معصوم مرادآبادی، نئی دہلی
”میں جس مقصد سے یہاں آیا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جاسکتا ہوں جب کہ میرے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ ہوگا، ورنہ میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ میں ایک غیر ملک میں جو اگر آزاد ہے، مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دینی پڑے گی۔“
یہ ہیں، وہ الفاظ جو عظیم محب وطن اور جنگ آزادی کے مجاہد مولانا محمد علی جوہر نے لندن کی گول میز کانفرنس کے دوران 1930میں کہے تھے۔ ان کی یہ آخری تقریر ہندوستان کی آزادی، ہندومسلم تعلقات، انگریزوں کے رویوں اور راہ کی مشکلات کی ایک مکمل اور بے باک داستان ہے۔ مولانا محمد علی، بے باک، نڈر، حوصلہ مند اور جوش وجذبہ سے سرشار ایک ایسے مکمل لیڈر تھے جن کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ خدا نے ان میں بیک وقت اتنی صلاحیتیں یکجا کردی تھیں جو عام طورپر کسی ایک انسان میں مشکل سے یکجا ہوپاتی ہیں۔ تحریر وتقریر، علم وعمل اور سوچ وفکر میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے عظیم المرتبت رہنماؤ میں ان کی ایک منفرد شناخت ہے۔
مولانا محمد علی جوہر، ان لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جدوجہد کی راہیں متعین کیں۔ ان کی سوچ بالکل صاف اور واضح تھی۔ وہ لاگ لپیٹ کے آدمی نہیں تھے اسی لئے کبھی مصلحت نے ان کے قدموں کو نہیں روکا۔ وہ جو کچھ سوچتے سمجھتے تھے اسے جوں کا توں بیان کرنے یا اس کا عملی اظہار کرنے میں انہیں ذرا بھی پس وپیش نہیں ہوتا تھا ۔ تحریک آزادی کے بعض کوتاہ نظر مؤرخین انہیں جوشیلا اور جذباتی قرار دے کر ان کی اہمیت کوکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا محمد علی نے اپنے جوش وجذبہ سے ملک کی آزادی اور وقار کی بحالی کے لئے جو کام لیا ہے اسے فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ وہ بیک وقت ایک بہترین ادیب، صحافی، شاعر، انشاء پرداز، مقرر اور مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خدا ترس، سچے اور نیک دل انسان تھے۔
تعلیم وتربیت
مولانا محمد علی جوہر کی پیدائش 10دسمبر 1878کو ریاست رام پور کے ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد عبدالعلی خاں، والی رام پور کے مصاحبین میں شامل تھے۔ محمد علی ابھی دوبرس کے ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اردو فارسی کی ابتدائی تعلیم انہوں نے رام پور میں ہی حاصل کی۔ 12سال کی عمر میں وہ باقاعدہ تعلیم کے لئے علی گڑھ آگئے اور یہاں سے انہوں نے 1898 میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی نے ان کی تعلیم وتربیت میں خاصی دلچسپی لی اور انہیں انڈین سول سروسز کے امتحان میں شرکت کے لئے انگلینڈ بھیجا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ بعد کو دوبارہ انگلینڈ جاکر انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔
مولانا محمد علی کی شخصیت اور کردار کی تعمیر میں ان کی والدہ بی اماں کا بنیادی کردار رہا۔ وہ ایک انتہائی سمجھ دار اور دوراندیش خاتون تھیں ۔ آزادی کی تڑپ ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اسی لئے انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں میں اس جذبہ کی ایسی شدت بھردی تھی کہ وہ ساری عمر اسی میں لگے رہے۔ اس دور میں جبکہ تحریک خلاف اپنے عروج پر تھی یہ مصرعے نوجوانوں کے حوصلوں اور امنگوں کو دوبالا کرتے تھے۔
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دینا
بوڑھی ماں کا کچھ غم نہ کرنا
