کربلا۔ پریم چند کی نظر میں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 23-07-2024
کربلا۔ پریم چند کی نظر میں
کربلا۔ پریم چند کی نظر میں

 

ڈاکٹر پروفیسر سید علی عرفان نقوی

اردو فکشن بالخصوص ناول اور افسانے کا ایک بڑا نام پریم چند کا ہے۔ پریم چند 31جولائی 1880 کو بنارس کے نزدیک موضع لمہی میں پیدا ہوئے اور 8اکتوبر 1936 کو ان کا انتقال ہوا۔ ان کا اصل نام دھنپت رائے سریواستو تھا۔ لیکن اپنی ادبی زندگی کا آغاز نواب رائے کے نام سے کیا۔ نواب رائے کے نام سے 1907 میں جب ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تو سرکار کی جانب سے پریم چند سے کافی بازپرس ہوئی اور اس مجموعہ کے تمام نسخے نزرِ آتش کردیئے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے پریم چند کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا۔ ان کے والد کا نام عجائب رائے تھا۔ عجائب رائے 20 روپئے کے ماہوار پر ڈاخانے میں ملازم تھے۔ تنخواہ اتنی کم تھی کہ ان کی زندگی تنگدستی میں گزرتی تھی۔ سات سال کی عمر میں جب پریم چند کی ماں کا انتقال ہوگیا تو ان کے والد نے دوسری شادی کرلی۔ سوتیلی ماں کی وجہ سے ان کی زندگی تلخ ہوگئی۔ دوسری طرف پریم چند کی پہلی بیوی بھی ان کے لئے کچھ ایسی ثابت ہوئی کہ پریم چند کی زندگی میں کڑواہٹ ہی کڑواہٹ پیدا ہوتی چلی گئی ۔

پریم چند کی ذاتی زندگی کی طرح ان کی معاشی صورتحال بھی افسوس ناک تھی۔ لیکن اس کے برخلاف پریم چند کی ادبی زندگی خوشگوار اور قابلِ تعریف رہی۔ کیونکہ انہوں نے نہ صرف اپنی ذات سے اردو ادب کو مالا مال کیا بلکہ درجنوں ناولوں اور سیکڑوں کہانیوں سے ہندی کا دامن بھی بھر دیا۔ چنانچہ ہم بے جھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ پریم چند کے بغیر آپ اردو اور ہندی کے ناول اور افسانے کی تاریخ مرتب نہیں کرسکتے۔ جب بھی ناول اور افسانے کی بات ہوگی تو پریم چند کا نام بار بار زبان پر آئے گا۔ کیونکہ پریم چند نے خاص طور پر ان موضوعات مثلا دیہات’ غریبی’ حب الوطنی’ بھائی چارگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اپنے ناول اور افسانے میں پیش کیا ہے’ جو موضوعات ان سے قبل قابلِ ذکر نہیں سمجھے جاتے تھے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ پریم چند نے اپنے ناول اور افسانے میں اسی طبقے کی تصویریں پیش کی ہیں جس کی آغوش میں وہ پروان چڑھ چکے تھے۔

اردو و ہندی زبان کے پریم چند وہ زود گو فکش نگار ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو صرف ناول اور افسانہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ ترجمہ’ صحافت اور ڈرامہ جیسی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔

لیکن پریم چند کے ناول اور افسانے سے قطع نظر جہاں وہ ” اپنیاس سمراٹ” یعنی ناول نگاری کا بادشاہ سمجھے جاتے ہیں’ جب ہم ان کے لکھے ڈرامے بالخصوص "کربلا” (1924) کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ خوشی اور مسرت حاصل نہیں ہوتی ہے’ جو ان کے ناول اور افسانے کے مطالعے کے بعد ملتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ڈرامہ ” کربلا” انہوں نے زبردستی یا کاروباری یا اپنی تنگدستی کے خاتمے یا پھر ڈرامے کی صنف میں اپنا نام اندراج کروانے کے لئے لکھا ہے۔ کیونکہ ناول اور افسانے کے فن کی جس بلندی پر وہ کھڑے ہیں وہاں سے بہ حیثیت ڈرامہ نگار ان کا قد پست بہت پست نظر آتا ہے ۔ دس بڑے ڈرامہ نگاروں کی فہرست میں بھی پریم چند کہیں نظر نہیں آتے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ آئیے ہم اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ اپنیاس کے سمراٹ کو ڈرامہ لکھنے کی ضرورت کیوں آپڑی۔ تو جیسا کہ مذکورہ اقتباس میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ تنگدست تھے اور اپنی تنگدستی کو دور کرنے کے لئے پریم چند نے غالبا یہ قدم اٹھایا ہوگا۔ ایسا نہیں کہ انہیں نوکریاں نہیں ملیں لیکن جس طرح انہوں نے ان نوکریوں کو چھوڑا ( وجہ کچھ بھی رہی ہو)’ وہ حیریت انگیز ہے۔ ان کی تنگدستی سے متعلق دو اقتباس نقل کئے جاتے ہیں آپ بھی ملاحظہ کریں:

دھنپت رائے کی شادی کے ایک سال کے اندر ان کے والد کا انتقال ہوگیا اور کمسن دھنپات رائے پر اپنی بیوی کا ہی نہیں بلکہ اپنی ماں’ ان کے دو بچوں اور ایک بھائی کا بھی بار آ پڑا۔ کنبہ کی ساری بچت جو کہ زیادہ نہیں تھی’ دھنپت رائے کے والد کی چھ ماہ کی لمبی اور آخری بیماری میں خرچ ہوچکی تھی۔ اس لئے کم عمر دھنپت رائے کے پاس خاندان کے آخراجات کے لئے کوئی سرمایہ نہیں بچا۔ جلد ہی وہ ننگے پیر اور چیتھڑوں میں دکھائی دینے لگے۔

( پریم چند کے خطوط از مدن گوپال’ صفحہ 11)

