نئی دہلی : تابش مہدی نہیں رہے ۔ انا للہ وانا الیہ را جعون۔اللہ ۔ متعددکتابوں کے مصنف، ادیب، نقاد اور بہترین شاعر تھے ۔وہ ایک عالم دین اور عظیم نسبتوں کے حامل شخصیت تھے۔ان کی اہلیہ حضرت شیخ الہندؒ کی پڑپوتی ہیں، ان کی صاحبزادی ڈاکٹر ثمینہ تابش، مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد میں عربی زبان و ادب کی استاد، ایسوسی ایٹ پروفیسر، شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔ ڈاکٹر تابش مہدی کا مختصر علالت کے بعد بدھ کی صبح 10بجے کے قریب انتقال ہوگیا ۔وہ بہت اچھے قاری تھے اوربہت اچھے نعت خواں بھی، قادرالکلام شاعربھی تھے اوراعلی درجے کے نثرنگاربھی، مرتب بھی تھے اورمصنف بھی، تخلیق کار بھی تھے اور تنقید نگار بھی ۔
ڈاکٹر تابش مہدی کا شمار اردو کے منتخب اور استاد شاعروں میں ہوتا تھا۔ اردو کے مشاہیر ادیبوں اور شعرا سے ان کی رسم وراہ رہی ۔ اردوادب میں شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سےڈاکٹریٹ کی اعلی تعلیم کے چھھ چھھ علمی اور ادبی صحبتیں بھی انہوں نے خوب اٹھائی تھیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شعروادب کے نگار خانے میں شاعر- نثر نگار اور مبصر کے طور پر ان کی بے حد وقیع خدمات رہیں۔ کم وبیش اردو شعر وادب کی چار دہائیاں ان کے سرگرم ادبی سروکار کی گواہ ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام کم وبیش 40 برس پہلے "تعبیر" کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک نثروشعر کی ایک سے ایک کتابیں ان کے قلم سے نکل چکی تھیں۔ گذشتہ برس ان کی خودنوشت "تیز دھوپ کا مسافر" کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب بھی ڈاکٹر تابش مہدی کی سرگرم ادبی زندگی کی گواہ ہے۔ یہاں یہ بات دھیان رکھنے کی ہے کہ تابش مہدی شاعری اور نثر دونوں حوالوں سے مسلم الثبوت حیثیت کے حامل ہیں لیکن ان کی عام شہرت اور مقبولیت میں شاعری کا نمایاں کردار ہے
تابش مہدی اردو ادب کے ایک نمایاں شاعر، نقاد، صحافی اور مصنف تھے جنہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے اردو زبان و ادب کو ایک نئی جہت دی۔ ان کی علمی و ادبی زندگی کئی دہائیوں پر محیط رہی، جس میں انہوں نے شاعری، تنقید، اور تحقیق کے میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی تخلیقات میں گہرائی، فکری پختگی اور تخلیقی نکھار کی جھلک نمایاں ہے۔ اردو ادب میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
تابش مہدی 3 جولائی 1951 کو پرتاپ گڑھ، اتر پردیش، میں پیدا ہوئے۔انہوں نے 1964 میں ڈسٹرکٹ بورڈ پرتاپ گڑھ سے جونئیر پرائمری اسکول کا امتحان پاس کیا، 19661967 میں بالترتیب تجوید و قراءت سبعہ انہوں نے مدرسہ سبحانیہ الہ آباد و مدرسہ تعلیم القرآن حسن پور، مرادآباد میں حاصل کی۔
سنہ 1970ء میں انہوں نے عربی و فارسی بورڈ الہ آباد سے مولوی (عربی)، 1978ء میں منشی (فارسی) اور 1980 میں کامل (فارسی) کا امتحان پاس کیا۔ نیز 1971 میں جامعہ دینیات دیوبند سے عالم دینیات (اردو)،1977 و 1985 میں بالترتیب جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب ماہر و ادیب کامل (اردو) کا امتحان کا پاس کیا۔ اخیر میں 1989 میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) اور 1997 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے اردو تنقید میں پی ایچ ڈی کیا۔
