ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی ، استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
سرسید احمد خاں کا شمار ہندوستان کی عہد ساز شخصیتوں میں ہوتاہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہند ستان کو اپنے جن مایہ ناز سپوتوں پر فخر ہے ان میں ایک نام سر سید احمد خاں کا بھی ہے،موصوف نے اپنی پوری زندگی ،ملت کے کاموں کے لئے وقف کردی تھی،اگر موصوف کا ایک ہاتھ ملت کی نبض پر تھاتودوسرا ہاتھ زمانہ کی رفتار پر،سر سید ایک حقیقت پسند انسان تھے وہ تعلیم کی ترقی کو ملت کی ترقی کاذریعہ سمجھتے تھے ۔
’’سرسید ۱۷؍اکتوبر ۱۸۱۷ ء کو دہلی کے ایک خوددارگھرانے میںپیداہوئے نام احمد رکھا گیا،حسینی سید تھے،خان کا خطاب خاندانی تھااور سر کا خطاب حکومت کی جانب سے ملاتھا،اس بنا پرسرسید احمد خاںکے نام سے مشہور ہوئے،اللہ نے انھیںاعلیٰ دماغ اور باحوصلہ قلب عطا فرمایا تھازندگی کے سفر کا آغازسرکاری ملازمت سے ہوئی مگر پوری زندگی ملک و ملت کی خدمت میں گزار دی سر سید کی زندگی سے ہمیںبیش بہا سبق ملتے ہیں۔اپنے نصب العین پرآخر دم تک جمے رہنا،اس کے حصول کے لئے ہر جائز ذریعہ کو کام میں لانا، مخالفانہ سرگرمیوں سے مایوس نہ ہونا بلکہ ان کا خندہ پیشانی اور دلیری سے مقابلہ کرنا، محنت و مشقت سے کبھی جی نہ چرانا ، اپنے ضمیر کی آواز کو بلند کرنے کے سلسلے میں کسی دباؤ و اثر یا اختلاف سے مرعوب نہ ہونا، سر سید کی زندگی کا جز لاینفک بن گئے تھے، وہ نہ صرف عزم و استقلال کے پہاڑ تھے بلکہ انتہائی خوددار بھی تھے کسی ایسی بات کو جو خود داری کے خلاف ہوتی برداشت نہ کرتے‘‘ ( سیر سید اور علی گڑھ تحریک ص ، ۱)
۱۸۵۷کی جنگ آزادی کی ناکامی پر مسلمانوں میں احساسِ شکست ، احساسِ کمتری اور ایک عام مایوسی پھیلتی جارہی تھی۔ اس نازک حالت میں دو قسم کی قیادتیں ابھر کے سامنے آئیں، پہلی قیادت مولانا قاسم نانوتوی ؒ (۱۸۳۳-۱۸۸۰ )کررہے تھے، دوسری قیادت جس کا پرچم سر سید احمد خاں (۱۸۱۷-۱۸۹۸ ) کے ہاتھ میں تھا۔
مولانا محمد اسحاق جلیس ندوی رقم طراز ہیں ’’ سر سید کی تعلیم پرانے اصولوں پر ہوئی ، مذہب کے آغوش میں انہوںنے پرورش پائی تھی، انہوں نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں تو سلطنت مغلیہ کا آفتاب لبِ بام آچکا تھا، ان کا خاندان عرصہ سے دربار مغلیہ سے متعلق تھا، وہ خود ابتدائی زمانہ میں دربار میں آتے جاتے تھے، اس طرح انہیں زوال پذیر سلطنت مغلیہ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا، انہوں نے وہ ابتری اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی، جس کا ہلکا سا نقشہ انہوں نے اپنے نانا نواب دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین خاں کے حالات ’’سیرت فریدیہ‘‘ میں کھینچا ہے، ان کے کانوں میں وہ آوازیں گونج رہی تھیں، جب مغل شہزادے محلات کی چھتوں پرچڑھ چڑھ کر چلاتے تھے، ہم بھوکے مرتے ہیں ہم بھوکے مرتے ہیں، ان کی نظر اس اخلاقی ، سیاسی ، سماجی اور اقتصادی بیماری پر تھی، جو گھن کی طرح مغلیہ سلطنت کو کھارہی تھی۔
