اردو غزل میں گھر کی صو رت اور صورت حال

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 27-08-2024
اردو غزل میں گھر کی صو رت اور صورت حال
اردو غزل میں گھر کی صو رت اور صورت حال

 

ڈاکٹر عمیر منظر

          شعبہ اردو

         مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ

مہذب انسانی سماج کی ایک پہچان گھر ہے۔گھر سے ہی کسی فرد کی پہچان اور شناخت ہوتی ہے۔آج کے انسانی معاشرہ میں بہت سے حقوق اسی سبب کسی کو حاصل ہوتے ہیں اور گھر کے نہ ہونے سے وہ بے شمار حقوق سے محروم ہوجاتا ہے۔دربدری اوربے گھری لفظ اس کے برخلاف استعمال ہوتا ہے یعنی شناخت کا نہ ہونا ہے۔پہچان کاگم ہوجانا۔گھر انسانی سماج کا بہت بڑا مسئلہ رہا ہے اور اسی لیے گھر کی تعمیر انسانی معاشرہ کاایک مشکل اور خوب صورت ہدف رہا ہے۔اس کے لیے کیا کیا جتن کیے جاتے رہے ہیں۔اور گھر کی تعمیر کے لیے انسانی کوششوں کے کیسے کیسے واقعات ہیں۔انسانی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔

اردو شاعری میں شعرا نے اس لفظ اور تصور کو سامنے رکھ کرخوب شاعری کی ہے اور نئے نئے معنی پہنانے کی کوشش کی ہے۔کہیں گھر لفظی معنی میں تو کہیں کسی کے دل میں گھرکرنے کا تصور بھی ساتھ ساتھ رہا ہے۔یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ انسانی جذبات واحساسات کی ترجمانی جس طرح اردو شاعری میں کی جاتی ہے اس کی دوسری مثال مشکل ہے۔اسی لیے اس حوالے سے اردو شاعری کے نگار خانے میں طرح طرح کے اشعار موجود ہیں۔گھر او راس کے متعلقات میں بہت سے الفاظ ہیں جن سے شعرا نے فائدہ اٹھایا ہے۔بے گھری اور دربدری بھی اسی ذیل میں ہے۔ غزل کے روایتی مضامین میں محبوب کے دل میں جگہ بناناعاشق کی سب سے بڑی کام یابی ہے۔ یہ کہا جاسکتاہے کہ اردو شاعری خصوصاً غزل میں محبت کا گھر بنانا بھی ایک اہم ادبی معرکہ ہے۔اسی لیے بہت سے شعرا نے کہا ہے کہ اگر محبت کا کوئی گھربنانا ہے تو لوگوں کے دلوں پر دستک دیجیے۔ شاعری میں یہ دستکیں دی جاتی رہی ہیں اور محبت کی دنیا آباد کی جاتی رہی ہے۔ولی کا ایک شعر ہے

ادا و ناز سوں آتا ہے وو روشن جبیں گھر سوں

کہ جیوں مشرق سے نکلے آفتاب آہستہ آہستہ

مشرق سے آفتاب کے آہستہ آہستہ نکلنے کا نظارہ ہم اکثر کرتے ہیں۔کچھ یہی انداز ادا وناز کے ساتھ اس روشن جبیں محبوب کے گھر سے نکلنے کا بھی ہے۔

گھر دل کی طرح ہے جس میں نہ جانے کیا کیا کچھ ہوتا ہے۔اس سے بہت نشابیاں اور یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔ سب سے قیمتی شے محبوب کی یاد ہوتی ہے۔جگرکے بقول

خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے

ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی

احمد مشتاق کہتے ہیں

پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا

وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا

محبوب اور اس کی یادوں سے جہاں گھر آباد ہوتا ہے وہیں اس کے جانے کے بعد صورت بالکل مختلف ہوجاتی ہے۔مولانا الطاف حسین حالی نے اس کا کیاخوب عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہوگئی گھر کی صورت

نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

دل کی ویرانی کی طرح گھر کی ویرانی اور تنہائی بھی ہے۔تنہائی کی یہی صورت ایک بیاباں سی لگنے لگتی ہے۔اور پھر دشت اور گھر ایک جیسے لگنے لگتے ہیں۔مرزا غالب کا بہت مشہور شعر ہے

