ناروے میں اردوکا چہرہ: سریش چند شکل

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 06-12-2024
ناروے میں اردوکا چہرہ:  سریش چند شکل
ناروے میں اردوکا چہرہ: سریش چند شکل

 

ڈاکٹر عمیر منظر

شعبہ اردو ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی

لکھنؤ کیمپس۔ لکھنؤ

سریش چند شکل سوٹ پر جب ہیٹ پہن کر نکلتے ہیں تو لکھنوی سے زیادہ نارویجین دکھائی دیتے ہیں۔لیکن گفتگو اور طرز تخاطب سے لکھنؤ ی ہونے کا شبہ ضرور پیدا کردیتے ہیں۔ادب اور سیاست کے آمیزے سے ان کی شخصیت تیار ہوئی ہے لیکن دونوں کی سرحدوں کا بہت خیال کرتے ہیں۔جب افسانہ لکھتے ہیں تو کہانی کو جانے نہیں دیتے اور شاعری بھی ان کی لے سرسے الگ نہیں ہوتی اور نہ اس کے آہنگ کو اس قدر بلند ہی کرتے ہیں کہ ترقی پسند شعرا کی یاد کو تازہ کردیں۔ان کی شاعری میں توازن اور شخصیت میں وضع داری کا امتزاج ایک دوسرے کو قریب رکھتا ہے کسی کو دور نہیں جانے دیتا۔یہی ان کا فن ہے اور یہی ان کی شخصیت۔آنے والے ان سے دور نہیں جاتے اور جو قریب آجائے اسے کبھی جانے نہیں دیتے۔آنے جانے کی رفتار کو وہ جس سہجتا سے رکھتے ہیں وہ انھیں کا ہنر ہے۔ لکھنؤ سے ناروے اور ناروے سے لکھنؤ کے سفر میں کہاں ناروے کو رکھناہے اور کہاں سے لکھنؤ کی سرحد شروع ہوتی ہے ان سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا۔انیس کے بقول  ؎
ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد
سریش چند شکل جہاں ہوتے ہیں ایک دنیا آباد کرلیتے ہیں۔ان کی رنگارنگی قابل رشک ہوتی ہے۔وہ بیک وقت کئی زبانیں جانتے ہیں۔ہندی ان کی مادری زبان ہے اور ان کی کہانیوں کے بہت سے مجموعے ہندی زبان میں ہی ہیں لیکن یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ اردو ان کا عشق ہے۔اسے کبھی وہ فراموش نہیں کرتے۔دراصل اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ اس کے ذریعے اپنی مٹی  بلکہ اپنے لکھنؤ کو یاد کرتے ہیں۔اپنی مٹی سے عشق کا اظہار کرتے ہیں۔اور یہ اظہار بے تحاشا کرتے ہیں کبھی بھولتے ہی نہیں۔لکھنو پہنچتے ہی اردو کی محفلوں کو آباد کرنا شروع کردیتے ہیں۔کبھی لکھنؤ یونی ورسٹی تو کبھی مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کا لکھنؤ کیمپس۔ اس بار کی آمد پر انھوں نے یوپی پریس کلب میں یہ محفل سجائی اور محفل خوب سجی ایک طرف اردو ہندی کے عاشقین جمع تھے تو دوسری طرف پریس والے بھی خاصی تعداد میں موجو د تھے۔
سریش چند شکل کی کتاب ”تعارفی خط“کی رسم رونمائی 26نومبر2024 کو یوپی پریس کلب میں انجام دی گئی۔اس موقع پر اردو اور ہندی کے اہم ادیب و شاعر اور ان کی شخصیت سے پیارکرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔’تعارفی خط‘ ان کی ایک پرانی کتاب ہے۔اس کا پہلا ایڈیشن 1993میں دلی سے شائع ہوا تھا۔ایک مدت کے گزر جانے کے بعد بھی وہ اس کتاب کو نہیں بھولے۔چند ماہ پیشتر کہنے لگے اس کتاب کے حوالے سے مجھے بہت سے لوگ یاد کرتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ اس کا دوسرا یڈ یشن آجائے۔میں نے کہا کہ دوسرے ایڈیشن میں چند کہانیوں کا اضافہ ضروری ہے۔وہ فوراً تیار ہوگئے۔