مولانا ندیم احمد انصاری
اردو صحافت کے میدان میں سرسید احمد خان نے تین بڑے کارنامے انجام دئے۔(۱) سید الاخبار(۲) علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور(۳)تہذیب الاخلاق ۔ بر صغیر میں صحافت کی ابتداء 29جنوری1770ء کو ’ہکی گزٹ‘ سے ہوئی۔ اس کے تقریباً 60سال بعد مسلمان اہل قلم اس میدان میں نظر آئے اور ان کی طرف سے پہلا اردو اخبار فروری1831ء کو‘آئینہ سکندر‘ کے نام سے مولوی سراج الدین کے ذریعے کلکتہ (کولکاتا) سے منظر عام پر آیا ، اس کے بعد 1857ء تک تقریباً53اخبارات و رسائل مسلم اہل قلم نے مختلف مقامات سے شائع کئے ، جو فارسی یا اردو زبان میں ہوتے تھے ، جب کہ اس دور میں جاری ہونے والے انگریزی، ہندی بنگالی اور دیگر علاقائی زبانوں میں ایسے کسی اخبار کا پتہ نہیں چلتا ، جو کسی مسلم اہل نے جاری کیا ہوا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اردو زبان میں سر سید سے قبل ہی باقاعدہ صحافت کا آغاز ہوچکا تھا۔ مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے۱۸۳۷ء تک دہلی اخبار کے نام سے شائع ہوتا رہا اور اس کے ایک ہفتہ بعد اس کا نام دہلی اردو اخبار رکھ دیا گیا۔
یہ اس زمانے کا سب سے مشہور اردو اخبار تھا ، جس میں لال قلعے کی خبروں کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے کوائف بھی شائع ہوتے تھے ۔ اسی اخبار میں ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ خیز دور میں پہلی مرتبہ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ چھپا ، جس کی پاداش میں مولوی محمد باقر کو تختہ دار تک پہنچا دیا گیا ۔
یاد رہے کہ ۱۸۳۷ء میں سر سید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خاں نے دہلی کے دوسرے ہفتہ وار اردو اخبار کا اجراء کیا اور اس کا نام ، سید الاخبار‘ رکھا، جس کی ادارتی ذمے داری ان کے انتقال کے بعد سرسید نے سنبھالی ۔
اس طرح کہنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی علمی و ادبی زندگی کا آغاز صحافت سے ہی کیا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کا جو نصب العین بنایا تھا، یعنی مسلم قوم کی اصلاح و ترقی ، اس کی تکمیل کے لئے انہیں ایسے ہی پلیٹ فارم کی ضرورت بھی تھی ۔ تاکہ وہ وعظیم پیامبر عوام تک اپنا پیغام پہنچا سکے ، اس اخبار کے اکثر مضامین خود سر سید کے تحریر کردہ ہوتے تھے لیکن یہ اخبار بہت زیادہ ان کا ساتھ نہ دے سکا اور۱۸۵۰ ء میں بند ہوگیا ۔ پھر بھی کہنا چاہئے کہ خود سر سید کی صحافتی تربیت کا یہی ذریعہ یہی اخبار بنا ۔ بقول سر عبدالقادر:’’سرسید احمد خاں کو صاحب طرز اخبار نویس بنانے میں سید الاخبار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔‘‘
ءدراصل ۱۸۶۳ ء میں سرسید نے علوم فنون کو فروغ دینے کے لئے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی ۔ جس میں قدیم مصنفوں کی عمدہ کتابیں اور انگریزی کی مفید کتابوں کو اردو میں ترجمہ کرنے کا اہتمام کیا گیا ۔۹؍جنوری ۱۸۶۴ء کو اس تجویز کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اس نام سے غازی پور میں باقاعدہ ایک تنظیم قائم کی ۔ انہیں دنوں سرسید کا تبادلہ غاز ی پور سے علی گڑھ ہوگیا، تو اس سوسائٹی کا دفتر بھی وہیں منتقل کرلیا گیا۔۳؍مارچ ۱۸۶۶ء سے اس سوسائٹی سے ایک اخبار جاری کیا گیا اور اردو نام اخبار سائنٹفک سوسائٹی اور انگریزی نام
The Aligarh institute Gazette‘
طے پایا ۔ یہ اخبار سر سید کے آخری دم تک جاری رہا ۔ اس اخبار سے قبل اردو اخبارات میں اداریے لکھنے کا رواج نہیں تھا، اس گزٹ نے اسے عام کیا اور سرسید نے ایسے اداریے تحریر کیے جن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صحافت کے ہر پہلو پر گہری نظر رکھتے تھے ۔
اس طرح یہ اخبار اردو میں مقصدیت کو فروغ دینے والا پہلا اخبار کہاجاسکتا ہے ۔ اس اخبار کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے مولانا حالی لکھتے ہیں کہ۔۔۔‘‘اس اخبار کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس کا ایک کالم انگریزی میں اور ایک کالم اردو میں ہوتا تھا اور بعض مضامین اردو میں الگ اور انگریزی میں الگ چھاپے جاتے تھے۔ اس لئے اس سے انگریز اور ہندوستانی ، یکساں فائدہ اٹھا سکتے تھے ۔