سرسید احمد خاں کی عمر ۱۳،۱۴ سال کی ہوگی ، جس وقت حضرت سید احمد شہید ؒ نے اصلاح و حریت کا علم بلند کیا، اس تحریک کو انہوں نے قریب سے دیکھاتھا، شاہ عبد العزیز دہلوی کا خاندان ان کی عقیدت کا مرکز تھا، شاہ اسماعیل شہیدؒ کے وعظوں میں انہوں نے شرکت کی تھی، اپنی کتاب ’’آثار الصنادید ‘‘ میں حضرت سید احمد شہیدؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ ، شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے حالات جس محبت اور جوش سے انہوں نے لکھے ہیں ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان بزرگوں سے انہیں بڑی عقیدت و محبت کا تعلق تھا، سیر سید احمد خاں دہلی کالج میں مولانا مملوک علی کے شاگرد رہ چکے تھے، جو مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ ’(بانی دار العلوم دیوبند) کے استاذ اور رشتے میں چچا ہوتے تھے، یہ عجیب واقعہ ہے کہ غدر کے طوفان نے ہندوستان کے سماجی اور سیاسی زندگی کی بنیادوں کو ہلادیا تھا، اور ایسے وقت میں دو متضاد تحریکیں یا مکتب خیال و دبستان فکر وجود میں آئے تو ان کا سر چشمہ ایک ہی تھا، دونوں تحریکوں کے بانی ایک درس گاہ اور ایک استاذ کے فیضاب ، دہلی اجڑی، دلی کالج بند ہوا تو اس کے عوض دیوبند اور علی گڑھ دو مرکز بن گئے بقول شخصے :--’’جس طرح مولانا محمد قاسم ؒ دہلی کا لج کے عربی حصہ کو دیوبند لے گئے اسی طرح سر سید احمد خاں نے دہلی کالج کے انگریزی حصہ کو علی گڑھ پہونچادیا‘‘ (تاریخ ندوۃ العلماء حصہ اول ، ص ۴۵،۴۶)
سر سید کی شخصیت ہمہ جہت تھی ، ۔ ہر فن میں ہوں طاق مجھے کیا نہیں آتا ؟سر سید احمد خاں کا تذکرہ متعدد پہلؤوں سے کیا جاسکتا ہے، سر سید بحیثیت ایک وفادار قوم و ملت کے خادم ، سر سید بحیثیت ہندو و مسلم اتحاد کے ایک عظیم علم بردار ، سرسید بحیثیت ایک ماہر تعلیم ، سر سید بحیثیت ایک انقلاب آفریں شخصیت ، سر سید بحیثیت ایک دیانت دار اور کہنہ مشق صحافی، سر سید بحیثیت ایک ممتاز اردو ادیب، سر سید بحیثیت ایک مورخ ، سرسیدبحیثیت ایک نامور خطیب، سر سید بحیثیت ایک عمدہ ایڈیٹر ،سر سید بحیثیت ایک باکما ل مصنف، سرسید بحیثیت ایک بے لوث ترجمان قوم و ملت ، سر سید بحیثیت ایک ناقد، سر سید بحیثیت ایک ماہر منتظم ، سر سید بحیثیت ایک مشفق والد، سرسید بحیثیت ایک وفادار شوہر، سرسید بحیثیت قوم کے غریبوں ودکھیاروں کا ایک سچامسیحاو غیرہ۔