پریم چند کی تنگدستی کی دوسری مثال بھی ملاحظہ کریں

 ہنس اور سرسوتی اب بھی گھاٹے میں چل رہے تھے۔ پریس اب بھی خسارے میں چل رہا تھا۔۔۔۔۔ٹھیک اسی وقت ایک پندرہ روزہ ” "جاگران” ان کے سامنے آیا۔۔۔۔جاگران بند ہونے والا تھا۔ ونود شنکر ویاس نے اسے پریم چند کے حوالے کرنے کی پیشکش کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ مزید مصیبت اپنے سرموں لے رہے ہیں’ پریم چند نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور اسے ہفتہ وار بنادیا۔اسی طرح جبکہ پہلا اخبار خسارے میں چل رہا تھا اب انہیں دو اخباروں کے نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ جب کاغذ اور ملازمین کی اجرت کا بل بڑھ گیا تو پریم چند سے کچھ نہ بن پڑا۔ سوچا پریس اور ہنس کو انڈین پریس الہ آباد کے حوالے کرکے پریس میں کچھ حصہ لے لیں اور جاگرن کو بند کردیں۔ اسکیم تو بہت سی بنیں مگر کارگر کوئی بھی نہ ہوئی۔

( پریم چند کے خطوط از مدن گوپال’ صفحہ۔26)

جیسا کہ بیان ہوتا ہے کہ ڈرامہ کربلا کی تخلیق کے پیچھے پریم چند کا ملک میں پھیلا ہوا فرقہ وارانہ تشدد’ کو کم کرنے کا جذبہ کارفرما تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ملک میں گنگا جمنی تہذیب قائم ہو۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کی خوشی اور غم میں برابر شریک ہو اور ملک و قوم کی سلامتی کے لئے باطل طاقتوں سے ایک جٹ ہو کر مقابلہ کرے۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے جب پریم چند نے تاریخ کے اہم سانحے اور عظیم کردار پر نظر ڈالی تو کربلا جیسا واقعہ اور امام حسین علیہ السلام جیسا کردار انہیں ڈھونڈے نہیں ملا’ جسے سامنے رکھ کروہ لوگوں کو متحد کرتے اور بھائی چارے اور قومی ہم آہنگی کو فروغ دیتے۔ لہذا انہوں نے اس واقعے کا انتخاب کیا۔ یہ سچ ہے کہ کربلا جیسا دردناک واقعہ اور امام حسین علیہ السلام جیسا منفرد اور بلند کردار’ نہ کسی ملک اور نہ کسی قوم کے پاس ہے’ جسے سامنے رکھ کر مختلف ملک و قوم کے بیج نفرتوں کی خلیج کو پاٹا جاسکتا تھا۔

لیکن ایک بات جس کا ذکر پریم چند سے لیکر دوسرے ناقدین تک کرتے ہیں کہ ڈرامہ کربلا کی تخلیق کا مقصد ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیج اٹھتی ہوئی نفرتوں کی دیوار کو ڈھانا تھا تو یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہ معرکہ ایک ہی دھرم کے ماننے والوں کے درمیان تھا۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ اس واقعے سے پریم چند نے بادشاہت اور ملوکیت کے تصور کا خاتمہ کیا جس کے لئے پریم چند نے کربلا میں ہندوؤں کو امام حسین کی جانب سے جنگ کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ اس ڈرامے کے ذریعہ پریم چند نے یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ جنگ تلوار اور افراد کی کثرت سے نہیں بلکہ چند افراد کی حق پرستی’ وفاداری اور ثابت قدمی سے بھی جیتی جاسکتی ہے۔ اس لئے یزیدی فوج کثرت اور تلوار کی تیزی کے باوجود امام حسین علیہ السلام کی حق پرستی اور ثابت قدمی کے سامنے ہار گئی۔کربلا کا واقعہ اور امام حسین علیہ السلام کی ذات اس قدر عظیم تھی کہ اس نے پریم چند کے دل کو جیت لیا۔ چنانچہ پریم چند 23 جولائی 1924 کو اپنے دوست ” دیا نرائن نگم” کو لکھتے ہیں کہ میں نے حضرت حسین کا حال پڑھا- ان سے عقیدت ہوئی- ان کے ذوقِ شہادت نے مفتون کرلیا- اس کا نتیجہ یہ ڈراما تھا-

( پریم چند کے خطوط از مدن گوپال’ صفحہ 161-162)

