اقبال کے ممدوح سوامی رام تیرتھ کون تھے؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 30-06-2024
اقبال کے ممدوح سوامی رام تیرتھ کون تھے؟
اقبال کے ممدوح سوامی رام تیرتھ کون تھے؟

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

اردو کے خمیر میں مذہبی ہم آہنگی،قومی یکجہتی اور سیکولرازم شامل ہے یہی سبب ہے کہ اقبال جیسا اسلام پسند شاعر بھی دوسرے مذاہب اور ان کی شخصیات کا احترام کرتا ہے۔اقبال نے بھگوان رام پر ایک نظم لکھی تھی ، یہ بات مشہور ہے مگر انہوں نے سوامی رام تیرتھ  کے بارے میں بھی ایک نظم لکھی تھی جس میں ان کی خوب تعریف کی ہے،سوامی رام تیرتھ پر اردو کے مشہور شاعر درگاپرساد سہائے سرورؔ نے بھی ایک خوبصورت نظم تحریر کی تھی۔ سوامی رام تیرتھ رام کون تھے؟ اس بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں،تو آئیے اقبال اور سُرور کے ممدوح کے بارے میں پہلے کچھ بنیادی باتیں جانتے ہیں۔

سوامی رام تیرتھ؟کون تھے

سوامی رام تیرتھ کی پیدائش22 اکتوبر 1873کو ہوئی جب کہ ان کی موت 27 اکتوبر 1906کو ہوئی۔ وہ فلسفہ ویدانت کے پیروکار تھے۔ سوامی جی پنجاب (پاکستان)کے گجراں والا ضلع میں ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئے جہاں علم وہنر کا چرچا تھا۔ ان کے بچپن کا نام تیرتھرام تھا۔ طالب علمی کی زندگی میں انہوں نے کئی تکلیفوں کا سامنا کیا۔بھوک اور اقتصادی بدحالی کے درمیان بھی، انہوں نے اپنی ثانوی اور پھر اعلی تعلیم مکمل کی۔ والد نے بچپن میں ہی ان کی شادی بھی کر دی تھی۔ وہ اعلی تعلیم کے لئے لاہور چلے گئے،جہاں 1891 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور صوبہ بھر میں سب سے اول آئے۔ اس کے لئے انہیں 90 روپے ماہانہ کی اسکالرشپ بھی ملی۔ اپنے انتہائی عزیز موضوع ریاضی میں سپریم پوائنٹس سے ایم اے پاس کر وہ اسی کالج میں ریاضی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ وہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ غریب طالب علموں کی تعلیم کے لیے دے دیتے تھے۔ ان کا رہن سہن بہت سادہ تھا۔لاہور میں ہی انہیں سوامی وویکانند کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ اس وقت وہ پنجاب کی سناتن دھرم سبھا سے جڑے ہوئے تھے۔

سوامی زندگی کی راہوں پر

تلسی داس، سورداس، گرونانک، وغیرہ بھارتی سنت، شمس تبریزی، مولانا جلال الدین رومی وغیرہ صوفیہ، گیتا، اپنشد، ویدوغیرہ ہندوستانی گرنتھ اور مغربی فلسفیوں کی کتابوں کا انھوں نے حقیقت پسندانہ مطالعہ کیا اور متاثر ہوئے۔انہوں نے اردو میں ایک ماہنامہ "الف" نکالا۔ سال 1901 میں پروفیسر کے عہدے سے سبکدوشی لے کر وہ اہل خانہ سمیت ہمالیہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ یہاں انھوں نے مقدس مقامات کا سفر پیدل طے کیااور ایک خوبصورت مقام پر ٹھہرے جو انھیں پسند آیا تھا۔ یہیں انھیں ایشور کی معرفت حاصل ہوئی۔انہوں نے دوارکا پیٹھ کے شنکراچاریہ کی ہدایت پربالوں اور مونچھ، داڑھی کو صاف کرلیا اور سنیاس لینے کی خاطر اپنی بیوی اور ساتھیوں کو وہاں سے واپس لوٹا دیا۔اردو کے نامور شاعر رام پرساد 'بسمل' نے اپنی کتاب میں ”نوجوان سنیاسی“ کے عنوان سے ایک دل کو چھونے والی نظم لکھی تھی۔

