ڈاکٹر شبانہ رضوی
رام دھاری سنگھ دنکر، ہندی ادب کے ممتاز شاعر اور مصنف، اپنے دور کی انقلابی آواز تھے جنہوں نے آزادی کی تحریک اور سماجی انصاف کی مہمات کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے تقویت بخشی۔ ان کی شاعری میں قوم پرستی، عوامی حقوق اور سماجی مساوات کے موضوعات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، جو انہیں بیسویں صدی کے عظیم قومی شاعر کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ دنکر کی تخلیقات نے نہ صرف ادب کے میدان میں انقلاب برپا کیا بلکہ انہوں نے عوام کے دلوں میں ایک نیا شعور اور بیداری بھی پیدا کی۔
تعارف
رام دھاری سنگھ دنکر (٢٣ ستمبر ١٩٠٨. ٢٤ اپریل١٩٧٤) کو ہندوستانی ادب کے میدان میں اہم مقام حاصل ہے۔ ان کی پیدائش بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں سمرِیا میں ہوئی تھی، جہاں وہ غربت اور مشکلات کے باوجود اپنی محنت اور لگن سے ادب کی دنیا میں نمایاں ہوئے۔ دنکر کی شاعری میں حب الوطنی، انقلابی جذبات، اور قومی اتحاد کے موضوعات کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں "راشٹرکوی" یعنی قومی شاعر کا لقب ملا۔
ابتدائی زندگی
رام دھاری سنگھ دنکر کی زندگی کا سفر غربت اور مشکلات سے شروع ہوا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں ہوئی، جہاں وسائل کی کمی اور مالی تنگی کا سامنا تھا، لیکن ان مشکلات نے ان کی شخصیت میں عزم اور محنت کی جڑیں گہری کر دیں۔ دنکر کی محنت اور لگن نے انہیں پٹنہ یونیورسٹی تک پہنچایا، جہاں سے انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ادب کی دنیا میں قدم رکھا۔
دنکر کی شاعری کا موضوع اور اسلوب
رام دھاری سنگھ دنکر کی شاعری میں ویر رس (بہادری)، قومی جذبہ، اور انقلابی خیالات نمایاں ہیں۔ ان کی تخلیقات میں قومی مسائل، سماجی مسائل، اور ہندوستانی تہذیب کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔ دنکر نے اپنی شاعری کے ذریعے ان مسائل کو اجاگر کیا، جو اس وقت کی ہندوستانی عوام کو درپیش تھے، اور ان کی شاعری نے عوام میں ایک نئی بیداری پیدا کی۔
رام دھاری سنگھ دنکر کی شاعری میں عوامی جذبات اور قوم پرستی کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ان کی شاعری کا انداز نہ صرف انقلابی تھا بلکہ ان کی تحریروں میں ایک خاص قسم کا جوش اور ولولہ بھی محسوس ہوتا ہے، جس نے آزادی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونکی۔
دنکر کی ایک مشہور نظم "رن ویر تمہارے پاس" قوم پرستی کے جذبے کو بیان کرتی ہے، جس میں وہ اپنے وطن کے نوجوانوں کو بہادری، عزم اور قربانی کی راہ پر گامزن ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس نظم میں دنکر نے جنگی حالات میں فوجیوں کی ہمت اور جوش کو سراہتے ہوئے انہیں ملک کے تحفظ کے لیے تیار رہنے کا پیغام دیا:
سینا تان، قدموں سے لوہا ٹھوکو۔
سر پر کانٹوں سے بھرا تاج باندھ لو،
ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں، رانویر تمہارے پاس۔
اس نظم میں "کانٹوں سے بھرا تاج باندھنے" کا استعارہ قربانیوں اور مشکل راستے کو قبول کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے، جب کہ "سینہ تان" اور "قدموں سے لوہا ٹھونکنے" کی تراکیب بہادری اور عزم کی علامت ہیں۔ دنکر اپنے قاری کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آزادی اور انصاف کے راستے پر چلنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا ضروری ہے، اور جوش و ولولے کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
ایک اور مشہورنظم
کوروکشتر"دنکر کی تاریخی موضوعات پر مبنی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین نمونہ ہے۔ اس نظم میں انہوں نے مہابھارت کی جنگ کو ایک فلسفیانہ بحث کے طور پر پیش کیا ہے، جہاں انصاف اور ظلم کی جنگ انسانی فطرت اور سماج کے مختلف پہلوؤں کی نمائندگی کرتی ہے۔ دنکر نے اس نظم کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی، بلکہ حق اور انصاف کے اصولوں پر ثابت قدمی اور مضبوط اخلاقی بنیادوں کے ساتھ جیتی جاتی ہے۔
ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ رام دھاری سنگھ دنکر کی شاعری صرف ادبی خوبصورتی کا نمونہ نہیں تھی، بلکہ ان کے الفاظ میں ایک مقصد تھا—ایک انقلابی پیغام جس نے سماجی، سیاسی اور ثقافتی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کیا۔
انقلابی شاعری سے ہٹ کر، رام دھاری سنگھ دنکر کی شاعری میں جمالیاتی حس اور انسانیت کی گہری عکاسی بھی ملتی ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو انسانی زندگی کی خوبصورتی اور فلسفیانہ گہرائیوں پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ اس قسم کی شاعری میں دنکر نے زندگی، محبت اور فطرت کے عناصر کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
مثال کے طور پر ان کی مشہور نظم "نیلا گگن سا ہس رہا" میں قدرت اور فطرت کی خوبصورتی کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا حیران ہو جاتا ہے:
