کتابوں کی خوشبو

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 05-02-2025
کتابوں کی خوشبو
کتابوں کی خوشبو

 

  ڈاکٹر عمیر منظر

 شعبہ اردو

مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ

کتاب میلہ دراصل کتاب سے محبت اور شوق کی ایک روشن علامت ہے۔ دلی کا عالمی کتاب میلہ اپنی ایک الگ ہی شان رکھتا ہے۔کتابوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس دن کا انتظار رہتا ہے۔دنیا کے گوشے گوشے سے ناشرین اس میلے میں شامل ہوتے ہیں ۔یہ میلہ ہندستان کی ثقافت کے جشن کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے۔عالمی کتاب میلہ نئی دہلی کے پرگتی میدان میں منعقد ہوتا ہے۔پہلا کتاب میلہ 18 مارچ سے 4 اپریل 1972 تک منعقد ہوا تھا، جو تقریباً 6790 مربع میٹر رقبے پر 200 شرکاء کے ساتھ تھا۔ اس کا افتتاح اس وقت کے صدرِ جمہوریہ ہند وی وی گیری نے کیا تھا۔کتاب میلہ پہلے ہر دوسال میں نیشنل بک ٹرسٹ (NBT)کے زیر اہتمام منعقد ہوتا تھا۔2013 سے نئی دہلی عالمی کتاب میلہ نیشنل بک ٹرسٹ (NBT) کی جانب سے ہندوستان ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن (ITPO) کے اشتراک سے ہر سال پرگتی میدان، نئی دہلی میں منعقد کیا جاتا ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ نیشنل بک ٹرسٹ ملکی خواندگی کی پالیسیوں کو فروغ دیتا ہے۔اس کا ایک ذیلی ادارہ نیشنل سینٹر فار چلڈرنز لٹریچر (NCCL)، اس موقع پر بچوں کے ادب کو فروغ دینے کے لیے بچوں کے پویلین میں مختلف سرگرمیاں منعقد کرتا ہے اور قومی 'ریڈرز کلب' تحریک کی بھی حمایت کرتا ہے۔کتاب میلے کی ایک خاص بات یہ بھی رہتی ہے کہ اس میں ہر برس نہ کسی ملک کو مہمان ملک کا درجہ دیا جاتا ہے۔اس سے قبل مختلف مواقع پر فرانس،پولینڈ،سنگاپور،چین اور شارجہ کو کتاب ملے میں مہمان ملک کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ میلے کا ایک مرکزی عنوان بھی ہوتا ہے۔اس سے قبل ”بچوں کے ادب کا جشن“،”ماحولیاتی مسائل“،خصوصی ضروریات والے قارئین کے لیے کتابیں“جیسے مرکزی موضوعات رکھے جاچکے ہیں۔  کورونا وائرس کے وبائی مرض کی وجہ سے 2020 کا کتاب میلہ ورچوئل فارمیٹ میں  30–31 اکتوبر 2020 کو منعقد ہوا تھا۔2025 کتاب میلے کا تھیم ہے”ہم ہندستان کے لوگ“۔خیال ہے کہ یہ ہندستانی آئین کی 75ویں سالگرہ کو فروغ دے گااور اس  کے توسط سے یہاں کی تہذیب اور ثقافت کا جشن منایا جائے گا۔نوجوانوں کے لیے اس میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوگا۔اندازہ ہے کہ 1000سے زائد مصنفین اور اسپیکر کی شریک ہوں گے۔امید ہے کہ 600سے زائد ادبی پروگرام اور 200 سے زیادہ ثقافتی تقریبات منعقد ہوں گی۔اس اہتمام سے یقینا لکھاریوں کو خوشی اور مسرت کی ایک نئی دنیا ملے گی۔اور وہ ایک نئے عزم کے ساتھ تصنیف و تالیف کی دنیا میں قدم رکھیں گے۔

