ساغر خیامی :قہقہوں کی بارات سجانے والا

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 20-06-2024
 ساغر خیامی :قہقہوں کی بارات سجانے والا
ساغر خیامی :قہقہوں کی بارات سجانے والا

 

یوم وفات پر خصوصی تحریر

                 عمیر منظر 
مشاعروں کے ابتدائی زمانے میں جن شاعروں سے ملاقات اور جان پہچان ہوئی ان میں ایک نام ساغر خیامی کا بھی تھا۔ان دنوں میں شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا طالب علم تھا۔دلی میں مشاعروں کا ایک سلسلہ تھا،ان میں ملک کے نامور شعرائے کرام تشریف لاتے تھے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی مشاعرے ہوتے۔طلبہ کی خاص فرمائش جن شعرا کے لیے ہوتی تھی ان میں ساغر خیامی کا نام ضرور شامل ہوتا۔جب سے وہ بٹلہ ہاؤس میں رہنے لگے تھے تو ملاقات بھی بہ آسانی ہوجاتی تھی۔بٹلہ ہاؤس اور ذاکر نگر میں اکثر جامعہ کے طلبہ سے ان کی ملاقاتیں ہوتیں ’جامعہ کے مشاعروں میں کبھی کبھی وہ اس کاذکر بھی کرتے تھے۔ایک بار ہم لوگ ان ملاقات کے لیے (چنار اپارٹمنٹ)بھی گئے۔کیا خوب گفتگوکرتے اور ہنستے ہنستے یہ بھی کہتے کہ اب بوڑھا ہوگیا ہوں خیا ل کیا کرو۔طلبہ و طالبات سے مل کر بے پناہ خوش ہوتے اس زمانے میں موبائل کیمرہ بہت عام نہیں ہوا تھا مگر فوٹو سیشن کا اہتمام خوب کرتے تھے۔ ایک بار صبح صبح میں ایس آر کے ہوسٹل کے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ساغر خیامی اور رفیق شادانی ہوسٹل کی دیوار سے متصل روڈ کی طرف منہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔میں نے کہا یہ زحمت کیوں آپ لوگ میرے کمرے پر آجائیں تو ساغر صاحب نے کہا کہ اب ویرانے میں جانے کا وقت آگیا ہے اس لیے ادھر اُدھر بیٹھ کر مشق کررہے ہیں۔پھر کہنے لگے ایک مشاعرہ میں جاناہے صبح صبح گاڑی ہے کسی کا انتظارہم لوگ کررہے ہیں۔ایسی بہت سی پر لطف باتیں ان کی زبان پر رہتی تھیں۔
 
اردو میں طنز و مزاح کی شاعری پر نگاہ ڈالی جائے تو باور کرنا پڑے گا کہ ادب کا یہ شعبہ باکمالوں سے کبھی خالی نہیں رہا۔ اکبر الٰہ آبادی تو خیر اس کے سرخیل ہیں۔اس فہرست میں ساغر خیامی کا نام اس وجہ سے بے حداہم قرار دیا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری میں زبان و بیان کی غیر معمولی کشش اور ہنر مندی موجود ہے۔ان کے یہاں مزاح کی سلیقہ مندی پائی جاتی ہے۔وہ مزاح اور پھکڑ پن کی حد کو خوب سمجھتے ہیں اور اسی لیے ہمیشہ مزاح کو مزاح ہی رہنے دیا۔تہذیبی و ثقافتی زبوں حالی غالباً مزاحیہ شاعری کا آفاقی موضوع ہے۔ مگر ساغر خیامی نے اس زمین کو اپنی جادو بیانی سے آسمان کر دکھایا۔ کرکٹ کے حوالے سے انھوں نے زندگی کے نہ جانے کتنے گوشوں کو منور کیا اور یہ بتایا کہ کرکٹ کی پچ کی طرح زندگی کے میدان میں بھی آدمی کی اہمیت اس وقت تک برقراررہتی ہے جب تک وہ مقابلے کی طاقت رکھتا ہے۔ ان کے ایک مجموعے کا نام ہی ’انڈرکریز‘ہے۔یہ لفظ ان کے یہاں سرگرم زندگی کا استعارہ ہے۔’ونڈے‘ نام سے مشہور ان کی نظم کا آخری شعر اس حقیقت کا واضح عکاس ہے۔
بھائی بھتیجے، فین، ہزاروں عزیز ہیں 
جب تک قدم حقیر کے انڈر کریز ہیں 
