مخدوم اختر
گزشتہ کچھ سالوں میں مدرسوں میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد تیزی سے کم ہوئی ہے۔ ایک تو خود والدین اپنے بچوں کو ادھر نہیں بھیجتے ، دوسرے ہوش مند بچے خود مدرسہ چھوڑ جاتے ہیں۔یہ کہنا ہے مولانا منظر محسن کا جو خود مدرسہ کے فارغ ہیں اور مدرسوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ جب مولانا سے پوچھا گیا کہ آخر کیا سبب ہے کہ مدرسوں میں طلبہ کم ہوتے جارہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بڑی وجہ ہے علما کی ناقدری۔ پہلے مسلم معاشرے میں علما دین کو جو احترام ملتا تھا، اب وہ نہیں مل رہا ہے۔ کروڑوں خرچ کرکے مسلمان مسجدیں بنواتے ہیں مگر اس کے امام کو آج بھی چھ ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بعض بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں والدین مدرسوں میں داخل کرادیتے ہیں اور جب تک وہ کم عمر ہوتے ہیں تب تک پڑھتے ہیں لیکن جیسے ہی سمجھدار ہوتے ہیں تو انہیں فکر معاش لاحق ہوجاتی ہے۔۔ وہ سوچتے ہیں کہ میری زندگی کیسے گزرے گی۔۔۔ معاشی مسائل کیسے حل ہونگے ، لہذا وہ چھوڑ جاتے ہیں۔ مولانا نے خود اپنے گھر کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پھوپی زاد بھائی نے مدرسہ میں داخلہ کے بعد اس تعلیم پر اعتراض جتایا۔ اس نے اپنے والد سے کہا کہ آپ اپنے تمام بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلارہے ہیں اور مجھے زکوۃ ، خیرات کھانے کے لئے مدرسہ بھیج دیا۔۔۔ اس کے بعد اسے مدرسہ سے نکال لیا گیا۔ مولانا منظر محسن نے مزید بتایا کہ "کورونا دور کے بعد بہت سے مدرسے مالی مشکلات کا شکار ہوکر بند ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے دینی مدرسوں کے ساتھ جو مشکلات آج درپیش ہیں ماضی میں کبھی نہیں رہیں۔"
غور طلب ہے کہ ہندوستان میں آج بھی بڑی تعداد میں دینی مدرسے موجود ہیں اورتقریبا بیس سال قبل کئے گئے ایک اندازہ کے مطابق محض تین فیصد مسلمان بچے ہی مدرسوں میں پڑھنے جاتے ہیں۔قیاس ہے کہ موجودہ حالات میں یہ تناسب مزید نیچے آیا ہے، چونکہ بہت سے مدرسوں میں آج بھی جدید تعلیم نہیں دی جاتی اور فارغین کو معاشی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے لہٰذا عام مسلمان اپنے بچوں کو ادھر بھیجنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے۔ حالانکہ ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے مدرسے پھیلے ہوئے ہیں جن کے مسائل الگ الگ قسم کے ہیں۔ ان میں دو قسم کے مدرسے ہیں۔ ایک سرکاری اوردوسرے غیرسرکاری۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علما دین کا ایک طبقہ ہر دور میں دینی مدرسوں کے لئے حکومت سے مالی تعاون لینے کے خلاف رہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند جیسا معروف ادارہ اب بھی خود کو حکومت کی مالی مدد کے بغیر چلا رہا ہے۔ اسی طرح جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج، اعظم گڑھ اور جامعۃ الاصلاح سرائے میراعظم گڑھ، ہندوستان کے دو بڑے مدرسے ہیں۔ ہزاروں بچوں کو دینی اور عصری تعلیم دیتے ہیں اور ان کی اسناد کو ملک کے بہت سے تعلیمی بورڈ اور یونیورسٹیاں تسلیم کرتی ہیں مگر یہ حکومت سے مالی تعاون لینا پسند نہیں کرتے ہیں۔درجنوں مدرسے ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اتر پردیش میں حکومت سے مدد لینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سرکار کو منظوری کے لئے درخواست دی جائے اور اگر حکومت منظور کرلیتی ہے تو ٹیچرس کی تنخواہیں گورنمنٹ کی طرف سے آنے لگتی ہیں۔ کسی ابتدائی مدرسے کے لئے کم از کم تین کمرے لازمی ہیں۔ یہی صورت حال بہار میں بھی ہے۔ بہت سے علما دین کو لگتا ہے کہ اگر حکومت سے اساتذہ کی تنخواہ لی جائے تو حکومت کو ادارہ میں مداخلت کا موقع مل جاتا ہے۔ نیز علم دین کی روحانیت چلی جاتی ہے۔ عہد گزشتہ کے ایک معروف عالم دین، مصنف اور مدرس علامہ بدرالدین قادری، اپنے زیراثر والے مدرسوں کو اکثرسرکاری منظوری سے روکتے تھے۔ انہوں نے کئی مدرسوں کو صرف اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ ان کے منتظمین نے حکومت سے منظور کرالیا تھا۔
