اردوتحقیق کا گل سرسبد:ڈاکٹر کاظم علی خاں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 20-10-2024
اردوتحقیق کا گل سرسبد:ڈاکٹر کاظم علی خاں
اردوتحقیق کا گل سرسبد:ڈاکٹر کاظم علی خاں

 

ڈاکٹر عمیر منظر

                                                                            شعبہ اردو

                                                       مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ

لکھنؤ کی ادبی روایت کے ایک سرگرم کردار کے طورپر جن لوگوں کو یاد کیا جاتا رہے گا،ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر کاظم علی خاں کا ہے۔اردو زبان و ادب کے استاد کے طورپر جہاں ان کی خدمات ہیں تو دوسری طرف ان کا شمار اردو کے اہم محققین میں ہوتا ہے۔یہ کہنا درست قرار پائے گا کہ وہ قدیم لکھنؤکی آخری بہار کے نہ صرف گواہ رہے ہیں بلکہ بعد کے ادوار میں اسی بہار کا حصہ بھی بن گئے۔ان بزرگوں کے یہاں شعرو ادب کے بغیر زندگی کی رمق اور اس کی ہما ہمی بے معنی ٹھہرتی ہے۔ان کی زندگی شعرو ادب کی سرگرمی سے عبارت تھی۔ڈاکٹر کاظم علی خاں کی کتابیں،مضامین اور ادبی مکالمے بیتے دنوں کی یاد دلاینے کے لیے کافی ہیں۔جس طرح انھوں نے تلاش وتحقیق کے لیے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا وہ قابل دیدہے۔

ڈاکٹر کاظم علی خاں (1938۔2012)نے اپنی تعلیم کا بڑا حصہ لکھنؤ اور کان پور سے مکمل کیا۔ابتدائی تعلیم شیعہ پی جی کالج سے حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی اے اور بی ایڈ(1958)میں مکمل کیا۔ کان پور یونی ورسٹی سے 1973میں ایم اے کرنے کے بعد اسی  یونی ورسٹی سے پروفیسر جعفر رضاکی نگرانی میں مطالعہ نثر غالب کے موضوع پر 1993میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ جمع کیا۔234صفحات پر مشتمل ان کا یہ تحقیقی مقالہ انٹر نٹ پر بہ آسانی دستیاب ہے۔1981شیعہ کالج لکھنؤمیں استاد مقرر ہوئے اور پھر وہیں سے سبکدوش ہوئے۔ادارے سے وابستگی کے زمانے میں ہی کالج کے میگزین کی نہ صرف ادارت فرمائی بلکہ بہت سے اہم موضو عات پر خصوصی نمبر بھی شائع کیے۔دسمبر2012میں ادب و تحقیق کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔

               ڈاکٹر کاظم علی خاں کی تصنیفی و تالیفی زندگی کا سلسلہ دور طالب علمی سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔مضامین و مقالے تو پہلے ہی شائع ہونے لگے تھے البتہ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ 1965سے شروع ہوتا ہے۔دستیاب معلومات کی روشنی میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ ان کی پہلی کتاب مشہور مرثیہ گو شاعرمیر انیس کے بیٹے میر نفیس کا انتخاب ہے۔ان کے پانچ مراثی کے انتخاب پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار اپریل 1965میں شائع ہوئی۔اس سے پہلے مہذب لکھنوی نے ان کے مراثی کا انتخاب کیا تھا جو عرصہ سے نایاب ہوچکا تھا۔ابتدا میں ڈاکٹر کاظم علی خاں نے میر نفیس اور ان کی مرثیہ گوئی سے متعلق چند اہم معلومات فراہم کی ہے،جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میر نفیس نے سو مرثیے کہے تھے۔یہ کتاب تقریباًسو صفحات پر مشتمل ہے۔اس سے لکھنؤ کے ایک اہم مرثیہ گوشاعر کی تخلیقات سامنے آتی ہیں۔مرثیہ تحقیق سے متعلق ایک اہم کتاب اردو مرثیہ اور مرزا دبیر کے نام سے شائع ہوتی ہے۔یہ کتاب 97صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں مرثیہ کی مختصر تاریخ اور اس کے اجزائے ترکیبی پر جہاں بحث کی گئی ہے وہیں انیس و دبیر کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے بعد دبیر کے کلام پر الگ سے بحث کی گئی ہے اور ان کے مقام و مرتبہ کے تعین میں دیگر ماہرین ادب کی تحریروں سے استفادہ کیا گیا ہے۔سب سے آخر میں کتابیات کی فہرست دی گئی ہے۔ان ابتدائی دونو ں کتابوں کے مطالعہ سے ڈاکٹر کاظم علی خاں کے تحقیقی شغف اور تلاش وجستجو کے بنیادی عناصر کا خاطر خواہ اندازہ ہوتا ہے۔انھوں نے اخذ نتائج کے طور پر یہ بات کہی ہے کہ مرزا دبیر کے یہاں مضمون آفرینی اور جدت و ندرت زیادہ ہے نیز ”ان کے کلام میں صد ہا نئی ترکیبیں،تشبیہات،اور استعارات“موجود ہیں۔اس کتاب کے تعارف میں انور جمال پاشا نے انھیں مرثیہ کا سنجیدہ اور خاموش محقق قرار دیا ہے۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ دبیر تحقیق سے متعلق کاظم علی خاں نے ان جواہرات کو پیش کیا ہے جو اہم علم و دانش سے اوجھل تھے۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کل اور آج کے عنوان سے ان کا ایک کتابچہ 1972میں شائع ہوا تھا اس سے جہاں مسلم یونی ورسٹی سے ان کے گہرے تعلق کا اندازہ ہوتا ہے وہیں اس تعلیمی ادارے سے متعلق بعض حقائق کو بھی انھوں نے پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس تعلیمی ادارہ کو کچھ لوگ محض اپنی لیڈری چمکانے کے لیے استعمال کررہے ہیں جو کہ غلط ہے۔انھوں نے اپنے ایک طویل مراسلے کا بھی ذکر کیا ہے جو 1956میں روزنامہ قومی آواز میں علی گڑھ یونی ورسٹی کے بارے میں لکھا تھا۔انھوں نے ابتدا میں اس بات پر فخر کا اظہار کیاہے کہ مجھے اس دانش گاہ سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے پر فخر ہے۔وہ آفتاب ہال،سرسید ہال اور وی ایم ہال میں اپنے گذارے ہوئے ایام کو یاد بھی کرتے ہیں۔مسلم یونی ورسٹی ایکٹ کے بارے میں وہ یہ بھی لکھتے ہیں۔