نیلا گگن سا ہس رہا،
یہ کاجل سا، نیلا سا
کیا ہے یہ، کیسے بتاؤں؟
کیسے اسے اپنے دل میں سماوں؟"
اس شعر میں شاعر نے نیلے آسمان کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے اور اس حیرت کو پیش کیا ہے جو ایک عام انسان قدرت کی خوبصورتی کو دیکھ کر محسوس کرتا ہے۔ دنکر نے نہ صرف فطرت کی تعریف کی ہے بلکہ اس کے ساتھ جذباتی تعلق کو بھی پیش کیا ہے۔یہ ان کی شاعری کا ایک اور پہلو ہے جو انقلابی اور قوم پرست جذبات کے علاوہ ایک زیادہ روحانی اور جمالیاتی تجربے کو بیان کرتا ہے۔
ہری ونش رائے بچن، سمترانندن پنت، اور رام دھاری سنگھ 'دنکر
معروف تصانیف
دنکر کی چند مشہور تصانیف میں "راشمی راتی"، "کرُکشیتر"، اور "پارشُرَام کی پرتیكشا" شامل ہیں۔ "راشمی راتی" میں مہابھارت کے کردار کرشنا کے ذریعے انسانی زندگی کے پیچیدہ سوالات کا جواب دیا گیا ہے، جب کہ "کرُکشیتر" میں جنگ کو ایک فلسفیانہ نقطہ نظر سے دیکھا گیا ہے۔ "پارشُرَام کی پرتیكشا" میں قدیم ہندو داستانوں کے ساتھ موجودہ سماجی مسائل کو جوڑا گیا ہے۔
آزادی کی تحریک میں کردار
رام دھاری سنگھ دنکر کی شاعری نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کی نظموں نے عوام میں حب الوطنی اور آزادی کے لیے جدوجہد کا جذبہ پیدا کیا۔ دنکر کی تخلیقات نے نوجوانوں میں جوش و خروش پیدا کیا اور ان کی نظمیں آزادی کے متوالوں کے دلوں میں امید کی ایک کرن بن گئیں۔ وہ اپنی شاعری کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے استعماری طاقتوں کے خلاف کھل کر سامنے آئے۔
سماجی مسائل پر دنکر کا نقطہ نظر
دنکر نے اپنی شاعری کے ذریعے سماجی اور معاشرتی مسائل پر بھی بھرپور توجہ دی۔ ان کی تخلیقات میں سرکاری قوانین، طبقاتی فرق، اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ انہوں نے اپنی نظموں میں معاشرتی انصاف کی بات کی اور استعماری حکومت کے ظلم و ستم پر شدید تنقید کی۔ دنکر کی یہ تخلیقات عوام میں ایک نئی بیداری کا باعث بنیں اور انہوں نے عوام کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا۔
سیاسی زندگی اور پارلیمنٹ میں کردار
آزادی کے بعد، رام دھاری سنگھ دنکر نے سیاست میں بھی قدم رکھا اور بھارتی پارلیمنٹ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے سماجی انصاف، تعلیم، اور قومی ترقی کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور عوامی مسائل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ ان کی سیاسی زندگی نے ان کی شاعری کو مزید تقویت بخشی اور ان کی تخلیقات میں قومی اور سماجی مسائل کی مزید گہرائی پیدا کی۔
ایک محفل میں دنکر
سیاست اور شاعری کا ربط
دنکر کی شاعری اور سیاست دونوں آپس میں گہرا ربط رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں قومیت، حب الوطنی اور انقلاب کے خیالات تھے، جب کہ سیاست میں بھی وہ انہی خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی سیاست اور شاعری دونوں نے ایک دوسرے کو تقویت دی، جس نے انہیں ایک ہمہ جہت شخصیت بنا دیا۔
ادبی خدمات اور اعزازات
رام دھاری سنگھ دنکر کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ساہتیہ اکیڈمی پُرسکار (1964) اور جے این پیٹھ پُرسکار (1972) جیسے اہم ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ان کے علاوہ بھی انہیں کئی اور اعزازات ملے، جو ان کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف تھے۔ دنکر کی شاعری نے ہندوستانی ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا اور وہ مختلف شعراء پر گہرا اثر ڈالنے میں کامیاب رہے۔
دنکر کی شاعری کا اثر
دنکر کی شاعری نے نہ صرف اپنے دور کے شعرا کو متاثر کیا بلکہ آج بھی ان کی تخلیقات ادب کی دنیا میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ ان کی نظموں نے نہ صرف قومی شعور کو بیدار کیا بلکہ انہیں سماجی اور سیاسی مسائل کے تناظر میں بھی اہمیت دی گئی۔ دنکر کی شاعری نے ہندوستانی ادب میں ایک نئے دور کی بنیاد رکھی، جس میں حب الوطنی اور قومی اتحاد کے موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔
قومی ورثہ
رام دھاری سنگھ دنکر کی شاعری کو ہندوستان کا قومی ورثہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی تخلیقات نے ہندوستانی قوم کو ایک نئی شناخت دی اور ان کی نظموں نے نہ صرف آزادی کی جدوجہد کو تقویت دی بلکہ قومی اتحاد کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا۔ دنکر کی شخصیت اور ان کی شاعری آج بھی ادب کی دنیا میں زندہ جاوید ہیں۔
رام دھاری سنگھ دنکر نے اپنی شاعری کے ذریعے ہندوستانی قوم کو ایک نئی بیداری اور حب الوطنی کا پیغام دیا۔ ان کی تخلیقات میں قومی اتحاد، سماجی انصاف، اور آزادی کی جدوجہد کے جذبات شامل تھے، جو آج بھی ہمارے لیے ایک مثال ہیں۔ دنکر کی شخصیت اور ان کی شاعری کو ہندوستانی ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور وہ ادب کے میدان میں ہمیشہ ایک روشن ستارہ بنے رہیں گے۔