عمیر منظر
اسسٹینٹ پروفیسر
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی۔ لکھنو کیمپس
مولانا امداد صابری(1988-1914)کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ ایک ممتاز صحافی ہی نہیں تھے بلکہ علم و فضل کی ایک دنیا ان سے آباد تھی۔مذہب و تصوف اور خدمت خلق اس خانوادے کی پہچان رہی ہے۔آزادی سے پہلے مجاہدہ نفس ان کے بزرگوں کا وطیرہ تھا۔مولاناکے والدمولانا شرف الحق،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیعت وارادت کا تعلق رکھتے تھے۔ تحریک آزاد ی کے دوران میں ان کا یہی جذبہ وطن کی آزادی لیے قربانی دینے والوں میں تبدیل ہوگیا۔مولانا امداد صابری اور ان کے بزرگوں نے وطن کے لیے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔مولانا نے ایک جگہ خود اپنے خاندان کے بارے میں یہ لکھا تھا کہ ہندستان میں انگریزوں کے قدم جمتے ہی ان کے اقتدار کی مخالفت ہمارے بزرگوں نے شروع کردیا تھا۔شاہ ولی اللہ سے حاجی امداداللہ مہاجر مکی تک بزرگوں کاجو سلسلہ ہے انھوں نے انگریز فوجوں کا مقابلہ کیا ہے۔اس خانوادے نے انگریزوں کا مخالفت میں اپنی زندگی کو صرف کیا ہے۔
مولانا امداد صابری نے 1931سے انگریزوں کے خلاف مختلف سیاسی تحریکوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔1940میں ہفت روزہ خبار اتحاد دہلی کا اجرا کیا۔1942میں جب یہ اخبار بند ہوگیا تو ہفت روزہ تیغ دہلی کے مدیر ہوئے۔/13اگست 1942کو اخبار کو بند اور مدیر کو نظر بند کردیا گیا۔جیل سے نکال کر علاقے میں نظر بند کیا گیا۔1944کے اواخر میں ہفت روزہ چنگاری کے ایڈیٹر ہوئے۔چند ہی ماہ بعد 1945میں پھر نظر بند کردیا گیا۔ 9مئی 1947کوذاتی اخبار ہفت روزہ قومی حکومت کے نام سے نکالا۔یہ اخبارات تقسیم ہند کے دوران فسادات کی نذر ہوگیا۔اکتوبر 1948میں قومی حکومت دوبارہ جاری کیا۔نومبر 1949میں آزاد ہندوستان جاری ہوا۔اس کے بعد انگارہ،جماعت،عوامی رائے،صدیقی گزٹ،متحدہ محاذ سے وابستہ رہے۔کم و بیش دس اخبارات سے وابستگی رہی۔اخبارات بند ہوتے رہے۔ضمانت دیتے رہے مگر آزادی سے پہلے انگریزوں کے خلاف لکھنے میں کسی طرح کی نرم روی کا مظاہرہ ان کے قلم نے نہیں کیا۔اور یہی وجہ ہے کہ مختلف طرح کی قید وبند سے گزرتے رہے۔مگر قلم کو کبھی گروی نہیں رکھا۔
آزادی کے بعد جب سیاست کے راستے وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنے کا موقع ملا تو ایک ایماندار اور مخلص محب وطن کی طرح کام کرکے دکھایا۔آج بھی ان کے کاموں کی مثال دی جاتی ہے۔دہلی کارپوریشن کے ڈ پٹی میئر کے عہدہ پر بھی فائزرہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جدوجہد اور لوگوں کے کام آنے کا غیر معموملی جذبہ انھیں قدرت نے عطا کیا تھا۔واقعہ یہ ہے کہ مولانا امدادصابری ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔سیاست اور صحافت دونوں میں وہ بہت نمایاں تھے۔صحافت کی علمی اور عملی دونوں تاریخ ان کے بغیر ادھری تصور کی جائے گی۔
یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا /اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن نے اس برس یوم اردو کے موقع پر مولانا امدادصابری:حیات و خدمات کے عنوان سے حسب روایت یادگاری مجلہ شائع کیا تھا۔عالمی یوم اردو کے یادگاری مجلہ سے امداد صابری کی شخصیت اور ان کی خدمات دونوں سے واقفیت ہوتی ہے۔اس کے مرتب مشہور صحافی اور ممتاز قلم کار جناب معصوم مرادآبادی ہیں۔انھوں نے نہایت سلیقے سے اسے مرتب کیا ہے کہ ایک طرف ان کی شخصی زندگی کے تقریباً تمام اہم گوشے سامنے آگئے ہیں۔