 پریم چند نے امام حسین علیہ السلام کی ذات میں باطل طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی جرت پائی’ بنی نوع انسان خواہ کسی بھی نسل’ قوم اور رنگ و علاقے کا کیوں نہ ہو’ اس کو ایک جٹ کرنے کا جذبہ دیکھا اور مساوات و وفاشعاری عظمت و تحفظِ نسواں’ انسانی حقوق کی پاسداری محسوس کی نیز محافظِ بشریت کا علمبردار جانا۔ نتیجتا لکھنو کے قیام کے دوران اس جاں گداز واقعہ اور اس عظیم ذات یعنی امام حسین علیہ السلام کو اپنے ڈرامہ کربلا کا موضوع بنایا۔حالانکہ وہ اس واقعے کو ناول یا افسانہ کی ہئیت میں بھی لکھ سکتے تھے۔ ان کا قلم زودگو تھا۔لیکن انہوں نے اس واقعے کو ڈرامے کے فارم میں لکھنا پسند کیا۔ اس کی وجہ غالبا یہ رہی ہو کہ اسے شہروں شہروں اسٹیج کیا جانا تھا اور اس سے جو آمدنی ہوتی اس سے ان کی کفالت ہوتی- کیونکہ بچپن سے لیکر جوانی بلکہ آخری عمر تک جس تنگدستی کی زندگی پریم چند نے گزاری تھی وہ ناقابلِ بیان ہے- تنگدستی کے علاوہ ان کی سماجی اور ذاتی زندگی بھی بڑی غمناک تھی۔ کربلا کا پلاٹ تو ٹریجڈی والا تھا لیکن بڑا حساس اور مذہبی تھا۔ ایسے میں پریم چند کو سنبھل کر قدم اٹھانے اور اس کے تمام جزئیات پر پوری نگاہ رکھنے کی ضرورت تھی نیز اس کے حسن و قبح کا غائر مطالعہ ہونا بھی لازمی تھا۔ لیکن ایسے میں پریم چند کی ایک لغزش سے اس ڈرامے کے ساتھ جو ہوا وہ پریم چند کی واضع ناکامی کا ثبوت ہے۔ پریم چند نے جہاں جنگ کا وقت غلط دکھایا ہے وہاں امام حسین کا کردار اس قدر سادہ اور دنیا کے معاملات سے ناآشنا بناکر پیش کیا ہے کہ وہ ولید جیسے مکر و فریبی انسان کو اپنا ہمدرد سمجھ بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ پلاٹ کی بے ترتیبی اور کردار کے افعال و حرکات و سکنات کی حقیقی تصویر پیدا نہ کئے جانے کے سبب اس ڈرامے کو اہلِ علم و دانش نے اس کی اشاعت کے سلسلے میں اپنی رضامندی دینے سے انکار کردیا۔ مثلا ڈرامہ کربلا کے صفحہ نمبر 29 پر علی اکبر کی زبانی جو جملہ پریم چند نے کہلوایا ہے’ اسے آپ بھی ملاحظہ کریں:

ابا میں اس مصیبت کا مزا آپ کو تنہا نہیں اٹھانے دوں گا۔۔۔۔۔۔ہم یہ غم کی دعوت آپ کو تنہا نہ کھانے دیں گے۔
( ڈرامہ کربلا’ صفہ نمبر29)
مذکورہ بالا جملہ ایک عام انسان کی اولاد کے منھ سے تو نکل نہیں سکتا چہ جائے کہ ایک الہی نمائندہ امام حسین علیہ السلام کی اولاد کی زبانی ادا کروانا کیا معنی رکھتا ہے۔
دوسری طرف پریم چند کو اس بات کا علم بھی تھا کہ ڈرامہ لکھنا ان کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ ڈرامہ کربلا(1924) سے قبل ڈرامہ سنگرام ( 1923) میں اور ڈرامہ پریم کی دیوی (1933) میں لکھ کر ڈرامہ کی دنیا سے باہر نکل آئے۔ روایت یہ بھی کہتی ہے کہ پریم چند نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ایک مزاحیہ ڈرامے سے کیا تھا لیکن وہ ڈرامہ نہ کھیلا گیا اور نہ شائع ہوا۔ڈرامے کربلا کو ملک کے علماء سے لیکر اہلِ علم تک نے مذکورہ وجوہات کی بنا پر ناپسند کیا ۔ چنانچہ مجبورا پریم چند کو ڈرامہ کربلا’ پہلی بار ہندی میں شائع کروانا پڑا۔ ویسے یہ ڈرامہ پریم چند’ ہندی قارئین یا ناظرین کے لئے ہی تخلیق کررہے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ واقعہ کربلا سے اردو والے تو واقف ہیں لیکن ہندی والے نابلد ہیں۔ ہندی ایڈیش کے دیباچے میں پریم چند نے خود اس کی وجہ بتائی ہے-*”جیسے رامائن اور مہابھارت کی کہانی کو لیکر ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ایسے ہی اسلام کی تاریخ میں اس حادثے( کربلا) پر اردو اور فارسی میں کتنی ہی کتابیں شائع ہوچکی ہیں – افسوس یہ ہے کہ ہندی میں ابھی تک اس حادثے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔
( کلیاتِ پریم چند از مدن گوپال’ صفحہ۔۔۔)

 یعنی بقول پریم چند ان کے عہد میں ہندی ادب’ واقعہ کربلا کے ذکر سے خالی تھا اور لوگ اس حق و باطل کی جنگ سے نا واقف تھے۔ حالانکہ اس واقعے سے نہ صرف مسلمان واقف تھا بلکہ ہر قوم آشنا تھی۔ گاندھی جی نے یونہی نہیں کہا تھا کہ اگر مجھے کربلا کے بہتر افراد جیسے ساتھی مل جائیں تو ملک کو آزاد کرالوں ۔ خیر پریم چند نے یہ مناسب سمجھا کی اس واقعہ کو ہندی بولنے والوں میں عام کرنا چاہئے اور گنگا جمنی تہذیب اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دھاگہ میں باندھنے کی بھی کوشش ہونی چاہئے۔ چنانچہ پریم چند نے اس واقعے کو ڈرامے کے ذریعے پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔

لیکن حیرت کی بات ہے کہ لکھنو کے قیام کے دوران اس واقعہ کو نثری مرثیہ کے قالب میں ڈھالتے ہوئے ان کے دماغ میں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ اردو کے کسی مرثیہ نگار سے رجوع فرماتے ۔ اگر انہوں نے صرف اور صرف مرثیہ جیسی صنف کا مطالعہ کیا ہوتا تو ڈرامہ کربلا کے پلاٹ اور کردار جیسے اہم اجزاء کے بیان میں غلطی نہ کرتے۔ کربلا کے اس حساس اور مذہبی واقعہ کو اس طرح توڑ مروڑ کر اور کردار کو بے معنی اور متضاد بنا کر پیش کیا کہ ڈرامہ میں وہ کشش باقی نہیں رہی اور نہ ہی کردار میں وہ جان پیدا کر پائے کہ لوگ اس کے مطالعہ کی طرف رجوع کرتے۔ ڈرامے کو کئی سو صفحات پر پھیلا دیا’ مکالمہ مختصر اور چست بنانے کے بجائے طویل اور بے مزا کردیا۔ ورنہ اس حساس واقعہ اور بے مثل کردار کو پیش کرنے کے لئے اسلامی تاریخ اور علمائے کرام کے بیان نیز میزانِ عقل پر تولا کر اور محتاط رویے سے کام لیتے ہوئے نیز اس کے تمام جزئیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ترتیب وار ِ تحریر میں لاتے تو اس ڈرامہ کی اشاعت میں جن مشکلات سے اولا اولا دوچار ہوئے’نہ ہوتے اور نہ انہیں یہ کہنا پڑتا کہ:
اگر مسلمان کو یہ منظور نہیں ہے کہ کسی ہندو کے زبان و قلم سے ان کے کسی مذہبی پیشوا یا امام کی مدح سرائی ہو تو میں اس کے لئے مضر نہیں ہوں۔……. شیعہ حضرات اگر اپنے مذہبی پیشوا کی مثنوی پڑھتے ہیں’ افسانے پڑھتے ہیں’ مرثیہ سنتے اور پڑھتے ہیں تو انہیں ڈرامہ سے کیوں اعتراض ہو۔ کیا اس لئے کہ ایک ہندو نے لکھا ہے۔
( پریم چند کے خطوط از مدن گوپال’ صفحہ 162)
پریم چند کے اس بیان سے جو معصومیت ٹپک رہی ہے اس کا ذکر کرنا فضول ہے۔ اتنے پڑے ادیب کے منھ پر یہ جملہ زیب نہیں دیتا ہے۔ کیونکہ واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین علیہ السلام پر مختلف زبانوں میں بے شمار نثر اور شاعری میں تخلیقات موجود ہیں۔ دراصل
پریم چند اپنے کاروباری اور شہرت پسند ذہن کو چھپا رہے ہیں۔ اردو’ بنگلہ’ انگریزی اور دیگر زبانوں میں واقعاتِ کربلا کا جتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے اس سے ہر اہلِ علم واقف ہے۔ کیونکہ کہ کربلا سچائی کا منارہ ہے’ باطل سے نبردآزما ہونے کا استعارہ ہے’ بنی نوع انسان کے تحفظ کا جادہ ہے اور تہذیب و تمدن اور ایثار و قربانی کا گہوارہ ہے۔ آئیے پریم چند کے اس ڈرامے پر مزید کچھ کہا جائے اس سے پہلے کربلا کے اس واقعے پر ایک نظر ڈال لی جائے جو پریم چند کے ڈرامے کی بناد ہے۔ دنیا میں جنگیں بہت ہوئی ہیں۔ لیکن کربلا کی جنگ(جو امام حسین علیہ السلام اور یزیدِ ملعون کے درمیان سن 61 ھجری میں سر زمینِ کربلا پر لڑی گئی) کی مثال دنیا لاکھ کوشش کرلے نہیں لاسکتی۔ ہر جنگ میں تلوار کا مقابلہ تلوار سے ہوتا ہے اور سپاہی کا سپاہی سے۔ کربلا کی سرزمین پر تلوار کا مقابلہ گردنوں سے اور سپاہی کا سامنا شیر خوار اور ننھے ننھے بچوں سے تھا۔ حق پرست امام حسین اور ان کے حامیان کے خون اتنے پاک اور ان کی دھار اتنی تیز تھی کہ ظالم’ ظلم کرکے بھی ششدر و حیران ریتا ہے لیکن حامیانِ امام حسین کے چہرے پر اطمینان کا سورج دکھائی دیتا ہے۔
 کربلا کی جنگ دو مذاہب یا دو قوموں کے درمیان نہیں لڑی گئی’ جیسا کہ مذکورہ بالا اقتباس میں کہا گیا ہے بلکہ ایک ہی نبی کے ماننے والوں کے درمیان لڑی گئی تھی بلکہ یوں سمجھئے کہ امت کی جنگ’ اپنے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں سے تھی ۔ یعنی کربلا میں جو ظلم کررہے تھے وہ رسول کے امتی تھے اور جن پر ظلم ہو رہا تھا وہ رسول کے گھر والے تھے ۔ کیا کبھی کسی نے اس طرح کی جنگ دیکھی ہے جہاں خود رہبر کے یروکار خود رہبر کے ماننے والے یا رہبر کے خانوادے کے ایک ایک فرد کے خون کے پیاسے ہوں- حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس معرکہ حق و باطل میں حق پرستوں میں ننھے ننھے بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ لیکن باطل پرست یزیدی فوج’ حق پرست امام حسین علیہ السلام جو نواسے رسول اللہ ہیں’ کی عورتوں پر ان کے قتل کے بعد وہ ظلم ڈھائے کہ انسانیت کانپ اٹھی۔
کربلا کی جنگ نے پوری دنیا کو یہ سبق دیا کہ حق پرستوں کے خون کی طاقت وہ ہوتی ہے کہ باطل پرست تلوار کے زور پر گھڑی دو گھڑی فتح تو پاسکتا ہے مگر ہمیشہ کے لئے ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ جبکہ حق پرستوں کے خون میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ ظلم کی تلوار کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو کند ہوجاتی ہے جبکہ حق پرستوں کا ذکر سدا کے لئے دلوں میں باقی رہتا ہے۔
تاریخ کا ایک باب یہ بھی بتاتا ہے کہ کربلا کی جنگ انتقامِ اجدادِ امامِ حسین علیہ السلام لڑی گئی تھی۔ جس کا اظہار خود کربلا کی جنگ میں باطل نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ آپ (امام حسین علیہ السلام ) میں کوئی خامی نہیں ہے بلکہ آپ کی خطا یہ ہے کہ آپ علی کے بیٹے ہیں اور محمد( صلعم )کے نواسےجنہوں نے ہمارے اجداد کو مختلف جنگوں میں مارا تھا۔اسطرح اگر دیکھیں تو بعدِ صلحِ حدیبیہ ( امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان جنگ کو بند کرنے کے لئے ایک صلح نامہ تیار کیا گیا تھا جس میں بہت سی باتوں کے ساتھ یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ معاویہ اپنے مرنے کے بعد اپنے بیٹے یزید کو تحتِ خلافت پر نہیں بٹھائے گا۔) معاویہ نے صلحِ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یزید کو تخت خلافت پر بٹھادیا۔اس طرح اگر دیکھا جائے تو یزید نے امامِ حسین علیہ السلام’ ان کی اولادوں’ ان کے گھر کی عورتوں اور ان کے دوستوں کو’ بے جرم و خطا جس بے دردی کے ساتھ قتل کیا ہے اس کا احساس کرتے ہوئے ہر بار انسانیت کانپ اٹھتی ہے اور اس کے لبوں سے یہی سدا سنائی دیتی ہے کہ دنیا کا ہر جرم قابلِ معافی ہے لیکن یزید کا گناہ معافی کے لائق نہیں ہے۔
