یوگا کیا ہے اور کیوں ہے مقبول

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 25-06-2024
یوگا کیا ہے اور کیوں ہے مقبول
یوگا کیا ہے اور کیوں ہے مقبول

 

زیبا نسیم : ممبئی

آج دنیا بھر میں یوگا کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 2015 میں ہندوستان نے یوگا کے فوائد کو اجاگر کرنے کے لیے اس کا عالمی دن منانے کی درخواست کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے 21 جون کو یوگا کا عالمی دن قرار دیا تھا۔یوگا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب قابو پانا اور متحد کرنا ہے۔ بدھ مت اور ہندو مذہب میں یوگا جسم اور سانس کی ورزشوں اور مراقبے کا مرکب ہے۔ اس عمل کو اپنے نفس پر قابو پانے اور صحت مند رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق یوگا جسمانی اور نفسیاتی ورزش کا طریقہ ہے جو انسانی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔یوگا ایک ایسی ورزش ہے جو جسم کے تمام افعال کو بہتر بناتی ہے اور ذہنی و نفسیاتی صحت پر بہترین اثرات مرتب کرتی ہے۔باقاعدگی سے یوگا کرنا طویل عمر تک جوان، متحرک اور صحت مند رکھتا ہے۔

 یوگا اسباق اور مشقوں کا آغاز کب اور کہاں ہوا، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی واضح نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دوسری سے پانچویں صدی قبل از مسیح کے درمیانی عرصے میں  دانشور اور سنسکرت زبان کے ماہر پتانجلی نے یوگا کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی سرپرستی بھی کی۔اس حوالے سے   ہندوستان کے مشہور یوگا ماہر بی کے ایس اینگر نے اپنی کتاب ’لائٹ آن لائف: پتانجلی‘ میں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ وہی بابائے یوگا قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ قدیم ترین یوگا کے اسباق اور اصول پتانجلی نے ہی مرتب کیے تھے۔ اُن کے یہ الفاظ  اب ایک مقولہ بن چکے ہیں کہ انسانی جسم میں شعور و آگہی کو فروغ یوگا سے ممکن ہے۔

ہندوؤں کے لیے مقدس خیال کیے جانے والے شہر ہردوار کی پتانجلی یونیورسٹی کے پروفیسر سنجے سنگھ کا کہنا ہے کہ یوگا کا معنی ’ بندھے رہنا‘ ہے، یعنی عام انسان یوگا کی امشاق سے اپنا رشتہ دیوتاؤں کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔ پروفیسر سنجے سنگھ نے اسی تعلق کو انسانی حیات کا مقصد قرار دیا ہے۔ ہندوستان میں پروان چڑھنے والا یوگا اب جغرافیائی سرحدوں سے باہر نکل کر ساری دنیا میں شہرت حاصل کر چکا ہے -

یوگا کے کئی رویے، رنگ، اسلوب اور طور طریقے سامنے آ چکے ہیں۔ جسمانی چابک دستی کے ساتھ ذہنی آرام تک کے لیے یوگا کے اسباق اور ورزشیں دستیاب ہیں۔ اس کے ساتھ کئی نئے رنگ اور اسلوب بھی متعارف ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی مغربی شہری یوگا کے وقت اپنے پالتو کتے کو ساتھ رکھتا ہے تو یہ ’ڈاگ یوگا‘ کے طور پر مشہور ہو گیا ہے۔ اسی طرح بغیر کپڑے پہنے یوگا کرنا بھی ایک ’چلن‘ ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن میں بیئر یوگا کا ایک نیا رنگ سامنے آیا ہے۔ بیئر پینے والے ہر گھونٹ کے دوران دماغی سکون کے لیے یوگا کی مخصوص ورزشیں جاری رکھتے ہیں۔

پروفیسر سنجے سنگھ کے مطابق یوگا سچ کی تلاش کا ایک راستہ بھی ہے لیکن جدیدت کے رنگ نے اس کے آفاقی رنگ کو میلا کر دیا ہے۔ مغربی ممالک میں یوگا کو عام کرنے کے لیے اشتہاری مہموں کا سہارا لیا جاتا ہے اور اس کے قدامت پسند ماہرین کا خیال ہے کہ مادہ پرستی کے سہارے سے روحانیت کی منزل طے نہیں ہوتی۔ اس تناظر میں وہ مختلف جزائر پر کمرشل بنیادوں پر یوگا کی ورزشوں اور یوگا سے جوڑ دیے گئے انواع و اقسام کے پہناووں کو بھی مادہ پرستی ہی کا شعبدہ قرار دیتے ہیں

ایک امریکی تحقیق کے مطابق گہری سانسوں کی یوگا مشق جو گہری سانس اندر کھینچ کر آہستگی سے باہر چھوڑ کر کی جاتی ہے، سے ذہنی دباؤ سے چھٹکارہ ممکن ہے۔یہ مشق دماغ میں موجود اسٹریس ہارمون کو کم کر کے موڈ کو خوشگوار بناتی ہے اور ذہن کو پرسکون رکھتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یوگا طبیعت میں چستی، توانائی میں اضافہ اور ذہنی صحت کے ساتھ جسمانی صحت کو بہتر کرتی ہے تاہم اس کے فوائد اسے باقاعدگی سے اپنا کر ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