اترپردیش کے ایک مدرسہ کے ٹیچر مولانا سالم قاسمی بتاتے ہیں کہ وہ ایک سرکاری مدرسہ میں پڑھاتے ہیں اور ان کا مدرسہ ٹھیک ٹھاک طریقے سے چل رہا ہے۔ انہیں سرکاری اسکول کے ٹیچر کے مساوی تنخواہ ملتی ہے۔ وہ سرکاری مدرسہ کی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہلے مدرسہ کے منتظمین جب چاہتے تھے مدرس بدل لیتے تھے مگر اب وہ ہمیں نہیں نکال سکتے۔ اسی کے ساتھ وہ بتاتے ہیں کہ مدرسے کا حکومت سے الحاق مدرسین کے حق میں بہتر ہے مگر اس کا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت کی مداخلت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مدرسے کو کسی قسم کا مالی تعاون نہیں ملتا بس ہمیں تنخواہ ملتی ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ مدرسے کے منتظمین کو یہاں رہنے والے بیرونی بچوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا پڑتا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے مڈڈے میل مل جاتا ہے، اس سے بھی تعاون ہوجاتا ہے۔
ماہنامہ کنزالایمان کے ایڈیٹر اور مدرسوں کے حالات پر قریبی نظر رکھنے والے مولانا ظفرالدین برکاتی آوازدی وائس سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دینی مدرسوں کے سامنے کئی قسم کے مسائل ہیں مگر سب سے سنگین معاشی مسئلہ ہے۔ یہ مدرسے زکوۃ، فطرات اور عطیات پر چلتے ہیں۔ قربانی کی کھالوں سے بھی کچھ آمدنی ہوجاتی تھی مگر گزشتہ دو برسوں سے یہ ذریعہ بند ہوچکا ہے۔ زکوۃ، فطرات اور عطیات کا جہاں تک معاملہ ہے تو کچھ جعلی چندہ کرنے والوں کے سبب ، چندہ دینے والے اصل حقداروں کو بھی شک وشبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے ایسی ہی جگہوں سے مدرسوں کو چندے ملتے ہیں جہاں ان کے جاننے والے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مدرسوں کو تین جگہوں پر خاص طور پر پیسے خرچ کرنے ہوتے ہیں۔ ایک تو طلبہ کے خوردونوش پر، دوسرے اساتذہ کی تنخواہوں پر اور تیسرے مدرسے کی درسگاہ اور ہاسٹل کی تعمیر پر۔ طلبہ کے کھانے پینے کا انتظام زکوٰۃ، فطرہ وغیرہ کی رقم سے ہوجاتا ہے۔ سال میں ایک مرتبہ مدرسے کا جلسہ ہوتا ہے جس میں چندہ کیا جاتا ہے۔ اسے ہاسٹل کی تعمیر پر خرچ کیا جاتا ہے مگر اساتذہ کی تنخواہوں کا انتظام زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مدرسے والے جس معیار کی تعلیم دینا چاہتے ہیں نہیں دے پاتے ہیں۔ ضرورت سے کم ٹیچرس رکھے جاتےہیں۔ اگر مدرسوں میں عصری تعلیم کا انتظام کیا جائے تو مزید ٹیچرس کی ضرورت ہوتی ہے۔ سبھی مدرسے چاہتے ہیں کہ ان کے ہاں عصری نصاب پڑھایا جائے مگر مالی مشکلات راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