سر سید کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے چار باتیں ہمیں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں ، ایک تو موصوف تنقید سے کبھی نہیں گھبراتے تھے، تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ اسکو برائے غور و فکر اور برائے اصلاح و تجدید سمجھتے تھے، ’’و فی العتاب حیاۃ بین اقوامــ‘‘
دوسری بات سرسید جرأ تمندانہ اور قلندرانہ دل رکھتے تھے،حق بات کہنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے، سرسید کی شخصیت ہی تھی جس نے ــ ’ اسباب بغاوت ہند‘ لکھ کر حکومت برطانیہ کے اہل کاروں کو ۱۸۵۷ء کے واقعات کا ذمہ دار ٹھرایا ،اسی طرح انہوں نے خطبات احمدیہ جیسی شاہکار کتا ب لکھ کر سر ولیم میور کا منہ توڑ جواب دیا جس نے حضور ﷺ کی سیرت کو غلط انداز میں پیش کیا اور اس کا مذاق بھی بنایا،سر سیدنے اس کتاب کو لندن میں بیٹھ کر تصنیف کی،سر سید لکھتے ہیں : ـ ’’ ولیم میور صاحب نے جو کتاب آں حضرت ؑ کے حال میں لکھی ہے اس کو میں دیکھ رہا ہوں ، اس نے دل کو جلادیا اور اس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہوگیااور مصمم ارادہ کیا کہ آں حضرت صلعم کے ’سیر ‘ میں جیسا کہ پہلے سے ارادہ تھا کتاب لکھ دی جائے اگر تما م روپے خرچ ہوجائے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہوجائے توبلاسے قیامت میں یہ تو کہہ کر پکار ا جاؤں گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے دادا محمد صلعم کے نام پر فقیر ہوکر مرگیا، حاضر کرو،مارا ہمیں تمغہ شاہنشاہی بساست۔ ‘‘ (خطوط سر سید ص ۴۹)
تیاری کے اقدامات کے متعلق سر سید لکھتے ہیں ’’ میں نے فرانس اور جرمن سے اور مصر سے کتب ’سیر‘ منگانی شروع کردیں، چھٹیات روانہ ہوگئیں، سیرتِ ہشام مطبوعہ اور چند کتابیں لیٹن خرید لیں، ایک آدمی مقرر کر لیا جو لیٹن کا ترجمہ کرکے مضمون بتلاسکے۔‘‘ (ایضا ص ۴۹)
سر سید مزید لکھتے ہیں کہ ’’ اگر میری کتاب تیار ہوگئی ۔۔۔۔۔ تو میں لندن میں آنا دس حج کے برابر اور باعث اپنی نجات کا سمجھوں گا۔‘‘
’’ میری کتاب خطبات ِ احمدیہ یہ ایک مسلمان عالم متبحر نے پڑھی جو قسطنطنیہ سے یہاں آیا ہے۔ جو الفاظ کہ اس نے کہے او ر مجھے لکھے اور جس طرح میرے ہاتھ چومے اس کی لذت میں جانتا ہوں، اس کے چند مقام ایسے ہیں جن کو دیکھ کر ’’نا مسلمانانِ ہند ‘‘ فتوی کفر دیں گے ۔‘‘ (خطوط سر سید ص ۴۹)