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یا دآیا

دشت کی ویرانی کو دیکھ کر گھر کی ویرانی کو یاد کرنا واقعی مرزا غالب نے غضب کا مضمون نکالا ہے اور خوب ہے۔حالی نے یادگار غالب میں مرزا کے جن اشعار کی تشریح کی ہے یا جن کی داد دی ہے ان میں یہ شعر بھی شامل ہے اور اس کے دومعنی بیان کیے ہیں۔ویرانی پر ظفر اقبال نے بھی ایک خوب صورت شعر کہا ہے۔

نکل جائے گی آئینے سے صورت

ہمارے گھر میں ویرانی رہے گی

ناصر کاظمی جدید شاعروں کے پیش رو کے طورپر جانے جاتے ہیں۔انھوں نے گھر،دیوار،اداسی سے کیا خوب شعری پیکر خلق کیا ہے۔

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

اداسی بال کھولے سورہی ہے

ناصر کاظمی نے جس عہد کو دیکھا اور ویرانی و بربادی کا منظرنامہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسے محض ایک شعر میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ان کی یادوں میں بہت سی باتیں ایسی ہیں۔ان کے یہاں یاد اور یادنگر کا تصور ہے۔ماضی ان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ناصر کاظمی کی مشہور نظم ’نشا ط خواب‘جوکہ ’انبالہ‘ سے متعلق ان کی یادوں کا حسین گلدستہ ہے۔   ؎

مرغابیاں تلی ہوئی تیتر بھنے ہوئے

خستہ کباب سیخ کے اور نان روغنی

انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے

میں ہوں اسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی

تنہائی اور اداسی اردو شاعری خصوصاًغزل کا ایک اہم مضمون ہے۔جدید شاعروں کے یہاں تنہائی کا مسئلہ بہت زیادہ۔بلکہ یہ ایک طرح سے بے گھری کا ہی حصہ یا اس کی توسیع سے عبارت ہے۔شہر یار کا بہت مشہور شعر ہے ۔

تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو

تاحد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

جدید شاعروں میں ایک اہم نام شجاع خاور کا ہے۔نئے نئے مضامین انھوں نے خوب نکالے ہیں۔ تنہائی کا مضمون بھی ان کے یہاں ہے۔بلکہ اس مضمون کا ایک شعر تو بہت مشہور ہے۔

تنہائی کا ایک اور مزہ لوٹ رہے ہیں

مہمان مرے گھر میں کئی آئے ہوئے ہیں

ایک دوسرا شعر ہے

اسی پر خوش ہیں کہ اک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں

ابھی تنہائی کا مطلب نہیں سمجھے ہیں گھر والے

منچندہ بانی کا شعر ہے

کوئی بھی گھر میں سمجھتا تھا نہ تھا مرے دکھ کو

اک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا

 آزادی کے بعد قتل و خوں اور تباہی و بربادی کی جو داستان رقم ہوئی اس نے گھرکو ایک نئی صورت عطا کی۔گھر ایک پناہ گاہ اور مسکن کے طورپر تو تھا ہی مگر شعر نے اس کے دیگر پہلوؤں کوبھی شعری پیکر عطا کرنے کی کوشش کی۔اس پورے المیے کو شہپر رسول نے جس طرح ایک شعر میں پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔تقسیم کا جو ظاہری کرب تھا وہ سب پر واضح تھا مگر فن کار نے اسے باطن سے بھی وابستہ کرکے ایک نئی صورت پیداکردی۔بے بسی و بے گھری کی نہ جانے کتنی داستانیں ان دومصرعوں میں شامل کردی گئیں۔

مجھے بھی لمحہ ہجرت نے کردیا تقسیم

نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

سیاسی اور معاشرتی حوالوں سے اور کسی قدر آزادی کے تناظر میں بہت کچھ کہا گیا۔نظمیں کہی گئیں مگر یہ شعر اپنی مثال آپ ہے۔اسے غزل کا جادو بھی کہا جاسکتا ہے۔سیاسی اور سماجی ہنگاموں میں گھر کا بیانیہ تبدیل بھی ہوتا ہے اور اس کے بعض دوسرے پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔

