ڈاکٹر عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
اردو شعر وادب سے معمولی دلچسپی رکھنے والا بھی شمیم کرہانی(۳۱۹۱۔۵۷۹۱) عرف سید شمس الدین حیدر کو فراموش نہیں کرسکتا۔انھوں نے سرگرم ادبی زندگی گزاری۔نظم ہو یا غزل دونوں اصناف سخن میں فن کاری کے جلوے دکھائے۔ان کی غزلوں کی دروں بینی اور نظموں کا توانا بیانیہ لہجہ اگرچہ آج روایتی تصور کیا جائے گا مگر اک زمانہ تھاجب ان کے بعض اشعار ز بان زد خاص و عام تھے۔اور انھیں بڑے شوق سے سنا اور پڑھا جاتاتھا۔
یاد ماضی غم امروز امید فردا
کتنے سائے مرے ہمراہ چلا کرتے ہیں
شوق پینے کا ایسا زیادہ نہ تھا ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہ تھا
پر گھٹاؤں نے کچھ اٹھ کے بہکادیا،کچھ طبیعت بھی کم بخت للچا گئی
شمیم کرہانی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور یہی ان کے مزاج کا حصہ بھی ہے۔انھوں نے غزلوں کے ساتھ ساتھ خاصی تعداد میں نظمیں کہی ہیں۔ان کی عشقیہ نظمیں ہوں یا ہنگامی حالات کی ترجمانی کرنے والی نظمیں یا وہ جو شخصی حوالوں کے تعارف کے طور پر لکھی گئیں ہر جگہ شمیم کرہانی کی موضوع سے حد درجہ وابستگی عیاں ہے۔اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ شمیم کرہانی کی نظمیں موضوعاتی اعتبار سے ہی تنوع کی حامل نہیں ہیں بلکہ ہیتی اعتبار سے بھی فنی دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔شمیم کرہانی کی جملہ شاعری کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انھوں نے آزاد اورمعرا نظموں کے ساتھ ساتھ مختصر نظموں کے علاوہ تین طویل نظمیں (جان برادر،صبح فاراں،ذوالفقار)مسدس کی ہیئت میں کہیں۔قطعات اوررباعیات اس کے علاوہ ہیں۔
شمیم کرہانی کی نظمیہ شاعری کے متعدد پہلو ہیں لیکن ان کی نظموں کا ایک اہم حصہ شخصیاتی نظموں پر مشتمل ہے۔ان میں شعرا و ادبا کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما بھی شامل ہیں۔ان نظموں میں شمیم کرہانی کا بیانیہ اسلوب قابل داد ہے۔فنکار نے جس شخصیت کو موضوع بنایا ہے،کوشش کی ہے کہ اس کی پوری صورت گری کی جائے۔ادیبوں خصوصاً شاعروں پر نظمیں لکھتے وقت شمیم کرہانی نے ان کے انداز و اسلوب کو بہت سلیقے کے ساتھ نظم کا حصہ بنایا ہے۔ان شخصیات میں میر و غالب سے لے کر مہاتمام گاندھی اور مولانا ابو الکلام آزاد تک سب شامل ہیں۔ان شخصیاتی نظموں میں شمیم کرہانی نے گاندھی جی کے سلسلے میں جو نظم لکھی اسے غیر معمولی شہرت ملی اور اس کا یہ مصرعہ”جگاؤ نہ باپو کو نیند آگئی ہے“زبان زد خاص و عام ہے۔اس نظم میں شمیم کرہانی نے گاندھی جی کی شخصیت اورسیرت کا جو خاکہ کھینچا ہے وہ شمیم کرہانی کا ہی حصہ ہے۔
وہ حق کے لیے تن کے اڑجانے والا
نشاں کی طرح رن میں گڑ جانے والا
نہتا حکومت سے لڑجانے والا
بسانے کی دھن میں اجڑجانے والا
بنا ظلم کی جس سے تھرا گئی ہے
جگاؤ نے باپو کو نیند آگئی ہے
مہاتما گاندھی نے آزادیِ وطن کے لیے اہل وطن کوجو راہ دکھائی تھی اور جس طرح اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ایک ایسے دور میں جب کہ ظلم اور تشدد عام بات تھی۔برطانوی سامراج نے نہیں معلوم کتنے لاکھ ہندستانیوں کو یہ بتائے بغیر کہ ان کی غلطی کیا ہے موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس عہد میں جینا خود ایک جرم تھا ایسے ماحول میں گاندھی جی نے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا اور ایک طرح سے انسانیت کے احترام کا سبق دیا۔آج نہ سہی مگر اس وقت جس طرح گاندھی جی کی اس بات پر لوگوں نے دیوانہ وار لبیک کہا اور اس پر عمل کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عام ہندستانی برطانوی سامراج سے کس قدر شدید نفرت کرتا تھا۔
