لوک سبھا انتخابات : بہارمیں مسلم ووٹ اور مسلم چہروں کی کہانی

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 17-04-2024
لوک سبھا انتخابات : بہارمیں مسلم ووٹ اور مسلم چہروں کی کہانی
لوک سبھا انتخابات : بہارمیں مسلم ووٹ اور مسلم چہروں کی کہانی

 

محفوظ عالم : پٹنہ 

بہار میں قریب 18 فیصدی مسلم آبادی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ تین دہائیوں تک بہار کی سیاست مسلمانوں کے ارد گرد گھومتی رہی ہے۔ مسلم ووٹوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنی قوت جھونکی ہے۔ آرجےڈی، کانگریس، جےڈی یو اور دوسری مقامی پارٹیوں نے مسلمانوں کو خوش کرنے کا نعرہ لگا کر ان کا ووٹ تو لیا ہے لیکن آبادی کے اعتبار سے ٹکٹ کا معاملہ ہمیشہ حاشیہ پر رہا ہے۔ اب حالت اور بھی سنگین نظر آتی ہے جب مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے ٹکٹ ملنا تو دور سیاسی پارٹیاں ووٹ کی مجبوری میں بھی انہیں ٹکٹ دینا گوارا نہیں سمجھتی ہے۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ دراصل انہیں لگتا ہے کہ مسلم ووٹر جائے گا کہاں، اسے ووٹ تو سیکولرزم کے نام پر ہمیں ہی دینا ہے لیکن اس طرح کے ٹرینڈ کو ایک جمہوری ملک میں پسند نہیں کیا جانا چاہئے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کو لیکر تمام سیاسی پارٹیوں کی تیاریاں شباب پر ہے۔ بہار کے 40 لوک سبھا سیٹوں میں قریب 10 سیٹوں پر مسلمانوں کی آبادی امیدواروں کے قسمت کا فیصلہ کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سبھی سیاسی پارٹیوں کی نظر اقلیتی ووٹوں پر رہتی ہے۔

این ڈی اے اور انڈیا اتحاد میں سیدھا مقابلہ

بہار کے 40 لوک سبھا کی سیٹوں پر این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کے بیچ سیدھا سیدھا مقابلہ ہونا طے مانا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ بہار میں عام طور پر ذات کو دیکھتے ہوئے ووٹ پیٹرن سیٹ کیا جاتا ہے۔ کس ذات کی کتنی آبادی ہے اسی کے مدنظر امیدواروں کو ٹکٹ دیا جاتا ہے اور سیاسی پارٹیاں ووٹ کے لئے عوام کے درمیان اسے ہی انصاف کی ایک طرح سے کسوٹی سمجھتی رہی ہے۔ حکومت بہار نے حال ہی میں ذات پر مبنی سروے کرایا تھا اور اس وقت یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ جس کی جتنی آبادی ہوگی اس کی اتنی حصہ داری ہوگی لیکن ٹکٹ کی تقسیم میں مسلمانوں کے تعلق سے ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ این ڈی اے نے 40 سیٹوں پر اپنے امیدواروں کے نام کا اعلان کر دیا ہے، انڈیا اتحاد نے بھی 32 سیٹوں پر اپنے امیدوار کے نام کا اعلان کیا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بہار سے محض 7 مسلم امیدوار انتخابی میدان میں نظر آئیں گے۔

انڈیا الائنس کے مسلم امیدوار

انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کو مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کی حمایت حاصل رہی ہے۔ آرجےڈی کو مسلم اور یادو یعنی ایم اور وائی کی پارٹی کہا جاتا ہے لیکن تیجسوی یادو نے جب سے آرجےڈی کی کمان سمبھالی ہے تب سے وہ کہتے رہے ہیں کہ آرجےڈی اے ٹو زیڈ کی پارٹی ہے۔ اسی طرح کانگریس پارٹی کو سیکولر مان کر مسلم سماج اس کی حمایت کرتا رہا ہے لیکن ٹکٹ کی تقسیم میں ان پارٹیوں کی طرف سے صرف 4 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا ہے۔

انڈیا اتحاد نے سیٹ کا جو فارمولہ طے کیا ہے اس کے مطابق 23 سیٹ آرجےڈی کے کھاتے میں ہے، 9 سیٹ کانگریس، 5 سیٹ لیفٹ اور وی آئی پی پارٹی کو آرجےڈی نے اپنے کوٹہ سے 3 سیٹ دیا ہے۔ انڈیا اتحاد نے 40 سیٹوں میں 32 سیٹوں پر اپنے امیدواروں کے نام کا اعلان کر دیا ہے۔ آرجےڈی نے صرف دو مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے اور کانگریس پارٹی نے بھی دو مسلم امیدوار کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔

