عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی۔لکھنؤ کیمپس
آج سے تقریباً چار دہائی پیشتر اعظم گڑھ اور اس کے اطراف میں مشاعروں کی دھوم تھی،ان مشاعروں میں عمر قریشی(1924۔2010)،پروفیسرملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کی نظامت کے جلوے دیکھنے کو ملتے۔انھی مشاعروں میں رازالہ آبادی،خورشید افسر بسوانی،ساغر اعظمی،کیفی اعظمی،حفیظ میرٹھی،ڈاکٹر تابش مہدی،حق کان پوری،والی آسی،معراج فیض آبادی،ماجد دیوبندی،حامد بہرائچی،قیوم ناشاد،انجم رہبر،صبیحہ سنبل،ڈاکٹر آفاق فاخری اور دیگر شعرا کو پہلے پہل سننے کا موقع ملا۔یہ ایک عجیب وغریب زمانہ تھا۔تفریح اور تہذیب دونوں کے سلسلے مشاعروں سے جاکر مل گئے تھے اور شاید اسی وجہ سے مشاعرہ سنناجیسے ایک نشہ تھا اور اس کا کلائمکس عمر قریشی کی نظامت ہوا کرتی تھی۔
عمر قریشی کی حاضر جوابی،دل پر چوٹ کرنے والے اشعار، سامعین کے جملوں کابرمحل اور فی الفور جواب کہ پورا پنڈال کشت زعفران بن جاتا تھا،اسی وجہ سے عمر قریشی کی نظامت خاص طور پر پسند کی جاتی تھی۔وہ عوام کے جذب و شوق کو ایک خاص رخ دینا جانتے تھے۔ عمر قریشی کی نظامت کا یہ عجب ہنر تھا کہ وہ جس طرف چاہتے سامعین کا رخ موڑ دیتے۔اور کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔مشاعروں میں اس وقت تالی بجوانے کا سلسلہ شروع نہیں ہواتھا۔ایک دو شاعروں کے علاوہ داد مانگنے والے بھی نہیں تھے۔نظامت کا فن بھی اس سطح تک نہیں پہنچا تھا۔ادب وآداب کی بہت سی روایتیں زندہ تھیں اوربہت حد تک مشاعروں میں ایک ادبی فضا کا زور تھا۔صارفیت نے ابھی مشاعروں کو آلودہ نہیں کیا تھا۔اعظم گڑھ کے بیشتر گاؤں،دیہات اور قصبات مشاعروں کی آماجگاہ تھے۔ان مشاعروں میں ایک کلیدی حیثیت بہر حال عمر قریشی کے انداز تعارف کو حاصل تھی۔قرب و جواب کے بیشتر مشاعروں میں نظامت بالعموم انھیں کے ذمے ہوتی تھی۔
مشاعروں کے اسٹیج پر کرسی کا چلن نہیں تھا اور ناظم مشاعرہ باضابطہ کھڑے ہوکر شعرا کا تعارف کراتے اور پھرکلام پڑھنے کے لیے مدعو کرتے تھے۔مبارک پورکے ایک مشاعرہ میں جمیل خیر آبادی کلام پڑھ رہے تھے ان کے جاتے ہی فوراًعمر قریشی مائک پر پہنچ گئے۔کچھ خیال نہیں کیا۔ مائک جمیل خیر آبادی کے قد کے برابر تھا عمر قریشی جیسے ہی مائک پر پہنچے انھیں یہ احساس ہوگیا کہ جلد بازی میں غلطی توہوگئی مگر قبل اس کے کہ وہ کوئی فیصلہ کرتے کہ اسی لمحے ایک جملہ صف سامعین سے آتا ہے.....اسٹول لگالیں۔مائک قد کے برابر ہوتے ہی عمر صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ایک شعر پڑھ کر پوری فضا کو اپنے حق میں کرلیا۔
مرے خدا مرے جذبوں کو لب کشا کردے
مری غزل کو مرے وقت کی صدا کردے
ہمارے بچوں کو پستہ قدی کا ہے احساس
ہماری نسلوں کے قد کو ذرا بڑا کردے
