معصوم مرادآبادی
ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران بے شمار وطن پرستوں نے اپنا سب کچھ مادروطن کے لئے قربان کردیا۔ ان میں سے صرف چند لوگ ایسے ہیں جنہیں شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور بے شمار ایسے گم نام مجاہدین ہیں جنہوں نے وطن کی آزادی کی راہ میں لازوال قربانیاں پیش کیں لیکن کبھی خود کو نمایاں نہیں کیا۔ ایسے ہی مجاہدین کی فہرست میں مرادآباد کے معشوق علی خاں کا نام بھی شامل ہے جنہوں نے اپنی جرأت مندی اور قربانیوں سے مرادآباد کا نام روشن کیا۔
مرادآباد اترپردیش میں جدوجہد آزادی کا تیسرا بڑا مرکز تھا۔ یہاں 1857کی جنگ آزادی کے دوران 16ہزار متوالوں کو تختہ دارپر چڑھایا گیا تھا۔اس شہر نے مجاہدین آزادی کا ایک ایسا قافلہ پیدا کردیا تھا جووطن کی آبرو کو بچانے کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے پر تیار رہتا تھا۔
تحریک خلافت کے بعد مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ میں حصول آزادی کے لئے جو نیا جوش وخروش امڈ آیا تھا اس کی کوکھ سے سرزمین مرادآباد پر پیدا ہونے والے جری اور بہادر لوگوں میں میرے دادا معشوق علی خاں کا نام کئی اعتبار سے منفرد ہے۔
دراصل 1882 ء میں رام پور کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والے آزادی کے اس سپاہی نے اپنی مجاہدانہ زندگی کا آغاز 1919 ء میں مرادآباد میں کیا تھا۔ 1929 ء میں انگریز حکومت کے پاس کردہ شاردا ایکٹ کے تحت 22 سال سے کم عمر لڑکے اور 18سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کو قابل سزا جرم قرار دیاگیا تھا۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے ماں، باپ، قاضی، گواہ اور وکیل سب کو سزا اور جرمانہ ادا کرنے کا حکم ہوا۔ علمائے کرام نے اس قانون کے خلاف ملک گیر تحریک چھیڑ دی اور اس کا پہلا جلسہ مرادآباد میں منعقد کیا، جس میں مولانا حسین احمد مدنی بھی شریک تھے۔
گل شہید کے چوراہے پر منعقدہ اس عظیم جلسہ عام میں علماء نے نعرہ دیا ہے کوئی مرد مجاہد جو اس قانون کی خلاف ورزی میں اپنے کمسن بچوں کی شادی کرے۔مجمع پرخاموشی طاری ہوگئی مگر وہاں موجود معشوق علی خاں نے اس چیلنج کو قبول کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لیا اورعلمائے کرام کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے اگلے دن اپنی دوکمسن لڑکیوں اچھی بی (7سال) اور چھوٹی بی (5سال) کا نکاح اپنے دو بھتیجوں کے ساتھ کردیا۔
اس قانون کی خلاف ورزی میں انگریز دشمنی کے طورپر منعقد ہونے والی شادیوں کا ملک بھر میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ جسے بہت سراہا گیا۔ اس کی پاداش میں 3 مئی 1932 کو معشوق علی خاں کی گرفتاری عمل میں آئی اور انہیں سی ایل اے ایکٹ (ایل)کی دفعہ 17کے تحت چھ ما ہ کی قید بامشقت دی گئی۔ اس دوران وہ مرادآباد ضلع جیل میں قید رہے اور وہاں سے 20نومبر 1932 ء کو رہائی ملی، یہ اس سلسلے کی پورے ملک میں پہلی گرفتاری تھی۔ اس کی تصدیق ضلع مرادآباد کی فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی بنچ کورٹ کی طرف سے جاری یکم نومبر 1955 ء کے تصدیق نامے سے بھی ہوتی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا محمد میاں نے یکم فروری 1956 ء کو تحریرکردہ ایک توثیق نامہ میں معشوق علی خاں کے بارے میں تحریر کیاہے کہ