یو گا صحت مند طرز زندگی کے اصولوں میں سے ایک ہے . یہ جسمانی صحت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ڈپریشن سے نجات دلانے اور ذہنی آسودگی فراہم کرنے کے لئے بھی اہم ہے . یوگا کے فوائد کی بنا پر بہت سے افراد اس کی مشقیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوگا کے آسن سے ناواقف ہونے کے باعث ٹی وی کو سامنے رکھ کر وہاں بتائے جانے والے طریقوں یا دکھائے جانے والی مشقوں کے مطابق یوگا کرنے کی کوشش کرتے ہیں . اس سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے .یوگا کے لیے بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے لہذا اس کے آسنوں پر عمل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی استاد یا سکھانے والے کی رہنمائی حاصل کی جائے . ٹی وی سے دیکھ کر یوگا کے آسنوں کو نقل کرنے کی کوشش مسائل کا سبب بن سکتی ہے . ٹی وی سے یوگا پوز دیکھے تو جا سکتے ہیں لیکن اس بات کا اندازہ نہیں ہوپا تا کہ جسم کو کس حد تک لچک دینی ہے ، پھیلانا ہے یا سکیڑنا ہے ، کمرکوکس حد تک خم دینا ہے ، گردن کا جھکاؤ کتنی ڈگری تک ہونا چاہیے . ایسے میں یوگا صحت کے بجائے زحمت بن جاتا ہے . آپ اپنے مسائل کے حل کے لیے یوگا کو اہمیت دیں لیکن ساتھ ہی کسی ماہر یا استاد سے رہنمائی ضرور لے لیں

 یوگا جسمانی ،دماغی اور روحانی ورزشوں کا ایک مجموعہ ہے ۔ جس کا تعلق ہندوستان کی قدیم تہذیب سے ہے ۔ یوگا کا تذکرہ سب سے پہلے رگ وید میں ملتا ہے لیکن ہندوستان میں اس کا رواج پانچویں یا چھٹی صدی قبل از مسیح سے شروع ہونے کے شواہد ملتے ہیں ۔ یوگا نے 19 ویں صدی عیسوی ہندوستان کے باقی فلسفے کے ساتھ ساتھ یوگا بھی مغرب کہ تعلیم یافتہ طبقہ کی توجہ حاصل کی۔یوگا کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر این سی پال نے 1851 میں اس کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا یوگا فلاسفی ۔

سوامی ویویک آنند پہلا ہندو استاد تھا جس نے یوگا کی ترقی اور ترویج کے لیے یورپ اور امریکہ کے دورے کیے اور مغرب کے لوگوں کے ذہنوں میں یوگا کی افادیت کو اجاگر کیا ۔انیسویں صدی میں سوامی ویوک آنندکو بڑے بڑے مغربی مفکرین کا ساتھ ملا ان میں رالف والڈہ ایمرسن (1803 تا 1882)اگسٹ ولہیلم (1767 تا 1845 ) کارل ولہیلم فریڈرک (1772 تا 1829)میکس میولر 1823 تا 1900 )آرتھر شیوپن ہیوئر (1788 تا 1860 ) اور بہت سے دیگر مفکرین تھے جو ہندوستانی عنوانات پر تحقیقی ڈگریاں حاصل کر چکے تھے   ان سب لوگوں سےسوامی کی ملاقاتوں نے پڑھے لکھے لوگوں کی توجہ یوگا کی طرف دلا دی ۔ حکمت یزدانی کے ماننے والوں نے بھی یوگا کے متعلق امریکی عوام کی رائے کو مثبت بنانے بڑا پر اثر کردار ادا کیا ۔ اس دور کی مثبت رائے نے آنے والے دور یعنی انیسویں صدی کے آخر میں ویدانتا اور یوگا کے لیے ایک اچھے تعارف کا باعث بنی۔اور اہل مغرب  کے لیے یہ ماننا آسان ہو گیا کہ یوگا کرنے سے جسم کا رابطہ روح کے ساتھ مضبوط ہو جاتا ہے ۔

امریکہ نژاد یوگی آرنلڈ برنارڈ نے 1905 میں کشمیر اور بنگال کا سفر کرنے کے بعد یوگا کی امریکی قسم کی بنیاد رکھی جسے اس نے امریکی تانترا کا نام دیا ۔ اس کی تربیت کی وجہ سے مغربی لوگوں کو پہلی بار یوگا اور تانترا میں اپنی تہذیب کی جھلک نظر آئی۔ یوگا پر جدید سائنسئ بنیادوں تحقیق کی بنیاد این سی پال اور میجر ڈی باسو کی انیسویں صدی کے اواخر میں کی جانے والی تحقیق بنی ۔ 1928 میں مغربی محققین نے کیولیادھاماہیلتھ اینڈ یوگا ریسرچ سنٹر تا کہ یوگا کو سائنس کا درجہ دیا جا سکے ۔ ہندو ، جین اور بدھ مت کے لیے جو بھی ہو باقی ساری دنیا کے لیے یوگا ایک ورزش اور چند آسن کا نام ہے ۔ جس کا کسی مذہب سے کوئی لین دین نہیں ۔ بیسویں صدی  کے نصف میں جب مغرب یوگا کو ایک تہذیب کے طور پر اپنا رہا تھا تب مختلف نقطہ نظر کے لوگوں نے یوگا کے اپنائے جانے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ۔ 1960 کی دہائی میں مغرب کی ہندوازم میں دلچسپی اپنے عروج کو جا پہنچی جب نیو ہندو ا سکول کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس دوران یوگا کے بڑے بڑے ماہر ین نے مغرب کا رخ کیا اور یوگا کی بنیادوں  کو مغرب میں مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا ، یہاں تک کہ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے یوگا کو دنیا کی سب سے بڑی روحانی زبان کا نام بھی دیا ۔