وسیم بریلوی کی شاعری میں حقیقت پسندی کا رنگ

Story by  ڈاکٹر شبانہ رضوی | Posted by  [email protected] | Date 20-02-2025
وسیم بریلوی کی شاعری میں حقیقت پسندی کا رنگ
وسیم بریلوی کی شاعری میں حقیقت پسندی کا رنگ

 

ڈاکٹر شبانہ رضوی 

اردو شاعری میں وسیم بریلوی ایک ایسے شاعر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جو محبت کے نازک جذبات کو الفاظ کا لباس پہنانے کے ساتھ ساتھ زندگی کی تلخ سچائیوں اور سماجی حقیقتوں کو بھی بے حد سادگی اور خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں روایت اور جدت کا ایسا امتزاج نظر آتا ہے، جس میں کلاسیکی اردو غزل کی لطافت اور جدید دور کی حقیقت پسندی دونوں ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔

وسیم بریلوی کا اصل نام ظہیر احمد خان ہے۔ وہ  بریلی، اتر پردیش، بھارت میں پیدا ہوئے۔ بریلی کی علمی و ادبی فضا نے ان کے شعری ذوق کو جلا بخشی، اور کم عمری میں ہی وہ شعر و سخن کی طرف مائل ہو گئے۔ وہ نہ صرف ایک ممتاز شاعر ہیں بلکہ تدریس کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔وسیم بریلوی کی شاعری محض رومانوی جذبات تک محدود نہیں، بلکہ ان کے اشعار میں زندگی کی حقیقت، معاشرتی ناہمواریوں اور عام انسان کی مشکلات کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کے کلام میں حقیقت پسندی اور گہرے سماجی شعور کا عکس ملتا ہے، جو قاری کو غور و فکر پر مجبور کرتا ہے۔وسیم بریلوی اپنی شاعری میں نہ صرف محبت کے جذبات کی لطافت کو بیان کرتے ہیں بلکہ سیاست، فرقہ واریت اور معاشرتی نابرابری جیسے اہم موضوعات کو بھی اپنے اشعار میں جگہ دیتے ہیں۔

وسیم بریلوی کی شاعری میں اصولوں پر ثابت قدمی اور حق کے لیے کھڑے ہونے کی تلقین بھی ملتی ہے۔

"اصولوں پر جہاں آنچ آئے، ٹکرانا ضروری ہے

جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے"

یہ شعر ایک مضبوط پیغام دیتا ہے کہ اگر انسان اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کر لے تو وہ حقیقی معنوں میں زندہ نہیں رہتا۔

سماجی انقلاب اور بیداری

وسیم بریلوی سماج میں بڑھتی ہوئی بے حسی اور ناانصافی کے خلاف بھی آواز بلند کرتے ہیں۔ وہ نئی نسل کو حقیقت کی آنکھیں کھولنے کی تلقین کرتے ہیں۔

"نئی عمروں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے

کہاں سے بچ کے چلنا ہے، کہاں جانا ضروری ہے"

یہ شعر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ جوانی میں جذباتی فیصلے کرنے سے پہلے دانشمندی ضروری ہے۔اسی طرح، وسیم بریلوی عام انسان کی بے بسی اور ناانصافی کے خلاف بھی آواز بلند کرتے ہیں

حقیقت اور محبت: جذبات کی اصل تصویر

محبت ہمیشہ شاعری کا ایک مرکزی موضوع رہا ہے، لیکن وسیم بریلوی کی شاعری میں عشق صرف ایک خیالی تصور نہیں بلکہ حقیقت کا عکس ہے، جو قربانی، تکلیف اور جذباتی حقیقتوں سے جڑا ہوا ہے۔

ان کےشعر محبت کی حقیقت پسندی کو ظاہر کرتیہیں کہ محبوب کی جدائی کے باوجود اس کی یادیں اور احساسات زندگی میں روشنی کی مانند باقی رہتے ہیں۔ وسیم بریلوی کے کلام میں محبت صرف ایک خواب نہیں بلکہ ایک سچائی ہے جو انسان کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیتی ہے

ان کے یہاں محبت کو محض جذباتی تعلق نہیں بلکہ تقدیر کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے، جہاں حقیقت اور جذبات ایک ساتھ چلتے ہیں:

دور سے ہی بس دریا دریا لگتا ہے

ڈوب کے دیکھو کتنا پیاسا لگتا ہے

تنہا ہو تو گھبرایا سا لگتا ہے

بھیڑ میں اس کو دیکھ کے اچھا لگتا ہے

آج یہ ہے کل اور یہاں ہوگا کوئی

سوچو تو سب کھیل تماشا لگتا ہے

میں ہی نہ مانوں میرے بکھرنے میں ورنہ

دنیا بھر کو ہاتھ تمہارا لگتا ہے

ذہن سے کاغذ پر تصویر اترتے ہی

ایک مصور کتنا اکیلا لگتا ہے

پیار کے اس نشہ کو کوئی کیا سمجھے

ٹھوکر میں جب سارا زمانہ لگتا ہے

بھیڑ میں رہ کر اپنا بھی کب رہ پاتا

چاند اکیلا ہے تو سب کا لگتا ہے

شاخ پہ بیٹھی بھولی بھالی اک چڑیا

کیا جانے اس پر بھی نشانہ لگتا ہے

سچائی اور کڑواہٹ کا امتزاج

وسیم بریلوی کی شاعری میں حقیقت کی تلخی اور جذبات کی نرمی ایک ساتھ نظر آتی ہے۔ وہ سادہ مگر پراثر انداز میں زندگی کی تلخیوں کو بیان کرتے ہیں:

شاخ پہ بیٹھی بھولی بھالی اک چڑیا

کیا جانے اس پر بھی نشانہ لگتا ہے

یہ شعر اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ زندگی کے سخت حالات انسان کو وقت سے پہلے سنجیدہ اور محتاط بنا دیتے ہیں۔

عام آدمی کی زندگی کی عکاسی

وسیم بریلوی کی شاعری میں عام انسان کی زندگی اور اس کے جذبات کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ وہ ان احساسات کو بیان کرتے ہیں جو ہر شخص کسی نہ کسی موڑ پر محسوس کرتا ہے لیکن الفاظ میں بیان نہیں کر پاتا۔

یہ شعر محبت میں عاشق کی خاموشی اور بے بسی کو نمایاں کرتا ہے، جہاں وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہے مگر حالات اس کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔

وسیم بریلوی کی شاعری میں سماجی شعور اور انقلابی فکر کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ نہ صرف ٹوٹتے رشتوں اور انسانی تعلقات کے بکھرنے پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں بلکہ ظلم، ناانصافی اور نفرت کے خلاف محبت کو ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

"وہ میرے چہرے تک اپنی نفرتیں لایا تو تھا

میں نے اس کے ہاتھ چومے اور بے بس کر دیا"

یہ شعر محبت کی طاقت اور برداشت کے فلسفے کو بیان کرتا ہے کہ نفرت کے بدلے محبت ہی سب سے مؤثر جواب ہے۔

وسیم بریلوی کی شاعری کا سب سے نمایاں پہلو ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کے اشعار میں محبت، سماجی شعور، عام آدمی کی مشکلات اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کا عکس ملتا ہے۔ وہ اپنے سادہ مگر پراثر الفاظ میں ایسی سچائیاں بیان کرتے ہیں جو ہر انسان کے دل پر اثر کرتی ہیں۔ یہی حقیقت پسندی ان کی شاعری کو دیگر شعرا سے ممتاز کرتی ہے اور قاری کے دل میں ایک گہرا نقش چھوڑ جاتی ہے۔