سامعین نے نہ صرف اس شعرکا لطف لیا بلکہ عمر قریشی جواب پر داد و تحسین سے پورا پنڈال گونج اٹھا۔ایک مشاعرہ میں کسی شاعر سے سامعین کی طرف سے گیت کی فرمائش کی گئی بلکہ اس میں کسی قدر اصرار بھی شامل تھا بس کیا تھا عمر صاحب نے مائک پر آتے ہی غزل کی تعریف، اس کے پس منظر اور دیگر فنی رموز پر چند منٹ کی جادو بھری گفتگو کی۔غزل کی ایمائیت اور رمزیت پر فی البدیہہ شعر اس طرح پڑھا کہ لوگ بھول ہی گئے کہ ہماری کیا فرمائش تھی۔عمر قریشی کی گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ انھوں نے اس موقع پر یہاں تک کہا کہ ہم سونا لائے تھے اور ہم سے مٹی مانگی جارہی ہے۔آخر میں قیوم ناشاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم وہاں تک پہنچیں گے تو بتائیں گے کہ گیت کا فن کار کیسا ہوتا ہے۔اور گیت کہتے کسے ہیں۔ اس مشاعرہ میں قیوم ناشاد نے مختلف گیتوں سے سامعین کی بھر پور تواضع کی۔اس موقع پر انھوں نے اپنا مشہور گیت ’لاحول ولاقوۃ اور ’کاہے کو دبوتی ہے‘اپنے مخصوص ترنم میں پیش کیا۔
پھریہا اعظم گڑھ کے ایک مشاعرہ میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب بھی بطور شاعرمدعو تھے۔مشاعرہ میں ایک وقت ایسا آگیا جب جناب عمر قریشی اور پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے ایک ایک مائک سنبھال لیا تو بہت دیر تو دونوں طرف سے گل افشانی گفتار کا سلسلہ جاری رہا۔عمر قریشی بہت احترام کے ساتھ ملک زادہ منظور احمد کا نام بہت احترام سے لیتے تھے اوران کے تعارف میں دانشور اور اردو کامجاہد ضرور کہتے تھے۔اس زمانے میں دانشور کالفظ اتنا عام نہیں ہوا تھا۔کیسے کیسے لوگ تھے اوروہ بھی کیا دن تھے۔پھریہا کا یہی مشاعرہ تھا جہاں غالباً پہلی بار عمر قریشی کو مشاعرہ میں غزل پڑھتے ہوئے سننے کا موقع ملا۔غزل پڑھنے سے پہلے کہنے لگے کہ اس غزل میں کوئی خوبی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس میں قافیہ مکرر استعمال ہوا ہے۔ غزل نہ صرف لوگوں نے پسند کی بلکہ عمر قریشی اپنے مخصوص اندازکی وجہ سے اس میں بھی نہ صرف کام یاب ہوئے بلکہ مشاعروں کی اصطلاح میں اگر کہا جائے تو ”ایک شاعر کے طو رپر وہ چھا گئے“۔چند شعر یاد آرہے ہیں
نگاہ شوق سے بچ کر کہاں کہاں جاتے
ہمیں بھی ساتھ تم پاتے جہاں جہاں جاتے
بھلا ہوا جو تجھے دل میں پالیا ورنہ
گلی گلی تری خاطر مکاں مکاں جاتے
اس مشاعرہ میں پہلی بار سلیم احمد (اعظم گڑھ)کو کلام پڑھتے ہوئے سنا۔سلیم احمد بنیادی طور پر ایک تاجر ہیں۔شبلی کالج کے تعلیم یافتہ اور اعظم گڑھ کی ادبی و تہذبی زندگی کے سرگرم رکن۔ ایک زمانے تک اعظم گڑھ اور اطراف کے مشاعروں کے لیے ایک ناگزیر فرد کی حیثیت رکھتے تھے۔مشاعروں کی نظامت کا سلیقہ بھی انھیں خوب آتا ہے مگرتعلیمی مرحلے کی تکمیل کے بعد کاروبار نے کسی شوق کے سر اٹھانے کاموقع ہی نہیں دیا۔گنڈے دار نمازیوں کی طرح مشاعروں کا حصہ بنتے رہے مگر جیسے جیسے کاروبار کی مصروفیت بڑھتی گئی مشاعروں سے دور ہوتے چلے گئے۔شعرا کی وہ نسل بھی اب باقی نہیں رہی جن سے سلیم احمد کا تعلق تھا اور جو تعلق نبھاناجانتے تھے۔ اب وہ مشاعروں کی سیاست اور ہنگاموں سے بہت دور ہیں۔پھریہا کے جس مشاعرہ کا ذکر چل رہا ہے اس وقت مشاعروں کے بیشتر شعرا سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔اس مشاعرہ کے کنوینرشاید سلیم احمدہی تھے۔اعظم گڑھ کے بہت سے مشاعروں میں ناظم مشاعرہ کے لیے ان کے جملے کبھی کبھی پریشانی کا سبب بن جاتے تھے۔ اس پس منظر میں سلیم احمد کو عمر قریشی نے بڑے مخصوص انداز میں کلام پڑھنے کے لیے دعوت دی۔اور جب ہزاروں کے مجمع میں کام یاب ہوکر واپس آگئے تو عمر قریشی کو کہنا پڑا میں تو آج پوری زندگی کا بدلہ لینا چاہتا تھا مگر فن کار جیت گیا۔سلیم احمدکو ان کے ایک ایک شعر پر بہت داد ملی تھی ؎
مٹا نہ دامن قاتل سے خون کے دھبے
کہیں کہیں تو نشان حیات رہنے دے
عمرقریشی کا انداز تعارف اور مشاعروں کی ابتدائی گفتگو بڑی معرکۃ الارا ہوتی۔ایسا البیلا انداز اور گھن گرج کہ سننے والے پر سحر طاری ہوجائے۔مشاعرہ کے آغاز میں بالعموم عمر قریشی شعرا کا تعارف ان کے علاقوں سے تناظر میں کراتے تھے اور یہ بہت مختصر ہوتا۔اس گفتگو میں وہ سامعین کی اہمیت اور ان کے کردار کو بھی بتاتے اور یہ اکثر کہتے تھے اگر یہ مشاعرہ کام یاب رہا تو پوری دنیا میں مشاعرہ کے ساتھ ساتھ اس جگہ کا بھی نام ہوگا۔آپ لوگوں کی ادب فہمی اور سخن فہمی کو یاد کیا جائے گا۔اعظم گڑھ میں اس زمانے میں وہی مشاعرہ کام یاب مانا جاتا تھا جو اذان فجر تک جاری رہتا۔کسی موقع پر عمر قریشی نے مشاعرہ کے مخصوص ماحول میں یہ شعر پڑھا تھاجو آج بھی ذہن میں محفوظ ہے۔
میں سائنس کے دور کا ہوں مسلماں
قرآن اور سنت کو بھولا ہوا ہوں
موذن سے کہہ دو اذاں بند کردے
میں اک شاعرہ سے غزل سن رہا ہوں
مشاعروں کا اختتام نعت پاک پر ہوتا تھا۔ اختتام پر جس طرح وہ نعت کے لیے کسی شاعر کو زحمت دیتے اور بتاتے کہ اب اذان ہونے والی ہے اس لمحے کو بچا لیجیے ورنہ سب کچھ غارت ہوجائے گا۔شاعر بھی سر پر رومال باندھ کر جب مائک کی طرف بڑھتا تھا تو ایسا لگتا کہ پورے ماحول پر ایک نورانیت طاری ہوگئی ہے۔دراصل ان کی گفتگو کا یہ جادو ہوتا کہ وہ پورے مجمعے کو جدھر چاہتے موڑ دیتے۔حالانکہ کبھی کبھی بعض مشاعرہ بدمزگی کا شکار ہوجاتے تھے لیکن عمر قریشی کی توجہ اور مشاعرہ کو کام یابی سے ہمکنار کرنے والی کوشش لائق رشک ہوتی۔
سنہ تو ٹھیک سے یاد نہیں مگر ۳۹۹۱ کے آس پاس عمر قریشی سے ملاقات کے لیے گورکھ پور گیا۔وہیں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ جس محلے میں رہتے ہیں اس کا نام خونی پورہے۔بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ان دنوں بیمار تھے شاید ہارنیا کا آپریشن ہوا تھا یا ہونے والا تھا۔نحیف وکمزور تھے مگر ان کی شخصیت کا ایک جادو تھا جو وہاں تک مجھے کھینچ کر لے گیا۔بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی ان کا ایک جملہ اب بھی ذہن میں محفوظ ہے کہ ہم اردو کے لیے کچھ نہیں کرسکے۔