ڈاکٹر شبانہ رضوی
جمہوریت محض ایک طرزِ حکومت نہیں، بلکہ ایک طرزِ فکر ہےایک ایسا نظام جہاں عوام کی آواز سب سے بلند ہوتی ہے، جہاں ہر فرد کے حقوق اور آزادی کا احترام کیا جاتا ہے، اور جہاں مساوات کا پرچم بلند رہتا ہے۔ اردو شاعری نے ہمیشہ ان جمہوری اصولوں کو نہ صرف سمجھا بلکہ ان کو اپنی آواز بھی بنایا۔ شاعری کا کمال یہی ہے کہ وہ انسانی جذبات، خوابوں، اور آرزوؤں کو ایسی زبان دیتی ہے جو دل کو چھو جائے اور ذہن کو جھنجھوڑ دے۔
یومِ جمہوریہ صرف ایک تاریخی دن نہیں بلکہ ایک یاد دہانی ہے کہ آزادی، مساوات اور انصاف جیسے اصول ہمیں آسانی سے نہیں ملے۔ یہ دن ان قربانیوں کی گواہی دیتا ہے جو لوگوںنے اس خواب کی تعبیر کے لیے دی تھیں۔ اردو شاعری نے ہمیشہ اس جدوجہد کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ آنے والی نسلوں کو ان اصولوں کی اہمیت بھی سمجھائی۔ شاعری کے ذریعے جمہوریت کی روح کو عوام کے دلوں تک پہنچایا گیا، اور یہ احساس اجاگر کیا گیا کہ جمہوریت صرف حکومت کا طریقہ نہیں، بلکہ عوام کی طاقت کا مظہر ہے۔شاعری ہمیشہ سے جمہوریت کے خوابوں، عوامی حقوق اور آزادی کے جذبات کی ترجمان رہی ہے۔ اردو ادب کے کئی نامور شعراء نے اپنی تخلیقات کے ذریعے جمہوریت اور آزادی کے تصور کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ عوام کے جذبات کی عکاسی بھی کی۔ ان میں علامہ اقبال، فیض احمد فیض، حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی،جگن ناتھ آزاد وغیرہ بے شمار شعراء نے اپنے کلام کے ذریعے جمہوریت اور قومی ہم آہنگی کا پیغام دیا۔یہاں ان تمام شعراء کی خدمات کو تفصیل سے بیان کرنا ممکن نہیں، لہٰذا اختصار سے کام لیتے ہوئے چند منتخب اشعار اور حوالہ جات اس مضمون میں شامل کیے گئے ہیں، جو ان کے عظیم خیالات کی جھلک پیش کرتے ہیں۔
جمہوریت کی بنیاد مساوات پر ہے، اور اردو شعرا نے اپنی شاعری کے ذریعے اس پہلو کو بھرپور انداز میں پیش کیا۔
اقبال کہتے ہیں:
"جمہوریت اک طرزِ حکومت ہےجس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے"
یہ شعر جمہوریت کے عملی مسائل کی طرف اشارہ کرتا ہے اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی مساوات پر عمل پیرا ہیں؟
اور اقبال کے اس شعر سے تو جمہوریت اور سیکولرازم کے سارے تصورات ذہن میں نمایاں ہوگئے :
"مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندستاں ہمارا"
اردو شاعری نے ہمیشہ ظلم اور آمریت کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔حبیب جالب کے یہ اشعار جمہوریت کے لیے عوامی جدوجہد کی ترجمانی کرتے ہیں:
"ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا"
"دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے"
اردو شاعری ہمیشہ عوام کے دل کی آواز رہی ہے۔ اردو شاعری نے جمہوریت کے نظریے کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نذیر اکبرآبادی سے لے کر موجودہ دور کے شعرا تک، اردو شاعری جمہوریت کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتی رہی ہے۔نذیر اکبرآبادی کو اردو شاعری میں جمہوریت کے آغاز کا علمبردار کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری عوامی زندگی، مساوات، اور حقیقی جمہوری قدروں کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کی مشہور نظم "آدمی نامہ" جمہوریت کی بہترین مثال پیش کرتی ہے:
"آدمی کا آدمی سے ہو بھلا
آدمی کے واسطے سب ہوں اچھا"
ساحر لدھیانوی نے اپنی شاعری میں طاقتور طبقے کی ناانصافیوں کو نشانہ بنایا اور عوامی مسائل کو اجاگر کیا۔ ان کی نظم "چکلے" سماجی انصاف کی بہترین مثال ہے۔ وہ جمہوریت کو محض ایک نظام نہیں بلکہ عوام کی طاقت قرار دیتے ہیں۔ ساحر کا یہ شعر جمہوری اصولوں کی گہرائی کو بیان کرتا ہے:
"یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ ۔۔۔۔ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں"
یہ اشعار ایک ایسے نظام پر سوال اٹھاتے ہیں جہاں مساوات کا خواب ادھورا رہتا ہے۔