اکثر لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا گیا کہ اگر یزید بھلا شخص ہوتا تو امام حسین علیہ السلام اس کی بیعت کرلیتے۔ لیکن ایسے بھلے انسان کو یہ نہیں معلوم کہ امام بیعت کروانے آتا ہے بیعت کرنے نہیں کیونکہ اس کی امامت الله کی عطا کردہ ہوتی ہے’ انسانوں کی دی ہوئی نہیں۔ مذکورہ بالا یزیدی فوج کے انتقامی الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بر بنائے مصلحت بھی امام حسین علیہ السلام یزید کی بیعت کرکے اپنی اور اپنے خاندان کی جان نہیں بچا سکتے تھے۔ اس لئے کہ یزید کے ہاتھوں پر امام حسین علیہ السلام کی بیعت ایسی ہی ہوتی کہ ماضی کے ہر دور کا حق’ باطل کی اطاعت گزار نظر آتا۔یزید مدینے سے لیکر کونے تک کے ایک ایک شخص کو خرید چکا تھا حتیٰ کے اس کی فوج اور حمایت میں اصحابِ رسول اور ان کی اولادیں تک تھیں مگر کسی نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے خانوادے کے قتل سے یزید کو روکا نہیں بلکہ قتل کرنے کے لئے کربلا کی سرزمین پر آپہنچے اور بعدِ قتلِ امامِ حسین علیہ السلام’ سیدانیوں( امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا میں جو عورتیں آئیں تھیں) کے ساتھ وہ ظلم کیا کہ انسانیت شرمسار ہو گئی۔
 کربلا کی جنگ اس لحاظ سے بھی قابلِ ذکر اور اہم ہےکہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جو عورتیں’ بچے اور پیر و جوان مدینے سے ساتھے آئے تھے وہ اپنے مقصد میں اتنے ثابت قدم اور اپنے آقا سے اس قدر وفادار تھے کہ شہادت کا جام پینا پسند کیا لیکن اپنے مقصد اور اپنے آقا سے غداری نہیں کی۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ کربلا اور کربلا والے وفاشعاری اور حق پسندی کی علامت بن کر بادشاہوں کے گھمنڈ کو چکناچور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ تاریخ کے کسی رہبر پر اس کے ماننے والے کا یہ اعتماد نظر نہیں آتا جتنا کے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے طرفداروں دنیا میں جنگیں بہت ہوئی ہیں۔ لیکن کربلا کی جنگ(جو امام حسین علیہ السلام اور یزیدِ ملعون کے درمیان سن 61 ھجری میں سر زمینِ کربلا پر لڑی گئی) کی مثال دنیا لاکھ کوشش کرلے نہیں لاسکتی۔ ہر جنگ میں تلوار کا مقابلہ تلوار سے ہوتا ہے اور سپاہی کا سپاہی سے۔ کربلا کی سرزمین پر تلوار کا مقابلہ گردنوں سے اور سپاہی کا سامنا شیر خوار اور ننھے ننھے بچوں سے تھا۔ حق پرست امام حسین اور ان کے حامیان کے خون اتنے پاک اور ان کی دھار اتنی تیز تھی کہ ظالم’ ظلم کرکے بھی ششدر و حیران ریتا ہے لیکن حامیانِ امام حسین کے چہرے پر اطمینان کا سورج دکھائی دیتا ہے۔
کربلا کی جنگ دو مذاہب یا دو قوموں کے درمیان نہیں لڑی گئی’ جیسا کہ مذکورہ بالا اقتباس میں کہا گیا ہے بلکہ ایک ہی نبی کے ماننے والوں کے درمیان لڑی گئی تھی بلکہ یوں سمجھئے کہ امت کی جنگ’ اپنے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں سے تھی ۔ یعنی کربلا میں جو ظلم کررہے تھے وہ رسول کے امتی تھے اور جن پر ظلم ہو رہا تھا وہ رسول کے گھر والے تھے ۔ کیا کبھی کسی نے اس طرح کی جنگ دیکھی ہے جہاں خود رہبر کے یروکار خود رہبر کے ماننے والے یا رہبر کے خانوادے کے ایک ایک فرد کے خون کے پیاسے ہوں- حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس معرکہ حق و باطل میں حق پرستوں میں ننھے ننھے بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ لیکن باطل پرست یزیدی فوج’ حق پرست امام حسین علیہ السلام جو نواسے رسول اللہ ہیں’ کی عورتوں پر ان کے قتل کے بعد وہ ظلم ڈھائے کہ انسانیت کانپ اٹھی۔
کربلا کی جنگ نے پوری دنیا کو یہ سبق دیا کہ حق پرستوں کے خون کی طاقت وہ ہوتی ہے کہ باطل پرست تلوار کے زور پر گھڑی دو گھڑی فتح تو پاسکتا ہے مگر ہمیشہ کے لئے ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ جبکہ حق پرستوں کے خون میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ ظلم کی تلوار کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو کند ہوجاتی ہے جبکہ حق پرستوں کا ذکر سدا کے لئے دلوں میں باقی رہتا ہے۔
تاریخ کا ایک باب یہ بھی بتاتا ہے کہ کربلا کی جنگ انتقامِ اجدادِ امامِ حسین علیہ السلام لڑی گئی تھی۔ جس کا اظہار خود کربلا کی جنگ میں باطل نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ آپ (امام حسین علیہ السلام ) میں کوئی خامی نہیں ہے بلکہ آپ کی خطا یہ ہے کہ آپ علی کے بیٹے ہیں اور محمد( صلعم )کے نواسےجنہوں نے ہمارے اجداد کو مختلف جنگوں میں مارا تھا۔اسطرح اگر دیکھیں تو بعدِ صلحِ حدیبیہ ( امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان جنگ کو بند کرنے کے لئے ایک صلح نامہ تیار کیا گیا تھا جس میں بہت سی باتوں کے ساتھ یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ معاویہ اپنے مرنے کے بعد اپنے بیٹے یزید کو تحتِ خلافت پر نہیں بٹھائے گا۔) معاویہ نے صلحِ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یزید کو تخت خلافت پر بٹھادیا۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تو یزید نے امامِ حسین علیہ السلام’ ان کی اولادوں’ ان کے گھر کی عورتوں اور ان کے دوستوں کو’ بے جرم و خطا جس بے دردی کے ساتھ قتل کیا ہے اس کا احساس کرتے ہوئے ہر بار انسانیت کانپ اٹھتی ہے اور اس کے لبوں سے یہی سدا سنائی دیتی ہے کہ دنیا کا ہر جرم قابلِ معافی ہے لیکن یزید کا گناہ معافی کے لائق نہیں ہے۔
 