تیسری بات وہ ہندو و مسلم اتحاد کے عظیم علم بردار تھے ، وہ فرمایا ـکرتے تھے ،’’اے میرے دوستوں !! میں نے بارہا کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان ایک دُلہن کی مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو اور مسلمان ہیں ، اگر دونوں آپس میں نفاق کریں گے تو پیاری دُلہن بھینگی ہوجائے گی اوراگر ایک دوسرے کو برباد کریں گے تو وہ کانی ہوجائے گی، پس اے ہندوستان کے رہنے والے ہندو اور مسلمان اب تم کو اختیار ہے کہ چاہے اس دُلہن کو بھینگی بناؤ چاہے کانی‘‘۔ موصوف یہ بھی فرمایا کرتے تھے۔ ’’ہندو مسلمان ایک مذہبی لفظ ہے ورنہ ہندو ، مسلمان اور عیسائی جو اس ملک میں رہتے ہیں اس اعتبار سے سب ایک قوم ہیں‘‘۔
مشہور ماہرِ تعلیم وہ زکوۃ فاؤنڈیشن دہلی کے چیرمین ڈاکٹر سید ظفر محمود نے بجا فرمایا کہ سیر سید احمد خاں نے جب ملک میں حاکم و محکوم کوئی بھی سیکولرزم کے اصطلاح سے آشنا نہ تھا، اس وقت انہوں نے اپنے ادارے مدرسۃ العلوم کے ذریعہ سیکولرزم کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا کام کیا۔ قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارے کی بہترین مثال آپ کو مسلم یونیور سٹی میں دیکھنے کو ملے گی۔
چوتھی بات موصوف قوم و ملت کے دھڑکتے ہوئے دل تھے وہ استقلال و استقامت کے عظیم پہاڑ تھے،انہوں نے سستی اور کاہلی کو کبھی جگہ نہیں دی،فراخ دلی اور وسیع النظری سرسید کے خمیر اور افتاد طبع میں داخل تھی ’’ سر سید مسلمانوں کی پستی ، بے چارگی اور بے حوصلگی سے انتہائی بے چین تھے، ان کے دل کی جو حالت تھی اس کا نقشہ خود ان کے قلم نے یوں کھینچا ہے : ’’ ۔۔اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ کسی طرح دیکھا نہیں جاتا۔ آپ یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے بڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دیے، مگر اس وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ نہایت نامردی اور بے مروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو تباہی کی حالت میں چھوڑ کر خود کسی گوشۂ عافیت میں جا بیٹھوں۔ نہیں، ! اس مصیبت میں شریک ہونا چاہیئے اور جو مصیبت پڑے اس کو دور کرنے میں ہمت باندھینا قومی فرض ہے ‘‘۔ )سیر سید علیہ الرحمۃ اور علی گڑھ تحریک ص ،۴)۔
سر سید احمد خاںنے اپنے ارادہ اور عزم کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا : ’’تو یہ سوال پیش آتا ہے کہ ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ ہماری رائے میں اس کا جواب صاف ہے ۔ استقلال، استقلال، استقلال،۔ ہمت، ہمت، ہمت۔ کوشش، کوشش، کوشش۔ ہم کو گورنمنٹ کی پالیسی کی کچھ نہ پرواہ کرنی چاہیے اور اگر ہم میں خودداری (self respect) کا کچھ اثر باقی ہے تو گورنمنٹ کو دکھا دینا چاہیے کہ بلاشبہ گورنمنٹ کو لوگوں کی جان پر اختیار ہے مگر لوگوں کی رائے پر نہیں‘‘۔ (ماخوذ از مکمل لکچرس و اسپیچز ص، ۲۹۸، اجلاس چہارم آل انڈیا محمدن ایجوکیشنل کانفرنس منعقدہ علی گڑھ)۔۔