معشوق علی خان قومی تحریک کے ایک قدیم اور جری کارکن تھے اور 1919 ء سے ملک کی آزای کی جدوجہد میں شریک رہے۔ انہوں نے اس کے لئے بیش بہا قربانیاں دیں۔ وہ ہمیشہ جیل جانے کے لئے تیار رہتے تھے اور ملک کی آزادی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنی ان خدمات کے عوض دوسروں سے کہیں زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔“
خود انہوں نے اپنے بارے میں ایک موقع پر لکھا کہ
میں نے کانگریس کی قیادت میں قومی تحریک میں حصہ لیا اور کانگریس کو جہاں کہیں مشکل سے مشکل حالات کا سامنا ہوا وہاں مجھے بھیجاگیا اور میں نے کبھی اس سے منہ نہیں موڑا۔ کبھی اپنی جان کی پروا نہیں کی اور نہ ہی یہ سوچا کہ میرے بیوی بچوں کا کیاہوگا۔ ہر جگہ اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرتا جہاں بھی ضرورت پڑی مجھے بھیجا گیا۔ اس ضمن میں میرٹھ، دہلی، بنارس اور شاہجہاں پور بھیجاگیا۔
خیال رہے کہ 1930ء میں لکھیم پور کے مقام پر انگریزوں کے ذریعہ جنگلات کی نیلامی کے خلاف ستیہ گرہ کرنے پر انہیں بعض دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار کرلیاگیا اور مختلف دفعات کے تحت 6ماہ کی قید بامشقت کی سزادی گئی۔ اس دوران جیل میں انھیں ریتیلی روٹیاں کھانے کو دی گئیں اور انگریز پولیس کے ذریعہ دیگر نوعیت کی زیادتیاں کی گئیں۔ جیل میں زیادتیوں کے خلاف اجتماع کرنے اور انگریز مخالف نعرے لگانے کے جرم میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال کر ایک ہفتہ تک انہیں تنہائی میں قید رکھا گیا۔ ایک ماہ بعد لکھنؤ جیل منتقل ہوئے۔ جہاں ان کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اخلاقی مجرموں جیسا سلوک کیاگیا۔ بعد کو وائس رائے لارڈ ارون اور گاندھی جی کے درمیان ہوئے ایک معاہدہ کے تحت جن سیاسی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی ان میں معشوق علی خاں بھی شامل تھے۔قبل ازیں 1929 ء میں انگریز حکومت کے خلاف خفیہ طورپر ہینڈ بل تقسیم کرنے کے جرم میں انہیں گرفتار کرکے چھ ماہ کی سزا دی گئی۔
تحریک آزادی کے دوران ایک مخلص کارکن کی حیثیت سے معشوق علی خاں کی خدمات ناقابل فرامو ش ہیں۔ ان کی بہادری اور حریت میں جذبہ سرشاری کی متعدد مثالیں موجودہیں۔ تحریک آزاد ی اور تقریب آزادی سے متعلق مرادآباد میں منعقد ہونے والے ہر جلسے وجلوس اور کانفرنس کے انتظام وانصرام میں یوں مصروف رہا کرتے تھے گویا گھر کی کوئی تقریب ہو۔ وہ اپنے دور میں مرادآباد کے سب سے بہادر اور نمایاں کارکنوں میں تھے۔
آزادی سے متعلق شہر میں نکلنے والے ہر جلوس کی قیادت اونٹ پر بیٹھ کر پورے وقار سے کیا کرتے تھے۔ ان کی سخاوت اور کشادہ قلبی کا عالم یہ تھا کہ ہر سال آموں کے باغ خرید کر شہر کے لوگوں کو وہاں لے جاکر کھلایا کرتے تھے۔ شہر میں ہر چھوٹابڑا انہیں ٹوٹ کر چاہتا تھا۔ 1964 ء میں کینسر کے عارضہ میں انتقال فرمایا۔ ستمبر 1961ء میں دہلی میں منعقدہ مجاہدین آزادی کی کانفرنس میں آپ کو بطور مندوب مدعو کیاگیا اور خصوصی سرٹیفکیٹ دیاگیا۔
آزادی کے بعد کسمپرسی کے حالات گزارے اور بیماری کے دوران بھی کوئی سرکاری امداد یا تعاون نہیں لیا۔ ایک خوددار اورجری محب وطن اور مجاہد آزادی کے طورپر معشوق علی خاں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