 اکثر لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا گیا کہ اگر یزید بھلا شخص ہوتا تو امام حسین علیہ السلام اس کی بیعت کرلیتے۔ لیکن ایسے بھلے انسان کو یہ نہیں معلوم کہ امام بیعت کروانے آتا ہے بیعت کرنے نہیں کیونکہ اس کی امامت الله کی عطا کردہ ہوتی ہے’ انسانوں کی دی ہوئی نہیں۔ مذکورہ بالا یزیدی فوج کے انتقامی الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بر بنائے مصلحت بھی امام حسین علیہ السلام یزید کی بیعت کرکے اپنی اور اپنے خاندان کی جان نہیں بچا سکتے تھے۔ اس لئے کہ یزید کے ہاتھوں پر امام حسین علیہ السلام کی بیعت ایسی ہی ہوتی کہ ماضی کے ہر دور کا حق’ باطل کی اطاعت گزار نظر آتا۔
یزید مدینے سے لیکر کونے تک کے ایک ایک شخص کو خرید چکا تھا حتیٰ کے اس کی فوج اور حمایت میں اصحابِ رسول اور ان کی اولادیں تک تھیں مگر کسی نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے خانوادے کے قتل سے یزید کو روکا نہیں بلکہ قتل کرنے کے لئے کربلا کی سرزمین پر آپہنچے اور بعدِ قتلِ امامِ حسین علیہ السلام’ سیدانیوں( امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا میں جو عورتیں آئیں تھیں) کے ساتھ وہ ظلم کیا کہ انسانیت شرمسار ہو گئی۔
کربلا کی جنگ اس لحاظ سے بھی قابلِ ذکر اور اہم ہےکہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جو عورتیں’ بچے اور پیر و جوان مدینے سے ساتھے آئے تھے وہ اپنے مقصد میں اتنے ثابت قدم اور اپنے آقا سے اس قدر وفادار تھے کہ شہادت کا جام پینا پسند کیا لیکن اپنے مقصد اور اپنے آقا سے غداری نہیں کی۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ کربلا اور کربلا والے وفاشعاری اور حق پسندی کی علامت بن کر بادشاہوں کے گھمنڈ کو چکناچور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ تاریخ کے کسی رہبر پر اس کے ماننے والے کا یہ اعتماد نظر نہیں آتا جتنا کے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے طرفداروں میں دکھائی دیتا ہے۔ بڑوں کی بات تو جانے دیجئے کربلا ميں ننھے ننھے بچے تک پیاس سے جاں بلب تھے لیکن کسی بچے کی زبان پر یا ان کی ماؤں کے لب پر امام حسین علیہ السلام کی قیادت پر شکوہ آ جاتا۔ اور ان میں سے کوئی بھی یہ کہہ سکتا تھا کہ معاذاللہ امام حسین نے انہیں ہلاکت میں ڈال دیا۔
یزید کی خواہشِ بیعت اور اس سے پیدا شدہ ظلم و ستم جب سید زادوں کے ساتھ بہت زیادہ بڑھ گیا تو امام حسین نے یہ مناسب جانا کہ حرمتِ مدینہ کے لئے مدینے کو چھوڑ دیا جائے- لہٰذا 28 رجب سن 1960 ھجری کو امام حسین مدینے سے مع اہل و عیال اور اصحابِ باوفا’ مکہ کی طرف ہجرت اختیار کرتے ہیں لیکن یزیدی فوج بھی پیچھا کرتے ہوئے مکہ میں آپہنچتی ہے- اور دوران حج انہیں قتل کرنے کا پروگرام بناتی ہے۔
مگر امام حسین یزیدی فوج کے اس ارادے کو بھانپ لیتے ہیں اور حج کو عمرے سے بدل کر یزیدی فوج کے مقصد کو ناکام بنادیتے ہیں۔ اور انسانیت کی بقا کو ترجیع دیتے ہوئے مکہ مکرمہ سے باہر نکل پڑتے ہیں۔ راستے میں ان کے بھائی حضرت مسلم اور ان کے بچوں کی شہادت کی خبر ملتی ہے۔ اور آگے بڑھتے ہیں تو یزیدی لشکر جس کی قیادت حر کررہا تھا ملتا ہے۔ حر’ اس لشکر اور اسکے جانور پیاس سے بیتاب نظر آتا ہیں جسے دیکھ کر امام حسین علیہ السلام پانی پلاتے ہیں لیکن حر یزید کا پیغام پہنچاتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ امام حسین کو کربلا کی زمین سے آگے جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ امام حسین علیہ السلام اپنے قافلے کو سرزمینِ کربلا میں اترنے کے لئے کہتے ہیں۔ کربلا میں ایک طرف لاکھوں کی تعداد میں یزیدی فوج نظر آتی ہے تو دوسری طرف 72 کی تعداد میں حق پرست(جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے) نظر آتے ہیں۔