سر سید احمد خاں کی خدمت کا دائرہ بہت وسیع ہے ،انہوں نے قوم و ملت کے فلاح و بہبود کے لئے ۱۸۵۸ء میں مرادآباد میں ایک اسکول قائم کیا ، جہاں اس زمانے میں کسی قسم کا اسکول کا وجود نہ تھا، پھر وہ جب غازی پور گئے تو وہاں بھی ایک اسکو ل قائم کیا، اسی طرح غازی پوری ہی میں ۱۸۶۲ ء میں سائنسٹیفک سوسائٹی قائم کی،اس سوسائٹی کا اصل مقصد انگریزی زبان کی عمدہ عمدہ علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا اور چھاپنا تھا،اس سوسائٹی کو ۱۸۶۴ء میں علی گڑھ منتقل کردیا گیا۔
سر سید نے ۱۸۶۹ء کو ولایت کا سفر کیا، اٹھارہ انیس ماہ قیام کے بعد اکتوبر ۱۸۷۰ء میں جب وہ ہندوستان واپس آئے تو سب سے پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ رسالہ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘کا اجرا تھاجس کا پہلا شمارہ ۲۴ دسمبر ۱۹۷۰ء کو شائع ہوا ۔
کسی نے سچ کہا : ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ نے مسلمانوں کی زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا اور یہاں تک کہ قوم کو لکھنا پـڑھنا سوچنا سمجھنا سکھایا، سر سید نے ایک عام ادیب کی طرح دل ودماغ کے لئے فرحت بخش تحریریں نہیں تخلیق کیں، تفریح اور ذہنی سکون کے سامان نہیں مہیا کئے بلکہ ایک بے باک صحافی کی حیثیت سے دل ودماغ اور فکر کے گوشے گوشے میں تبدیلی لادی۔ ان کے طرز ِ تحریر اور ’تہذیب الاخلاق‘ پر کافی انگلیاں اٹھیںاور اعتراضات کیے گئے، یہاں تک کہ ان کی تحریر اور ان کے پرچے کو ادب سے باہر قرار دیا گیا لیکن دھیرے دھیرے مخالفت کے بادل چھٹتے گئے اور اردو ادب اور صحافت کا ایک نیا سورج طلوع ہوا جہاں ادب اور صحافت ایک دوسرے سے مشترک ہوگئے، یہ سر سید کی بطور صحافی اور بطور ادیب سب سے بڑی کامیابی ہے، اردو صحافت کی تاریخ میں تہذیب الاخلاق کو اس لئے بھی اہم مقام دیا جائے گا کہ پہلی بار خالص مقصدی صحافت کا آغاز اس پرچے سے ہوتا ہے،۔ آج کے صحافی حضرات اس پیشے میں صرف اور صرف پیسے کے لیے آتے ہیں جبکہ آج کے حالات میں بھی سر سید کی کوششیں اور ان کی حکمت عملی یاد آتی ہے، ملک کو سر سید جیسے صحافیوں کی ضرورت ہے جو صحافت کے اعلی معیار کے ساتھ ساتھ ملک وقوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھا سکیں،۔ سر سید نے جس طرح سے قوم کی اصلاح کی اور ساتھ ہی ساتھ صحافت کے قوانین کی کبھی خلاف ورزی بھی نہیں کی، یہ یقینا سر سید کی صحافت کا درخشاں باب ہے۔‘‘