کرکٹ کے میدان میں کھلاڑی جس طرح چوکا چکھا لگاتا ہے اسی طرح ساغر خیامی نے اس نظم میں چوکے چکھے لگائے ہیں۔زندگی کی نہ جانے کتنی حقیقتوں کو انھوں نے اس نظم کے پردے میں بیان کردیا ہے۔
اک مولوی سے پوچھا جو حوروں کا بانکپن 
داڑھی کھجا کے بولے کہ ہنڈریڈ فار ون 
کرکٹ کی اصطلاحیں ہماری غزل میں ہے 
جلوئے تمام عشق کے اب مارشل میں ہیں 
ساغرخیامی کی نظموں کا بیانیہ بہت توانا ہے۔ دراصل موضوع کے متعلق وہ ایک ایسی فضا بندی کرتے ہیں کہ ہماری سماعتیں ایک جیتے جاگتے انسانی ہیولے سے ٹکرانے لگتی ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ہم شعر کی قرأت کے ساتھ ساتھ ایک جیتی جاگتی تصویر بھی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے لگتے ہیں۔ شعر و ادب میں قابل بیان اور ناقابل بیان دونوں طرح کی اشیاء تخلیقی ادب کا حصہ بنتی رہی ہیں۔ اس کی ترقی یافتہ شکل کو ہم پیکر تراشی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ساغر خیامی کے یہا ں پیکر تراشی کے ایسے ایسے لاجواب نمونے ملتے ہیں کہ گویا چلتی پھرتی تصویر سے آگے کا کارنامہ انجام دیا گیا ہے۔ نظم ژاآ”جنت میں“ اس کا ایک بند ملاحظہ کریں    ؎
غلماں تھے مست دیکھ کے یہ حسنِ لازوال
بکھرا ئے اپنے بال تھیں حوران خوش جمال
تھالی میں کہکشاں کے صبوحی تھی یا ہلال
پی کر شراب رند بہک جائے کیا مجال
آگے رکھے تھے حور نے پیالے نفیس کے
لکھے تھے سلسبیل یہ مصرع انیس کے
اس طرح کی شاعری کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مشق و ممارست سے بھی یہ فن ہاتھ نہیں آتا۔ ساغر صاحب کے خاندانی پس منظر کا جنھیں علم ہوگا وہ یقینا اس بات کی گواہی دیں گے کہ اس فن کے پیچھے ایک روایت ہے جو کئی نسلوں سے جاری تھی۔ ساغر صاحب نے اپنے بارے میں خود لکھا ہے۔ 
”میرے سب سے بڑے بھائی انیس العصر شاعر ہندستان۔ شاعری اور صحافت، افاسنہ نگاری، ناول نگاری، مضمون نگاری غرض ہر صنف سخن کی جان۔ بیسویں صدی کا ادب جن کے تذکرے کے بغیر نامکمل۔ تقریباً ایک سو دس کتابوں کے مصنف جن کی جوتیوں میں بیٹھ کر اس ناچیز نے نعلین شاعری گوتھنا سیکھا۔ یعنی حضرت مہدی نظمی۔ ان سے چھوٹے بھائی سید شمس الحق تاج۔ جس نے قلم رکھ کر برش اٹھایا تو مصوری کا سرتاج کہلایا۔ ان کے ہاتھ برش سے بکھرے ہوئے رنگ جو فنون لطیفہ میں اضافہ آہنگ بن کر پھیلے تو ان کی بین اقوامی شہرت کی سند گئے۔ شمسی آرٹ لکھنؤ ان ہی کا اسکول ہے۔
میرے تیسرے بھائی۔ شہریار عزمی بے پناہ شاعر۔ غزل کی آبرو، ذہن میں ہر صنف سخن کی خوشبو، علم و ادب کا امین لیکن گوشہ نشین۔
مجھ سے بڑے اور سب سے چھوٹے میرے بھائی۔ ناظر خیامی۔ جب ان کی یاد آتی ہے تو دل پکڑ لیتا ہوں۔ طنز و مزاح کا وہ آفتاب جس کی کچھ کرنیں میرے دامن میں بھی جگمگا رہی ہیں۔ مشاعروں کا وہ مسیحا جس کا زندگی نے ساتھ نہ دیا اور وہ وقت سے پہلے کتنے ہی اداس چہرے چھوڑ کر چل دیا۔ پھر وہی میں!“