تو دوسری طرف ان کی کتابوں اور صحافتی خدمات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ڈاکٹر سید احمد نے خاں نے امداد صابری کا حیات نامہ مرتب کیا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امداد صابری کی دو درجن سے زائد کتابیں تھیں۔پنڈت ہرسروپ شرما جو کہ فارورڈ بلاک صوبہ دہلی کے صدر تھے مولانا کے دوست تھے۔انھوں نے مولانا کے مختصر حالات زندگی پر ایک کتابچہ مرتب کیا تھا۔اس کی تلخیص اور مولانا کا ایک یادگار انٹرویو جو نئی دنیا کے لیے معصوم صاحب نے لیا تھا اس خصوصی پیش میں شامل ہے۔ان تحریروں کی حیثیت اب دستاویزی کہی جاسکتی ہے۔مولانا کے کارناموں پر کام کرنے والوں کے لیے یہ خصوصی شمارہ بنیاد کا پتھر ہے۔چونکہ معصوم صاحب نے خود انھیں دیکھا تھا ان سے ملاقاتیں تھیں۔ان کے مضمون کا عنوان ہی ہے’مولانا امداد صابری، جیسا میں نے دیکھا‘۔ان کے مضمون سے امداد صابری کو قریب سے دیکھا جاسکتا ہے۔اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں۔
وہ زمین سے جڑے ہوئے انسان تھے۔مولانا حسرت موہانی اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسی قدآور شخصیات کے بھی قریب رہے،لیکن کبھی عوام سے دور نہیں ہوئے۔ان کی شخصیت کو عوام الناس کے لیے نافع پایا گیا۔انھوں نے زندگی میں آسائش کی کوئی چیز نہیں خریدی۔ان کی محبوب سواری رکشہ تھااور وہ کارپوریشن کے ڈپٹی میئر ہونے کے باوجود رکشہ پر سفر کرتے تھے۔پیدل کم چلتے تھے کیونکہ ان بائیں ٹانگ میں لنگ تھا۔(ص52)
جلال الدین اسلم نے اپنے مضمون میں مولانا کی سادگی کاذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کارپوریشن کی ذمہ داریوں کے زمانے میں جب وہ گھر سے نکلتے تو جیب میں مہر لے کر نکلتے تھے راہ چلتے بھی اگر کوئی کسی طرح کا فارم دیتا تو فوراً وہیں مہر پیڈ نکال کر مہر ثبت کردیتے تھے۔زیر دستوں کابہت خیال کرتے تھے۔
مولانا کی تصنیفی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان کا سب سے اہم کارنامہ تو ”تاریخ اردو صحافت“ ہے جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔صحافت کے موضوع پر اس کے علاوہ’روح صحافت‘، ’اردو کے اخبار نویس‘ (دوجلدیں)،تاریخ جرم و سزااور گلدستہ صحافت کے نام سے ان کی کتابیں ہیں۔ہندستان کی آزادی کے حوالے سے انھوں نے متعدد موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔تاریخ آزادہند فوج،مقدمہ آزاد ہند فوج،آزاد ہند فوج کا البم،اخبار مخبر عالم مرادآباد اور تحریک آزادی،1857کے غدار شعرا،1857کے مجاہد شعرا،دہلی کے سیاسی رہنماؤں کی مائیں اور بیویاں اور شہیدان آزادی مرادآباد اور صوفی امباپرشاد وغیرہ کتابوں کے نام سے ہی ان کی تصنیفی و تحقیقی خدمات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دہلی کے حوالے سے ان کی ایک اہم کتاب ’دہلی کی یادگار شخصیتیں‘بھی ہے۔معصوم مرآبادی نے لکھا ہے کہ امداد صابری نے ”مختلف اور متنوع موضوعات پر 76کتابیں تصنیف کیں (ص 3)سہیل انجم نے انھیں اردوصحافت کا ایک بے مثل محقق قرار دیا ہے۔صحافت سے متعلق ان کی کتابوں کا
تعارف اور تجزیہ بھی کیا ہے۔ان کا خیال ہے:
اس تاریخ (تاریخ اردو صحافت)میں قدیم اخباروں کامطالعہ کرنے ان میں شائع مضامین اور خبروں کا تجزیہ کرنے،ان کا روشنی میں تحقیق کرنے اور اردو صحافت کی تاریخ از سر نو مرتب کرنے کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے بہت کچھ مواد موجود ہے۔بلکہ دیکھا جائے تو ان کے بعد جو لوگ بھی اردو صحافت کی تاریخ مرتب کریں گے ان کے لیے اس پہاڑ تک رسائی ضروری ہوگی۔جو اس پہار کی زیارت نہیں کرپائے گا اس کا کام نامکمل رہے گا۔یہ کام مولانا امداد صابری کا ایسا کارنامہ ہے جو ان کا نام اس وقت تک زندہ رکھے گا جب تک اردو صحافت زندہ رہے گی۔(ص63)