مولانا شبلی نے اپنی مثنوی’’صبح امید‘‘میںسر سید کی کوششوںکا ذکر کرتے ہوئے،اس نئی زندگی اور عام بیداری کا خوب نقشہ کھینچا ہے۔
باتوں میں اثر تھا کس بلا کا
ایک بار جو رخ پھرا ہوا کا
امید کی بڑھ گئی تگ و تاز
اونچی ہوئی حوصلوں کی پرواز
خواہش کے بدل گئے ارادے
ہمت نے قدم بڑھائے آگے
وہ دوڑ چلے جو بگل تھے
آندھی ہوئے جوفسردہ دل تھے
تھا وہ عجیب جوش میں تھا
مخمور بھی اب تو ہوش میںتھا
اب ملک کے ڈھنگ تھے نرالے
اخبار کہیں،کہیں رسالے
تعلیم کے جا بجا وہ جلسے
گھر گھرمیںترقیوں کے چرچے
بے تاب ہرایک جزوکل تھا
ہربار’’بڑھے چلو‘‘کاغل تھا
(تاریخ ندوۃ العلماء حصہ اول ص ۵۱۔۵۲)
جدید تعلیم کی پہلی درس گاہ کا قیام
سر سید احمد خاں نے ۲۴؍ مئی ۱۸۷۵ء کو مد رسۃ العلوم (ایم۔ اے۔ او۔ ہائی اسکول ) قائم کیا جس کا افتتاح سر ولیم کے ہاتھوں ہوا۔ سر سید اس زمانے میں بنارس میں تھے۔ جولائی ۱۸۷۶ء میں پینشن پاکر علی گڑھ میں مقیم ہوئے، یہ مدرسہ ۸؍ جنوری ۱۸۷۷ء میں کالج میں تبدیل ہوا،جس کا افتتاح لارڈ لٹن وائسرائے و گورنر جنرل ہند نے کیا، سر سید احمد خاں ۲۸؍ مارچ ۱۸۹۸ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ سر سید کی وفات کے بعد نواب محسن الملک نے علی گڑھ کالج کو یونیور سٹی بنانے کی بڑی کوشش کی تھی، ان کی زندگی میں سات آٹھ لاکھ روپے جمع ہوئے، ان کی وفات کے بعد ہز ہائنس سر آغاخاں نے اس کام کے لئے بڑی محنت کی ، بیس ۲۰لاکھ روپے جمع کئے، اور ۱۹۲۰ء میں اس کو یونیور سٹی کا درجہ دے دیا گیا۔
مدرسہ کے قیام کے موقع پر سر سید نے ایک تقریر میں فرمایا:’’جہاں تک ہوسکا ہر موقع پرمیں نے قومی ترقی کی تدبیروں پرغوٖر کیا۔ سب سے اول یہی تدبیر سوجھی کہ قوم کے کئے قوم ہی کے ہاتھ سے ایک مدرسۃ العلوم قائم کیا جائے جس کی بنیاد آپ کے شہر میں اور آپ کے زیر سایہ پڑی ہے‘‘(ماخوذ از حیات جاویدص۱۳۱)
کالج کا قیام کا اصل مقصد مسلم نوجوانوں کی تعلیم و تربیت تھی مگر اس کے دروازے غیر مسلموں پر ہمیشہ کھلے رہیں، چناچہ ابتدا ہی سے مسلم اور غیر مسلم طلباء کالج کے بورڈنگ ہاؤس میں رہتے اور ایک دوسرے کے رنج و راحت میں شریک ہوتے تھے۔ ایم۔ اے۔ او۔ کالج کا سب سے پہلے بی۔اے۔ پاس کرنے والے طالب علم ایک ہندو یعنی بابو ایشوری پرشاد تھے۔(سر سید اور علی گڑھ تحریک ص ۱۰)
مقام ِعلی گڑھ کا انتخاب
سر سید احمد خاں اپنے خود نوشت ’’حیات ِ سر سید ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ میں نے علی گڑھ کو اس کے لئے پسند کیا ۔ علی گڑھ میرا وطن نہیں تھا اور نہ وہاں سے مجھ کو کچھ تعلق تھا مگر صرف اس خیال سے کہ وہ ایسا مقام ہے جو چاروں طرف سے مسلمان رئیسوں سے گھرا ہوا ہے، میرٹھ، بلند شہر، مظفر نگر سہارن پور ، آگرہ، ایٹہ، اور ایک بڑا مخزن مسلمان رئیسوں کا یعنی روہیل کھنڈ، جس میں معزز خاندانوں کے لوگ بستے ہیں ، اس سے ملے ہوئے ہیں اور اس لئے مسلمانوں کی تعلیم کے لئے علی گڑھ نہایت مناسب مقام ہے‘‘۔ ( ص ۲۲۳)