اس کا خاص مقصد گورنمنٹ اورانگریزوں کو ہندوستانیوں کے حالات و معاملات اور خیالات سے آگاہ کرنا اور ان میں پولیٹیکل خیالات اور قابلیت اور مذاق پیدا کرتا تھا۔‘‘ (حیات جاوید:۱۳۱) اس اخبار نے اردو قارئین کے باشعور طبقہ کے ذہنوں کو کافی حد تک متاثر کیا اور انہیں جدید علوم و فنون کی طرف راغب کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔
جس سے ہندوستانیوں کے جامد تصورات متحرک کرنے میں مدد ملی ۔ اس کا اجراء اگرچہ ایک ہفتہ وار کی حیثیت سے ہوا لیکن جیسا کہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے ، اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کو تقلیدی دائرے سے نکال کر ان کے اخلاق کی تہذیب کرنا تھا ۔ سرسید کی صحافتی خدمات کا سب سے بڑا کارنامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ہے جس کا انگریزی نام
The Social Reformer Mohammedan
تھا۔ سر سید اپنے انگلستان کے سفر سے واپسی کے ساتھ ہی اس کے اجرا کا خواب اور سرناموں کی تختیاں ساتھ لے کر آئے تھے ۔ اس کا پہلا شمارہ ان کے ولایت سے واپسی کے دو مہینے بعد شائع ہوا ۔ ان کے اس عزم مصمم کی دلیل کے لئے یہ دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیں
سر سید اطلاعاً مولانا مہدی علی خاں کو تحریر فرماتے ہیں ، میں نے سال بھر کا کاغذ خرید لیا ہے ۔ اس کا ماہانہ خرچ سو روپے ہوگا ، ہم بیس دوست پان چپانچ روپے مہینہ کے حساب سے دیں گے اور اخبار مفت بانٹیں گے اور یہ قیمت بھی بچیں گے ۔‘‘(تاریخ صحافت:۸۳) مولانا حالی لکھتے ہیں
انہوں نے اس پرچہ کے نکالنے کا ارادہ ولایت ہی میں کرلیا تھا ، کیونکہ تہذیب الاخلاق کی پیشانی پر جو اس کا نام اور لیبل چھپتی تھی اس کا ٹائب وہ لندن سے بنواکر اپنے ساتھ لائے تھے۔‘‘(حیات جاوید:۱۶۴) سرسید اس رسالہ کے ذریعے مسلم قوم کی ذہنی تعمیر ، روشن خیالی ، حریت فکر اور جدید تعلیم سے دلچسپی پیدا کرنے کے خواہاں تھے ، اپنے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔۔۔
اس پرچے کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیاجاوے، تاکہ جس حقار ت سے سویلائزڈ یعنی مذہب قومیں انہیں دیکھتی ہیں ، وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قومیں کہلاویں۔‘‘(ادب نما:۲۷۷) اس اقتباس کو پڑھ کر لگتا ہے کہ اس رسالہ کا اجرا ایک ولولہ کے طور پر عمل میں آیا تھا ، جس کا اصل مقصد خواب غفلت میں پڑی قوم کو بیدار کرنا تھا اور ان کے اس مشن میں ان کے رفقاء نے ان کا بھرپور تعاون بھی کیا۔
ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ سر سید کے رفقاء میں حالی، شبلی ، نذیر احمد، ذکاء اللہ ، چراغ علی ، وقار الملک نے انہیں مقاصد کے تحت اس پرچے میں علمی ، ادبی، فکری اور تہذیبی مضامین لکھ کر اور عام لوگوں کے فکری افق کو بلند کیا ۔‘‘(ااردو ادب کی مختصر تاریخ:۳۳۶) سر سید نے مختلف موضوعات میں طبع آزمائی کی ن اکے مضامین نے لوگوں کو بہت حد تک متاثر کیا بلکہ ان کی تحریر اس قدر اثر انداز ہوتی تھیں کہ کہاجاتا ہے کہ جس قدر لوگوں کو متاثر کیا، کم ہی تحریروں نے کیا ہوگا۔
ان کے مضامین مختصر ، عام فہم اور اپنے مقصد پر حاوی ہوتے تھے ۔ اپنے مقصد کے حصول میں انہیں بہت سی رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور مخالفتوں کا سامنا بھرکرنا پڑا ، جیسا کہ شیخ محمد اکرام رقم طراز ہیں کہ اس میں کئی ایسی مذہبی باتوں کا ذکر ہوتا تھا ، جو عوام کو طبعاً ناگوار ہوتی تھیں۔
چنانچہ ابھی اس پرچے کے دو تین نمبر ہی نکلے تھے کہ چاروں طرف سے اس کی مخالفت شروع ہوگئی اور علی گڑھ کالج کے افتتاح سے سات آٹھ سال پہلے سر سید انگریزی تعلیم کی ترویج سے نہیں بلکہ اپنے معاشرتی اور تہذیبی مقاصد کی وجہ سے مسلمانوں میں نیچری اور کرسٹان کہلانے لگے ۔انہی وجوہات کی بنا پر تہذیب الاخلاق چھ سال بعد بند ہوگیا۔
اس پر بعض بہی خواہوں نے دوبارہ اجرا کا تقاضاکیا، تو تین سال بعد پھر جاری ہوا اور سر سید کی دیگر مصروفیات کے سبب دو سال ، پانچ مہینے جاری رہ کر پھر بند ہوگیا ۔ تیسری بار نواب محسن الملک کی تحریک پے اسے پھر سے جاری کیا، لیکن معاملہ چل نہ سکا اور تین سال کے بعد اسے ’’ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ کے ساتھ ملحق کردیا گیا۔
سرسید کی ارد و صحافت نے ایک طرف طرز نو کی ایجاد کی اور صنف انشائیہ کو بھی فروغ بخشا تو دوسری طرف ان کی تعلیمی تحریک کو بھی استحکام عطا کیا۔ انہیں کی کوششوں سے اردو نثر کے مزاج میں سلاست کے ساتھ تبدیلی آئی ، اسی لئے انہیں بجا طور پر ’’جدید اردو نثر کا بانی‘‘ کہاجاتا ہے