مسلم یونیو رسٹی ترمیمی ایکٹ پر گفتگو کرنا تو ٹکنکل مسئلہ ہونے کے باعث دور کی بات ہے مسلم یونی ورسٹی کے اصل مسائل تک سے یہ لوگ شرمناک حد تک لاعلم اور بے خبر ہیں۔مسلم یونی ورسٹی کی تباہی یہ ہے کہ تعلیم وتدریس سے متعلق ہر ایرا غیرااس علم ودانش کے مرکز کے مسائل حل کرنے کو بے قرار و بہ ضد نظر آتا ہے۔اگر دانش گاہوں کے مسائل یوں ہی حل ہوجاتا کرتے تو کثیر معارف پر ماہرین تعلیم تعلیمی کمیشن وغیرہ مقرر ہونا بند ہوجاتے۔(مسلم یونی ورسٹی کل اور آج  ص  4)

کاظم علی خاں کے مطالعہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔وہ شاعری اور نثر دونوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ایک طرف جہاں انھو ں نے دبیر شناسی کے حوالے سے اپنے تحقیقی بیانیہ کو مستحکم کیا تو وہیں غالب تحقیق سے متعلق ان کی کئی کتابیں خاصی اہم اور وقیع ہیں۔توقیت غالب ان کا غیر معمولی کام ہے۔اس کے علاوہ خطوط غالب تحقیقی مطالعہ غالبیات کے باب میں اہم ہے۔دراصل کاظم علی خاں نے نہایت توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ ادب و تحقیق کا کام کیا اور متعدد اہم ادیبوں اور شاعروں کی نگارشات کو نہ صرف جمع کیا بلکہ ان پر مقدمہ لکھ کر ان کے کلام کو ادبی معیار و میزان پر پرکھنے کی کوشش کی۔

کاظم علی خاں کی ایک کتاب تنقیدی تجزیے کے عنوان سے ہے اس میں ان کے پانچ اہم مضامین ناول امراء وجان ادا،اردو مرثیہ اور میر انیس،ہجویات سودا.....اپنے دور کی سماجی تاریخ،اردو مثنو ی اورمیرحسن کی مثنوی سحر البیان،مطالعہ غزلیات آتش کے عنوان سے شامل ہیں۔ یہ مضامین اردو شعرو ادب کے مباحث کا اہم حصہ رہے ہیں اور ان پر ایک عرصہ سے مختلف انداز میں لکھا جاتا رہا ہے۔ان موضوعات کا تعلق تنقید سے ہے۔ان مباحث کا تعلق ایک تو عام ادبی معاشرے سے ہے دوسرے یہ کہ ان مضامین میں اردو ادب کے طالب علموں کے غور وفکر کاخاصا مواد موجو د ہے۔اس کتاب میں ایک مضمون آتش سے متعلق ہے۔اس میں ان کی شاعری کے بارے میں جو کچھ انھوں نے لکھا ہے اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ کاظم علی خاں کے سامنے آتش سے متعلق تمام ادبی مواد موجود ہے۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

آتش کے یہاں مسائل تصوف پر مستقل گفتگو کے بجائے جستہ جستہ خیال آرائی ملتی ہے۔فنا،بقا،ترک،توکل،معرفت،رضا،کے موضوعات ان کے یہاں اکثر نظرآتے ہیں اور ان خیالات میں گہرائی اور خلوص کے باعث تاثیر پیدا ہوگئی ہے۔اخلاقی مضامین پر بھی آتش نے جگہ جگہ طبع آزمائی کی ہے۔(ص 248-249)

ڈ اکٹر کاظم علی خاں کا ایک اہم مقالہ”اودھ میں شعرا کی آرام گاہیں“ کے عنوان سے ہے۔یہ مقالہ خاصا تحقیقی اور معلوماتی ہے۔کم وبیش پچاس صفحات پر مشتمل اس مقالے میں کتابیات کے تحت 128اندراج ہیں۔اس نوع کے بہت سے مضامین اور مقالے علم و تحقیق کے بہت سے مقامات کی رہنمائی کرتے ہیں اور خود ڈاکٹر کاظم علی خاں کے تحقیقی مزاج ومنہاج کو بھی روشن کرتے ہے۔