این ڈی اے کا مسلم چہرہ

این ڈی اے نے 40 لوک سبھا سیٹوں پر اپنے امیدواروں کے نام کا اعلان کر دیا ہے۔ بی جے پی 17 لوک سبھا کی سیٹ پر انتخاب لڑ رہی ہے، بی جے پی نے ایک بھی ٹکٹ مسلمان کو نہیں دیا ہے۔ جےڈی یو 16 لوک سبھا سیٹوں پر انتخاب لڑ رہی ہے، ان 16 سیٹوں میں ایک سیٹ پر جےڈی یو نے مسلم امیدوار کو میدان میں اتارا ہے، ایل جے پی 5 لوک سبھا سیٹوں پر انتخاب لڑ رہی ہے، جس میں ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔

awazurdu

بہار کی سیاست میں مسلم ووٹوں کی جنگ


سال 2024 کے لوک سبھا انتخاب میں مسلم امیدوار

مسلمانوں کی سیاست کرنے والی پارٹی آرجےڈی نے صرف دو مسلمان کو ٹکٹ دیا ہے۔ مدھو بنی پارلیمانی حلقہ سے سابق وزیر علی اشرف فاطمی کو آرجےڈی نے انتخابی میدان میں اتارا ہے وہیں ارریہ پارلیمانی حلقہ سے قد آور لیڈر اور سیمانچل کے گاندھی کہے جانے والے محمد تسلیم الدین کے فرزند شاہنواز عالم کو امیدوار بنایا ہے۔

کانگریس پارٹی نے بھی دو مسلم امیدوار کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ کشن گنج لوک سبھا سیٹ سے، سٹنگ ایم پی ڈاکٹر محمد جاوید کو پھر سے امیدوار بنایا گیا ہے وہیں سینئر لیڈر طارق انور کو کٹیہار لوک سبھا حلقہ سے امیدوار بنایا گیا ہے۔

جےڈی یو نے صرف ایک سیٹ پر مسلم امیدوار اتارا ہے، ماسٹر مجاہد عالم کو جےڈی یو نے کشن گنج لوک سبھا حلقہ سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔

اے آئی ایم آئی ایم نے 13 سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے، جس میں چار سیٹوں پر پارٹی نے امیدواروں کے نام کا اعلان کیا ہے۔ ان چار سیٹوں میں دو سیٹ پر مسلم امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔ کشن گنج لوک سبھا سیٹ سے ایم آئی ایم کے ریاستی صدر اخترالایمان امیدوار بنائے گئے ہیں اور دربھنگہ لوک سبھا حلقہ سے محمد کلام کو انتخابی میدان میں اتارا گیا ہے۔

گھٹ رہی ہے مسلمانوں کی نمائندگی

اہل علم طبقہ کا کہنا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے پنچائیت میں اگر کسی طبقہ کی نمائندگی کم ہو رہی ہے تو ایک تشویش کا مقام ہے۔ اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں 15 مسلم امیدوار انتخابی میدان میں تھے، 2019 میں وہ تعداد کم ہوئی اور 9 مسلم امیدواروں نے انتخاب لڑا۔ 2024 کے لوک سبھا انتخاب میں وہ تعداد اور بھی کم ہو گئی ہے۔

گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں مسلم امیدوار

گزشتہ لوک سبھا انتخابات پر اگر نظر ڈالیں تو 2014 کے عام انتخابات میں 15 مسلم امیدواروں نے اپنا قسمت آزمائی تھی۔ تب آرجےڈی نے 6 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔ سیوان سے شہاب الدین کی اہلیہ حنا شہاب کو ٹکٹ ملا تھا، بیگو سرائے سے ڈاکٹر تنویر حسن میدان میں تھے، علی اشرف فاطمی کو دربھنگہ لوک سبھا سے ٹکٹ دیا گیا تھا، عبدالباری صدیقی کو مدھو بنی لوک سبھا سے میدان میں اتارا گیا تھا،  اور شیو ہر سے انوارالحق کو ٹکٹ دیا گیا تھا۔ کانگریس پارٹی نے کشن گنج سے مشہور عالم دین مولانا اسرار الحق قاسمی کو انتخابی میدان میں اتارا تھا، این سی پی نے کٹیہار سے طارق انور کو ٹکٹ دیا تھا۔ ایل جے پی نے کھگڑیا لوک سبھا سے چودھری محبوب علی قیصر کو اپنا امیدوار بنایا تھا، بی جے پی نے بھاگل پور لوک سبھا حلقے سے سید شاہنواز حسین کو ٹکٹ دیا تھا، جےڈی یو نے بھی 5 مسلم امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا تھا، مدھو بنی پارلیمانی حلقہ سے پروفیسر غلام غوث،  شیو ہر لوک سبھا حلقہ سے شاہد علی خان کو ٹکٹ ملا تھا، سارن لوک سبھا سے سلیم پرویز، بھاگل پور سے ابو قیصر اور کشن گنج لوک سبھا سے اخترالایمان کو ٹکٹ دیا تھا۔ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں ایل جے پی کے چودھری محبوب علی قیصر، این سی پی کے طارق انور،  کانگریس کے مولانا اسرار الحق قاسمی اور ارریہ پارلیمانی ضمنی انتخاب میں آرجےڈی کے سرفراز عالم جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