اپنے محلوں میں نیم پلیٹ اور دکانوں کے بورڈ اردو میں نہیں لکھوا سکے۔اپنی گفتگو میں انھوں نے اس موقع پر زور دے کر کہا تھا کہ اردو چلتی پھرتی نظر آنی چاہیے۔ہمارے ان بزرگوں کو اس کا شدید احساس تھا کہ زبان اگر رواج میں نہیں ہو گی اور جا بجا نظر نہیں ٓآئے گی تواس کی حیثیت کم ہوتی چلی جائے گی۔ان مشاعروں کے تو سط سے شاعری تو سنی جاتی تھی مگر اردو کو عام کرنے اور اسے رواج دینے کے لیے بھی وہ اپنے انداز میں کہتے
مشاعروں کے ابتدائی زمانے کے قصے بھی سنائے کہ کس طرح گاؤں میں پہنچ کر لوگوں کو بتاتے کہ آج یہاں مشاعرہ ہونے والا ہے اور پھر دھیرے دھیرے ایک فضا بنتی گئی جو اس مقام تک پہنچ گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مشاعرہ ایک ادبی سرگرمی سے عبارت تھا مگر بعد میں اس کی حیثیت ادبی سے کہیں زیادہ کاروباری ہوتی چلی گئی۔؎
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے رقص شرر میں عمر قریشی کا ذکر کیا ہے۔ یہ خود نوشت جب ماہنامہ بیسویں صدی میں قسط وار چھپ رہی تھی تو چند قسطوں کے بعد میں نے انھیں ایک خط لکھاکہ کیا اس میں عمر قریشی کا بھی ذکر آئے گا تو ملک زادہ صاحب نے جواب دیا تھا کہ”ان کے ذکر کے بغیر رقص شرر کیسے مکمل ہوگی“۔ان کے متعدد قصے ملک زادہ منظور احمد کی آپ بیتی میں موجود ہیں۔ملک زادہ منظور احمد کے اس خیال سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ عوامی مشاعروں میں عمر قریشی کا ہی جادو چلتا تھا۔البتہ جب بہت پڑھا لکھا مجمع ہوتا تو ان کی گفتگو میں وہ چمک نہیں ہوتی جو کہ اس سے مختلف لوگوں کے درمیان ہوا کرتی تھی۔
غالباً بعد کے دنوں میں کسی موقع پر ڈاکٹر تابش مہدی نے یہ بات بتائی کہ دوران نظامت عمر قریشی بیشتر اشعار اپنے ہی پڑھتے تھے۔مشاعروں کے دوران سنے ہوئے بہت سے اشعار آج بھی حافظے کا حصہ ہیں۔ان کے چار مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ان کا ایک مجموعہ ’شہرصدا‘ہے۔اس کے مطالعہ کے بعد ڈاکٹر تابش مہدی کی رائے سے انکار کی گنجائش بھی نہیں بچتی۔
عمر قریشی کو مشاعروں کے عوامی اسٹیج کا ناقابل فراموش کردار تصور کیا جانا چاہیے۔وہ مجمع کا رخ جس طرف چاہیں موڑ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے مگر اسی کے ساتھ ان کے یہاں صلابت اور نرمی بھی بہت تھی۔معمولی بات پر بھی وہ اپنی غلطی کا نہ صرف اعتراف کرتے بلکہ دوران مشاعرہ معافی بھی مانگ لیتے ایسا متعدد مشاعروں میں دیکھنے کا اتفاق ہوا شاید مزاج کی اسی انکساری نے انھیں عوام میں بے حد مقبول بنا رکھا تھا۔