سر سید کی تعلیمی پالیسی:
سر سید ایک بیدار مغز انسان تھے، انہوں نے مدرسۃ العلوم (ایم۔ اے۔او ۔کالج )کا قیام اس وجہ سے کیا تھاتا کہ مسلم قوم جدید علوم کو سیکھ کر مستشرقین اور اسلام مخالف دشمنوں کا منہ توڑ جواب دے سکے، کالج کے متعلق انکا ذہن بالکل صاف تھا، ان کا قول تھا: ــ’’ فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا اور نیچرل سائنس ہمارے بائیں ہاتھ میں اور کلمۂ لا الہ الا اللہ کا تاج ہمارے سر پر ‘‘۔
گورداس پور میں جنوری ۱۸۸۴ء میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ کوئی قوم جس کو اپنے بچوں اور قوم کی تعلیم کی خواہش ہو جب تک وہ تعلیم اپنے ہاتھ میں نہ لیوے، اس کا پورا ہونا غیر ممکن ہے ۔ ہندوستان کی ترقی صرف اس وقت ہوگی جب وہ اپنے باہمی چندے ، اپنے انتظام، اپنی قوت سے بلا مداخلت گورنمنٹ اور اس کے افسروں کی، اپنی مرضی کے موافق اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کریں‘‘۔ (لکچر بمقام مدرسہ گورداس پور ۔ لکچروں کا مجموعہ)
۲۳جنوری ۱۸۸۳ء کو لدھیانہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ میں تم سے سچی بات کہتا ہوں کہ قومی تعلیم اور قومی عزت ہم کو اس وقت تک حاصل نہیں ہونے کی جب تک ہم اپنی تعلیم کا کام خود اپنے ہاتھ میں نہ لیں گے، گورنمنٹ کی قدرت سے خارج ہے کہ وہ ہمارے تمام مقاصد کی تکمیل کر سکے‘‘۔ ( لکچر کا مجموعہ)
لکھنؤ میں ایک بار تقریر کرتے ہوئے سیر سید نے کہا تھا: ’’ اے دوستوں ,!! مجھے یہ بات کچھ خوش کرنے والی نہیں ہے کہ کسی مسلمان نے بی۔اے۔ یا ایم۔ اے ، کی ڈگری حاصل کر لی ہے ، میری خوشی قوم کو قوم بنانے کی ہے ‘‘۔( لکچروں کا مجموعہ ) صفحہ ۲۵۹ )۔در اصل سیر سید نے تنہا وہ کام کیا جو ایک اکیڈمی بھی اتنے بہتر اور کامیاب طریقے پر نہیں کر سکتی ۔
سر سید احمد ایک نامور مصنف تھے انہوں نے متعدد موضوعات پر مختلف کتابیں لکھیں،انکی اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)قواعدصرف و نحو زبان اردو (۱۸۴۰ء)(۲)جلاء القلوب بذکر المحبوب (۱۸۴۳ء)(۳)تسہیل فی جزالثقیل (۱۸۴۴ء(۴) تحفۂ حسن (۱۸۴۴ء)(۵)فوائد الافکار فی اعمال الفرجار (۱۸۴۶ء)(۶)آثار الصنادید (طبع اول)(۱۸۴۷ء)(۷)قول متین فی ابطال حرکت زمین (۱۸۴۸ء)(۸)کلمۃ الحق (۱۸۴۹ء)(۹)راہ سنت در در ِبدعت (۱۸۵۰ء)(۱۰)سلسلہ الملوک (۱۸۵۲ء)(۱۱)نمیقہ در بیان مسلۂ تصورِشیخ(۱۸۵۲ء)(۱۲)ترجمہ کیمیائے سعادت (۱۸۵۳ء)(۱۳)آثار الصنادِید (طبع دوم) (۱۸۵۴ء)(۱۴)سرکشی ضلع بجنور (۱۸۵۸ء)(۱۵)اسباب سرکشی ہندوستان (۱۸۵۹ء)(۱۶)لائل محمڈ نز آف انڈیا(رسالہ خیر خواہانِ مسلمانان) (۱۶۔