تمام شہر کو مسمار کررہی تھی ہوا

میں دیکھتا ہوں وہ محفوظ کس مکان میں ہے

بانی

کردار قتل کرنے لگے لوگ یوں کہ ہم

اپنے ہی گھر میں بیٹھ کے آوارہ ہوگئے

شمس الرحمن فاروقی

آزادی کے بعد فسادات اور گھروں کی تباہی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ کسی نہ کسی صورت میں اب تک جاری ہے۔یہ مہذب دنیا کا ایک المیہ ہے کہ اس کے یہاں اب بھی انسانی بستیوں کو جلانے اور راکھ کرنے کی کوئی نہ کوئی صورت باقی ہے۔یہ اس عہد کا بڑا المیہ ہے۔ایک سماجی زندگی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔صورت کوئی بھی ہو مگر تعمیر میں خرابی کی صورت نمایاں ہے۔فسادات کے زمانے میں بعض اشعار بہت مشہور ہوئے تھے۔بشیر بدر کا شعر مشہور زمانہ ہوا.

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

انھوں نے یہ بھی کہا تھا-

بے وقت اگر جاؤں تو سب چونک پڑیں گے

اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا

عرفان صدیقی نے اس صورت حال کو اپنی فنی چابک دستی کے ساتھ کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔دکھ ان کا بھی وہی ہے مگر انھوں نے بستی کی متضاد صورت صحرا اور وحشت سے کیا خوب مضمون پیدا کیا ہے۔

وہ جو ایک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا

میری بستی کسی صحرا میں بسا دی گئی کیا

گھر دراصل انسان کے خوابوں کا آئینہ ہوتا ہے۔وہ بہت محنت،توجہ اور بے شمار ارمانوں اور آرزوں سے اسے تعمیر کرتا ہے۔اور اسے اپنے لیے وجہ امتیاز تصور کرتا ہے۔ایسی صورت میں اگر کچھ اس کے خلاف ہوجائے تواسے اپنی زندگی بھر کی بے بسی دردی سے تعبیر کرتا ہے۔اسے کی توجہ اور محنت کا انداہ شہر یار کے ان شعرو ں میں ہے۔ان اشعار کو پڑھ کر یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ گھر کا مضمون شہر یار صاحب کے ذہن پر کچھ زیادہ ہی سوار تھا شاید اسی لیے اسے کئی پہلوؤں سے باندھنے کی کوشش کی ہے-

گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہوسکتی ہے

اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے

 

گھر کی تعمیر تصور میں بھی ناممکن ہے

دل نے نقشہ ہی بنا رکھا ہے گھر کا ایسا

 

گھر کی تعمیر حقیقت میں نہیں ہوسکتی

تو چلو اس کو تصور ہی میں تعمیر کریں

ان دنوں تعمیر کی صورت میں جو خرابی در آئی ہے اس نے گھر کے تصور کو تعمیر سے کہیں زیادہ اس کی مسماری کامنظرنامہ پیش کیا ہے۔بہت پہلے مصطفی زیدی نے کہا تھا

انھیں پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ دنوں بعد یہ کہنے کے لیے بھی نہیں رہ جائے گا۔کیونکہ طاقت ور قومیں کمزورقوموں اور ملکوں کو تباہ کرنے کے درپے رہتی ہیں۔اس کے لیے مختلف حیلے اور حوالے اختیار کیے جاتے ہیں۔تجارت و معیشت کے ذریعے بھی ملکوں اور قوموں کو غلام بنانے اور ان کی شناخت ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔علامہ اقبال نے اپنی بعض نظموں میں اس طرف اشاریے کیے ہیں۔مثلاً

اقوام جہاں میں ہے رقابت تواسی سے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تواسی سے

احمد محفوظ نے گھر کے مضمون کو بڑی خوبی سے برتا ہے۔شہر کا نقشہ بدلنا اور پھر اپنے گھر کو دیکھنے کے لیے جانا طنزبھی ایک نئی صورت ہے۔بہت بلیغ اشارہ ہے۔

سنا ہے شہر کا نقشہ بدل گیا محفوظ

تو چل کے ہم بھی ذرا اپنے گھر کو دیکھتے ہیں