ڈاکٹرجہانگیراحساس،حیدرآباد
بنی نوع انسان کو ابتدا سے ہی آزادی مطلوب رہی ہے چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی یا پھر ملکی ۔۔!! جسمانی و ذہنی آزادی کسی فرد واحد تک محدود رہتی ہے مگر ملکی آزادی کئی انسانوں کی زندگیوں میں تغیر اور انقلاب کا باعث بنتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے اپنی انفرادی آزادی پر ہمیشہ اجتماعی آزادی کو فوقیت دی ہے جو اس کے ’’اشرف المخلوقات‘‘ ہونے کا بین ثبوت ہے۔ لیکن یہ بات بھی کس قدر معیوب کن ہے کہ اس کو ’’مقید‘‘ کرنے والے بھی انسان ہی ہوتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ انسانی اقدار سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ تاریخ عالم ایسے کئی واقعات سے لبریز ہے جہاں اپنے اثر و رسوخ کو باقی رکھنے کی خاطر معصوم سادہ لوح انسانوں کو محض اس لیے دبایا گیا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے سے قاصر تھے۔
گزشتہ زمانوں میں اقتدار صرف انہی کو نصیب ہوتا تھا جن کے پاس جنگ و جدل کے ساز و سامان کے ساتھ ہمت و بہادری جیسی صفات ہوتیں۔ اکثریت و اقلیت کا کوئی تصور نہیں تھا مگر جب انسانی ذہن نے اپنے فہم و ادراک کی وساطت سے یہ جان لیا کہ قومیت و مذہب کی بنا پر اکثریت و اقلیت کا تصور اقتدار کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتا ہے تب یہیں سے آزادی کے جدید نظریات کی ابتدا ہوئی۔
اس تناظر میں جب ہم پوری دنیا بالخصوص اپنے وطن عزیز کی جنگ آزادی کی شروعات اور اس کے عروج کا جائزہ لیں تو یہاں بھی ابتدا میں ’’قومیت‘‘ کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں جو بام عروج پر پہنچ کر آزادی جیسی بیش قیمت نعمت سے اہل ہند کو سرفراز کرتے ہیں۔
کسی بھی ملک کو آزادی یوں ہی نصیب نہیں ہوتی اس کے لیے برسوں کی جدوجہد کے ساتھ جانوں کی قربانی درکار ہوتی ہے۔ آزادی ہند کی ابتدا جو 1857 میں ہوئی تھی وہ ہمیں ٹھیک نوے سال بعد حاصل ہوئی۔ مگر یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ جدوجہد آزادی کی یہ لڑائی چار مختلف جہتوں یا مزاجوں پر مشتمل رہی جس کا پہلا دور احتجاجی رہا جس میں ہندوستان کی دیگر زبانوں سے موثر اگر کسی زبان کی شاعری نے کلیدی کردا ادا کیا ہے تو وہ بلاشبہ اردو شاعری ہی ہے جس نے سوئے ہوئے جذبات کو بیدار کرکے انگریز حکومت کے خلاف کروڑوں کی تعداد میں آزادی کے متوالوں کو مجتمع کیا۔ اپنی نغمگی، چاشنی اور سحر انگیزی کے باعث یہ ہر ہندوستانی کی آواز بن گئی تھی۔ احتجاج کے اس پہلے دور میں اردو کے جن اکابر شعرا نے اپنی تخلیقات کے ذریعے آزادی کی اس لڑائی میں صور پھونکا ان میں مرزا غالبؔ، بہادر شاہ ظفرؔ، مصحفیؔ، مرزا قادر بخش صابرؔ، واجد علی شاہ اختر جراتؔ، راجا رام نرائن موزوںؔ، سرور جہاں آبادی، حکیم آغا جان عیشؔ، بسملؔ الہ آبادی، داغؔ دہلوی، پنڈت برج نرائن چکبستؔ وغیرہ کے نام آتے ہیں جنہوں نے 1857 کی غدر کی لڑائی میں ہوئی تباہ کاریوں کو نہایت جرات مندی کے ذریعہ پیش کیا۔ شہر دلی کی تباہ کاریوں اور انسانی جانوں کے اتلاف پر غالب کا لکھا گیا یہ قطعہ ملاحظہ ہو ؎
بس کہ فعال ما یرید ہے آج
ہر سلح شور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب، انساں کا
چوک جس کو کہیں ،وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ ،زنداں کا
شہر دلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنۂ خوں ہے ،ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے، یاں کا
میں نے مانا کہ مل گئے ،پھر کیا
وہی رونا تن و دل و جاں کا