اعظم گڑھ کے قرب و جوار میں تعلیمی اداروں کی طرف سے بھی مشاعروں کا اہتمام ہوتا تھا۔شبلی نیشنل کالج میں مشاعرہ کی روایت بہت قدیم ہے۔پھریہا (اعظم گڑھ)میں غالباً دائرہ حمیدیہ کی طرف سے مشاعرہ ہوا تھا۔مبارک پور میں اسپورٹنگ کلب کے مشاعرے بہت مشہور تھے۔تعلیمی اداروں کی طرف سے منعقد ہونے والے بعض مشاعروں میں داخلہ کے لیے ٹکٹ کی شرط ہوتی۔عام خیال تھا کہ جن مشاعروں کی نظامت عمر قریشی کے ذمے ہوتی ان میں ٹکٹ زیادہ فروخت ہوتا تھا۔اس سے عمرقریشی کی عوامی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اور یہ بھی کہ دراصل وہ عام لوگوں کی نبض سے اچھی طرح واقف تھے۔دل پر چوٹ رکھنے والے اشعار دوران نظامت اس طرح پڑھتے تھے کہ سامعین اچھل پڑتے تھے۔
دیتا نہیں شراب تو زہراب ڈال دے
ساقی ہے کچھ نہ کچھ مرے ساغر میں ڈھال دے
میری زباں پہ حق کی صدا گر نہیں پسند
اچھا یہی ہے شہر سے مجھ کو نکال دے
عمر قریشی عام طور پر شیروانی اور پائجامہ میں مشاعروں کی نظامت کرتے تھے۔ متعدد بار پینٹ شرٹ میں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔دبلے پتلے جسم پر بڑے بال بلکہ گھنگھرالے بال خوب اچھے لگتے اور نظامت کے دوران ان کا متحریک بدن اور ہاتھ کے اشارے عجب سحر کی کیفیت پیدا کرتے تھے۔ وہ اپنے انداز کے منفرد اور ممتازناظم مشاعرہ تھے۔جن لوگوں نے انھیں سن رکھا ہے وہ بار بار ان کا ذکر ان کے مخصوص انداز کی وجہ سے کرتے ہیں۔
مشاعروں میں عمر قریشی نے نظامت پر زیادہ انحصار رکھا اور شعر کبھی کبھی ہی سنائے۔ان کی نظامت کو زیادہ پسند کیا گیا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھو ں نے نظامت کے دوران اپنے اشعار سے زیادہ کام لیا۔بلکہ بیشتر اشعار ان کے ہی ہوتے تھے۔ چند اشعار قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔
شیشہ گلاب صہبا غزل نغمہ عام ہیں
کیا کیا بتائیں اس کے ہزاروں ہی نام ہیں
کیسے کوئی معاف کرے گا کسی کا خون
لاکھوں خطوط ڈاک میں قاتل کے نام ہیں
جشن مقتل میں جو بسمل کے مقابل ہوگا
دیکھ لینا وہ ترے شہر کا قاتل ہوگا
بے فا بن کے بھی رہنا کوئی آسان نہیں
آپ کے واسطے یہ کام بھی مشکل ہوگا
عام طور پر وہ قطعہ کی شکل میں اپنے غزلوں سے دوران نظامت شعر پڑھتے تھے مگروہ کسی موقع کی مناسبت سے ہوتے تھے۔اور خوب لطف دے جاتے تھے۔ایسے ہی کسی موقع پر انھوں نے ان چار مصرعروں کو پڑھا تھا۔
مانجھی تری کشتی کے طلب گار بہت ہیں
کچھ لوگ ہیں اس پار تو اس پار بہت ہیں
جس شہر میں شیشے کی دکاں کھولی ہے تم نے
اس شہر میں قاتل کے طرف دار بہت ہیں
عمر قریشی کی عام شہرت ایک ناظم مشاعرہ کی ہے لیکن انھوں نے صرف نظامت کاپر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔وہ غزل کے تقاضوں سے اچھی طرح واقف تھے۔’شہر صدا‘(اشاعت:1988)کے ابتدائی صفحات میں ”آئینہ حالات“کے تحت انھوں نے لکھا ہے
ابتدائی دور کی عشقیہ شاعری سے قطعہ نظر گزشتہ بیس برسوں میں جو غزلیں میں نے کہی ہیں وہ انھیں حالات وجذبات کی آئینہ دار ہیں جو یاتو میرے تجربات میں آئے ہیں یا جن کو میں نے شدت کے محسوس کیا ہے۔(شہر صدا ص 9)
کیا ہی بہتر ہوتا کہ ان کا تمام کلام کلیات کی شکل میں شائع ہوجاتا مگر افسوس یہ کام ابھی تک نہیں ہوسکا۔چند اشعار جو حافظے کا حصہ تھے یہاں پیش کیے گئے ہیں۔