریلوے متعارف کروائی گئی تھی، تو اس کا جال صرف 34 کلومیٹر پر محیط تھا، جو بڑھتے بڑھتے 1880 میں 25,000 کلومیٹر تک پھیل گیا تھا۔ ریلوے کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگ اپنے کاروبار اور روزگار کے سلسلے میں گھروں سے زیادہ دور جانے لگے۔ اس سے ڈاک کا نظام بھی بہتر ہوا، جبکہ پرنٹنگ کی نئی سہولیات نے بھی عید کارڈز کا معیار اور دستیابی بڑھائی۔ یورپ سے آئےتھے مبارک بادی کے کارڈ
یہ سب سے پرانے عید کارڈز جن میں شاعری چار چاند لگاتی تھی
کرسمس کارڈز سے ہوا تھا آغاز
ابتدائی عید کارڈ بنیادی طور پر یورپ کے کرسمس کارڈز تھے، جنہیں پرنٹنگ یا ہینڈ رائیٹنگ میں مطلوبہ تبدیلیوں کے بعد عید کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ہندوستان کی مخصوص تصاویر والے کارڈ بیسویں صدی کے شروع میں پرنٹ ہونا شروع ہوئے۔ لاہور میں حافظ قمرالدین اینڈ سنز، حافظ غلام محمد اینڈ سنز اور محمد حسین اینڈ برادرز، دہلی میں محبوب المطابع، اور بمبئی میں ایسٹرن کمرشل ایجنسی شبر ٹی کارپوریشن اور بولٹن فائن آرٹ لیتھوگرافر وہ پہلی کمپنیاں تھیں جنہوں نے ہندوستان میں عید کارڈز کی چھپائی کے کاروبار میں قدم رکھا۔
یہ وہ کرسمس کارڈ ہے جو یورپ کا تحفہ تھا ،اسی میں کرسمس کی جگہ عید مبارک لکھ دیا جاتا تھا
لیکن لندن کی کمپنی رافیل ٹک کے چھاپے گئے ہندوستانی مسلم طرزِ تعمیر کی تصاویر والے پوسٹ کارڈ بھی استعمال کئے جاتے تھے۔وہ دور ایسا تھا جب ان کارڈز کے ساتھ جذباتی لگاو ہوجاتا تھا۔اب دن بھر موبائل میں سینکڑوں میسج آجاتے ہیں مگر وہ خوشی محسوس نہیں ہوتی جو ان مبارک باد کے کارڈز سے ملتی تھی۔یہ وقت کا تقاضا ہے ،جس کے سبب ہم اس نئیرسم کو قبول کرچکے ہیں۔ شاید عید کے کارڈز کو یاد کرتے رہنا بھی اس تہذیب کو زندہ رکھنے کے مترادف ہوگا ۔
بلاشبہ جہاں بہت سی روایات بدلتے ہوئے سماجی حالات کے پیش نظر اب دم توڈ چکی ہیں ، ان میں سے ایک روایت عید کے موقع پر عید کارڈ کے زریعے مبارک باد کا حصول اور مبارک بھیجنے کا عمل بھی تھا ، یہ ایک ایسا عمل تھا جس میں تمام تر اہل خانہ پوری دلجمی سے اپنا کردار ادا کرتے تھے اور موصول کنندہ کی عمر رشتے کہ لحاظ سے مناسب ترین کارڈ کی خرید کسی طور بھی عید کی دوسری خریداریوں سے کم درجہ اہمیت کا عمل قرار نہیں دیا جاسکتا تھا ، لیکن جہاں بہت سی دیگر خوبصورت چیزیں ہم کھو چکے ہیں پچھلی دو سے تین دہائیوں میں ان میں یہ روایت بھی شامل ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اب اس کے دوبارہ زندہ ہونے کہ امکانات تقریبا معدوم ہیں اور کچھ وقت کی بات ہے جب عید کارڈز کا تذکرہ صرف اسی طور فیچرز تبصروں اور کتابوں میں ملے گا ۔۔ مگریہ بھی کب تک زندہ رہے گا۔