ساغر خیامی کی شاعری کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قہقہوں کی بارات لٹانے والا دراصل تہذیبی اور ثقافتی قدروں کا امین ہے۔ یہ کوئی نسلوں کا فرق نہیں ہے کہ آج جو کچھ ہمارے سامنے نہیں ہے آنے والے دنوں میں اس کو دیکھ کر ماتم کریں بلکہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ نئی ترقیات پر ماتم کناں ہونے کے بجائے اس کے پس پردہ آنے والے عناصر سے ہماری تہذیبی اور معاشرتی زندگی کو المیہ سے دوچار کرنے والی ہیں شاعر اس کا نوحہ خواں ہے۔ اکبر نے جب کہا تھا کہ:”پانی پینا پڑا ہے پائپ کا“ تو اس کے پس پردہ یہی ذہن تھا کہ اب ہماری اجتماعیت اور باہمی امداد و تعاون کے دن ختم ہونے والے ہیں۔ کنواں صرف پانی کا ہی سرچشمہ نہیں تھا بلکہ ہماری اجتماعی زندگی کا ایک فعاّل ادارہ تھا جس کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ کنواں ہماری شریعت کا بھی حصہ تھے۔ ایسے بہت سے نکات کہیں مدھم اور کہیں بہت واضح انداز میں ساغر کے یہاں موجود ہیں   ؎
بولا دکان دار کہ کیا چاہیے تمھیں 
جو بھی کہوگے میری دکاں پر وہ پاؤگے
میں نے کہا کہ کتے کے کھانے کا کیک ہے
بولا یہیں پہ کھاؤگے یا لے کے جاؤ گے 
ان عناصر کو ایک جگہ انھوں نے بہت خوبی کے ساتھ نبھایا ہے۔ اس کے آخری دو مصرعے ہیں:
بتاؤں میں تمھیں مرنے کے بعد کیا ہوگا
نیاز کوک پہ برگر پہ فاتحہ ہوگا
اگر ہم اپنے اطراف پر نگاہ ڈالیں تو یہی دکھائی دے گا کہ ہم اپنے آپ سے کتنی دور جاچکے ہیں۔ انس و محبت کا ہر رشتہ تقریباً تارتار ہوچکا ہے۔ ظاہر نمود کے لیے ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ اکثر ہمیں شرمندہ کرتا ہے۔ طنز و مزاح نگار کا کمال یہی ہے کہ وہ ان آلائشوں اور خرابیوں کو ایک دیگر انداز میں پیش کرتا ہے، جس کا مظاہرہ ہماری ہنسی ہوتی ہے۔ مگر آخر کار ہمیں کہیں کہیں اس پر رونا پڑتا ہے۔
دل لُٹے جاں کو مٹے خاصا زمانہ ہوگیا
ختم دنیا سے محبت کا فسانہ ہوگیا
کان میں جھک کر کہا ٹیگور کے اقبال نے
ایلو ایلو ہند کا قومی ترانہ ہوگیا
طنزو مزاح نگار لفظوں کے استعمال سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ساغر خیامی کو جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ زبان وبیان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ان کے مصرعوں کی چستی اور زبان کی بندش کا کوئی جواب نہیں تھا ایک قطعہ ملاحظہ کریں 
کہاں یہ کان میں انڈا فروش کے ہم نے 
یہ انڈے کیسے دیے ہیں ہمیں بھی بتلائیں 
بگڑ کے کہنے لگاوہ دیے کا کیا مطلب 
طریقہ پوچھ رہے  ہو کہ بھاؤ فرمائیں 
ساغر خیامی نے غزلوں کے علاوہ نظمیں اور بیشمار قطعات کہے۔مشاعروں میں وہ اپنی نظموں سے بے پناہ داد حاصل کرتے تھے۔ان کے پڑھنے کا انداز اور نظموں میں ان کی سماں بندی تادیر سامعین کے دلوں پر قائم رہتی۔ساغر خیامی کی نظموں میں علاء الدین کا تربوز،غالب دلی میں، کاربرائے فروخت اکیسویں صدی کا آدمی، نوادرات کی دکان اور عشق بذریعہ پتنگ ایسی نظمیں ہیں جو نفسِ مضمون کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے خلاقانہ اظہار کا بھی بے مثال نمونہ ہیں۔ نظم ”اکیسویں صدی کا آدمی“ کا یہ بند دیکھیں۔ یہاں شاعر کا تجربہ، خیال اور پیش گوئی کس طرح شعری پیکر میں ڈھل رہی ہے   ؎