۱۸۶۰ء)(۱۷)تصحیح تاریخ فیروز شاہی (۱۸۶۲ء)(۱۸)تبین الکلام فی تفسیر التوراۃ و الانجیل(۶۵۔۱۸۶۲ء)(۱۹)احکام طعام اہل کتاب (۱۸۶۶ء)(۲۰)ہندوستان کے طریقۂ تعلیم پر اعتراضات (انگریزی) (۱۸۶۹ء)(۲۱)خطبات ِ احمدیہ (انگریزی) (۷۰۔۱۸۶۹ء)(۲۲)ریورڈاکٹر ہنٹر کی کتاب پر (۱۸۷۱ء)(۲۳)قدیم نظام دیہی ہندوستان (۱۸۷۸ء)(۲۴)تفسیر القرآن (۱۸۸۰ء تا ۱۸۹۵ء)(۲۵)تصانیفِ احمدیہ(۱۸۸۰ء تا۱۸۹۵ء)(۲۶)خطبات ِ احمدیہ (اردو)(۱۸۸۷ء)(۲۷)النظر فی بعض المسائل الامام الغزالی(۱۸۸۹ء)(۲۸)ازالتہ الغین عن ذی القرنین ۱۸۹۰۰)(۲۹)ترقیم فی قصہ اصحاب الکہف و الرقیم (۱۸۹۰ء)(۳۰)تفسیر الجّن و الجان علیٰ مافی القرآن (۱۸۹۲ء)(۳۱)تحریر فی اصول التفسیر(۱۸۹۲ء)(۳۲)فضائل الامام مِن رسائل حجۃ الاسلام (۱۸۹۳ء)(۳۳)تبریت الاسلام عن شین الامۃِو الغلام(عربی)(۱۸۹۵)(۳۴)تہذیب الاخلاق (جلد دوم)(۱۸۹۵ء)(۳۵)تفسیر السمٰوات (۱۸۹۷ء)(۳۶)ازواجِ مطہرّات(۳۷)جام جم (۱۸۴۰ء)(۳۸)آئین اکبری(تصحیح)(۱۸۵۵ء)(۳۹)شکریہ (۱۸۵۹ء)(۴۰)کتاب فقرات(درسی)(۱۸۶۰)(۴۱)تحقیق لفظ نصاری(۱۸۶۱ء)(۴۲)توزک جہانگیر(تصحیح)(۶۴۔۱۸۶۳ء)(۴۳)خلق الانسان علیٰ مافی القرآن(۱۸۹۳ء)(۴۴)ابطال غلامی(۱۸۹۳ء)
سرسیداحمد خاں تقریبا۸۱سال کی عمرپاکر۲۸؍مارچ۱۸۹۸ء کو خالق حقیقی سے جاملے،تدفین مسلم یونیور سٹی علی گڑھ کے کیمپس میں ہوئی،مولانا حالی نے سر سید کے انتقال کے موقع پر سوگوار مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’حضرات دل کی کسک کون دیکھ سکتا ہے جو میں دکھا نے کی کوشش کروں۔سر سید کیا گئے ایک برگشتہ قسمت ملت کا سرمایاایک نادارملک کا گنج بے بہااور میرا مرشد،دوست اور رہبرجاتارہا۔ہم نے اس سے قومی خدمت کا مفہوم سیکھادوسرں کے لئے اپنی زندگی کے عیش و آرام کوقربان دینے کا سبق پڑھاجب وہ قومی خدمت کے دشوار گزار راستہ پر آگے بڑھاتو بہت سے لوگ جو اس کے ساتھ چلے تھے تھک کر بیٹھ گئے بہت سے افتاں وخیزاںآگے بڑھے لیکن ہونٹوں پرپپڑیاںجم گئیں،اور پیروں میںچھالے پڑگئے دم چڑھ گیااور چہرے پر ہوائیاںاڑنے لگیں لیکن وہ الوالعزم انسان اسی طرح تازہ دم رہانہ اسے راستہ کی تکان نے مضمحل کیا اور نہ ساتھیوں کے چھوٹ جانے سے ہمت ٹوٹی نہ منزل کی دوری نے اس میںہراس پیدا کیا‘‘
اسی موقع پر محسن الملک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’مجھے صرف ان کی ذات ہی سے محبت نہ تھی بلکہ پچاس سالہ تجربہ نے میرے دل پریہ بات نقش کر دی تھی کہ قومی درد اور بہی خواہی کوحب خدا تعالیٰ نے ایک جسم اور ایک شکل دینی چاہی توسید احمد اس کا نام رکھ دیا۔‘‘