سوامی رام تیرتھ نے دنیا کے تمام بندھنوں سے آزاد ہوکر سخت تپسیا کی۔یہاں قیام کے وقت ان کی ملاقات ٹہری ریاست کے اس وقت کے نریش سے ہوئی جو پہلے مذہب بیزار تھے مگر ان کے رابطے میں آنے کے بعد مذہبی ہوگئے۔ مہاراجہ نے سوامی رام تیرتھ کے جاپان میں ہونے والی عالمی مذہبی کانفرنس میں جانے کا انتظام کیا۔ وہ جاپان سے امریکہ اور مصر بھی گئے۔ بیرون ملک سفر میں انہوں نے بھارتی ثقافت کی خوبیاں بتائیں اور بیرون ملک سے لوٹ کر ہندوستان میں بھی کئی مقامات پر خطبات دیئے۔

سوامی جی نے جاپان میں تقریبا ایک ماہ اور امریکہ میں تقریبا دو سال تک قیام کیا۔وہ جہاں جہاں پہنچے، لوگوں نے ان کا ایک سنت کے طور پر استقبال کیا۔ان کی شخصیت میں مقناطیسی کشش تھی جو بھی انہیں دیکھتا وہ اپنے اندر ایک شانتی کا احساس کرتا تھا۔ دونوں ممالک میں انھوں نے ایک ہی پیغام دیا”اپنے آپ کو پہچانو، آپ خود خدا ہو

  ۔  1904 میں وطن لوٹنے پر لوگوں نے ان سے کہا کہ اپنا ایک الگ فرقہ تیار کریں جس کی انھوں نے یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ یہاں جتنے فرقے ہیں سب انھیں کے ہیں۔وہ اتفاق رائے کے لئے ہیں، اختلافات کے لئے نہیں۔ ملک کو اس وقت ضرورت ہے اتحاد اور تنظیم کی، راشٹردھرم اور سادھنا کی، ضبط اور برہمچریہ کی۔

ٹہری (گڑھوال) سے ان کو خاص لگاؤ تھا۔ وہ دوبارہ یہاں لوٹ کر آئے۔ یہاں انھیں روحانی سکون ملتا تھااور یہیں 1906 کی دیوالی کے دن انہوں نے موت کے نام ایک پیغام لکھ کر گنگا میں بہایا۔

سوامی جی کی تعلیمات

سوامی رام تیرتھ،شنکراچاریہ کے عقیدہ توحید کے حامی تھے۔ انھوں نے ویدانت کو گہرائی سے سمجھا تھا، جس کی تعلیمات میں انھیں صوفیانہ وحدۃ الوجودی فلسفہ نظر آتا تھا۔اسی لئے ان کا ماننا تھا کہ ساری دنیا صرف ایک روح کا کھیل ہے۔جو طاقت ایک جسم میں ہے، وہی تمام جسموں میں ہے اور سب کی بنیاد ایک روح ہے۔وہ وحدت انسانیت کے حامی تھے اور کہتے تھے کہ کوئی آپ کے خاندان، کوئی ذات، کوئی سماج اور کوئی مذہب کے گھیرے سے گھرا ہوا ہے۔ اسے گھیرے کے اندر اندر کی چیز دوستانہ اور گھیرے سے باہر کی منفی لگتی ہے۔یہی تنگ نظری کی جڑ ہے۔ فطرت میں کوئی چیز مستحکم نہیں۔انسان کو چاہئے کہ اس گھیرے سے باہر نکلے۔ وہ کہتے تھے کہ انسان خوشی کو ہی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔ پیدائش سے موت تک ہم اپنی خوشی کے مراکز بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی مادہ میں سکھ ڈھونتے ہیں اور کبھی کسی شخص میں۔ حالانکہ خوشی کا ذریعہ ہماری روح ہے۔

awaz

سوامی جی پر جاری ڈاک ٹکٹ

وہ دیش بھکت تھے اور کہا کرتے تھے کہ آج ملک کے سامنے ایک ہی مذہب ہے اور وہ ہے ”راشٹردھرم“۔ اب جسمانی خدمت صرف شودروں کا فرض نہیں مانا جا سکتا۔ تمام کو اپنی ساری قوتوں کو ملک اور سماج کے کاموں میں لگانا چاہیے۔انھوں نے کہا تھا کہ بیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان آزاد ہو کر فخر محسوس کرے گا۔ انہوں نے اپنے ایک خط میں لالہ ہردیال کو لکھا تھا - "ہندی میں تبلیغ کا کام شروع کرو۔ وہی آزاد ہندوستان کی قومی زبان ہوگی۔صرف تین الفاظ میں ان کا پیغام موجود ہے ”ترک اور محبت“۔ انھوں نے سفرناموں کے علاوہ بھی کئی کتابیں لکھیں جن میں انسانیت، خدمت، محبت اور حب الوطنی کا پیغام دیا۔