تین چار کہانیوں کا ترجمہ ڈاکٹر محمد سعید اختر نے کیااوراس طرح تیرہ کہانیوں پر مشتمل تعارفی خط کا اضافہ شدہ ایڈیشن شائع ہوگیا۔اسی کتاب کی رسم رونمائی یوپی پریس کلب لکھنؤمیں ہوئی جس میں شعبہ اردو لکھنؤ یونی ورسٹی کے سابق صدر پروفیسر عباس رضا نیر،پروفیسر یوگیندر پرتاب سنگھ (صدر شعبہ ہندی۔لکھنؤ یونی ورسٹی)،پروفیسر شوبھا باجپئی،آنند شرما،مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے لکھنؤ کیمپس کی انچارج ڈاکٹر ہما یعقوب(ایسوسی ایٹ پروفیسر ادبیات انگریزی) نیز ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی(شعبہ اردو مانو لکھنؤ کیمپس)،ڈاکٹر جاں نثار عالم (شعبہ اردو لکھنؤ یونی ورسٹی) محمد فیصل خاں اور مانو لکھنو کیمپس کے ریسرچ اسکالر وغیرہ کی موجودگی سے دوبالا ہو گیا تھا 
سریش چند شکل کے ادبی جلسوں کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت روایتی انداز کے نہیں ہوتے اور نہ اس میں طول طویل گفتگو کا سلسلہ رہتا ہے۔کتاب کا تعارف، مختصر گفتگو اور مبارک باد وغیرہ بس لیکن ان جلسوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے ادب اور شعر کے ماہر ہوتے ہیں لیکن اردو سے وہ بھی ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ان سب کو جمع کرکے وہ دراصل یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بھاشاؤں کی رنگانگی کس طرح ایک نئے ہندستان کا نقشہ پیش کرتی ہے۔اور وہ ایک دوسرے کو جاننے اور ان کی زبان و تہذیب کو سیکھنے کا موقع کس طرح فراہم کرتی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ ادب ہمیشہ بصیرت اور بصارت کا موقع اسی طرح فراہم کرتا ہے۔ سریش چند شکل کا یہی کارنامہ ہے کہ وہ ایک طرف خود ادب تخلیق کرتے ہیں تو دوسری طرف تخلیق کاروں اور ادب سے گہرا تعلق رکھنے والوں کو جمع کرکے ایک الگ طرح کے ادبی اجتماع کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔دراصل اس طرح وہ سب کو اپنے اپنے حلقے سے نکال کر ایک وسیع میدان میں لاکر کھڑا کردیتے ہیں بالکل ادب کی طرح جو کشادہ اور وسیع وعریض ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ اسی طرح دیر تک اور دور تک دیکھنے اور سمجھنے کی عادت ڈ الو۔ادب کے لیے خلاؤں میں بھی نظر ڈالو۔ناروے کے موسم پر نگاہ ڈالوجہاں سورج ڈوبتا ہی نہیں اور لکھنؤ کی چہل پہل اور وضع داریوں کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنے اور کچھ کرگذرنے کی کوشش کریں۔ادب اور تخلیق ادب بلاشبہ ایک سنجیدہ  عمل ہے مگر تخلیقی خود سری اوریک گونہ بے راہ روی بھی اس راہ میں ضروری ہے۔بقول شجاع خاور
یہاں تو قافلے بھر کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں 
سبھی چلتے ہوں جس پر ہم وہ رستہ چھوڑ دیتے ہیں 