گاہ جل کر کیا کیے شکوہ
سوزش داغ ہائے پنہاں کا
گاہ رو کر، کہا کیے باہم
ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا
اس طرح کے وصال سے یا رب
کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا
مرزا غالب نے جہاں بطور فن کار اہل دلی کے اجتماعی جذبات و احساسات کو مذکورہ قطعہ میں پیش کیا وہیں دُرگا سہائے سرور جہان آبادی نے بنگالی عوام پر ’’لارڈ کرزن‘‘ کے مظالم کو بد نصیب بنگال‘‘ کے زیر عنوان منظوم کیا۔ کہتے ہیں ؎
آہ اے محنت کش و حرماں نصیب و درد مند
آہ اے برگشتہ ایام و پریشان روزگار
مل گئیں تیری وفائیں خاک میں سب ہائے ہائے
ہوگیا حکام کی نظروں میں تو بے اعتبار
کرکے دو ٹکڑے کلیجے کے ترے یہ آہ کون
چل دیا تجھ کو تڑپتا چھوڑ کر بیگانہ وار
کرزن بیدا خو، اہل پولیس حکام وقت
تو ہوا اف! اف! نہ کس کس کی جفاوں کا شکار
اسی طرح فرما ں روائے آخر سلطنت دہلیہ بہادر شاہ ظفر نے بھی اپنے ایک شعر میں آزادی ہند کے پہلے مرد مجاہد، ٹیپو سلطان کو یاد کرتے ہوئے فوج کی بے حسی پر رنج وملال کا اظہار کیا۔ شعر دیکھیے؎
اعتبار صبر و طاقت خاک میں رکھوں ظفر
فوج ہندوستان نے کب ساتھ ٹیپو کا دیا
بسمل الہ آبادی کے خیالات بھی ملاحظہ ہوں جس میں انہوں نے احتجاج کے پہلو کو نمایاں کیا ہے۔
نظم کے دو شعر ہے
دل سے نکلے لب تک آئے لب سے پہنچے عرش تک
دل ہی دل میں جو رہے گھٹ کر آہ آہ دل نہیں
جادَۂ حب وطن میں پیچ و خم کا خوف کیا
چلنے والا چاہیے یہ راہ کچھ مشکل نہیں
اس طرح پہلے دور کی یہ احت
جاجی لہر اپنے دوسرے دور میں جنگی معرکے میں تبدیل ہوگئی۔ اس دور یا مزاج کے تحت جو نظمیں، نغمے ، کلام منظر عام پر آئے ان میں ’انگریز فوج کا محاصرہ قلعہ بھرت پور‘‘، جھانسی کی رانی، جنگ نامہ وجے سنگھ، فیض آباد 1857، گلاب سنگھ ٹھاکر، میرٹھ 1857بہت مشہور و معروف ہوئے انہیں عوامی مقبولیت کی بنا ’’کورس‘‘ میں گایا جانے لگا۔
آزادی کی تیسری لہر یا مزاج کہیے کہ ’’قومی یکجہتی اور ملک کی آزادی‘‘ کے جذبات کو پروان چڑھانے پر مبنی رہا۔ جس میں پرانے اور نئے شعرا کی تخلیقات جذبہ حریت، ملک کی سلامتی، شہدائے وطن سے دلی ہمدردی جیسے رنگ و آہنگ سے لیس رہیں۔ محمد حسین آزادی، اشفاق اللہ خان، علامہ اقبال، ظفر علی خان، فراق گورکھپوری ، تلوک چند محروم و دیگر نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ محمد حسین آزاد کی نظم ’الوالعزمی کے لیے کوئی سد راہ نہیں کے دو شعر پیش کرتے ہیں جس میں جرات مندی کی دعوت دی جارہی ہے؎
ہے سامنے کھلا ہوا میداں چلے چلو
باغ مراد ہے ثمر افشاں چلے چلو
دریا ہو بیچ میں کہ بیابیاں چلے چلو
ہمت یہ کہہ رہی ہے گھڑی ہاں چلے چلوں
شہید اشفاق اللہ خان سے کون واقف نہیں، جنہوں نے خوش دلی سے اپنے آپ کو آزادی کی خاطر دار پر پیش کیا۔ کہتے ہیں؎
بہار آئی ہے شورش ہے جنون فتنہ ساماں کی
الہی خیر رکھنا تو مرے حبیب و گریباں کی
بھلا جذبات الفت بھی کہیں مٹنے سے مٹتے ہیں
عبث ہیں دھمکیاں دار و رسن کی اور زنداں کی
اس نظم سے ایک شعر میں ہندو و مسلم کو وہ متحد ہونے کی دعوت بھی دے رہے ہیں۔
جلال آتش و برق و سحاب پیدا کر
اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہوسکے تو ابھی انقلاب پیدا کر
غرض ۔۔! اکابرین شعر و سخن کی ان شعلہ بیانیوں اور مہرو محبت کے پیغام نے ہندوستان کو آزادی سے ہمکنار کیا۔ آج موجودہ حالات پھر سے ہمیں جسمانی طور پر نہ سہی ذہنی طور پر ملکی ظالموں کی ذہنی غلامی کی جانب ڈھکیل رہے ہیں۔ جس کا ہمیں مذکورہ شعرا سے کلام و پیغام کے ذریعہ متحدہ طور پر مقابلہ کرنا ہوگا۔ تبھی ہم حقیقی آزادی حاصل کرسکیں گے۔