اردو میں جن شخصیات پر نظمیں کہی گئیں ان میں ایک سوامی رام تیرتھ ہیں۔ سوامی جی ایک مقبول ترین مذہبی شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی شخصیت پر اقبال نے بھی نظم کہی ہے۔ درگا سہائے سرورؔ کا لکھا ہوا نوحہ لاجواب ہے۔یہ انھوں نے سوامی جی کی وفات پر تحریر کیا تھا اور یہ نوحہ سرورؔ کی شاعرانہ فن کاری کا اظہار بھی کرتا ہے۔ نیچے ملاحظہ ہوں نظمیں۔

سوامی رام تیرتھ

اقبالؔ

ہم بغل دریا سے ہے اے قطرہ بے تاب تو

پہلے گوہر تھا، بنا اب گوہر نایاب تو

آہ کھولا کس ادا سے تو نے راز رنگ و بو

میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو

مٹ کے غوغا زندگی کا شورش محشر بنا

یہ شرارہ بجھ کے آتش خانہ آزر بنا

نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا

لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الااللہ کا

چشم نابینا سے مخفی معنی انجام ہے

تھم گئی جس دم تڑپ، سیماب سیم خام ہے

توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم عشق

ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق

 

           نوحہ وفات سوامی رام تیرتھ

               درگا سہائے سرورؔ

کونسا موتی ہے گنگا تیرے دامن میں نہاں

قطع ہے قامت پہ کس کے چادرِ آبِ روان

حلقہ گرداب ہے کیوں آہ چشمِ خونفشاں

کس کے ماتم میں لبِ ساحل ہیں سرگرمِ فغاں

تیری موجوں نے یہ کس کو لے لیا آغوش میں

جوششِ گریہ کا عالم ہے ترے سرجوش میں

کس کے غم میں تیرے ساحل کا ہے داماں تار تار

تیری موجیں آج کیوں ہیں رام گنگا بے قرار

شاہدِ خوابِ اجل سے آہ ہوکر بے کنار

سوگیا یہ کون جانبازِ وطن زیرِ مزار

لینے آئی آسماں سے رحمت باری کسے

تھی گراں اے موجِ! ساحل کی سبک ساری کسے

منزلِ خور میں ہے ذرہ خلوت آرا کونسا

دوش بردوشِ صدف ہے درّ یکتا کونسا

آشنا بحرِ حقیقت کا ہے ایسا کونسا

ہوگیا دریا مین دریا بن کے قطرہ کونسا

صف الت کر کون یہ بزمِ جہاں سے اٹھ گیا

شمع وپروانہ کا پردہ درمیاں سے اٹھ گیا

قید ہستی سے تھی کس کو سرگرانی ہائے ہائے

کردیا شوقِ بقا نے کس کو فانی ہائے ہائے

کس پہ ٹوٹا دستِ جورِ آسمانی ہائے ہائے

نذرِ طوفاں ہوگئی کس کی جوانی ہائے ہائے

ساحلِ گنگا پہ روتی ہے قضا کس کے لئے

خاک اڑاتی پھرتی ہے سر پر صبا کس کے لئے

خلد سے ہے کس کولینے کو قضا آئی ہوئی

ساحلِ گنگا پہ ہے غم کی گھٹا چھائی ہوئی

ڈوبتی ہے کس کی کشتی آج چکرائی ہوئی

موجِ قسمت کی طرح اک اک ہے بل کھائی ہوئی

آشنا دریا سے قطرہ کونسا ہونے کو ہے

اشتیاقِ مہر میں شبنم فنا ہونے کو ہے

خاک میں کس کو ملایا آہ تونے آسماں

کس پہ ٹوٹا ہائے تو اے دست مرگِ ناگہاں

شرق میں کس کی چمک تھی زیب تاج عزوشاں

خاک میں ہے آہ اب وہ گوہرِ یکتا نہاں

موتیوں سے یوں ترا اے قوم خالی تاج ہے

حیف تیری آرزووں کا چمن تاراج ہے