غلاموں کو جس نے بغاوت سکھائی
نئی سرفروشی کی جرأت سکھائی
سلیقے سے مرنے کی حکمت سکھائی
محبت کی طرز شہادت سکھائی
اہنسا تشدد سے ٹکرا گئی ہے
جگاؤ نہ باپو کو نیند آگئی ہے
مرزا غالب اور میر تقی میر سے متعلق شمیم کرہانی کی نظمیں صرف خراج عقیدت کے تناظر میں نہیں دیکھی جاسکتیں،بلکہ ان کی فکر وفن اور بعض خاندانی حالات کو انہیں کے انداز واسلوب میں ادا کیا گیا ہے۔میر کے سوانحی حالات اب بھی آب حیات کے نقطہئ نظر سے ہی پڑھے جاتے ہیں۔نیز میر کی عشقیہ شاعری کا وہ حصہ جہاں غزل کا روایتی عاشق اپنے دامن میں محرومیوں اور نامرادیوں کی ایک پوری کائنات سمیٹے ہوئے ہے۔غزل کے کم سواد قاریوں نے اسے بھی میر کی سوانح کا حصہ بنا دیا۔حیرت تو اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب میر کا ایک خالص غزلیہ شعر
میر کے دین ومذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
بھی میر کی سوانح کا حصہ ہو جاتا ہے۔شمیم کرہانی نے میر سے متعلق اپنی نظم ’بے ستون و کوہکن‘کو جس طرح پیش کیا ہے وہ ان کے فن اور فنی دسترس کی ہی غماز نہیں بلکہ شاعری سے متعلق پائے جانے والے بعض مفروضات کوکالعدم بھی قرار دیتے ہیں۔نظم کے مطالعہ سے کہیں کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ شمیم کرہانی اسی عام رویے کی نشاندہی کرتے ہیں مگر بہ نظر غائر مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے میر تقی میر کے غزلیہ اشعار کو صرف اپنی نظم کا حصہ نہیں بنایا بلکہ شاعر کی روح کو بھی سمونے کی کوشش کی۔
تھاتو شاعر وہ گوشہ گیر مگر
اس نے روئے زمیں تمام لیا
عشق میں کی بسر سلیقے سے
اپنی ناکامیوں سے کام لیا
یا یہ شعر
اس کے اشعار ہی بتاتے ہیں
دل نے الفت میں چوٹ کھائی ہے
مرگیا فقر و فاقہ میں سرمست
کیا دوانے نے موت پائی ہے
مزار غالب کے سامنے بیٹھ کر مرزا غالب سے متعلق شمیم کرہانی کی نظم بھی اسی رویے کی غماز ہے۔
ہے اسی قبر میں گنجینۂ معنی کا طلسم
جنس حکمت کا خریدار اسی خاک میں ہے
ہے یہیں دفن حریف مے مرد افگن عشق
بادہ غم کا قدح خوار اسی خاک میں ہے
معنی و ہیئت و اسلوب کا سرخیل سپاہ
فکر کا قافلہ سالار اسی خاک میں ہے
جس کی رعنائی افکار پہ عالم کوہے رشک
ایشیا!وہ ترا فنکار اسی خاک میں ہے
ان اشعار کے مطالعہ سے شمیم کرہانی کی شعری دسترس کا خاطر خواہ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ خود شعر کہنا اور اپنے انداز و اسلوب سے پڑھنے والوں کو متاثر کرنا ایک الگ معاملہ ہے لیکن کسی بڑے فنکار کے انداز و اسلوب کو اپنے شعری اظہار کا حصہ بنانا آسان نہیں ہے۔غالب سے متعلق اس نظم کو اردو کا معمولی قاری بھی یہ بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
اسی تناظر میں ”خضر حیات“نامی نظم کابھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے جو کہ مولانا ابو الکلام آزاد پر لکھی گئی ہے۔مولانا آزاد کی پروقار شخصیت، پرشکوہ انداز و اسلوب اور ان کے افکار و نظریات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ متحرک پیکر کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔نظم میں شمیم کرہانی نے ابو الکلام آزاد کودنیائے انقلاب کا پرودگارکہا ہے۔نظم خضر حیات کے یہ دو بند ملاحظہ فرمائیں
دانش میں طاق فن میں یگانہ تھی جس کی ذات
اک روزگار نو کا ترانہ تھی جس کی ذات
عہد آفریں جنوں کا فسانہ تھی جس کی ذات
دنیا تھی جس کی ذات زمانہ تھی جس کی ذات
بیتاب ایک دل میں جہاں کی حیات تھی
ذات ابوالکلام تھی یا کائنات تھی
نقاد بھی مصنف جادونگار بھی
قرآن کا مفسر حکمت شعار بھی
مسند نشیں مجاہد باطل شکار بھی
دنیائے انقلاب کا پروردگار بھی
اتنے تضاد اوراک انساں کی ذات میں
ملتے ہیں ایسے لوگ کہاں کائنات میں