جب سوال کیا گیا کہ مدرسے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے کیا کر رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ بہت زیادہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ چونکہ بہت سے فرضی چندہ کرنے والوں نے ماحول خراب کردیا ہے اور عوام کا بھروسہ توڑا ہے لہٰذا چندہ کرنے والوں کو لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں، اس لئے مدرسوں کو محصل بھی نہیں ملتے ہیں۔ صرف جاننے والوں سے ہی چندہ ملتا ہے۔ انہوں نے ایک چونکادینے والی جانکاری بھی دی کہ کچھ مدرسے سال بھر خاص مہم چلاکر چندہ جمع کرتے ہیں اور اسے بینکوں میں ایف ڈی کی شکل میں جمع کردیتے ہیں تاکہ برے وقت میں مدرسہ کے کام آئے۔ اس قسم کی سوچ تب زیادہ پروان چڑھی جب کورونا کے دور میں مالی دشواریوں کے سبب بہت سے چھوٹے مدرسے بند ہوگئے اور بڑے مدرسوں کو خود کو چھوٹا کرنا پڑا۔
ایک مدرسہ ٹیچر مولانانوراللہ نے مدرسوں کے مسائل پر گفگتو کرتے ہوئے بتایا کہ عموما مدرسوں میں غریب بچے پڑھتے ہیں مگر چونکہ مدرسوں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے لہٰذا کچھ مدرسے اب فیس بھی وصول کرنے لگے ہیں۔ جب کہ مدرسوں کی روایت یہ رہی ہے کہ کبھی طلبہ سے فیس نہیں لی جاتی تھی۔ اسی طرح مدرسہ کی لائبریری سے کتابیں مفت فراہم کی جاتی تھیں، اب کتابوں کی قیمت لی جانے لگی ہے۔ جن طلبہ کے والدین کھانے کا پیسہ دینے کی پوزیشن میں ہوتے تھے، وہ دیتے تھے مگر تمام بچوں سے کھانے کی قیمت لی جارہی ہے۔ البتہ ایسا بہت کم مدرسوں میں ہوتا ہے۔
غور طلب ہے کہ ہندوستان کے تمام بڑے بڑے مدرسے اترپردیش میں ہیں۔ یہاں پورے ملک سے دینی تعلیم کے لئے طلبہ آتے ہیں۔ بلکہ دارالعلوم دیوبند میں تو غیرملکی طلبہ بھی قانونی طریقے سے آتے رہے ہیں۔جنوبی ہند میں بھی بعض بڑے مدرسے کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر ریاستوں میں جیسے بہار، بنگال، آسام، جھارکھنڈ، راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر میں بھی کچھ بڑے مدرسے ہیں۔ تاہم پورے ملک کے مدارس اس وقت مالی مشکلات کے دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ مدرسوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہی سبب کہ یہ مدارس طلبہ کی تعداد میں کمی کر رہے ہیں۔ کیرالہ کالی کٹ کا الثقافۃ السنیہ ایک آئیڈیل مدرسہ ہے جس میں دینی تعلیم کے بعد باقاعدہ طور پر پروفیشنل ایجوکیشن کا بھی انتظام ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے لوگوں کے ذریعہ چلنے والے مدارس میں جامعۃ الفلاح اور جامعۃ الاصلاح (یوپی)اورجنوبی ہند کے کچھ مدرسوں کا زیادہ کریز ہے جنہوں نے درس نظامیہ میں مثبت تبدیلیاں کی ہیں اور عصری علوم کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ندوۃ العلما لکھنو، دارالعلوم دیوبند، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ اشرفیہ مبارک پور جیسے مدرسے وسائل کی کمی کے سبب ہر سال بہت سے امیدواروں کو واپس کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کے مدرسے بھی بہت کم ہیں اور جو والدین بچیوں کو مدرسے بھیجنا چاہتے ہیں، ان سب کی خواہش پوری نہیں ہوپاتی۔
ان دنوں مدرسوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے لہٰذا سرکاری ضابطوں کوپورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ خواتین واطفال کے بہبود کا محکمہ اکثر شکایت کرتا ہے کہ ان مدرسوں میں کم جگہ میں زیادہ بچوں کو رکھا جاتا ہے اور مختلف عمروں کے بچوں کو ایک کمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ایسی شکایتیں بھی ملیں کہ بعض چھوٹے مدرسوں میں شریر بچوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ میڈیا بھی عموما مدرسوں کے خلاف تشہیر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی باتیں مدرسے والوں پر منفی اثر ڈالتی ہیں اور پریشان کرتی ہیں۔ تاہم ان مشکلات کے باجود یہ مدرسے نہ صرف چل رہے ہیں بلکہ بعض بہترکارکردگی کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