ان کے اچھذۂ سخن میں شہباز امروہوی (تلمیذ افق کاظمی)، بلالی علی آبادی (تلمیذ شفیق جونپوری)، سروش مچھلی شہری (شاگرد آرزو لکھنوی)، ابو الوفاء عارف شاہ جہاں پوری (تلمیذ ریاض خیرآبادی) اور عامر عثمانی شامل ہیں۔
18 مئی 1979 میں تابش کا نکاح دیوبند کے مشہور خطاط اشتیاق احمد عثمانی کی پوتی اور ممتاز احمد عثمانی کی بیٹی راضیہ عثمانی سے ہوا، جن سے ان کی چھ اولاد ہیں، جن میں دو فرزند شاہ دانش فاروق فلاحی اور شاہ اجمل فاروق ندوی کے علاوہ چار دختران ثمینہ تابش صالحاتی، طوبیٰ کوثر صالحاتی، یمنیٰ کلثوم اور نعمیٰ کلثوم ہیں۔
جولائی 1971 میں تابش نے ابوالکلام آزاد کالج پرتاپ گڑھ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا جولائی 1973 تک وہاں تدریسی فرائض انجام دیے، پھر جنوری 1974 سے جون 1978 تک دار العلوم امروہہ میں تدریسی خدمات انجام دیں اور جون 1986 تا اپریل 1990 جامعۃ الفلاح عربک کالج بلریا گنج، اعظم گڑھ میں بہ حیثیت مدرس کام کیا۔ اپریل 2018 سے اسلامی اکادمی جماعت اسلامی ہند، دہلی میں فن تجوید و قراءت کی خدمت انجام دیں، ہیںتابش مختلف اوقات میں پندرہ روزہ پیغام حق پرتاپ گڑھ، پندرہ روزہ اجتماع دیوبند اور ماہنامہ الایمان دیوبند کے مدیر؛ ماہنامہ گل کدہ سہسوان (بدایوں)، ماہنامہ ذکریٰ رامپور، ماہنامہ تجلی (دیوبند)، ماہنامہ زندگی نو (نئی دہلی) اور ماہنامہ ایوان اردو (دہلی اردو اکادمی) کے معاون مدیر اور ماہنامہ کتاب نما (دہلی) کے مہمان مدیر رہ چکے ہیں۔ اپریل 2002 اور جنوری 2005 سے بالترتیب ماہنامہ پیش رفت (دہلی) کے رکن مجلسِ ادارت اور سہ ماہی کاروان ادب (لکھنؤ) کے مشیر اعزازی و رکن مجلسِ ادارت میں رہے ۔تابش نے جون 1991 سے 3 جولائی 2009 تک مرکزی مکتبۂ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔ نیز وہ ابوالکلام آزاد انٹر کالج پرتاپ گڑھ و ادارہ ادب اسلامی ہند کے رکن اساسی؛ عالمی رابطہ ادب اسلامی (ہند) اور دار الدعوۃ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن دہلی کے رکن؛ ادبیات عالیہ اکادمی لکھنؤ کے چیئرمین، ادارۂ ادب اسلامی ہند کے سابق نائب صدر، سہ ماہی کاروان ادب لکھنؤ کے مشیر اعزازی و رکن ادارت رہے۔
تصانیف
تابش مہدی کی 55 مطبوعہ تصانیف ہیں، جن میں سے بعض کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
شعری مجموعے
نقش اول (1971)
لمعات حرم (1975)
سرود حجاز (1977)
تعبیر (1989)
سلسبیل (2000)
کنکر بولتے ہیں (2005)
صبح صادق (2008)
طوبیٰ (2012)
غزل نامہ (2011)
مشکِ غزالاں (2014)
رحمت تمام (2018)
غزل خوانی نہیں جاتی (2020)
دانائے سبل (2023)
تنقید
مولانا منظور نعمانی کی تصویر (1980)
جماعت اسلامی حقیقت کے آئینے میں (1981)
تبلیغی نصاب – ایک مطالعہ (1983)
تبلیغی جماعت اپنے بانی کے ملفوظات کے آئینے میں (1985)
اردو تنقید کا سفر (1999)
نقد غزل (2005)
تنقید و ترسیل (2011)
تجزیے
صل علی صل علی (1992)
میرا مطالعہ (1995)
شفیق جونپوری – ایک مطالعہ (2002)
رباب رشیدی – ایک سخن ور پیارا سا (2006ء)
عرفانِ شہباز (2014)
حالی شبلی اور اقبال (2017)
سفرنامہ
وہ گلیاں یاد آتی ہیں (2007)