سریش چند شکل سے میری پہلی ملاقات اس صدی کے ابتدائی برسوں میں ہوئی تھی۔وہ غالباًجامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہندی شعبہ کے کسی پروگرام میں مدعو تھے اور وہیں سے اردو وبھاگ کی طرف جھانک رہے تھے۔چونکہ ان کی شخصیت میں چلت پھرت بہت زیادہ ہے۔وہ کسی ایک طرف نہیں رہتے بلکہ سب کا خیال رکھتے ہیں اور اسی لیے اِدھراُدھر دیکھتے رہنا اُن کا شیوہ ہے۔اس زمانے میں شعبہئ اردو کے صدر پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی صاحب تھے۔ان سے ملاقات کے لیے گئے اور وہیں پر اردو کے حق میں اپنا دل سریش چند شکل دے بیٹھے۔یہاں تک کہ آناً فاناً ناروے سے متعلق ان کی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ ہوا اور بہت جلد ”ناروے کی اردو کہانیاں‘ کے نام سے ان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ شائع ہوگیا۔شاید اس کتاب کے لیے ایک تقریب دلی میں کملیشور صاحب کے یہاں ہوئی تھی۔انھوں نے سریش چند شکل کی اس کوشش کو بہت پسند کیا تھا اور سراہا بھی تھا حالانکہ وہ زمانہ ”کتنے پاکستان اور“کی شہرت اور مقبولیت کا تھا۔ترجمہ کے توسط سے کملیشور جی بھی اردو والوں میں مقبول ہورہے تھے۔
ایک مدت تک ہم لوگ ایک دوسرے سے بے خبر تھے۔19فروری 2020کو عارف کیسل ہوٹل لکھنؤ میں منشی نول کشور کی شخصیت اور ان کی خدمات پر ایک توسیعی خطبہ کے لیے مجھے مدعو کیا گیا۔خطبے کے دوران ہی سریش چند شکل نمودار ہوئے پروگرام کے بعد دیر تک باتیں ہوئیں اور پھر وہ تعلق جو دہلی میں قائم ہوا تھا دوبارہ چل پڑا۔یہ بہر حال میرے لیے مسرت کی بات کی تھی کہ وہ لکھنؤ کے ہیں اور اس سرزمین سے انھیں گہرا تعلق ہے حالانکہ ناروے میں وہ اس طرح آباد ہوچکے ہیں کہ ادھر کا رخ ان کے لیے دقت طلب ہوتا ہے مگر مٹی کی محبت اسی کو کہتے ہیں کہ وہ ہر سال اس کا قرض ادا کرنے آجاتے ہیں۔ان کا آناصرف ان کا آنا نہیں ہوتا بلکہ ادب و شعرکی نہ جانے کتنی محفلیں آباد ہوجاتی ہیں۔تعلیمی اداروں اور جدید ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوتا ہے نہ جانے کہاں کہاں انھیں مدعو کیا جارہا ہے ان سے لوگ گفتگو کرتے ہیں۔کہیں پر ان کے لیکچر ہوتے ہیں۔صحافت سے گہرا تعلق ہے اس لیے اس بارے میں بھی ان کی گفتگو خاصی بامعنی اور اہم ہوتی ہے۔
 سریش چند شکل 1954کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تعلیمی مدارج یہیں طے کیے اور پھر8 198سے ناروے کے شہر اوسلو میں قیام پذیر ہیں۔سریش چند شکل نے اوسلو میں بھی ایک چھوٹا سا لکھنؤ آباد کررکھا ہے وہاں کی ادبی اور سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہاں کی تعلیمی زندگی کے بی ایک بے حد فعال رکن کے طورپر جانے جاتے ہیں۔لکھنو یونی ورسٹی سے بی اے کیا ہے اور اوسلو یونی ورسٹی ناروے سے پہلے وہاں کی زبان سیکھی اس کے بعد وہاں کا ادب سیکھا۔وہیں سے صحافت کا دو سالہ کورس بھی مکمل کیا۔یہ پہلے بھارتی ہیں جو وہاں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے پہلے شخص تھے۔وہاں کے مقامی اخبار میں صحافی ہیں اور وہاں کی صحافتی یونین کے ممبر ہیں۔نارویجین جرنلسٹ یونین کے چار دہائیوں سے ممبر ہیں۔وہاں کی نگر پالیمنٹ کے بھی ممبر رہ چکے ہیں۔اب تک ہندی میں کہانیوں کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔اردھ راتری کا سورج، سرحدوں سے دور، میری پرواسی کہانیاں۔ آزاد نظموں کا مجموعہ جن من کے گاندھی کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔اب تک اردو میں ان کی کہانیوں کے دو مجموعے تعارفی خط اور ناروے کی اردو کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