روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 01-11-2024
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

 

حسنین جمال

دیوالی خوشی کا تہوار ہے، محبت، بھائی چارے اور امن کا تہوار ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کی تفصیل میں جائیں، آل احمد سرور کا ایک شعر دیکھتے ہیں۔

یہ بام و در یہ چراغاں یہ قمقموں کی قطار

سپاہ نور سیاہی سے برسرِ پیکار

دیوالی بنیادی طور پر ہر برائی سے اچھائی کی جیت کا تہوار سمجھا جاتا ہے۔ رامائن کے مطابق رام چندر جی کے چودہ سالہ بن باس کے بعد ان کی واپسی اس تہوار کی بنیادی وجہ بنی۔ اس خوشی کے موقع پر گھروں میں حتی الامکان صفائی ستھرائی کی جاتی ہے۔ رنگ وروغن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سجاوٹ ہوتی ہے۔ پکوان بنائے جاتے ہیں، ایک دوسرے کو تحفہ تحائف نذر کیے جاتے ہیں، الغرض رام جی ایودھیا واپس تشریف لائے ہیں، تو اس کے شایان شان خوشی ہر کوئی مناتا ہے، اپنی جیب دیکھ کر مناتا ہے۔ اب رام چندر جی کو اقبال کیسے دیکھتے تھے، یہ بھی دیکھیے؛

ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز

اہلِ نظر سمجھتے ہیں اِس کو امام ہند

اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی

روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند

دیوالی سنسکرت کے لفظ دیپاولی (دیپاں والی) سے مشتق ہے، جس کے معنی چراغوں کی قطار کے ہیں۔ تو صاحب گھروں کی چھتوں پر، اندر، باہر، ہر جگہ چراغ جلتے ہیں، اور یہ چراغ تمثیلی طور پر برائی کے مقابلے اچھائی کی جیت کا جشن مناتے دکھائی دیتے ہیں۔

دیوالی کی مبارک باد دینے سے یا اس میں شرکت کرنے سے آپ کا کچھ نہیں جاتا لیکن وہ لوگ جو آپ کے ملک میں ہر عید، بقرعید پر آپ کو مبارکیں دیتے ہیں، آپ کے ساتھ چھٹیاں مناتے ہیں، رمضان میں سرعام کچھ کھانے سے پورا ایک مہینہ پرہیز کرتے ہیں اور محرم میں آپ کی مجالس کے احترام میں آس پاس گانے بجانے نہیں کرتے اور ان کا مذہب آپ سے الگ ہے، کیا صرف ان باتوں کے احترام میں ہی آپ ان کی طرف برابری کی بنیاد پر دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتے۔ 

دیوالی میں مستقبل کے بارے میں اندازے لگانے کی ایک رسم اگلے وقتوں میں پائی جاتی تھی۔ ان اندازوں پر باقاعدہ معصوم سی شرطیں بھی بدتے تھے۔ جیسے، بھئی نند لعل اس سال ڈاکٹری کے کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو جائے گا، اگر وہ کامیاب رہتا ہے تو دو روپے تم ہمیں دو گے، نہیں تو اگلی دیوالی ہم تمہیں دیں گے۔ تو مہربانو، یہ تھی دیوالی۔

نظیر اکبر آبادی ایسی پیاری تصویر کھینچ گئے دیوالی کی، ذرا دیکھیے؛

ہر ایک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا

ہر ایک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا

سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دوالی کا

کسی کے دل کو مزہ خوش لگا دوالی کا

 

عجب بہار کا ہے دن بنا دوالی کا

جہاں میں یارو عجب طرح کا ہے یہ تیوہار

کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار

کھلونےکھیلوں بتاشوں کا گرم ہے بازار

ہر اک دکاں میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہار

سبھوں کو فکر ہے اب جا بجا دوالی کا

مٹھائیوں کی دکانیں لگا کے حلوائی

پکارتے ہیں کہ لا لا دوالی ہے آئی

بتاشے لے کوئی برفی کسی نے ت لوائی

کھلونے والوں کی ان سے زیادہ بن آئی

گویا انہوں کے واں راج آ گیا دوالی کا

صرف حرام کی کوڑی کا جن کا ہے بیوپار

انہوں نے کھایا ہے اس دن کے واسطے ہی ادھار

کہے ہے ہنس کے قرض خواہ سے ہر ایک اک بار

دوالی آئی ہے ، سب دے دلائیں گے اے یار

خدا کے فضل سے ہے آسرا دوالی کا

مکان لیپ کے ٹھلیا جو کوری رکھوائی

جلا چراغ کو کوڑی وہ جلد جھنکائی

اصل جواری تھے ان میں تو جان سی آئی

خوشی سے کود اچھل کر پکارے او بھائی

شگون پہلے کرو تم ذرا دوالی کا

کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری

جو کچھ تھی جنس میسر بنا بنا ہاری

کسی نے چیز کسی کی چرا چھپا ہاری

کسی نے گٹھری پڑوسن کی اپنی لا ہاری

یہ ہار جیت کا چرچا پڑا دوالی کا

جہاں میں یہ جو دوالی کی سیر ہوتی ہے

تو زر سے ہوتی ہے اور زر بغیر ہوتی ہے

جو ہارے ان پہ خرابی کی فیر ہوتی ہے

اور ان میں آن کے جن جن کی خیر ہوتی ہے

تو آڑے آتا ہے ان کے دِیا دوالی کا