شمیم کرہانی کی شخصی نظموں میں ایک اہم نظم ”پرچم ظفر“کے عنوان سے ہے۔یہ نظم بہادر شاہ ظفر کی صد سالہ برسی کے موقع پر لکھی گئی ہے۔یہاں بھی شمیم کرہانی کا وہی انداز واسلوب ہے جس کا اس سے پہلے ذکر کیا جاچکا ہے۔اس نظم کا ایک بند ملاحظ ہو۔
وہ کاروان عشق و محبت کا سربراہ
وہ صلح کل وہ ہندوو مسلم کا خیر خواہ
وہ شاہ قصر سرخ وہ درویش خانقاہ
وہ سرزمین ہند کا بے تاج بادشاہ
گلشن اجاڑ ہوگیا فصل بہار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
شمیم کرہانی نے سورداس پر ایک منظوم فیچر بھی لکھا تھا۔یہ منظوم فیچر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شمیم کرہانی ہندستان کے دیگر تہذیبی،مذہبی اور ثقافتی سرچشموں سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ہندستان جیسے کثیر لسانی اور مذہبی ملک میں یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے یہاں کے عام مزاج اور اس ذہنی رویے کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے جس کو نظر اندازاکرکے ملک کے ثقافتی اور تہذیبی ورثے کی نمائندہ نہیں کی جاسکتی۔
شمیم کرہانی اپنے عہد کے دیگر فنکاروں کی طرح کہ جنھوں نے انسانی عظمت کو تاراج ہوتے دیکھا تھا چاہتے تھے کہ انسانیت ایک بار پھر اپنی عظمت کا سراغ حاصل کرکے۔یہاں فن کار معراج انسانیت کا خواہاں اور متلاشی ہے۔میر وغالب جیسے عظیم فنکاروں کے ساتھ ساتھ مہماتما گاندھی اور مولاا ٓزاد کا ذکردراصل اسی انسانی عظمت کی یاد دہانی ہے۔فنکار کے پاس تہذیبی ورثے اور انسانی عظمتیں ہی کل میراث ہوتی ہیں۔مولانا آزاد اور مہاتما گاندھی برطانوی استعمار سے آزادی کی جس تحریک کو سرگرم کیا اور اس کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیااس میں کسی کو صرف اقتدار سے بے دخل ہی نہیں کرنا تھا بلکہ یہاں ایک ایسی فضا بھی مہیا کرانی تھی جس میں انسان اپنے وجود کی مکمل آزادی کے ساتھ جی سکے۔اپنی خواہوں اور امنگوں کا اظہار کرسکے۔شمیم کرہانی نے ان افراد پر جو نظمیں لکھیں ہیں اس کے بین السطور میں یہ سب کچھ شامل ہے۔ان کی ایک مختصر نظم”خواجہ غلام السیدین“ہے۔آزاد ہندستان میں علم و دانش کی روایت کو جن لوگوں نے فروغ دیا ان میں خواجہ صاحب کانام بھی شامل ہے۔انھوں نے گاندھی جی پر انگریزی میں ایک کتاب تحریر کی تھی جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر نجم السحرثاقب نے ”عصر حاضر میں گاندھی جی کی معنویت“کے نام سے کیا ہے۔یہ کتاب پبلی کیشنز ڈویژن نے شائع کی ہے۔نظم کا یہ بند ملاحظہ فرمائیں
تری ہستی کو مشیت نے عطا کرکے ہمیں
دل ظلمت میں تمنائے ضیا رکھی ہے
جہل کے جادہ تاریک سے بچنے کے لیے
وقت نے علم کی اک شمع جلا رکھی ہے
اس مختصرمطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شمیم کرہانی وسیع المطالعہ اور مختلف النوع ثقافتوں سے واقفیت رکھنے والے فن کار تھے۔ وہ ادبی و سیاسی افکار اور تاریخ کو شعر میں پرونے پر قادر تھے۔اردو کی نظمیہ شاعری میں شخصیاتی نظموں کا حوالہ کوئی نیا نہیں ہے۔بہت سے شعرانے یہ تجربہ کیا ہے۔البتہ شمیم کرہانی کی ان شخصیاتی نظموں میں متعلقہ شخصیت چلتی پھرتی دکھائی دینے لگتی ہے۔ان شخصیات کے بنیادی اوصاف کو انھوں نے نظم کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔ان نظموں کے مطالعہ سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ شمیم کرہانی کی مردم شناسی انسانی عظمتوں کے نقیب کے طور پرجانی جائے گی۔اسے محض ان کے طرہ امتیاز کے طورپر نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اردوکی نظمیہ شاعری کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ وہ انسانی عظمتوں کی نقیب بن گئی ہیں۔