ڈاکٹرذاکر حسین نے امداد صابری کی اسی کتاب کو موضوع بناکر مضمون لکھا ہے اور اس کی تمام جلدوں کا تعارف کرایا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ شدید تنگی کے زمانے میں بھی انھوں نے اس کی طباعت کا کام نہیں روکا۔کاغذ کی گرانی اور چھپائی کی مہنگائی کے باوجود وہ اس کام کو اشاعت کے مرحلے سے گزارتے رہے۔کاتبوں کی غیر ذمہ داریاں بھی ان کے لیے نہایت تکلیف کا باعث تھیں۔واضح رہے کہ اس کتاب کی تحریک انھیں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملی تھیں۔وہ امداد صابری کے کاموں کو پسند کرتے تھے اور تحسین بھی فرماتے تھے۔مولاناآزادنے ہی انھیں اردو صحافت کی تاریخ لکھنے کامرتب کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
مولانا کی خدمات کو یاد کرنے کا موقع اس وجہ سے ملا کہ ہر برس اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن یوم اردو کی مناسبت سے عالمی یوم ارد و یادگاری مجلہ(سووینر) کی خصوصی پیش کش کا اہتمام کرتا ہے اس برس (2024) یہ خصوصی پیش کش مولانا امداد صابری کے نام معنون تھی۔بڑے سائز کے سو صفحات پر مشتمل اس رسالہ میں مولانا امداد صابری کی متنوع جہات خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس شمارہ کے قلم کاروں میں ڈ اکٹرعبدالعزیز،جلال الدین اسلم،معصوم مرادآبادی،محمد عارف اقبال،سہیل انجم،ڈاکٹر سید احمد خاں،ذاکر حسین،پرویز عادل ماحی اور ظفر انور شکر پوری کے نام شامل ہیں۔اس کے علاوہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی،پنڈت ہرسروپ شرما،جی ڈی چندن،کے مضامین پرانے رسالوں سے لیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ پروفیسر اخترالواسع،ڈاکٹر سید فاروق،خواجہ محمد شاہدپروفیسر شہپر رسول،ڈاکٹر اطہر فاروقی،ڈاکٹر شمس اقبال اور مولانا محمد ولی رحمانی کے پیغامات شامل ہیں۔مولانا امداد صابری کا ایک مضمون ’اخبارات و رسائل کی اہمیت و طاقت‘ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔یہ مضمون دراصل مولانا کی خود نوشت ہے اس کے مطالعہ سے مولانا کی زندگی کے بعض اہم گوشوں تک رسائی ہوتی ہے۔اسی مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ 1973میں اردو کے قدیم وجدید اخبارات و رسائل کی نمائش کا اہتمام لکھنؤ میں کیا گیا تھاجسے یہاں کے سیکڑوں صحافیوں نے ملاحظہ کیا اورمولانا کے اس قدم کو نہ صرف پسند کیا بلکہ سراہا بھی۔مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مسعود حسن رضوی ادیب جیسے مشاہیر نے اس قدم کو سراہا تھا۔ان بزرگوں نے جس شوق اور وارفتگی کے عالم میں قدیم رسائل کو ملاحظہ کیا تھا اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔لکھنؤ کے دیگر زبانوں کے معاصر اخبارات نے اس خبرکو نمایاں کرکے شائع کیا تھا۔
مولانا کی غیر معمولی شخصیت اور ان کے علمی و ادبی کارناموں کو دیکھتے ہوئے معصوم مرادآبادی کا شکوہ بجا ہے:
’کسی دانش گاہ کو یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ ان پر کسی طالب علم کو پی ایچ ڈی کرائی جاتی۔پی ایچ ڈی تو کجا کسی یونی ورسٹی نے ان پر ایم فل کا مقالہ بھی نہیں لکھوا۔(3)
واضح رہے کہ امداد صابری کے انتقال کو 36برس گزچکے ہیں مگر ابھی تک اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔شودھ گنگا،اور گنگوتری میں اس سے متعلق کوئی مقالہ یا اس کا مجوزہ خاکہ نہیں مل سکا ہے۔
ڈاکٹر سید احمد خاں اور ان کی پوری ٹیم ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انھوں نے اردو صحافت کی ایک ممتاز شخصیت کے کاموں کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ ادبی دنیا کے سامنے ایک اچھے کام کی مثال بھی پیش کی ہے۔