دلی والوں کے لیے یہ دن تو خاص اہمیت کا حامل ہوتا تھا۔میلے میں کتابوں کی رسم رونمائی سے لے کر مختلف موضوعات پر مباحثہ اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے مختلف طرح طرح کے پروگرام اس میلے کی اہمیت اور افادیت کو دو چند کرتے ہیں۔ادب،صحافت،فلم اور دیگر علاقائی کلچر مباحثہ کا موضوع ہوتے ہیں۔ رسالے اور اخبارات خصوصی ضمیمے اور فیچر شائع کرتے ہیں ایک عجب گہما گہمی کا عالم ہوتا ہے۔اس کے بہت سے پروگراموں کا حصہ بننے کا موقع مجھے بھی ملا ہے۔بہت پہلے کتاب میلے میں ایک الگ نوعیت کے مشاعرہ کا ڈ ول ڈالا گیا تھا جس کی صدارت مرحوم زبیر رضوی نے فرمائی تھی۔ نظامت کے لیے مجھے لکھنؤ سے مدعو کیا گیا تھا۔اس میلے سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہم طلبہ کا ایک گروپ ہوتاتھا جسے اس دن کا انتظار رہتا۔کتابیں خریدی جاتیں کبھی کبھی خریداری کے بجائے پورا دن مختلف اسٹالوں پر کتابیں دیکھنے میں گذر جاتا۔رنگ برنگی کتابیں اور بے شمار موضوعات جس میں کہ علم وادب کے علاوہ نہ جانے کتنے موضوعات ہوتے ہیں اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں۔بہت سے ممتاز شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات کابھی یہاں موقع ملتا۔وہ بھی کیا لطف کے دن تھے۔کتاب میلے کا فائدہ اٹھا کر پر بہت سے اداروں کے ذمہ داران خاص طورپر یہاں کتابیں خریدنے آتے تھے۔جامعۃ الفلاح (بلریا گنج اعظم گڑھ)میں لائبریری کا بہتر نظم ہے اور اس کے لیے باقاعدہ کتابیں بھی خریدی جاتی ہیں۔سنہ تو یاد نہیں شاید 2000ء سے پہلے کسی کتاب میلے میں ڈاکٹر خلیل احمد(مرحوم) جو کہ اس وقت مدرسہ کے ناظم ہوتے تھے وہ تشریف لائے اور غالباً دو روز تک انھوں نے میلے میں کتابوں کا جائزہ لیا اور مختلف ہال میں جاجاکر کتابوں کے اسٹال دیکھے۔اپنی پسندیدی کا اظہار کیا۔کچھ ذاتی کتابیں بھی خریدیں اورپھر لائبریری کے لیے کتابیں خریدی گئیں۔اس زمانے میں پاکستان کے متعدد اسٹال ہوتے تھے۔ اردو حلقو ں میں ان کی کتابیں خریدنے کا زیادہ اشتیاق رہتا تھا۔اس میلے میں ایک کتاب ’وثائق مودودی‘ تھی جسے ڈاکٹر صاحب نے خریدا تھا۔یہ کتاب مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی مختلف تحریروں کا مجموعہ ہے۔اس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مضامین مولانا کے حسن تحریر کا بھی نمونہ ہیں۔ یعنی مولانا کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریوں کو جمع کرکے شائع کردیا گیاہے۔اس کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض مختلف فیہ الفاظ کا املا وہ کیسے لکھتے تھے۔لفظ ”لیے“ہمزہ اور ی دونوں سے لکھنے کا رواج ہے لیکن وثائق مودودی سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ہمیشہ’ی‘ سے لکھتے تھے۔

کتابوں کی خریداری ایک اہم مشغلہ رہا ہے۔عالمی کتاب میلے کے دوران میں اس مشغلہ کوجیسے مہمیز مل جاتی تھی۔نادر و نایاب اور اہم کتابوں کے ساتھ ساتھ نصابی کتابیں ضرور اس موقع پر خریدتے۔ عہد ساز رسالہ نقوش کا’منٹو نمبر‘جسے ادارہ فروغ اردو لاہور نے شائع کیا تھاتقریباً نایاب تھا۔حالانکہ اس کے حوالے بہت ملتے تھے۔فروری 2004کے کتاب میلے میں یہ خصوصی نمبر 200روپے میں حاصل کیا گیا جبکہ اس کی قیمت 100روپے تھی۔اسی طرح نورالحسن ہاشمی کی مرتبہ کلیات ولی بھی اسی میلے کی یادگار ہے۔دیوان غالب کی ایک شرح پاکستان کے کسی اسٹال سے خریدی گئی تھی۔اس کی چھپائی تو بہت اچھی نہیں تھی لیکن اس شرح کے ابتدائی صفحات میں غالب کی سوانح،شعری خصوصیات کے علاوہ اُن کتابوں کی فہرست دی گئی تھی جن کے نام غالب کے اشعار کی مختلف تراکیب سے مستعار تھے۔فاضل مصنف نے کتاب کا نام شعر، اور مصنف سب کا اہتمام کیا ہے۔ کتاب میلے سے ہی شمس الرحمن فاروقی کی مشہور زمانہ کتاب ”شعرشور انگیز“کی خریداری کاموقع ملا۔شاید یہ 1998کی بات ہوگی۔

کتاب میلہ دراصل قاری کے ذوق وشوق کی علامت ہے۔اور اس کا خاصا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔بہت سے ادارے اس کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ ہندستان کی حیثیت ایک کتاب اور علم دوست ملک کی رہی ہے۔یہاں اس کی قدیم روایت رہی ہے۔ہندستان ٹائمز کولکتہ کے نامہ نگار ٹنمے چٹرجی کی ایک رپورٹ (24 فروری 2018)کے مطابق ہندستان میں پہلا کتاب میلہ 1918میں لگایا گیا تھا۔ان کے مطابق ”1918 میں کالج اسٹریٹ، بنگال کی تعلیمی اور اشاعتی صنعت کے مرکز میں ہونے والی نمائش ہندوستان کا پہلا کتاب میلہ تھا، اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا میلہ تھا۔ تاریخ کے صفحات میں طویل عرصے تک گم رہنے کے بعد، شہر میں ہونے والی پہلی کتاب نمائش جس کی نگرانی رابندر ناتھ ٹیگور، لالہ لاجپت رائے، گورو داس بنرجی، بیپن چندر پال، ستیش مکھیری (ڈان سوسائٹی کے بانی)، ڈاکٹر نیل رتن سرکار، رشبیہری گھوش، چتّرنجن داس، اور ارووندو گھوش سمیت متعدد عظیم ہستیوں نے کی تھی، 100 سال بعد دوبارہ زندہ ہو گئی ہے۔“

یہ بات تو ہمیں معلوم ہے کہ ہر برس عالمی یوم کتاب 23،اپریل کو منایا جاتا ہے۔ کتاب اور قاری کے رشتے کو مضبوط کرنے کا یہ بھی ایک اہم ذریعہ ہے اسی سے لوگوں میں کتاب سے دلچسپی نہ صرف برقرار رہتی ہے بلکہ اس کے توسط سے کتب بینی کے شوق کو فروغ دیا جاتا ہے۔اسی فروغ کا ایک اہم ذریعہ کتاب میلہ بھی ہے۔