یزیدی فوج امام حسین علیہ السلام کی72 افراد سے خوف زدہ تھی کہ وہ مسلسل یزید سے لشکر بھیجنے کو کہتی جاتی تھی اور جب ۹دن آچکا اور یزیدی فوج کربلا میں کثیر تعداد میں جمع ہوگئی تو یزیدی فوج نے اپنی طاقت کا مظاہرہ شروع کردیا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو جنگ کرنے پر مجبور کیا تو امام نے عمرِ سعد سے فرمایا کہ انہیں ایک رات کا اور موقع دیا جائے تاکہ وہ اللہ کی مزید عبادت کرلیں۔ اسی دوران حر جو یزیدی فوج کا سپہ سالار تھا’ اسے احساس گناہ ہوتا ہے اور وہ 10 محرم کو یزیدی فوج سے نکل کر امام حسین علیہ السلام کے پاس آتا ہے اور معافی کا خواستگار ہوتا ہے جس پر امام اسے معاف کرتے ہیں اور پھر حر امام حسین علیہ السلام کی جانب سے یزیدی فوج سے جنگ کرتے ہیں اور جامِ شہادت نوش فرماتے ہیں اور پھر امام کی جانب سے ایک ایک جانباز یزیدی فوج سے لڑنے جاتا ہے اور شہادت کے منصب پر فائض ہوتا جاتا ہے۔ آخر میں امام اپنے چھ مہینے کے شیر خوار کو یزیدی فوج کے سامنے لاتے ہیں اور جب یزیدی فوج اس بجے کو بھی امام کے ہاتھوں پر شہید کر دیتی ہے تو امام حسین علیہ السلام یزیدی فوج سے مقابلہ کرنے کے لئے جاتے ہیں اور پھر وہ بھی راہ خدا میں شہید کردیئے جاتے ہیں اور پھر 10 محرم سن 60 ہجری کو عصر تک یہ جنگ ختم ہوجاتی ہے جہاں بظاہر یزیدی فوج جیتی ہے لیکن بہ باطن امام حسین علیہ السلام فاتحِ کربلا ہوتے ہیں۔
 اس جنگ کو دیکھ کر دنیا نے محسوس کرلیا کہ جنگ تلوار’ تعدادِ افراد’ دولت اور ثروت سے لڑی نہیں جاسکتی بلکہ افراد کی کمی کے باوجود نیک اور مستحکم مقصد’ سچائی اور وفاداری سے بھی لڑی اور جیتی جاسکتی ہے۔
راہِ حق پر چلتے ہوئے امام حسین علیہ السلام نے یہ بتادیا کہ خون میں اگر وفاداری کا جز ہو تو وہ باطل کے خیمے سے وفاشعار جوہر کو حر کی شکل میں اپنی جانب کھینچ بھی سکتا ہے اور تلوار پر فتح بھی حاصل کرسکتا ہے۔
کربلا کی اس عظیم یک طرفہ جنگ میں جو خون امام حسین اور ان کے ساتھیں کے بہے ہیں وہ ایمان’ وفا’ انسانیت’ شرافت’ جذبہ ایثار و قربانی’ جذبہ مساوات’ اہمیتِ مستورات کے تحفظ اور نفاذِ شریعت
کے لئے بہے ہیں۔ اگر امام حسین اور ان کے رفقاء اور عزیز و اقارب نے قربانی کی یہ مثال قائم نہ کی ہوتی تو بنی نوع انسان کے ساتھ ساتھ کائنات کا کتنا نقصان ہوتا اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
کربلا کا یہ وہ پس منظر ہے اور کربلا کے ہیرو یعنی امام حسین علیہ السلام کی وہ عظیم ذات کہ جس نے پریم چند کے دل کو موہ لیا۔
پریم چند کو اگر اس واقعے سے واقعی دلچسپی ہوتی اور وہ اس جستجو میں ہوتے کہ اس ڈرامے کے ذریعے وہ ہندو اور مسلمان کی دوریوں کو ختم کریں گے تو قدم قدم پر یہ نہ کہتے ہوئے نظر آتے کہ وہ ہندو ہیں اس لئے کوئی ان کی کربلا پر لکھی تخلیقی کو پسند نہیں کر رہا ہے۔ دوسری طرف کربلا کے واقعات اور کرداروں میں بھی اس قدر جھول پیدا کررکھا ہے کہ قاری حق و باطل میں تمیز کرتے ہوئے الجھ جاتا ہے۔ اہلِ مشرق کی تہذیبی روایت رہی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کے آگے نہ چلتے تھے اور نہ کلام کرتے اور نہ ہی مشورہ دیتے تھے لیکن پریم چند نے حضرتِ عباس کی جو تصویر پیش کی ہے وہ تو بالکل الٹی ہے۔ ملاحظہ ہو یہ مکالمہ
عباس: اگر یزید کی بیعت رفعِ شر کے واسطے کرلی جائے تو کیا ہرج ہے خدا کارساز ہے۔ ممکن ہے تھوڑے دنوں میں یزید خود ہی مرجائے تو آپ کو خلافت آپ ہی آپ مل جائے گی۔ جس طرح آپ نے امیر معاویہ کے زمانے میں صبر کیا۔ اسی طرح یزید کے زمانے کو بھی صبر کے ساتھ کاٹ دیجئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تھوڑے دنوں میں یزید کے ظلم سے تنگ آکر لوگ بغاوت کر بیٹھیں اور آپ کے لئے موقع نکل آئے۔ صبر سازی مشکلوں کو آسان کردیتا ہے۔”
(ڈرامہ کربلا از پریم چند صفحہ27)