فیض احمد فیض کو آمریت کے دور میں جمہوریت کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری عوامی حقوق، مساوات، اور آزادی کے لیے ایک تحریک بن گئی۔ فیض کا یہ مشہور شعر جمہوریت کے خواب کو بیان کرتا ہے:
"ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے,ہم بھی دیکھیں گے"
فیض کی شاعری نے آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو حوصلہ دیا اور جمہوریت کے اصولوں کو تقویت بخشی۔جمہوریت کی اصل روح عوام کی شمولیت، مساوات، اور انصاف میں پوشیدہ ہے۔ اردو شعرا نے نہ صرف ان اصولوں کو اجاگر کیا بلکہ ان کے تحفظ کے لیے آواز بھی بلند کی۔
فیض احمد فیض نے مساوات کے خواب کو یوں بیان کیا:
"سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے"
پنڈت برج نارائن چکبست کی شاعری نے عوامی اقدار کو بخوبی پیش کیا :
"یہ آرزو ہے کہ مہر ووفا سے کام رہے
وطن کے باغ میں اپنا ہی انتظام رہے
گلوں میں گل چیں نہ صبح وشام رہے
نہ کوئی مرغ خوش الحاں اسیر دام رہے"
ساحر لدھیانوی نے ہمشہ دو قومی نظریے کی مذمت کی اور جمہوریت پرستی کا ثبوت دیا ،وحدت میں کثرت کی حمایت کی ۔ ان کی دو نظمیں’ آج‘ اور’ مفاہمت ‘جمہوریت کا سر نامہ بننے کی بےحد حقدار ہیں۔ وہ ایک نظم میں کہتے ہیں:
"مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنسی، رادھا کی بیٹی"
شاعروں نے جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ایسی تخلیقات پیش کیں جو تہذیبی وحدت کی علامت بنیں۔ تلوک چند محروم، جعفر علی خاں، سراج لکھنوی اور رضا نقوی واہی کی نظمیں جمہوری اقدار کی بحالی کا پیغام دیتی ہیں۔ آج بھی شعرا مشاعروں میں اتحاد اور بھائی چارے کا چراغ روشن کر رہے ہیں، مگر شرپسند عناصر ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں۔یہ نظم تلوک چند محروم کی ہے، جو انہوں نے یوم جمہوریہ کے حوالے سے تخلیق کی تھی۔
نظم "چھبیس جنوری" درج ذیل ہے:
یہ منتخب اشعار تلوک چند محروم کی نظم چھبیس جنوری سے لیے گئے ہیں، جو یوم جمہوریہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں:
منتخب اشعار:
یہ دور نو مبارک فرخندہ اختری کا
جمہوریت کا آغاز انجام قیصری کا
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
صدیوں کے بند ٹوٹے آزاد ہوگئے ہم
قید گراں سے چھوٹے دل شاد ہوگئے ہم
تعبیر خواب گاندھیؔ تفسیر حال نہروؔ
آزادؔ کی ریاضت سردارؔ کی تگاپو
بھارت کا عزم ہے یہ توفیق اے خدا دے
دنیا سے این و آں کی تفریق کو مٹا دے
امن و اماں سے رہنا ہر ملک کو سکھا دے
ہر قوم شکریے میں ہر سال یہ صدا دے
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
یہ نظم یوم جمہوریہ کے موقع پر ہندوستانی جمہوریت، آزادی، اور اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے.
آزادی ایک عظیم نعمت ہے جو بے شمار قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو ظلمت کے اندھیروں کو چیر کر ہمیں جمہوریت کے خواب کی تعبیر دیتی ہے، جہاں ہر انسان برابر ہے اور اپنی آزادی سے جی سکتا ہے۔ لیکن اس آزادی کو برقرار رکھنا اور اسے مزید مضبوط بنانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔
آج ہمارا ملک ترقی کے کئی میدانوں میں آگے بڑھ رہا ہے، لیکن بدحالی کے آثار اور عوام کی مایوسی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم واقعی ان خوابوں کی تعبیر حاصل کر چکے ہیں جن کے لیے ہمارے اسلاف نے قربانیاں دیں؟ کیا ہم نے وہ جمہوری اقدار اور انصاف کا نظام قائم کیا ہے جس کا وعدہ آزادی کے وقت کیا گیا تھا؟
یہ وقت ہے خود احتسابی کا، یہ وقت ہے اتحاد کا، یہ وقت ہے ملک کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کا۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تعلیم، اخلاقیات، اور ترقی کے ایسے مواقع فراہم کرنے ہوں گے جو ان کے بہتر مستقبل کی ضمانت بنیں۔ ہمیں مایوسی کو امید میں بدلنا ہوگا، نفرت کو محبت میں اور تقسیم کو اتحاد میں۔
اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا مضبوط، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک چھوڑ کر جائیں گے جس پر وہ فخر کر سکیں۔ یہی جمہوریت کا خواب ہے، اور یہی ایک بہتر مستقبل کی امید ہے۔