ہیٹر سے شعلہ حسن کا بھڑکایا جائے گا
اب عشق بھی مشین سے فرمایا جائے گا
شوہر بھی ایک مشین ہے سمجھایا جائے گا
عاشق کو بھی مشین سے تڑپایا جائے گا
کچھ دن کے بعد دیکھنا سائنسی دین سے
جنت کو بھیجے جائیں گے مُردے پلین سے
اسی نظم میں ساغر خیامی نے یہ بھی لکھا ہے کہ    ؎
خط عاشقی کے لکھتی نہیں دل کے خون سے
ملنے کا وعدہ کرتی ہیں اب ٹیلی فون سے
نظم نوادرات کی دکان کے یہ ابتدائی مصرعے زبان و بیان اور پیکر تراشی کے حسین امتزاج کا نمونہ ہیں  ;
بولا دوکان دار کہ سرکار دیکھیے 
مغلوں کی آن بان کے آثار دیکھیے 
اکبر کی تیغ اور سپر ہے سلیم کی 
ہر چیز دستیاب ہے عہد قدیم کی 
غالب کا جام میر کی ٹوپی کا بانکپن 
مومن کا لوٹا حضرت سودا کا پیرہن 
ایڑی گلاب کی تو پنجہ کنول کا ہے 
جو تا مری دکان میں حضرت محل کا ہے
تصور کیجیے عوامی مشاعروں کا اور پھر حضرت ساغر کے انداز بیان کا۔ نظم کے یہ ابتدائی مصرعے سامعین کے لیے بے پناہ کشش لیے ہوئے ہیں۔ ساغر صاحب کا یہی اندازِ بیان لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ عوامی شاعروں میں کئی دہائیوں تک ساغر خیامی کاجادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس عرصے میں بہت سے مزاح نگار آئے۔ کچھ نے تضمینیں تو کچھ نے ”کنواروں“ کی سیاست کو موضوعِ سخن بناکر سامعین کا دل بہلایا اور ان کا ذوق زیادہ خراب کیا۔
پکی روشنائی کے بعد اصل شاعری کی وقعت کا اندازہ اور زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔ شعرو ادب کے اس سارے رموز سے ساغر خیامی واقف تھے۔ اپنی سادگی مزاج، طبیعت کا بے تکلف رنگ اور خوش طبعی کی پُرکشش صورت کے ساتھ ساغر صاحب ہر جگہ اور ہر موقع پر مرجع خلائق بنے رہتے تھے۔ لباس ووضع کے اعتبار سے بھی ان میں حد درجہ سادگی تھی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے مروجہ کلام کو کبھی سادہ اور بے رنگ نہیں ہونے دیا۔ ان کا کلام ایسے ایسے نقش و نگار کا حامل ہے جن پر فن کی دلکشی قربان ہوتی ہے۔
ساغر خیامی 7جون 1938کو پیدا ہوئے۔ان کی جاے پیدائش رام پور اسٹیٹ ہے مگر ان کی پرورش لکھنؤ میں ہوئی۔ان کااصل نام سید رشید الحسن نقوی تھا مگر شہرت  ساغر خیامی سے ملی۔واضح رہے کہ ان کے بڑے بھائی ناظر خیامی بھی مشاعروں کے مقبول عام شاعر تھے۔بھائی کی وفات کے بعد ساخر خیامی مشاعروں کی دنیا میں آئے اور دیکھتے دیکھتے ان کا شمار بھی اردو طنزو مزاح کے مقبول عام شاعروں میں ہونے لگا۔ساغر خیامی نے عملی زندگی کی ملازمت کا آغاز ریلوئے کی ملازمت سے کیا۔اس کے بعد جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے غیر تدریسی عملہ سے وابستہ ہوگئے اور یہیں سے وہ سبکدوش ہوئے۔وفات کے بعد کلیات ساغر خیامی 2012میں جناب عباس اختر نے مرتب کرکے فرید بک ڈپو سے شائع کرایا۔ا س سے پہلے انڈر کریز،پس روشنی کے نام سے علی علی الترتیب 1990اور 1996ان کے مجموعہ کلام شائع ہوچکے تھے۔ایک مجموعہ قہقہوں کی بارت کے نام سے شاہ رضا نقوی نے مرتب کرکے 1992میں کراچی سے شائع کیا تھا۔یہ پہلے دومجموعوں کا انتخاب ہے۔ساغر خیامی کا انتقال 18جون 2008کو ممبئی میں ہوا تھا۔