مذکورہ بالا مکالمہ کے حوالے سے حضرت عباس کی جو شبیہ ابھرتی ہے وہ کسی بہادر ‘ وفاشعار’ حق پرست اور کسی فرمابردار کے منافی ہے۔ ایک طرف پریم چند جہاں یہ بتاتے ہیں کہ یزید نے امام حسین علیہ السلام پر ظلم کیا اور بیعت طلبی کی اور امام حسین( علیہ السلام ) نے انکار کرکے بتادیا کہ وہ حق پرست ہیں ملوکیت اور حکومت کے خواں نہیں وہاں دوسری طرف حضرت عباس کی زبان سے یہ کہلواکر کہ
” یہ بھی ممکن ہے کہ تھوڑے دنوں میں یزید کے ظلم سے تنگ آکر لوگ بغاوت کر بیٹھیں اور آپ کے لئے موقع نکل آئے
خود بتادیا کہ حق پرست بھی ملوکیت کی تاک میں رہتے ہیں۔ اسی طرح کے بے شمار واقعات اور کردار کی خامیاں پریم چند کے ڈرامہ کربلا میں موجود ہیں جسے دیکھ کر بادشاہوں کی وہ تصویر ابھرتی ہے جو ہندوستان میں حکومت کرنے آئے تھے۔ اس بادشاہ کی تصویر نہیں ابھرتی جو انسان اور انسانیت’ تہذیب و تمدن کے لئے اور امن و امان کے لئے اپنا اور اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کو قربان کردیتا ہے۔
ڈرامہ کربلا میں پریم چند کے ہیرو حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں لیکن اس ڈرامے میں یزید جس کا کردار ایک ویلن کا ہے اور پوری دنیا اس کے ظلم و ستم کو دیکھ کر جہاں نفرت کا اظہار کرتی ہے وہاں چند افراد سے مرعوب اور خوف کھا کر پریم چند یزید کے کردار کی وہ تصویر نہیں پیش کرتے جو دراصل اس کی علامت ہے۔ اور بڑے مخلصانہ انداز میں ان افراد سے معذرت بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ شکایت بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔ یزید کی اخلاقی حیثیت مجھ سے کہیں زیادہ پست مورخین نے دکھلائی ہے- میں مجبور تھا۔ میں نے تو صرف اس کی شراب خوری اور عیش پسندی کا ذکر کیا ہے۔
( پریم چند کے خطوط از مدن گوپال’ صفحہ 162-163)
علاوہ ازیں پریم چند کے یہاں اس ڈرامے کو لیکر جہاں بیان میں تضاد ملتا ہے وہ فابلِ غور بات ہے۔ پریم چند کے اس ڈرامے کو لیکر جب علماء نے اعتراض کیا تو "دیا نرائن نگم” کو پریم چند لکھتے ہیں کہ
۔۔ہاں میں عرض کرنا بھول گیا۔ ڈرامے دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک قرآت کے لئے۔ ایک اسٹیج کے لئے۔ یہ ڈراما محض پڑھنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ کھیلنے کے لئے نہیں۔
( پریم چند کے خطوط’ صفحہ 164)
لیکن اسی خط کے صفحہ نمبر 167پر وہ یہ بھی لکھ بیٹھتے ہیں اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ڈرامہ اسٹیج پر پیش کرنے کی نیت سے لکھا گیا تھا لیکن وقت اور حالات کے پیشِ نظر اسٹیج پر اس وقت نہیں کھیلا گیا۔ لیجئے آپ خود ہی پریم چند کے جملے ملاحظہ کریں
۔۔۔خیالات کی نزاکت نہ دیکھئے۔ یہ دیکھئے کہ غزل سلیس’ عام فہم سلجھی ہوئی ہے یا نہیں۔ گانے کے لئے موزوں ہے یا نہیں۔ غالب کی غزل یا ناسخ کی یا عزیز کی یا چکبست کی گانے کے کام کی نہیں ہوتیں۔ وہاں اضافتیں’ استعارے اس قدر ہوتے ہیں کہ وہ بعید از فہم ہوجاتی ہیں۔
یہ وہ اقتباس ہے جہاں خود پریم چند یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر ڈرامہ کربلا میں نقل کردہ اشعار پر اعتراض ہے تو لوگ یہ جان لیں کہ میں نے جن اشعار کو نقل کیا ہے وہ کردار کا اسٹیج پر بآسانی ادا کرنے اور ناظرین کا اسے سن کر فورا سمجھ لینے کے لئے بہتر ہے۔ اب اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اس ڈرامے کو پریم چند اسٹیج پر دکھانا چاہتے تھے جو چند ذی شعور علماء کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔
ڈرامہ کربلا میں زبان کی خامیاں بھی ہیں۔ پریم چند اپنی ان خامیوں کا ذکر اور اس کا دفاع مرزا جعفر علی خاں سے کچھ اس طرح کیا کہ 
واقعہ یہ ہے کہ میں نے ہندی سے خود ترجمہ نہیں کیا ہے۔ میرے ایک نارمل اسکول کے دوست منشی منیر حیدر صاحب قریشی ہیں۔ انہوں سے کرالیا۔ اب بقیہ حصوں کا ترجمہ میں خود کروں گا تب جو خامیاں ہوں گی وہ ضرور نکال دوں گا۔ زبان کے لحاظ سے کسی کو حرف گیری کا موقع نہ دوں گا۔
( پریم چند کے خطوط’ صفحہ 168)