انگلینڈ سے واپس آکر محمد علی جوہر نے کچھ عرصہ رام پوراور بڑودہ میں ملازمت کی لیکن وہاں ان کا دل نہ لگا اور 11 جنوری 1911 کو انہوں نے کلکتہ سے انگریزی اخبار ”کامریڈ“ جاری کیا ۔ بعدازاں 1912 میں دہلی سے اردو اخبار ”ہمدرد“ کا اجراء کرکے دنیائے صحافت میں دھوم مچادی۔ ”کامریڈ“ بھی وہ کلکتہ سے جلد ہی دہلی لے آئے اور انہوں نے اس اخبار کے ذریعہ انگریز ی انشاء پردازی کے لئے ایسے جوہر دکھائے کہ ایچ جی ویلز جیسا انگریزی ادیب یہ کہنے پر مجبورہوگیا کہ ”محمد علی نے برک کی زبان، مکالے کا قلم اور نیپولن کا دل پایا ہے۔“
مولانا محمد علی کو زبان پر بلا کی قدرت تھی اور ان کے قلم میں ایسا جادو تھا کہ وہ انگریزی ہو یا اردو جب بھی لکھتے، پڑھنے والے ان کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی ملک وقوم کی خدمت کے لئے وقف کردی اور خودان کی ذات ضرورتوں سے ماورا ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کی ہوش مندی، بہادری، بے باکی، زورقلم وقوت گفتار کی تعریف کرنے کے لئے ایچ جی ویلز کو اپنے زمانے کے کیسے کیسے ناموروں کا سرمایہ زندگی سمیٹنا پڑا ہوگا۔ اسے تنہا کوئی شخص ایسا نہ ملا جس میں مولانا محمد علی جوہر کے دل ودماغ، قلم اور زبان کی تمام صلاحیتیں جمع ہوں۔
1914 ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی اور جرمنی کے حلیف کی حیثیت سے ترکی برطانیہ کے مقابلہ میں آگیا۔ ”کامریڈ“ اخبار نے ترکوں کی حمایت کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو تنقید وملامت کا نشانہ بنایا۔ یہ بات ہندوستان میں موجود غاصب انگریز حکمرانوں کو ایک آنکھ نہ بھائی، لہٰذا حکومت کا قہر ان پر نازل ہوا اور مولانا محمد علی نظر بند کردیئے گئے۔ کامریڈ کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ دسمبر 1919 میں انہیں قید سے رہائی ملی لیکن اس وقت تک ان کی بے باک صحافت اور قید وبند کی طویل صعوبتوں کی وجہ سے عوام میں انہیں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی اور یہیں سے بحیثیت لیڈر ان کی تشکیل کا عمل شروع ہوا۔ بعدازاں ان کے ساتھ مسلمانوں کی بڑی تعداد امرتسر میں منعقد ہوئے کانگریس کے اجلاس میں شریک ہوئی ۔ اس طرح ایک صحافی سے بڑھ کر ایک سیاسی قائد کے طورپر ان کی شناخت پروان چڑھی۔
1919 میں ہی خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لئے جب مرکزی خلافت کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت علی برادران بیتل جیل میں قید تھے لیکن جب وہ رہا ہوئے تو خلافت کمیٹی پر چھاگئے۔ اس طرح مولانا محمد علی نے آہستہ آہستہ ایک کل ہند سطح کے لیڈر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرلی اور ملک بھر میں گھوم گھوم کر مسلمانوں کو ترک موالات کا پیغام دیا۔ انہوں نے پوری قوم کے اندر ایک ولولہ اور جوش پیدا کردیا ہے۔ بقول خود ؎
خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی
ہوس زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی
نقد جاں نذر کرو سوچتے کیا ہو جوہرؔ
کام کرنے کا یہی ہے تمہیں کرنا ہے یہی
فروری 1920 میں وہ ایک وفد لے کر اس غرض سے انگلینڈ گئے کہ خلافت کے بارے میں مسلمانوں کے موقف سے برطانوی حکومت کو آگاہ کرسکیں۔ یہ وفد اکتوبر 1920 میں واپس ہندوستان آگیا اور واپسی کے بعد مولانا محمد علی نے اپنے ایک اور خواب کو عملی جام پہنایا، وہ تھا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام۔ 29 اکتوبر 1920 ء کو مولانا محمد علی نے مہاتما گاندھی کو ساتھ لے کرعلی گڑھ کالج کی مسجد کے ہال میں ایک نئے تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا جو سرکاری انتظام سے آزاد تھا۔ اس کا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ رکھا اور اس کا افتتاح دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمود حسن سے کرایا۔ مولانا محمد علی 22نومبر 1920 کو جامعہ کے اولین وائس چانسلر مقرر ہوئے مگر اس حیثیت سے وہ صرف چھ مہینے کام کرسکے اور اپریل 1921 میں مدراس جاتے ہوئے والٹائیر کے اسٹیشن پر گرفتار کرلئے گئے۔ جرم یہ تھا کہ انہوں نے کچھ دن پہلے کراچی میں ایک ایسی تقریر کی تھی جس سے مسلمان سپاہیوں کے دل میں انگریزی سرکار کے خلاف منافرت کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس قید سے انہیں اگست 1923 میں رہائی ملی۔
