ثاقب سلیم
مجھ (مولانا محمد علی) کو کوئی پرواہ نہیں کہ مجھے اور میرے بھائی (مولانا شوکت علی) کو مولانا نہ کہا جائے۔ یہ ہمارے لیے کم اہمیت رکھتا ہے...... ذاتی طور پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے......... لیکن مجھے شنکراچاریہ کے تعلق سے بات کرنی چاہیے۔ شنکراچاریہ کو اس طرح مخاطب کیا جانا چاہیے جو ان کی زندگی اور اعلی مقام کے مناسب ہو۔ مندرجہ بالا بیان مولانا محمد علی جوہر نے 25 اکتوبر 1921 کو سندھ کے کمشنر بی سی کینیڈی کے سامنے دیا تھا۔
کراچی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) زمان شاہ محبوب شاہ نے شنکراچاریہ کو اعزازی خطاب کے ساتھ مخاطب کرنے کے بجائے ان کا نام وینکٹراما سے مخاطب کیا۔اس بات نے جوہر کوناراض کردیا۔ کراچی کے خالق دینہ ہال میں برطانوی فوج کے مسلمان سپاہیوں کو اکسانے کے لیے جوہر اور شنکراچاریہ سمیت سات ’ملزمان‘ پر برطانوی سلطنت کے خلاف جنگ چھیڑنے کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔
حکومت نے مولانا حسین احمد مدنی، پیر غلام مجدد اور مولانا نثار احمد پر برطانوی فوج کی خدمت کرنے کو حرام (غیر شرعی) قرار دینے کا فتویٰ جاری کرنے کا الزام لگایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر چار لوگوں میں، جن پر فتویٰ کی تائید اور مقبولیت کا الزام عائد کیا گیا، ان میں سے ایک شری شاردا پیٹھ کے جگد گرو شنکراچاریہ تھے۔ تحریک خلافت اور فتویٰ کے حق میں شنکراچاریہ نے دلیل دی کہ ، سب کے لیے سو دھرم کے نظریے کے ماننے والے کے طور پر، ہر ہندو کو لازمی طور پر خلافت کاز سے ہمدردی رکھنا چاہیے۔
انہوں نے بعد میں لکھا، کراچی میں ’خدا کے قانون‘ کو انسانوں سے بالاتر رکھنے کے لیے جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، ہم میں سے سات کے حالیہ ٹرائلز، اس زبردست جدوجہد میں اہم موڑ ہے۔ حکومت ہند اور تمام صوبائی حکومتیں، آخر کار اپنے بھیس بدل کر کھلے میدان میں خدا اور اس جذبے کے خلاف ، میدان میں اتر آئے ہیں جس کا پورے ہندوستان کے ہندو، مسلم، سکھ، پارسی اور عیسائی لازمی طور پر پابند ہیں۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس عہدساز مسئلے کو اٹھانا ہے اور فاتحانہ انداز میں مسلسل آگے بڑھناہے۔ اب یہ انڈین پینل کوڈ کے سیکشن کا سوال نہیں ہے بلکہ صرف خدا بمقابلہ انسان کا سوال ہے کہ آج کا ہندوستان اس کے خلاف ہے اور اسے واضح طور پر جواب دینا چاہئے۔
جب مجسٹریٹ نے شنکراچاریہ کو کھڑے ہونے اور بیان ریکارڈ کرانے کو کہا تو محمد علی نے احتجاج کیا کہ سنیاسی ہونے کے ناطے شنکراچاریہ اپنے گرو کے علاوہ کسی کے لیے کھڑے نہیں ہو سکتے۔ مجسٹریٹ نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا لیکن شنکراچاریہ نے اپنا مذہبی فرض نہیں چھوڑا کہ وہ گرو کے علاوہ کسی کے لیے کھڑے نہ ہوں۔
انگریزوں کا ماننا تھا، جیسا کہ عدالتی کاروائی سے ثابت ہوا کہ تحریک خلافت ، ہندوستان میں قوم پرست سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے ایک لبادہ ہے۔ اگرچہ واضح طور پر انہوں نے ایک مذہبی زبان اختیار کی تھی لیکن ان کا قوم پرست ایجنڈا ایک کھلا راز تھا۔
وہ ہندو مسلم اتحاد کو توڑنا چاہتے تھے اور یہ حاصل کرنے کے لیے کہ انھوں نے شنکراچاریہ کو بیٹھ کر اپنا بیان ریکارڈ کرنے کی اجازت نہ دے کر اور ان کے لیے قابل احترام الفاظ کا استعمال نہ کر کے، ان کے مسلمان ساتھیوں علی برادران، سیف الدین کچلو، حسین احمد، نثار احمد، پیر غلام کے ساتھ بدتمیزی کی۔ ان ہتھکنڈوں کا ان کے ساتھیوں نے بالعموم اور محمد علی نے خاص طور پر سختی سے مقابلہ کیا اور انہوں نے شنکر آچاریہ کی تذلیل پر سخت اعتراض کیا۔
مزید یہ کہ وہ بغیر کرسی کے شنکراچاریہ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اس کے بعد، عدالت نے شنکراچاریہ کو باقی چھ کے برعکس بغیر کسی سزا کے بری کر دیا۔ ایک بار پھر، شنکراچاریہ نے بغیر احتجاج کے اسے قبول نہیں کیا اور لکھا کہ وہ تحریک کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہیں جب کہ محمد علی نے عدالت میں گرج کر کہا کہ شنکراچاریہ ایک ساتھی ہیں اور انگریز کوئی دراڑ نہیں ڈال سکتے۔
شنکراچاریہ کو تمام الزامات سے بری کر دیا گیا جبکہ دیگر چھ کو دو دو سال کی سزا سنائی گئی۔ ہندوستانی قوم پرستوں نے اس اقدام کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔ بعد میں شنکراچاریہ نے لکھا کہ وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور پارسی ہندوستان کے یکساں اہم حصے ہیں۔