اسی طرح 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں بہار کے 40 لوک سبھا کی سیٹوں میں 9 حلقوں سے مسلم امیدواروں نے اپنا قسمت آزمایا تھا۔ جےڈی یو نے کشن گنج لوک سبھا سے محمد اشفاق کو ٹکٹ دیا تھا۔ کانگریس نے کٹیہار سے طارق انور کو اور کشن گنج لوک سبھا سے ڈاکٹر محمد جاوید کو انتخابی میدان میں اتارا تھا۔ این سی پی نے کھگڑیا لوک سبھا سے چودھری محبوب علی قیصر کو اپنا امیدوار بنایا تھا اور آرجےڈی نے 5 مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا تھا، سیوان لوک سبھا سے حنا شہاب کو، شیو ہر لوک سبھا حلقہ سے سید فیصل علی کو، دربھنگہ سے عبدالباری صدیقی کو، بیگوسرائے سے ڈاکٹر تنویر حسن کو اور ارریہ لوک سبھا حلقہ سے محمد سرفراز عالم کو ٹکٹ دیا تھا۔ 2019 کے لوک سبھا میں مودی لہر شباب پر تھی اور بہار کی سبھی سیٹوں پر این ڈی اے نے قبضہ جمایا صرف ایک سیٹ کشن گنج کی ایسی تھی جس پر کانگریس کے امیدوار ڈاکٹر محمد جاوید انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

awazurdu

موجودہ سیاسی منظر نامہ

اگر موجودہ سیاسی منظر نامہ پر غور کریں تو مسلمانوں کے ووٹ پر سیاست کرنے والی جماعتوں نے بھی ان کی آبادی کے اعتبار سے نمائندگی دینے میں کسی طرح کی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ جس طرح سے مسلم سماج کو سیاست سے اور نمائندگی سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ نہایت ہی افسوس ناک ہے۔ ٹی پی ایس کالج کے شعبہ اردو کے پروفیسر، ڈاکٹر ابوبکر رضوی کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات جس طرح کروٹ بدل رہے ہیں اس میں سبھی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے نقطہ نظر سے ایک ہی کھانے میں نظر آتی ہے۔ ان کے مطابق سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کو ہی بہار کے مسلمانوں کا قریب 80 فیصدی ووٹ ملتا رہا ہے لیکن ان پارٹیوں نے کبھی بھی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے سیاست میں حصہ داری دینے کی زحمت نہیں کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ 2024 کے موجودہ لوک سبھا انتخاب میں جس طرح سے مسلمانوں کو ٹکٹ کے معاملے میں نظر انداز کیا گیا ہے وہ بیحد افسوس ناک ہے۔ ڈاکٹر ابوبکر رضوی کا کہنا ہے کہ 18 فیصدی آبادی آج بغیر کسی قائد کے اپنا وقت کاٹنے پر مجبور ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمہوریت کی خوبصورتی یہی ہوتی ہے کہ ہر سماج کو ان کی آبادی کے اعتبار سے نمائندگی دی جائے تاکہ سماج کا ہر طبقہ اپنا حق بلند کر سکے اور اپنے مسئلہ کو حل کرانے میں کامیاب ہو سکے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔

وہیں معروف عالم دین مولانا انیس الرحمن قاسمی کا کہنا ہے یہ ٹرینڈ غلط ہے کہ صرف مسلمانوں کے ووٹ کو لیکر سیاست تو کی جائے لیکن جب ان کی نمائندگی کا معاملہ سامنے آئے تو ان کی آبادی کے مطابق ٹکٹ دینے سے گریز کیا جائے۔ مولانا انیس الرحمن قاسمی کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ مسلم ووٹر ان پارٹیوں کی نیت کو نہیں سمجھ رہیں ہیں۔ اگر وہ نمائندگی نہیں دے گے تو آنے والے اسمبلی انتخاب میں انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کہا کہ ہم لوگوں نے تمام سیاسی پارٹیوں سے کافی پہلے سے یہ گزارش کرتے رہے ہیں کہ انتخابات میں آبادی کے تناسب سے حصہ داری دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ذات پر مبنی سروے تو حکومت نے اسی لیے کرایا تھا کہ کس ذات کی کتنی آبادی ہے تاکہ انہیں انصاف مل سکے، پھر کیا ہوا کہ حکومت کے پاس وہ رپورٹ موجود ہے پھر بھی اقلیتوں کو ان کے واجب حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی تعمیر و ترقی اس بات میں پوشیدہ ہے کہ تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہو، چاہے وہ نمائندگی کا سوال ہو یا پھر دوسرے ترقیاتی کام ہو، ظاہر ہے اس مسئلہ پر تمام سیاسی پارٹیوں کو غور کرنا چاہئے۔