دسمبر1923 میں مولانا محمد علی جوہر کو کانگریس کاصدر منتخب کیاگیا لیکن وہ غالباً ایک برس کے عرصہ میں ہی اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ لیکن انہیں اس میں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ اس کے بعد انھوں نے 1924 میں کامریڈ اور ہمدرد دوبارہ نکالنے شروع کئے۔لیکن انھیں اس میں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔1926میں ”کامریڈ“ اور مارچ 1929 میں ”ہمدرد“ کی اشاعت بند ہوگئی ۔ جتنے عرصہ بھی یہ دونوں اخبار منظرعام پر رہے برطانوی حکومت کے ایوانوں میں ان کی گونج سنائی دیتی رہی۔ انہوں نے اپنے اخبار کے ذریعہ نہ صرف برطانوی سامراج کی چولیں ہلائیں بلکہ صحافت کو بھی ایک نیارنگ وآہنگ عطا کیا۔ ان اخبارات کی اشاعت کے پس پشت تجارتی مقاصد نہ تھے اور نہ یہ ذریعہ معاش کے درجے میں تھے بلکہ یہ ایک مشن کے طورپر آزادی کی تحریک کو پروان چڑھانے اور آزادی کے متوالوں میں نیا جوش وجذبہ پیدا کرنے کے لئے منظرعام پر آ ئے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر نے ان اخبارات سے اوزار حرب کا کام لیا۔
مولانا محمد علی اور شوکت علی نے گاندھی جی کے شانہ بشانہ تحریک آزادی کو پروان چڑھایا۔ تحریک خلافت میں گاندھی جی کی شرکت دراصل علی برادرن کی کوشش کا ہی نتیجہ تھی۔ 1915 سے 1920 تک کے سیاسی حالات کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ حقیقت پوری شدت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ علی برادران کی کوشش سے قوم میں مہاتماگاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ علی برادران جب بھی مسلمانوں میں جاتے وہ گاندھی جی کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ جامعہ ملیہ کے قیام کی تقریب ہو یا پھر کانپور کی مسجد کا افسوسناک واقعہ۔ علی برادران مہاتماگاندھی کو خاص اہمیت دیتے تھے اور یہ تینوں رہنما اس دور میں جنگ آزادی کے سرخیل کہلاتے تھے۔
مولانا محمد علی کا سب سے اہم کارنامہ تحریک خلافت کو قرار دیاجاسکتا ہے کیونکہ اس تحریک کے حامیوں نے ترکی کی زبردست حمایت کی اور ببانگ دہل انگریزوں کو وطن چھوڑنے کا حکم دیا۔ گاندھی جی نے ترک موالات کی تحریک کو تحریک خلافت کے ساتھ اشتراک عمل کرنے پر زور دیا اور دونوں تحریکیں انگریزوں کے لئے زبردست چیلنج بن گئیں۔ گاندھی جی اور مولانا محمد علی جوہر کے اس اشتراک عمل کے نتیجہ میں ہندو مسلم اتحاد ویگانگت کی ایک ایسی خوشگوار فضا قائم ہوئی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
مولانا محمد علی اور شوکت علی کا نام خاص طورپر تحریک خلافت سے وابستہ ہے اور تحریک خلافت ہندوستان کی قومی تحریکوں کا ایک حصہ تھی۔ اس لئے خلافت کی تحریک کو ہندوستان کی تاریخ سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ بات صحیح ہے کہ خلافت عثمانیہ کا مرد بیمار بستر مرگ پر پڑا ہوا تھا اور خلافت اسلامیہ کا تحفظ دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک جذباتی مسئلہ بن چکا تھا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک خاص طورپر ہندوستان میں مسلمانوں کے ملی اور قومی جذبات کو بیدار کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی۔ جہاں تک جذباتیت کا تعلق ہے مولانا محمد علی جوہر اوران کے ہم عصر اکابرین کی مجبوری یہ تھی کہ وہ برطانوی استعمار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو ہر صورت میں روکنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں برطانوی سامراج عالم اسلام کی سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی شیرازہ بندی کو توڑدینے کی زبردست سازشیں کررہا تھا، اس لئے ان بزرگوں کے سامنے تحریک خلافت بھی برطانوی سامراج سے دنیا کو نجات دلانے کا ایک وسیلہ تھی۔ اب جہاں تک مذہبی جذبات واحساسات کا تعلق ہے مولانا محمد علی جوہر کے تمام ہم عصر اکابرین خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان سب کے سب مذہب کے نام پر قومی تحریکوں کو آگے بڑھارہے تھے یہاں تک کہ مہاتماگاندھی بھی ہندوستان میں رام راج یعنی آزادی اور انصاف کی حکومت کاتصور پیش کررہے تھے۔
آج آزاد ہندوستان میں بعض کوتاہ قلب اور تنگ نظر لوگ یہ سوال بڑی شدت سے اٹھاتے ہیں کہ مذہب بڑا ہے یا وطن؟ اس سوال کا سب سے بھرپور اور مدلل جواب مولانا محمد علی جوہر نے لندن کی گول میز کانفرنس کی اپنی معرکۃ الآرا تقریر میں کچھ یوں دیا تھا۔
”میرے پاس ایک تمدن ہے۔ ایک سیاسی نظام ہے۔ ایک نظریہ ہے زندگی ہے اور اسلام ان سب کا امتزاج ہے۔ جہاں تک احکام خداوندی بجالانے کا تعلق ہے میں اول بھی مسلمان ہوں، دوئم بھی مسلمان ہوں اور آخر میں بھی مسلمان ہوں، یعنی مسلمان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں، لیکن جہاں ہندوستان کا سوال آتا ہے جہاں ہندوستان کی آزادی کا سوال آتا ہے یا جہاں ہندوستان کی فلاح وبہبود کا سوال آتا ہے۔ میں اول بھی ہندوستانی ہوں اور آخر بھی ہندوستانی ہوں اور ہندوستان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں۔“
لندن ہی میں 4جنوری 1931کو مولانا نے داعی اجل کو لبیک کہا اور سرزمین بیت المقدس (یروشلم) میں دفن ہوئے۔ رسول اللہؐ کی معراج بھی بیت المقدس کے راستے ہوئی تھی، اس لئے علامہ اقبال نے اپنی فارسی نظم میں مولانا محمد علی کو خراج عقیدت ان الفاظ میں پیش کیاکہ ؎
”سوئے گردوں رفت ازاں راہے کہ پیغمبر گزشت“
یعنی وہ آسمان پہ اس راستے سے گئے جو پیغمبراسلام کا معراج کا راستہ تھا۔
پروفیسر نظامی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا کہ مولانا محمد علی نے ایک سوتی ہوئی قوم کو ابھارکر ایک قوت بنادیا تھا۔ انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی۔ بقول مولانا سلیمان ندوی”وہ شکست خوردہ فوج کا آخری سپاہی تھاجو اعداء کے نرغے میں تنہا لڑرہا تھا۔ آخر کار زخموں سے چور ہوکر ایسا گراکہ پھر کھڑا نہ ہوسکا۔“ مولانا محمد علی کے وصال کو عرصہ بیت چکا ہے لیکن فضاؤں میں آج بھی ان کی یہ آواز گونج رہی ہے ؎
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
”محمد علی کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ بڑے تھے لیکن ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ یہ تنگ دلوں اور تنگ نظروں کا فیصلہ ہے۔ مرد غازی کے کارنامے کا اندازہ مقبولیت کی وسعت، مال غنیمت کی فراوانی،جشن وجلوس کی ہماہمی وطرب انگیزی، تمغہ واسلحہ کی جنگ اور جھنکار سے نہیں کیاجاتا، بلکہ اس کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ ٹوٹی ہوئی تلوار، بکھری ہوئی زرہ، بہتے ہوئے لہو، دہکتی ہوئی روح، دمکتے ہوئے چہرے اور ڈوبتے ہوئے سورج کے وقت اس نے جنگ کیسے کی۔“ آگے لکھتے ہیں ”کس بلاکے بولنے والے اور لکھنے والے تھے کہ بولتے تو معلوم ہوتا ابو الہول کی آواز اہرام مصر سے ٹکرارہی ہے، لکھتے تو معلوم ہوتا کہ کیمپ کے کارخانے میں توپیں ڈھلنے والی ہیں یا پھر شاہجہاں کے ذہن میں تاج کا نقشہ مرتب ہورہا ہے۔ ملک وملت کی جنگ اب بھی جاری ہے، لیکن نعرہ جنگ خاموش ہے۔“