ایک’بھارت رتن‘پاکستانی جس کے دل میں ہندوستان بستا تھا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 15-08-2024
ایک’بھارت رتن‘پاکستانی جو تقسیم وطن کے خلاف تھا
ایک’بھارت رتن‘پاکستانی جو تقسیم وطن کے خلاف تھا

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ہندوستان کی قومی راجدھانی دہلی میں رہنے والے ’خان مارکیٹ‘ سے واقف نہ ہوں،ایسا ہوہی نہیں سکتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ’خان مارکیٹ‘ کس کی جانب منسوب ہے؟ اصل میں اس کا نام خان عبدالغفار کے نام پر رکھا گیا ہے۔ نئی دہلی کے قرول باغ علاقے میں ایک اور مارکیٹ کا نام ان کے اعزاز میں رکھا گیا ہے۔ یہ ہے’غفار مارکیٹ‘۔ یہی نہیں ممبئی کے ، ورلی علاقے میں ایک سمندری سڑک اور سیر گاہ کا نام ان کے نام پر خان عبدالغفار خان روڈ رکھا گیاہے۔اب سوال ہے کہ یہ شخص کون ہے جس کا ہندوستان میں اس قدر احترام ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کو مزید حیرت زدہ کردے گا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ یہ شخص ایک پاکستانی تھا، حالانکہ وہ تقسیم ملک اور وجود پاکستان کے ہی خلاف تھا۔

گاندھی وادی پاکستانی

ہندوستان کی آزادی کے لئے ایک طویل تحریک چلی اور مختلف عوامل نے مل کر اس ملک کو آزادی دلائی۔ مجاہدین آزادی میں سے جو شہرت کے حامل ہیں انہیں لوگ جانتے ہیں مگر بڑی تعداد ایسے مجاہدین کی ہے جنہیں لوگ نہیں جانتے۔ خان عبدالغفار خان کو بھی ہندوستانی عوام کا ایک چھوٹا طبقہ ہی جانتا ہے،جنہوں نے مہاتما گاندھی کے کندھوں سے کندھا ملا کر تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ وہ افریقہ سے ہندوستان تک بابائے قوم کے ساتھ رہے۔ بھارت رتن عبدالغفار خان کو'بادشاہ خان'اور ’سرحدی گاندھی‘ کے القاب سے بھی جانا جاتا ہے۔

awaz

 عدم تشدد کی راہ پر

 خان عبدالغفار خان 6 فروری 1890 کو اُتمان زئی میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان میں واقع ہے۔ پشتون عوام کے اندر بیداری کی روح پیدا کرنے اور ان کے اندر جذبہ حب الوطنی جگانے میں خان کا اہم کردار تھا۔

 1920 کی دہائی میں، انہوں نے 'خدائی خدمتگار' نامی تنظیم تشکیل دی، اور اس کے ذریعے لوگوں کو ملک کی آزادی کے لیے عدم تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ

  میں تمہیں ایسا ہتھیار دینے جا رہا ہوں کہ پولیس اور فوج اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔یہ رسول کا ہتھیار ہے لیکن تم اس سے واقف نہیں۔ وہ ہتھیار صبر اور تقویٰ ہے۔ زمین کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

مہاتما گاندھی کے ساتھ انہوں نے اشتراک عمل کیا اور تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ دونوں جدوجہد آزادی میں ایک جیسے نظریات اور خیالات کا اشتراک کرتے تھے۔ ان کا اتحاد ملک کی سیکولر فطرت کی نمائندگی کرتا تھا۔ اس لڑائی نے سبھی مذہبی اور معاشی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو انگریزوں کی حکومت سے لڑنے کے لیے اکٹھا کیا۔

مہاتما گاندھی کی طرح خان نے بھی اپنے علاقےمیں تبدیلیاں کیں۔انہوں نے اسکول کھولنے سے لے کر خواتین کو تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دینے تک میں 'اہنسا' کا راستہ اختیار کیا۔ اسی وجہ سے، انہیں ان کے ساتھی امیر چند بمبوال نے 'فرنٹیئر گاندھی' یا ’سرحدی گاندھی‘کہا اور وہ اسی لقب سے مشہور ہوگئے۔

تقسیم وطن کی مخالفت

  مہاتما گاندھی کی طرح، وہ بھی ہندوستان کی تقسیم کے خلاف سختی سے کھڑے تھے مگر بدقسمتی سے، ان کا مقصد پورانہیں ہوا، ملک تقسیم ہوا اور پاکستان وجود میں آیا۔

 جب انڈین نیشنل کانگریس نے خدائی خدمتگارکے رہنماؤں سے مشورہ کیے بغیر تقسیم کے منصوبے کو قبول کرنے کا اعلان کیا، تو انہوں نے گہرے دھوکے کا احساس کرتے ہوئے کانگریس کے رہنماؤں سے کہا کہ ’آپ نے ہمیں بھیڑیوں کے پاس پھینک دیا ہے۔

حالانکہ جب تقسیم کا فیصلہ ہوچکا تو جون 1947 میں، خان اور دیگر خدائی خدمتگاررہنماؤں نے برطانوی حکام سے مطالبہ کیا کہ نسلی پشتونوں کو پشتونستان کی ایک آزاد ریاست کا انتخاب دیا جائے، جو کہ برطانوی ہندوستان کے تمام پشتون علاقوں پر مشتمل ہو اور اسے  پاکستان میں شامل نہ کیا جائے۔ برطانوی حکومت نے اس مطالبے کو منظور نہیں کیا۔حالانکہ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے یہیں رہنا قبول کیا۔

awaz

اعزازات

  سرحدی گاندھی کو ہندوستان اور پاکستان ، دونوں ہی ممالک میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مہاتما گاندھی کی 100 ویں سالگرہ پر، سرحدی گاندھی نے 1969 میں ہندوستانی پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا۔ 1984 میں انہیں امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔ انہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا اور 1985 میں انڈین نیشنل کانگریس کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کی۔ انہیں 1967 میں جواہر لعل نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا اور بعد میں 1987 میں ہندوستان کا سب سے بڑا شہری اعزاز ’بھارت رتن‘ دیا گیا۔

ان کے آبائی شہر پشاور میں بادشاہ خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ ان کے نام سے منسوب ہے۔جب کہ شہر چارسدہ میں ان کے نام پر بادشاہ خان یونیورسٹی ہے۔